یہ زبانیں تو رہ گئیں۔۔۔
اب تو منہ بولی بیوی اور شوہر بھی ہونے لگے ہیں
اکیس دسمبر کو دنیا نے زبانوں کا عالمی دن منایا، ہم نے بھی منایا کیوں کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں، ہماری طرح تمام شوہروں نے یہ دن منایا، وہ اس طرح کہ اس روز وہ سُننے کے ساتھ بولے بھی۔
ہمارے دوست بھائی اچھن نے دن کا آغاز بیگم کو بہ آوازبلند پکار کر کیا، گھر میں اپنی اونچی آواز سُن کر وہ خود ہی ڈر گئے۔ بیگم ''کیا ہے'' کہتی سامنے آئیں تو بھائی اچھن نے دھیرے سے کہا،''وہ پوچھنا یہ تھا کہ برتن ابھی دھولوں یا بعد میں؟'' ایک اور دوست جلال بہادر جو شاعر ہیں اور جرأت تخلص کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ انھوں نے بھی خاموشی توڑ کر زبانوں کا دن منانے والوں کا ساتھ دیا۔
ہم نے پوچھا آپ کیا بولے، کہنے لگے ''بیگم نے کہا۔۔۔شاپنگ کے لیے جانا ہے۔۔۔میں نے کہا اچھا چلو۔'' یہ روایات ہم نے ان دونوں حضرات کے ذاتی منہ سے سُن کر بیان کی ہیں۔ اپنی روایت ہم اس لیے بیان نہیں کر رہے کہ ہم منہ میں زبان کے ساتھ شانوں پر سر بھی رکھتے ہیں اور ہمارے دل میں سر کٹوانے کی لاکھ تمنائیں انگڑائی لے رہی ہوں سر پُھٹوانے کی کوئی آرزو جماہی بھی نہیں لے رہی۔
یہ دن تو ہم نے خیر منالیا، لیکن ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس دن بہت سی زبانوں اور بولیوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اور کسی نے ان کا نام تک نہ لیا۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ زبانیں اور بولیاں کون سی ہیں:
منہ بولی:
یہ بولی بہت عام ہے، اس کے بولنے والے منہ بولے کہلاتے ہیں، منہ بولے بھائی، منہ بولی بہن، منہ بولے ابا اماں وغیرہ۔ اب تو منہ بولی بیوی اور شوہر بھی ہونے لگے ہیں۔ گدھے کو باپ بنانے کے لیے بھی یہی زبان بولی جاتی ہے۔ اب یہ بولی رشتوں تک محدود نہیں رہی، ہمارے ہاں منہ بولے لیڈر، منہ بولے سیاست داں، منہ بولے حکم راں، منہ بولے وزیراعلیٰ اور منہ بولے ''بُھٹو'' بھی پائے جاتے ہیں، جو اس زبان میں توسیع کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بدن بولی:
کل تک اسے باڈی لینگویج کہا جاتا تھا، پھر کسی نے اس کا ترجمہ بدن بولی کردیا، حالاں کہ ''بدن بولی'' کی شاعرانہ اور رومانی اصطلاح آنکھوں کے سامنے ایسی تصویریں بلکہ وڈیوز لے آتی ہے کہ آنکھیں جھپکنے کو بھی دل نہیں چاہتا، مگر یہ اصطلاح عام طور پر سیاست دانوں اور حکم رانوں کی جسمانی حرکات وسکنات کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس لیے آنکھوں میں رقصاں مناظر رقص سے کبڈی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اگرچہ اس بولی کو صرف بدن بولی کہا جاتا ہے مگر اس بولی کے کئی ''لہجے'' ہیں جنھیں الگ الگ نام دیا جاسکتا ہے جیسے ''بدن بکواس''،''جسمانی گَپّیں''،
''تن خرافات۔''
یہ بولی بڑے دھوکے دیتی ہے۔ اکڑاکڑ کر چلنے اور شہادت کی انگلی اٹھا اور لہرا کر گفتگو کرنے والے حکم راں اس انداز کی وجہ سے جرأت مند تصور کیے جاتے ہیں، لیکن عملاً وہ صرف مجبور، بے بس، بے کس یعنی کُل ملا کے ضرورت مند نکلتے ہیں۔ بدن بولی دکھاتی ہے کہ ایک ''صاحب'' یوں بھاری بھرکم دھرنا دیے بیٹھے ہیں کہ ''توپوں سے یہ جناب اٹھایا نہ جائے گا''، لیکن کچھ دنوں بعد ہی حکومت گرانے کا دعویٰ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور وہ اٹھ کر ''جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا'' کی تفسیر بنے گھر کو لوٹ آتے ہیں۔
سفارتی زبان:
سفارتی زبان دنیا کی سب سے میٹھی زبان ہے۔ مٹھاس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سارے سمندر کی کڑواہٹ اور تمام سانپوں کا زہر ڈھیر ساری شیرینی میں لپیٹ کر یوں دیا جاتا ہے کہ کھانے والا ''میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھوتھو'' کرنے کے بہ جائے سب ایک ساٹھ چبائے بغیر نگل جاتا ہے، بعد میں چاہے اُلٹیاں کرتا اور اُلٹی ہوجانے والی تدبیر کو سیدھا کرتا رہے۔ ایک زمانے تک بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں اسی زبان کا راج تھا، مگر ٹوئٹر آنے کے بعد اس کی جگہ تعلقات بگاڑتی زبان، طعنے مارتی زبان اور ''ادارتی'' زبان کا چلن عام ہوگیا ہے۔
زبان خلق:
اسے کبھی نقارۂ خدا سمجھا جاتا تھا، اب خدا بندے سے خود پوچھے تو پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے، مگر حکم راں خلق خدا کی سُننے کو تیار نہیں۔ ایک زمانے تک یہ زبان دیواروں پر اور عوامی بیت الخلاؤں میں لکھی ملتی تھی، پھر سوشل میڈیا آگیا، سو اب یہ سماجی ویب سائٹس کی قومی زبان ہے، جس کی زباں بندی کا امکان ہے۔ یہ بڑی آسان زبان ہے، مگر حکم رانوں کی سمجھ میں نہیں آتی، اور اگر سمجھ میں آجائے تو سُن کر اتنی شرم آتی ہے کہ کان بند کرلیتے ہیں۔
زبان خلق کو وجود میں آئے ابھی ایک دو صدیاں ہی گزری ہیں۔ جب یہ نہیں تھی تو بادشاہ بولتے تھے اور خلق حَلَق میں لفظ پھنسائے اور چیخیں دبائے خاموشی سے سُنتی تھی۔ مؤرخین بھی بادشاہوں ہی کی سُنتے تھے، اسی لیے تاریخ بھی ان ہی کی سُناتی رہی ہے۔ چناں چہ تاریخ میں محلات اور درباروں سے باہر اتنا سناٹا دیکھ کر کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بادشاہ حکومت کس پر کرتے تھے؟ آخر زبان خالق کی آمد کے بعد وہ ہاہاکار مچی کے بادشاہ بچارے چُپ ہوتے ہوتے تصویر ہوکر رہ گئے۔
دبی زبان:
یہ ہر دبے ہوئے کی مادری زبان ہے، جسے شوفر سے شوہر تک وہ سب بولتے ہیں جو کسی کے دباؤ میں ہوں۔ یہ زبان ''جی ہاں۔۔۔لیکن'' اور ''وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔مگر'' جیسے جملوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ اتنی دبی ہوتی ہے کہ دبے دبے الفاظ کا دَم نکل جاتا ہے یا ان کی دُم نکل آتی ہے جو ہلتی رہتی ہے۔جب کوئی سیاست داں مقدمات تلے دبا ہو تو دبی زبان بڑا کام آتی ہے اور وہ دبے پاؤں ملک سے چلا جاتا ہے۔
لگنے والی بولی:
یہ بولی ہر وقت نہیں بولی جاتی یہ کسی کی بولتی بند کرنے کے لیے بولی جاتی ہے یا کام یابی کا راستہ کھولنے کے لیے بولی جاتی ہے۔ یہ بولی بس اس ایک بول پر مشتمل ہے،''بول، کتنے لیں گا؟'' یہ بولی انتخابات کے فوری بعد، سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر، روٹھی اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے اور ضرورت سے زیادہ بولتے صحافیوں کو رجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔
ہمارے دوست بھائی اچھن نے دن کا آغاز بیگم کو بہ آوازبلند پکار کر کیا، گھر میں اپنی اونچی آواز سُن کر وہ خود ہی ڈر گئے۔ بیگم ''کیا ہے'' کہتی سامنے آئیں تو بھائی اچھن نے دھیرے سے کہا،''وہ پوچھنا یہ تھا کہ برتن ابھی دھولوں یا بعد میں؟'' ایک اور دوست جلال بہادر جو شاعر ہیں اور جرأت تخلص کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ انھوں نے بھی خاموشی توڑ کر زبانوں کا دن منانے والوں کا ساتھ دیا۔
ہم نے پوچھا آپ کیا بولے، کہنے لگے ''بیگم نے کہا۔۔۔شاپنگ کے لیے جانا ہے۔۔۔میں نے کہا اچھا چلو۔'' یہ روایات ہم نے ان دونوں حضرات کے ذاتی منہ سے سُن کر بیان کی ہیں۔ اپنی روایت ہم اس لیے بیان نہیں کر رہے کہ ہم منہ میں زبان کے ساتھ شانوں پر سر بھی رکھتے ہیں اور ہمارے دل میں سر کٹوانے کی لاکھ تمنائیں انگڑائی لے رہی ہوں سر پُھٹوانے کی کوئی آرزو جماہی بھی نہیں لے رہی۔
یہ دن تو ہم نے خیر منالیا، لیکن ہمیں یہ جان کر افسوس ہوا کہ اس دن بہت سی زبانوں اور بولیوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیا اور کسی نے ان کا نام تک نہ لیا۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ زبانیں اور بولیاں کون سی ہیں:
منہ بولی:
یہ بولی بہت عام ہے، اس کے بولنے والے منہ بولے کہلاتے ہیں، منہ بولے بھائی، منہ بولی بہن، منہ بولے ابا اماں وغیرہ۔ اب تو منہ بولی بیوی اور شوہر بھی ہونے لگے ہیں۔ گدھے کو باپ بنانے کے لیے بھی یہی زبان بولی جاتی ہے۔ اب یہ بولی رشتوں تک محدود نہیں رہی، ہمارے ہاں منہ بولے لیڈر، منہ بولے سیاست داں، منہ بولے حکم راں، منہ بولے وزیراعلیٰ اور منہ بولے ''بُھٹو'' بھی پائے جاتے ہیں، جو اس زبان میں توسیع کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بدن بولی:
کل تک اسے باڈی لینگویج کہا جاتا تھا، پھر کسی نے اس کا ترجمہ بدن بولی کردیا، حالاں کہ ''بدن بولی'' کی شاعرانہ اور رومانی اصطلاح آنکھوں کے سامنے ایسی تصویریں بلکہ وڈیوز لے آتی ہے کہ آنکھیں جھپکنے کو بھی دل نہیں چاہتا، مگر یہ اصطلاح عام طور پر سیاست دانوں اور حکم رانوں کی جسمانی حرکات وسکنات کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس لیے آنکھوں میں رقصاں مناظر رقص سے کبڈی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اگرچہ اس بولی کو صرف بدن بولی کہا جاتا ہے مگر اس بولی کے کئی ''لہجے'' ہیں جنھیں الگ الگ نام دیا جاسکتا ہے جیسے ''بدن بکواس''،''جسمانی گَپّیں''،
''تن خرافات۔''
یہ بولی بڑے دھوکے دیتی ہے۔ اکڑاکڑ کر چلنے اور شہادت کی انگلی اٹھا اور لہرا کر گفتگو کرنے والے حکم راں اس انداز کی وجہ سے جرأت مند تصور کیے جاتے ہیں، لیکن عملاً وہ صرف مجبور، بے بس، بے کس یعنی کُل ملا کے ضرورت مند نکلتے ہیں۔ بدن بولی دکھاتی ہے کہ ایک ''صاحب'' یوں بھاری بھرکم دھرنا دیے بیٹھے ہیں کہ ''توپوں سے یہ جناب اٹھایا نہ جائے گا''، لیکن کچھ دنوں بعد ہی حکومت گرانے کا دعویٰ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور وہ اٹھ کر ''جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا'' کی تفسیر بنے گھر کو لوٹ آتے ہیں۔
سفارتی زبان:
سفارتی زبان دنیا کی سب سے میٹھی زبان ہے۔ مٹھاس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں سارے سمندر کی کڑواہٹ اور تمام سانپوں کا زہر ڈھیر ساری شیرینی میں لپیٹ کر یوں دیا جاتا ہے کہ کھانے والا ''میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھوتھو'' کرنے کے بہ جائے سب ایک ساٹھ چبائے بغیر نگل جاتا ہے، بعد میں چاہے اُلٹیاں کرتا اور اُلٹی ہوجانے والی تدبیر کو سیدھا کرتا رہے۔ ایک زمانے تک بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں اسی زبان کا راج تھا، مگر ٹوئٹر آنے کے بعد اس کی جگہ تعلقات بگاڑتی زبان، طعنے مارتی زبان اور ''ادارتی'' زبان کا چلن عام ہوگیا ہے۔
زبان خلق:
اسے کبھی نقارۂ خدا سمجھا جاتا تھا، اب خدا بندے سے خود پوچھے تو پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے، مگر حکم راں خلق خدا کی سُننے کو تیار نہیں۔ ایک زمانے تک یہ زبان دیواروں پر اور عوامی بیت الخلاؤں میں لکھی ملتی تھی، پھر سوشل میڈیا آگیا، سو اب یہ سماجی ویب سائٹس کی قومی زبان ہے، جس کی زباں بندی کا امکان ہے۔ یہ بڑی آسان زبان ہے، مگر حکم رانوں کی سمجھ میں نہیں آتی، اور اگر سمجھ میں آجائے تو سُن کر اتنی شرم آتی ہے کہ کان بند کرلیتے ہیں۔
زبان خلق کو وجود میں آئے ابھی ایک دو صدیاں ہی گزری ہیں۔ جب یہ نہیں تھی تو بادشاہ بولتے تھے اور خلق حَلَق میں لفظ پھنسائے اور چیخیں دبائے خاموشی سے سُنتی تھی۔ مؤرخین بھی بادشاہوں ہی کی سُنتے تھے، اسی لیے تاریخ بھی ان ہی کی سُناتی رہی ہے۔ چناں چہ تاریخ میں محلات اور درباروں سے باہر اتنا سناٹا دیکھ کر کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بادشاہ حکومت کس پر کرتے تھے؟ آخر زبان خالق کی آمد کے بعد وہ ہاہاکار مچی کے بادشاہ بچارے چُپ ہوتے ہوتے تصویر ہوکر رہ گئے۔
دبی زبان:
یہ ہر دبے ہوئے کی مادری زبان ہے، جسے شوفر سے شوہر تک وہ سب بولتے ہیں جو کسی کے دباؤ میں ہوں۔ یہ زبان ''جی ہاں۔۔۔لیکن'' اور ''وہ تو ٹھیک ہے۔۔۔مگر'' جیسے جملوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ اتنی دبی ہوتی ہے کہ دبے دبے الفاظ کا دَم نکل جاتا ہے یا ان کی دُم نکل آتی ہے جو ہلتی رہتی ہے۔جب کوئی سیاست داں مقدمات تلے دبا ہو تو دبی زبان بڑا کام آتی ہے اور وہ دبے پاؤں ملک سے چلا جاتا ہے۔
لگنے والی بولی:
یہ بولی ہر وقت نہیں بولی جاتی یہ کسی کی بولتی بند کرنے کے لیے بولی جاتی ہے یا کام یابی کا راستہ کھولنے کے لیے بولی جاتی ہے۔ یہ بولی بس اس ایک بول پر مشتمل ہے،''بول، کتنے لیں گا؟'' یہ بولی انتخابات کے فوری بعد، سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر، روٹھی اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے اور ضرورت سے زیادہ بولتے صحافیوں کو رجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔