نفی ذات

متعدد مواقع پر قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں پھر کہیں جاکر انھیں یہ قائدانہ مرتبہ اور یہ حیثیت حاصل ہو پاتی ہے۔

یہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ اکثر خاندانوں اور برادریوں میں ایسے بڑے اور بزرگ حضرات ہوتے ہیں ، جن کا سب خاندان والے بڑا ادب کرتے ہیں، ان کی بات مانی جاتی ہے اور تنازعات میں ان کا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

اس بات کا تعلق ان کی عمر سے نہیں ہوتا کیونکہ اسی خاندان میں ان سے زیادہ عمر والے لوگ بھی موجود ہوا کرتے ہیں لیکن یہ بات، یہ ان کا ہمہ گیر ادب اور یہ وقعت کسی کسی خاندانی بڑے یا بزرگ کو ہی نصیب ہوا کرتی ہے کہ ان کی بات کو سب ہی وزن دیتے ہیں ، باقی بزرگوں کا بس رسمی ادب و احترام ضرور کیا جاتا ہے لیکن ان کا وہ اثر خاندانی معاملات پر نہیں ہوا کرتا۔

ایسے بزرگ اور بڑے حضرات اپنی برادری ، فیملی اور خاندان کے لیے ایک رول ماڈل ایک لیڈرکی مثال ہوا کرتے ہیں اور اس مرتبے تک پہنچنے کے لیے انھیں پہلے بے شمار مواقعے پر اور بے شمار معاملات میں اپنی اہلیت بار بار ثابت کرنا پڑتی ہے،اپنی ذات کو متعدد مواقع پر پیچھے رکھ کر خلوص سے دوسروں کے حقوق ادا کرکے دکھانے پڑتے ہیں اور متعدد مواقع پر قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں پھر کہیں جاکر انھیں یہ قائدانہ مرتبہ اور یہ حیثیت حاصل ہو پاتی ہے۔

بالکل اسی طرح بیشمار ماں باپ کوبھی دیکھا ہوگا کہ کس طرح اپنی اولاد کی بھلائی کے لیے، بہتری کے لیے انھیں تکلیف سے بچانے کے لیے اپنی جان پر ہر قسم کے دکھ سہتے ہیں لیکن جیتے جی اپنی اولاد پر اپنے پیاروں پر آنچ نہیں آنے دیتے اور اپنی ذات کو بھلا کر ،خود ہر تکلیف برداشت کرکے اولاد کو ہر قسم کا سکھ فراہم کرنے کی اپنی سی سعی کرتے ہیں اور یہ بھی اپنے گھر اور اپنی اولاد کے لیے ایک طرح سے رول ماڈل،قائد اور لیڈر ہوتے ہیں۔

تو جناب بات کچھ ایسے ہے اور پرکھنے کی ایک کسوٹی کچھ یوں بھی بنتی ہے کہ لیڈر یا قائد دراصل وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات کو بھلا کر اپنے متعقلین کی بھلائی کے لیے کام ،کوشش اورجدوجہد کرتا ہے اور سب سے پہلے اپنے لیے نفی ذات کا سبق پڑھتا اور اس کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔

قوموں اور ملکوں کے لیڈروں یا قائدین پر بھی یہی اصول اور کسوٹی منطبق ہوتی ہے۔ جب کسی ملک یاقوم کے ساتھ کچھ اچھا ہونا ہوتا ہے تو پھر اسے ایسے افراد قدرت کی جانب سے عطا ہوجاتے ہیں جو اپنی ذات کو بھلا کر اور نفی ذات کا عملی مظاہرہ کر کے اپنے لوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں اور پھر کچھ ایسا کرجاتے ہیں کہ جیسے کوئی کرامت یا معجزہ رونما ہوجاتا ہے، طوفانوں کے رخ بدل جایا کرتے ہیں اور تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔


پھر جیسے کسی قوم کو ماؤزے تنگ جیسے قائدین ملتے ہیں جو اپنی ذات کو بھلا کر برسوں تک لانگ مارچ کرتے ہیں اور اپنی بے مثل سعی وکاوش سے اپنی قوم کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ پھرکہیں قوموں کو جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن ملتے ہیں جو نفی ذات کے راز سے آشنا ہوتے ہیں اور پھر ان کی درجہ بہ درجہ کاوشوں کے نتائج سے امریکا جیسی سپر پاور وجود میں آتی ہے، پھر قوموں کو نیلسن منڈیلا ملا کرتے ہیں جو اپنی ذات کے لیے نہیں جیتے بلکہ قید وبند کی طویل صعوبتیں برداشت کرکے اپنے ملک کو خوشیاں، ترقیاں اور شادمانیاں فراہم کرتے ہیں۔

میں ماضی بعید کی روشن مثالوں کی جانب نہیں جاتا کہ پھر تو معیار بہت ہی اونچا ہوجائے گا لیکن ماضی قریب میں ہی ایسی بے شمار عظیم شخصیتوں کی مثالیں برائے عمل موجود ہیں۔ پھر اسی طرح قوموں کو محمد علی جناح جیسے افراد ملتے ہیں جو نفی ذات کے رمز سے آشنا ہوتے ہیں اور ایک فائیو اسٹار لائف اسٹائل، بے شمار مال و زرکے حصول کے مواقعوں اور بڑے سے بڑے دنیاوی مرتبوں کو بے نیازی سے ٹھوکر مار دیتے ہیں۔

ایک اپنی جان پر غیروں اور دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے بھی دیے ہوئے بے شمار غم اور زخم سہتے ہیں ، اپنی جان لیوا بیماری کو چھپا کر خاموش رہتے ہیں لیکن اپنی قوم کے لیے ایک معجزہ بپا کرکے ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہوجانے کی سعادتِ عظمی اور قائد اعظم کا مرتبہ پا لیتے ہیں اور جاتے جاتے اپنی قابلیت اور محبت سے حاصل شدہ اپنی بے شمار دولت بھی اپنے بنائے ہوئے غریب وطن کے مختلف اداروں کو عطیہ کر جاتے ہیں۔

یہ ہوتے ہیں لیڈر اور قائد کہلانے کے حقدار لوگ۔ جن کا سب سے پہلا قدم اور سبق نفیء ذات کا ہوا کرتا ہے کہ اپنی ذات کو بھلا کر ہی تو سچائی اور اخلاص و کردار کی نعمت اور خوشبو عطا ہوتی ہے جو زندگی کے ہر ہر میدان میں کامیابی کے حصول کی مستند ضمانت ہوا کرتی ہے اور پھر ان کے ماننے والے جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا قائد ، لیڈر اور رہبر اپنی جان کو مشکل میں ڈال کر ، ہر قسم کی آسائش سے دور رہ کر ہماری بہتری وبہبود کے لیے کوشش وسعی میں لگا ہوا ہے تو پھر ان کا یقین اپنے رہبرکی ذات پر بن جاتا ہے اور پھر وہ قیادت کے ایک اشارے پر ہنسی خوشی اپنی زندگیاں تک داؤ پر لگانے میں ذرا نہیں جھجھکتے۔

دور حاضرکے موجود قائدین میں بھی اگر ہم قرب وجوار کی بات کریں توایسی دو روشن مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں ایک ترکی کے صدر طیب اردگان کی اور دوسرے ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی، جب چند سال قبل ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی تو ساری دنیا نے اپنے قائد سے ترکی کی عوام کی محبت کا نظارہ کیا کہ اردگان کے ایک واٹس ایپ پیغام پر عوام مستانہ وار نکلے اور فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔

اسی طرح مہاتیر محمد شاید ان چند نایاب ہستیوں اور حکمرانوں میں سے ہیں جو بہ رضا ورغبت اپنی مرضی سے اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کی طویل جدوجہد کے بعد مسند اقتدار سے خود ہی رخصت ہوئے لیکن چند سال بعد ہی جب قوم نے پھر پکارا تو اس ضعیف العمری کے عالم میں بھی قوم اور ملک کی خدمت کے لیے اپنے آرام و آسائش کی پرواکیے بغیر واپس چلے آئے کیونکہ وہ بھی نفی ذات کے رمز سے آشنا ہیں۔

اب اگر وطن عزیزکی بات کریں کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد میرا نہیں خیال کہ کوئی لیڈر،صدر وزیر اعظم یا کوئی قائد شاید ایسا آیا جس نے نفی ذات کا سبق پڑھ رکھا ہو یا اس کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا ہو۔ یہ ایک طالب علمانہ رائے ہے اور آپ کو اس سے اختلاف کرنے کا پورا حق ہے۔
Load Next Story