بھارتی ذرایع اِبلاغ آج سے پہلے کبھی اتنے پست نہیں ہوئے۔۔۔
میڈیا کے پروپیگنڈے سے پرامن علاقوں میں بھی فضا فرقہ ورانہ ہو چکی ہے
کئی مرتبہ آپ کسی سنجیدہ موضوع پر لکھنا چاہتے ہیں لیکن الفاظ ساتھ نہیں دیتے اور یوں آپ اس موضوع پر بھی اظہارِخیال سے قاصر رہ جاتے ہیں اور مستقبل میں کبھی ایسے معاملوں پر رائے زنی کی خواہش کے ساتھ قلم روک لیتے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر 2019 کی شام کو رونما ہونے والے ناخوش گوار سانحہ کے بعد کچھ ایسی ہی کیفیت رہی جس میں 'سی اے اے' اور 'این آر سی' کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کی بربریت دیکھی گئی۔ لائبریری میں پولیس کے داخلے اور لاٹھی چارج کے کوئی دو ماہ بعد جب 16 فروری 2020ء کو جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی تو 'گودی میڈیا' نے اس مسئلے پر اپنا 'ٹرائل' شروع کر دیا اور ایک ایسے سچ کو جو بالکل واضح ہے، چھپانے کی کوشش شروع ہو گئی۔
اس دن تو پولیس کی بر بریت کا میں بھی شکار ہوا اور سب واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کرب ناک حادثے کے بعد طلبہ کی جانب سے کچھ چیزیں 'سوشل میڈیا' کے ذریعے منظر عام پر آئیں، مگر میڈیا میں انہیں مطلوب مقام نہیں مل سکا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دل دوز ہے، جس میں 'فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی' نے تحقیق کے دوران کمروں اور ہاسٹلوں کی راہ داریوں میں کٹی ہوئی انگلیاں اور بستروں پر پولیس کا استعمال کیا گیا گولا بارود پائے جانے کا انکشاف کیا۔ 'یوپی' میں انٹرنیٹ بند کر دیے جانے اور میڈیا کے غیر حقیقت پسندانہ نظریے کے سبب بہت سی چیزیں سامنے نہیں آ سکیں، جب کہ حقائق کو مسخ کرنے کے لیے پولیس نے 'سی سی ٹی وی' کیمروں کو توڑا اور کئی جگہوں سے کیمروں کے چِپ نکال کر لے گئی۔
جامعہ ملیہ میں پولیس کی بربریت کا گواہ بننے والی فوٹیج جب سامنے آگئی، تو ویڈیو کو دیکھنے کے بعد 'گودی میڈیا' کی جانب سے جس قسم کا پروپیگنڈا شروع کیا گیا، ہاتھ میں نظر آنے والے 'پرس' کو جس طرح 'پتھر' قرار دیا گیا اور رومال سے چہرہ ڈھانکنے والے طالب علم کو جس انداز میں 'مشکوک فسادی' کہا گیا، وہ بہ جائے خود میڈیا کے اُس طبقے کی مریض ذہنیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے، جو پروپیگنڈوں کے ذریعے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے میں یقین رکھتے ہیں، حالاں کہ جامعہ کے تعلق سے جاری ہونے والے ویڈیوز کا تجزیہ کئی چھوٹے مگر قابل اعتماد میڈیا اداروں نے کیا ہے اور اس کی تفصیلات بھی منظر عام پر آگئی ہیں۔ بطورخاص 'آلٹ نیوز'، دی کوئنٹ' اور 'دی وائر' (ہندی) وغیرہ نے تحقیق کے ساتھ جو مواد جاری کیا ہے، وہ قابل توجہ ہے۔
بعض ویب سائٹوں نے تو تصویر کو زوم کر کے دکھا دیا کہ وہ 'پرس' تھا۔ اسی طرح چہرہ ڈھانکنے کی بھی اصلیت سامنے آ گئی ہے کہ اس دن پولیس نے کیمپس کے اندر اس قدر آنسو گیس کے گولے داغے تھے کہ سانس لینا بھی دشوار تھا، ایسے میں اگر کچھ طالب علم ناک یا چہرہ ڈھکے ہوئے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہے وہ فسادی تھے، وہ بھی تب جب کہ جامعہ میں داخل ہونے والے پولیس کے بعض کارندوں کے بھی 'منہ چھپانے' اور رومال سے چہرہ ڈھاکنے کی تصویر دیکھنے میں آرہی ہو۔ بالفرض اگر منہ کو رومال سے ڈھاکنے والے طلبہ 'فسادی' تھے، تو پولیس کو انہیں پکڑنا چاہیے تھا نہ کہ بلا امتیاز معصوم طلبہ پر لاٹھیاں برسانی تھیں۔ اگر 'سوشل میڈیا' نہ ہوتا تو شاید اس طرح کا ظلم و تشدد اور حکومتی سرپرستی میں ہونے والی 'غنڈاگردی' کے بارے میں دنیا کو پتا بھی نہ چلتا۔
اس پورے واقعے میں اگر میں صرف جامعہ کی ہی بات کروں تو پولیس کی دہشت زدہ کردینے والی کارروائی میں سیکڑوں طلبہ زخمی ہوئے، ایک طالب علم کی آنکھ ضائع ہو گئی اور کتنوں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ 17 فروری 2020ء کو 'ہندوستان ٹائمز' کے اداریے کے مطابق اس ظالمانہ کارروائی میں 100 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے، لیکن اس کے باوجود اب تک اس پورے واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔ پولیس کی بربریت کے شواہد جب سی سی ٹی وی فوٹیج کی شکل میں سامنے آئے تو پولیس جو پہلے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ لائبریری میں داخل ہی نہیں ہوئی۔
اسے الگ رنگ دیتی نظر آئی۔ جامعہ کے طلبہ پر پولیس کے مظالم کی جو تصویر اب تک سامنے آئی ہے، اس کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب پولیس کا کردار سوالوں کی زَد پر ہو تو ایسے میں طلبہ کو انصاف تبھی مل سکے گا، جب واقعے کی اعلیٰ سطح پر جانچ ہوگی، خواہ یہ تفتیش ایس آئی ٹی سے کرائی جائے یا معاملہ کی 'عدالتی تحقیق' ہو، بصورت دیگر یہ ممکن ہی نہیں کہ مظلومین کو انصاف مل سکے، کیوں کہ پولیس اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے پر آمادہ ہے اور میڈیا کے کچھ گھرانے اس کی ہر ممکن مدد میں مصروف ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایسے سنگین حالات میں جب حقیقت آشکار ہوتی ہے اور شواہد سامنے آتے ہیں، تو سرکار، پولیس اور ذرایع اِبلاغ سبھی ایک رنگ میں کیسے رنگ جاتے ہیں اور حقائق کو ہر ممکن جھٹلانے کی کوشش کس کس انداز میں کی جاتی ہے۔ کچھ خبری چینلوں نے جن میں 'نیوز نیشن، 'آج تک' اور 'ری پبلک' ٹی وی شامل ہیں، نے صحافتی اخلاقیات کی ساری حدوں کو پار کر لیا اور انہوں نے خود ہی جج کا کردار ادا کرتے ہوئے طلبہ کو ظالم دکھانے کی کوشش کی، مجھ جیسے صحافت کے ایک طالب علم کے لیے میڈیا کا یہ رویہ کافی تشویش ناک ہے۔
کئی مرتبہ عدلیہ ازخود ایسے غیرمعمولی معاملوں میں نوٹس لیتی ہے، مگر جامعہ ملیہ میں پولیس ایکشن اور عام طلبہ پر پولیس کی پُرتشدد کارروائی کو دو ماہ گزر جا نے کے باوجود سرکار کا نظریہ اور عدالت کا موقف کیا ہے، یہ ہر کسی کو پتا ہے۔ مظلوم طلبہ کی جانب سے عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایا گیا، مگر عدلیہ کی جانب ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، جس سے جامعہ کے دہشت زدہ طلبہ یہ محسوس کر سکیں کہ اُن پر ڈھائے گئے مظالم کی روداد سننے والا کوئی تو ہے، کوئی تو ہے جو نوٹس لے رہا ہے، لیکن اس کے برخلاف 'تاریخ پہ تاریخ' والی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
'گودی میڈیا' گذشتہ دو تین ماہ سے 'سی اے اے'، 'این آر سی' اور 'این پی آر' کے معاملے پر جو رویہ اپنائے ہوئے ہے، اسے کسی بھی طرح سے صحافتی اقدار اور اصول و ضوابط پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تب میڈیا سے سماج کا اعتبار باقی رہے گا یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن ایسے میڈیا گھرانوں سے خود ملک اور اس کے باشندوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں میڈیا کے ایسے رویوں کی وجہ سے پوری قوم کو اس کا بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑا اور پوری کی پوری کمیونٹی تباہی کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہیں، جس میں 6 اپریل 1994ء کو افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی ادارت کردہ کتاب 'دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈا جینوسائڈ' ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک 'ہوتو' جو اکثریت میں تھے اور دوسری 'ٹوٹسی' جو اقلیت میں تھے۔
روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس نے کیا۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں 'کاکروچ' کہا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہندوستان میں مسلمانوں کو کچھ لوگ 'کپڑوں' سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگ 'غدار' کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے، تو کچھ 'بابر کی اولادوں کو گولی مارو سالوں کو!' جیسے الفاظ دھڑلے سے بولتے ہیں، یہ ساری چیزیں ٹیلی ویژن پر بھی بلا کسی خوف اور شرم کے دُہرائی جاتی ہیں۔
تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہمارے میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور 'ٹوٹسیوں' کو 'لال بیگ' کہہ کر مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے 'ہوتو' میں ڈنڈے تقسیم کیے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔ جو رحم دکھائے گا، وہ 'غدار' کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسایوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقوؤں سے قتل کیا۔ صلح جو 'ہوتو' بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے، جیسے آج ہمارے ملک میں سیکولر ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ دھڑلے سے ترشول، لاٹھی، ڈنڈا اور بلم تقسیم کر رہے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں جن کا کام ہی حقیقت آشکار کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔
روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کار فرما تھا، جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کیا گیا، جیسے 2002ء میں گجرات فساد ات کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار دیا کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند انھیں ہلاک کر دیتے۔
اس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہا پسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کر لی اور 'ٹوٹسی' افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا، ہزاروں 'ٹوٹسی' لڑکیوں کو جنسی غلام بنا یا گیا۔ یہ شیطانی میڈیا آوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے ان پر زور دیتے کہ ان 'کیڑے مکوڑوں' کو مٹا کر رکھ دو، گویا ٹوٹسی آبادی کو ختم کر دو، حتی کہ ان گرجا گھروں اور پادریوں اور راہباؤں کو بھی تباہ اور ہلاک کر دیا گیا جن میں کسی نے جان بچانے کے لیے پناہ لینے کی کوشش کی۔
اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجیے، پورے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشدد کی تفصیلات دیکھیے۔ دلی کی جامعہ ملیہ اور 'شاہین باغ' میں گولی چلائے جانے کے واقعات کو یاد کیجیے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی، بنگال اور چنائے میں 'سی اے اے' اور 'این آر سی' کے حوالے سے ہونے والے پر امن احتجاج، اور اس پر میڈیا اور پولیس کے رویے کو دیکھیے تو آپ کو روانڈا کے واقعے سے مشابہت نظر آئے گی۔ 'سی اے اے' کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ ملیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامے اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا، اس پر غور کیجیے۔
ہندوستانی میڈیا کا معیار شاید اتنا کبھی نہیں گرا ہوگا، اس وقت بھی نہیں جب اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمرجینسی نافذ کی گئی تھی، لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو فراموش ہی کر بیٹھی ہے۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی فضا مسموم ہو رہی ہے، بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ایک خاص کمیونٹی کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔
گاؤں گاؤں میں جہاں سے کبھی بھی فسادات اور فرقہ پرستی کی خبر نہیں آتی تھی، فضا اس زہر آلود ہو گئی ہے کہ کئی جگہوں سے اقلیتوں کو بھگانے اور ان پر ظلم و تشدد کی ایک روایت چل پڑی ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، کہیں اکا دکا کچھ میڈیا گھرانوں کے ذریعے اس کی خبریں دکھائی دیتی ہیں، لیکن زیادہ تر اس طرح کی خبروں سے یا تو پردہ پوشی کرتے ہیں یا غلط رپورٹنگ کر کے دانستہ لوگوں کو گُم راہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئی وارداتیں ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ 'گؤ ہتیا' کے نام پر لوگوں کی 'لنچنگ' کی جا رہی ہے۔
نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملے کر رہے ہیں، پولیس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھاکر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے، مگر بہ جائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرتا، سوالات کھڑے کرتا، ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہا ہے، انہیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہو گیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے، بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔ جو صورت حال اس وقت ہے، اگر اسے بدلنے کے لیے اقدام نہ کیے گئے تو ہمیں تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے؟
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر 2019 کی شام کو رونما ہونے والے ناخوش گوار سانحہ کے بعد کچھ ایسی ہی کیفیت رہی جس میں 'سی اے اے' اور 'این آر سی' کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کی بربریت دیکھی گئی۔ لائبریری میں پولیس کے داخلے اور لاٹھی چارج کے کوئی دو ماہ بعد جب 16 فروری 2020ء کو جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے ویڈیو جاری کی گئی تو 'گودی میڈیا' نے اس مسئلے پر اپنا 'ٹرائل' شروع کر دیا اور ایک ایسے سچ کو جو بالکل واضح ہے، چھپانے کی کوشش شروع ہو گئی۔
اس دن تو پولیس کی بر بریت کا میں بھی شکار ہوا اور سب واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کرب ناک حادثے کے بعد طلبہ کی جانب سے کچھ چیزیں 'سوشل میڈیا' کے ذریعے منظر عام پر آئیں، مگر میڈیا میں انہیں مطلوب مقام نہیں مل سکا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ دل دوز ہے، جس میں 'فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی' نے تحقیق کے دوران کمروں اور ہاسٹلوں کی راہ داریوں میں کٹی ہوئی انگلیاں اور بستروں پر پولیس کا استعمال کیا گیا گولا بارود پائے جانے کا انکشاف کیا۔ 'یوپی' میں انٹرنیٹ بند کر دیے جانے اور میڈیا کے غیر حقیقت پسندانہ نظریے کے سبب بہت سی چیزیں سامنے نہیں آ سکیں، جب کہ حقائق کو مسخ کرنے کے لیے پولیس نے 'سی سی ٹی وی' کیمروں کو توڑا اور کئی جگہوں سے کیمروں کے چِپ نکال کر لے گئی۔
جامعہ ملیہ میں پولیس کی بربریت کا گواہ بننے والی فوٹیج جب سامنے آگئی، تو ویڈیو کو دیکھنے کے بعد 'گودی میڈیا' کی جانب سے جس قسم کا پروپیگنڈا شروع کیا گیا، ہاتھ میں نظر آنے والے 'پرس' کو جس طرح 'پتھر' قرار دیا گیا اور رومال سے چہرہ ڈھانکنے والے طالب علم کو جس انداز میں 'مشکوک فسادی' کہا گیا، وہ بہ جائے خود میڈیا کے اُس طبقے کی مریض ذہنیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے، جو پروپیگنڈوں کے ذریعے جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے میں یقین رکھتے ہیں، حالاں کہ جامعہ کے تعلق سے جاری ہونے والے ویڈیوز کا تجزیہ کئی چھوٹے مگر قابل اعتماد میڈیا اداروں نے کیا ہے اور اس کی تفصیلات بھی منظر عام پر آگئی ہیں۔ بطورخاص 'آلٹ نیوز'، دی کوئنٹ' اور 'دی وائر' (ہندی) وغیرہ نے تحقیق کے ساتھ جو مواد جاری کیا ہے، وہ قابل توجہ ہے۔
بعض ویب سائٹوں نے تو تصویر کو زوم کر کے دکھا دیا کہ وہ 'پرس' تھا۔ اسی طرح چہرہ ڈھانکنے کی بھی اصلیت سامنے آ گئی ہے کہ اس دن پولیس نے کیمپس کے اندر اس قدر آنسو گیس کے گولے داغے تھے کہ سانس لینا بھی دشوار تھا، ایسے میں اگر کچھ طالب علم ناک یا چہرہ ڈھکے ہوئے ہیں، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہے وہ فسادی تھے، وہ بھی تب جب کہ جامعہ میں داخل ہونے والے پولیس کے بعض کارندوں کے بھی 'منہ چھپانے' اور رومال سے چہرہ ڈھاکنے کی تصویر دیکھنے میں آرہی ہو۔ بالفرض اگر منہ کو رومال سے ڈھاکنے والے طلبہ 'فسادی' تھے، تو پولیس کو انہیں پکڑنا چاہیے تھا نہ کہ بلا امتیاز معصوم طلبہ پر لاٹھیاں برسانی تھیں۔ اگر 'سوشل میڈیا' نہ ہوتا تو شاید اس طرح کا ظلم و تشدد اور حکومتی سرپرستی میں ہونے والی 'غنڈاگردی' کے بارے میں دنیا کو پتا بھی نہ چلتا۔
اس پورے واقعے میں اگر میں صرف جامعہ کی ہی بات کروں تو پولیس کی دہشت زدہ کردینے والی کارروائی میں سیکڑوں طلبہ زخمی ہوئے، ایک طالب علم کی آنکھ ضائع ہو گئی اور کتنوں کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے۔ 17 فروری 2020ء کو 'ہندوستان ٹائمز' کے اداریے کے مطابق اس ظالمانہ کارروائی میں 100 سے زائد طلبہ زخمی ہوئے، لیکن اس کے باوجود اب تک اس پورے واقعے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ہے۔ پولیس کی بربریت کے شواہد جب سی سی ٹی وی فوٹیج کی شکل میں سامنے آئے تو پولیس جو پہلے یہ کہہ رہی تھی کہ وہ لائبریری میں داخل ہی نہیں ہوئی۔
اسے الگ رنگ دیتی نظر آئی۔ جامعہ کے طلبہ پر پولیس کے مظالم کی جو تصویر اب تک سامنے آئی ہے، اس کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب پولیس کا کردار سوالوں کی زَد پر ہو تو ایسے میں طلبہ کو انصاف تبھی مل سکے گا، جب واقعے کی اعلیٰ سطح پر جانچ ہوگی، خواہ یہ تفتیش ایس آئی ٹی سے کرائی جائے یا معاملہ کی 'عدالتی تحقیق' ہو، بصورت دیگر یہ ممکن ہی نہیں کہ مظلومین کو انصاف مل سکے، کیوں کہ پولیس اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے پر آمادہ ہے اور میڈیا کے کچھ گھرانے اس کی ہر ممکن مدد میں مصروف ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ ایسے سنگین حالات میں جب حقیقت آشکار ہوتی ہے اور شواہد سامنے آتے ہیں، تو سرکار، پولیس اور ذرایع اِبلاغ سبھی ایک رنگ میں کیسے رنگ جاتے ہیں اور حقائق کو ہر ممکن جھٹلانے کی کوشش کس کس انداز میں کی جاتی ہے۔ کچھ خبری چینلوں نے جن میں 'نیوز نیشن، 'آج تک' اور 'ری پبلک' ٹی وی شامل ہیں، نے صحافتی اخلاقیات کی ساری حدوں کو پار کر لیا اور انہوں نے خود ہی جج کا کردار ادا کرتے ہوئے طلبہ کو ظالم دکھانے کی کوشش کی، مجھ جیسے صحافت کے ایک طالب علم کے لیے میڈیا کا یہ رویہ کافی تشویش ناک ہے۔
کئی مرتبہ عدلیہ ازخود ایسے غیرمعمولی معاملوں میں نوٹس لیتی ہے، مگر جامعہ ملیہ میں پولیس ایکشن اور عام طلبہ پر پولیس کی پُرتشدد کارروائی کو دو ماہ گزر جا نے کے باوجود سرکار کا نظریہ اور عدالت کا موقف کیا ہے، یہ ہر کسی کو پتا ہے۔ مظلوم طلبہ کی جانب سے عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھٹایا گیا، مگر عدلیہ کی جانب ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، جس سے جامعہ کے دہشت زدہ طلبہ یہ محسوس کر سکیں کہ اُن پر ڈھائے گئے مظالم کی روداد سننے والا کوئی تو ہے، کوئی تو ہے جو نوٹس لے رہا ہے، لیکن اس کے برخلاف 'تاریخ پہ تاریخ' والی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
'گودی میڈیا' گذشتہ دو تین ماہ سے 'سی اے اے'، 'این آر سی' اور 'این پی آر' کے معاملے پر جو رویہ اپنائے ہوئے ہے، اسے کسی بھی طرح سے صحافتی اقدار اور اصول و ضوابط پر مبنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میڈیا کا یہی رویہ رہا تو اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تب میڈیا سے سماج کا اعتبار باقی رہے گا یا نہیں یہ تو ایک الگ بحث کا موضوع ہے لیکن ایسے میڈیا گھرانوں سے خود ملک اور اس کے باشندوں کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں موجود ہیں جس میں میڈیا کے ایسے رویوں کی وجہ سے پوری قوم کو اس کا بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑا اور پوری کی پوری کمیونٹی تباہی کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔
اس سلسلے میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی مثال پیش کی جا سکتی ہیں، جس میں 6 اپریل 1994ء کو افریقیوں کو ختم کرنے میں میڈیا کی کارستانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایلن تھومپسن کی ادارت کردہ کتاب 'دی میڈیا اینڈ دی ریوانڈا جینوسائڈ' ایک قابل مطالعہ دستاویز ہے۔ اس کتاب کے مطابق میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی وجہ سے صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے، ایک 'ہوتو' جو اکثریت میں تھے اور دوسری 'ٹوٹسی' جو اقلیت میں تھے۔
روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کس نے کیا۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں 'کاکروچ' کہا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے آج ہندوستان میں مسلمانوں کو کچھ لوگ 'کپڑوں' سے پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو کچھ لوگ 'غدار' کہہ کر گولی مارنے کی دھمکی دیتے، تو کچھ 'بابر کی اولادوں کو گولی مارو سالوں کو!' جیسے الفاظ دھڑلے سے بولتے ہیں، یہ ساری چیزیں ٹیلی ویژن پر بھی بلا کسی خوف اور شرم کے دُہرائی جاتی ہیں۔
تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ہمارے میڈیا کی طرح ریڈیو روانڈا کے ذریعے اس اقلیتی کمیونٹی کے خلاف مسلسل زہر افشانی کی گئی اور 'ٹوٹسیوں' کو 'لال بیگ' کہہ کر مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے 'ہوتو' میں ڈنڈے تقسیم کیے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔ جو رحم دکھائے گا، وہ 'غدار' کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسایوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقوؤں سے قتل کیا۔ صلح جو 'ہوتو' بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے، جیسے آج ہمارے ملک میں سیکولر ہندوؤں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ دھڑلے سے ترشول، لاٹھی، ڈنڈا اور بلم تقسیم کر رہے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، میڈیا بھی نہیں جن کا کام ہی حقیقت آشکار کرنا اور سوال پوچھنا ہے۔
روانڈا میں اُس وسیع قتلِ عام کے پیچھے میڈیا کا نفرت انگیز رویہ کار فرما تھا، جس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا کہ لوگ متنفر ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور وہی ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ انتہائی منظم طریقے سے حکومت کے مخالفین کی فہرست تیار کرکے انتہا پسندوں کو فراہم کیا گیا، جیسے 2002ء میں گجرات فساد ات کے دوران کیا گیا تھا۔ ہمسایوں نے ہمسایوں کو ہلاک کیا، بلکہ ایسا بھی ہوا کہ شوہروں نے اپنی بیویوں کو مار دیا کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو انتہا پسند انھیں ہلاک کر دیتے۔
اس وقت لوگوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے شناختی کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔ انتہا پسندوں نے سڑکوں کی ناکہ بندی کر لی اور 'ٹوٹسی' افراد کو روک کر خنجروں سے ذبح کیا گیا، ہزاروں 'ٹوٹسی' لڑکیوں کو جنسی غلام بنا یا گیا۔ یہ شیطانی میڈیا آوٹ لیٹس سامعین اور قارئین کے جذبات بھڑکاتے ہوئے ان پر زور دیتے کہ ان 'کیڑے مکوڑوں' کو مٹا کر رکھ دو، گویا ٹوٹسی آبادی کو ختم کر دو، حتی کہ ان گرجا گھروں اور پادریوں اور راہباؤں کو بھی تباہ اور ہلاک کر دیا گیا جن میں کسی نے جان بچانے کے لیے پناہ لینے کی کوشش کی۔
اس تناظر میں اپنے ملک کے میڈیا کا جائزہ لیجیے، پورے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں ہونے والے ہجومی تشدد کی تفصیلات دیکھیے۔ دلی کی جامعہ ملیہ اور 'شاہین باغ' میں گولی چلائے جانے کے واقعات کو یاد کیجیے۔ بنگلور، بھوپال، یوپی، بنگال اور چنائے میں 'سی اے اے' اور 'این آر سی' کے حوالے سے ہونے والے پر امن احتجاج، اور اس پر میڈیا اور پولیس کے رویے کو دیکھیے تو آپ کو روانڈا کے واقعے سے مشابہت نظر آئے گی۔ 'سی اے اے' کی آمد، اس پر احتجاج اور اس احتجاج کے بعد جامعہ ملیہ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامے اور اس پورے معاملے پر میڈیا کا جو رویہ رہا، اس پر غور کیجیے۔
ہندوستانی میڈیا کا معیار شاید اتنا کبھی نہیں گرا ہوگا، اس وقت بھی نہیں جب اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمرجینسی نافذ کی گئی تھی، لیکن آج کل تو ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا اپنی ذمہ داریوں کو فراموش ہی کر بیٹھی ہے۔ اس کی وجہ سے پورے ملک کی فضا مسموم ہو رہی ہے، بھولے بھالے اور سیدھے سادے لوگ میڈیا کے پروپیگنڈوں کا شکار ہو کر ایک خاص کمیونٹی کو مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔
گاؤں گاؤں میں جہاں سے کبھی بھی فسادات اور فرقہ پرستی کی خبر نہیں آتی تھی، فضا اس زہر آلود ہو گئی ہے کہ کئی جگہوں سے اقلیتوں کو بھگانے اور ان پر ظلم و تشدد کی ایک روایت چل پڑی ہے، لیکن کسی کو اس کا احساس تک نہیں ہے، کہیں اکا دکا کچھ میڈیا گھرانوں کے ذریعے اس کی خبریں دکھائی دیتی ہیں، لیکن زیادہ تر اس طرح کی خبروں سے یا تو پردہ پوشی کرتے ہیں یا غلط رپورٹنگ کر کے دانستہ لوگوں کو گُم راہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میڈیا کے اس عمل کی وجہ سے افراد اور گروہوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات وبائی امراض کی طرح پھیلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ملک میں نت نئی وارداتیں ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری طور پر احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلائی جارہی ہیں۔ 'گؤ ہتیا' کے نام پر لوگوں کی 'لنچنگ' کی جا رہی ہے۔
نہتے احتجاجیوں پر غنڈے حملے کر رہے ہیں، پولیس جب جس کو چاہتی ہے، اٹھاکر لے جاتی ہے، گولی مار دیتی ہے، مگر بہ جائے اس کے کہ میڈیا اس کی گرفت کرتا، سوالات کھڑے کرتا، ایسا لگتا ہے وہ ظالموں کی حمایت کر رہا ہے، انہیں بچانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہمارے یہاں یہ رجحان اس قدر غالب ہو گیا ہے کہ اب لوگ اس کو معیوب بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ صرف شہریوں اور اداروں کی ساکھ تباہ ہو رہی ہے، بلکہ بہت سی جانیں بھی داؤ پر لگ رہی ہیں۔ جو صورت حال اس وقت ہے، اگر اسے بدلنے کے لیے اقدام نہ کیے گئے تو ہمیں تباہی و بربادی کو گلے لگانے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیوں کہ نفرتوں کی شاخوں پر محبتوں کے پھول کبھی نہیں کھل سکیں گے؟