دُعا کیا اور کیسے مانگنی چاہیے

جتنے پست ہم ہیں، اُتنی پست ہماری نگاہ، اُتنی ہی پست ہماری حاجَت ہے۔


جتنے پست ہم ہیں، اُتنی پست ہماری نگاہ، اُتنی ہی پست ہماری حاجَت ہے۔ فوٹو: فائل

حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ''پروردگار! میری عزّت کے لیے یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور تُو میرا پروردگار ہے۔ تُو ویسا ہی ہے جیسا میں چاہتا ہوں، تُو مجھے ایسا بنا دے جیسا تُو چاہتا ہے۔''

حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ نے مانگنے کا معیار بلند کردیا۔ ہم تو خود اپنی حدیں معیّن کرلیتے ہیں، پھر کہتے ہیں، میری یہ حاجَت پوری کردے۔ جتنے پست ہم ہیں، اُتنی پست ہماری نگاہ، اُتنی ہی پست ہماری حاجَت ہے۔ اہداف و مقاصد ہی پست ہیں، اب جب اﷲ دُعا قبول نہیں کرتا کہ ہم پست و حقیر چیز مانگ رہے ہیں تو پریشان ہوتے ہیں۔ دُعا کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی منزل کو معیّن نہ کرو، بل کہ اُسے اﷲ کے سپرد کردو۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ نے عمدہ ترین ضابطۂ حیات عطا فرما دیا ہے: '' تُو مجھے ایسا بنادے جیسا تُو چاہتا ہے۔''

امام سیّدِ سجادؓ فرماتے ہیں کہ ہدایت وہ ہے جس میں لذّت حاصل ہوتی ہو۔ خلاصۂ زندگی یہ ہے کہ انسان لذّت ہدایت میں اور عزّت اطاعتِ الہٰی میں حاصل کرے۔ ''ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرماتا رہ۔'' سب سے اچھی دُعا ہے۔ اطاعت اور عبادت خود استجابتِ دُعا کے لیے بہت بڑا سبب ہے۔

حضرت امام سیّدِ سجاد ؓ فرماتے ہیں: ''اگر عزت چاہتے ہو تو اُس (اﷲ) کی اطاعت اُس سے مانگو۔'' ''عزیز وہ ہے جسے تیری عبادت عزّت عطا کرے۔'' ''کوئی عزّت اطاعتِ الٰہی سے بڑھ کر نہیں ہے۔ یااﷲ! اِتنی عمر دے جو تیری اطاعت میں گزرے۔ اگر میری زندگی شیطان کی خدمت میں لگ جائے تو میری رُوح قبض کرلے۔''

عزیزانِ گرامی! دُنیا میں بہت سے لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جو اپنا نام سنہرے حروف سے لکھوا گئے اور آج اُن کی یادگاریں قائم ہیں اور کتنے ہی ہیں جو زندگی گزار گئے، نہ اُنہیں ہم جانتے ہیں اور نہ ہی اُن کے علاقے والے اُنہیں یاد کرتے ہیں۔

آج ہم آپ کو کام یابی کے تین اہم ترین راز بھی بتا رہے ہیں۔

(1) ذوق وشوق: انسان کسی ایسے کام کو اپنائے، جو اُس کے ذوقِ رُوحی اور شوقِ فکری کے مطابق ہو۔ اﷲ نے سب کو ایک جیسا نہیں بنایا، ایک سی صلاحیت نہیں دی، لوگوں کی ناکامی کا سبب بھیڑ چال، جذباتیت اور جلد بازی ہے۔ اُصول یہ ہے کہ ذوق سے ہم آہنگ کام تلاش کیا جائے، ہر دماغ میں ہیجان ہے، خوش قسمت ہیں وہ جو اپنے ذوق کو دریافت کرلیتے ہیں۔

(2) جہدِ مسلسل: ہر باصلاحیت انسان جانتا ہے کہ اُس کی حیات کی بقاء، کام اور کوشش کی رہینِ منّت ہے۔ بعض لوگ اِس وجہ سے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ ہمّت ہار جاتے ہیں۔ مختلف چھوٹے اداروں کی طرف نوجوانوں کا ہجوم اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں بڑے کام کرنے کا شوق ختم ہوگیا۔ وقت پھر لوٹ کر نہیں آتا۔

حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ فرماتے ہیں: ''گزشتہ کی فکر آج کو ضایع کردیتی ہے۔''

جتنے بڑے سائنس دان ہیں، وہ اپنا چَین و سُکون چھوڑ کر اِس مقام تک پہنچے ہیں۔ ایڈیسن سولہ گھنٹے کام کرتا تھا اور اپنے کام کی کرسی پر سوجاتا تھا۔ ابنِ سینا دن میں حکومتی کام میں مصروف رہتے، رات کو تحقیق اور تالیف کا کام کرتے تھے۔ چالیس موضوعات پر ایک سو تیس جلدیں لکھیں۔ مشہور سائنس دان نیوٹن نے اپنی کتاب کئی مرتبہ لکھی تاکہ غلطی نہ رہے۔

ابنِ سینا طب کا مطالعۂ شوق میں کرتے تھے، پھر شب و روز کی اَن تھک محنت کے نتیجے میں طب کی دُنیا میں اُن کا نام مہارت کا استعارہ بن گیا ۔ سولہ سال کی عمر میں طبیب اور فقیہ ہوچکے تھے۔ دو سو اڑتیس کتابیں لکھیں۔ ابُوریحان البیرونی سال میں دو دن چھٹی کرتے تھے۔ مرنے لگے تو ایک فقیہ عیادت کے لیے اُن کے سرہانے آئے، وہ اُن سے عورتوں کے مخصوص مسائل دریافت کرنے لگے تو فقیہ نے کہا: '' یہ مسائل آپ سے مربوط نہیں ہیں، اِنہیں پوچھ کر آپ کیا کریں گے؟'' ابُوریحان البیرونی نے کہا: ''جان کر مروں، بہتر ہے یا جاہل مروں بہتر ہے؟'' محمد بن زکریا رازی کثرتِ مطالعہ سے نابینا ہوگئے تھے، دُوسروں سے پڑھواتے اور لکھواتے تھے۔

(3) مقصد پر ایمان:1400سال پہلے بدر کے میدان میں313 مسلمان تھے اور ایک ہزار سے زیادہ مشرکین تھے، لیکن مسلمان جیت گئے۔ اس لیے کہ مقصد پر ایمان تھا۔ قیصرِ روم کے دربار میں حضرت حذیفہؓ نے جب اسلام کی حقانیت کا اعلان کیا تو قیصرِ روم کے سپاہی نے اُنہیں اُبلتے ہوئے تیل میں ڈال دیا، گوشت علاحدہ ہونے لگا تو رونے لگے، کسی نے کہا: ''کیوں رو رہے ہیں؟'' آپؓ نے فرمایا: '' میرے پاس ایک جان ہے جو اسلام پر فدا ہو رہی ہے، اگر میرے بالوں کے برابر جانیں ہوتیں تو بھی قربان کردیتا۔''

اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے پیاروں کے طفیل صاحبِ کردار، عظیم القدر اور لائقِ پیروی انسانوں کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق اور سعادت کرامت فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔