فلسطین ظلم واستبداد کے پنجے میں
سر زمین فلسطین ایک ایسی سر زمین رہی ہے کہ جہاں اللہ کی طرف سے آنے والے انبیاء علیہم السلام کثرت سے تشریف لاتے رہے۔۔۔
NEWTOWN SQUARE:
سر زمین فلسطین ایک ایسی سر زمین رہی ہے کہ جہاں اللہ کی طرف سے آنے والے انبیاء علیہم السلام کثرت سے تشریف لاتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین مقدس کو انبیاء علیہم السلام کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے ، زمانہ اسلام میں بھی اس سر زمین کو کافی اہمیت حاصل رہی اور اسلامی افواج کی فتوحات میں فلسطین شامل رہا، اسی طرح اس سر زمین کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مسلمانوں کا مقدس ترین مقام ''قبلہ اول '' یعنی ''بیت المقدس'' جسے''مسجد اقصیٰ '' بھی کہا جاتا ہے موجود ہے۔
البتہ یہ اہم ترین سر زمین اور مقامات مقدسہ بیسویں صدی میں اس وقت سخت شکنجے میں آئے جب 1948ء میں انبیاء و اسریٰ کی سرزمین فلسطین پر ایک غاصب صیہونی ریاست کے وجود کوعالمی سامراجی طاقتوں برطانیہ اور امریکا سمیت فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی ایماء پر تشکیل دیا گیا، پندرہ مئی 1948ء کی اس سیاہ تاریخ کے بعد سے آج تک گزرنے والے پینسٹھ برس فلسطینیوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں گزرے ہیں۔
محرم الحرام کا ماہ رواں دواں ہیں اور اس ماہ مقدس میں پوری دنیا میں مسلمان ایک ایسی ہستی کی یاد مناتے ہیں جسے ''امام حسینؓ'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، حضرت امام حسین ؓکون ہیں؟ آپ مسلمانوں کے آخری نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ اور دختر پیغمبر اسلام حضرت فاطمۃ الزہرا کے فرزند ہیں، آپ حضرت امام حسن کے بھائی ہیں، آپ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ ''حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں''مسلمانان عالم ماہ محرم کا آغاز ہوتے ہی آپ اور آپ کے اہل و عیال کی بے مثل قربانی کی یاد مناتے ہیں۔
جو آپ نے 61ء ہجری میں کربلا کے میدان میں اسلام کو تحفظ بخشنے کی خاطر پیش کی تھی، آپ خود شہید ہوئے، آپ کے بیٹے، بھائی، گھر کے معزز افراد اور آپ کے با وفا اصحاب بھی آپ کے ہمراہ شہید ہوئے، آپ کے گھر والوں کو کربلا میں قید کیا گیا اور پھر ایک شہر سے دوسرے شہر اور شام میں یزید کے دربار لے جایا گیا ، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آپ کی قربانی نے نہ صرف اسلام کو دوام بخشا بلکہ اس قربانی ہی کا اثر ہے کہ آج پوری دنیا میں محرم کا چاند نظر آتے ہی آپ کی اور آپ کے پیاروں کی یاد میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔
آج بھی اگر ہم دیکھیں تو مظلوموں پر ظلم کا سلسلہ جاری ہے، دنیا میں ہمیں کہیں کربلائے افغانستان نظرآرہی ہے ، تو کہیں کربلائے عراق،کہیں کربلائے یمن اور کہیں کربلائے مصر ہے ، کہیں کربلائے شام ہے اور کہیں کربلائے لبنان، غرض یہ کہ ان سب سے بڑی کربلا ہمیں کربلائے فلسطین نظر آتی ہے اور ان تمام مقامات کو ایک ہی قوت کا سامنا ہے جسے وقت کا یزید یعنی امریکا اور اسرائیل کہا جاتا ہے، دور حاضر کے یزیدوں اور یزیدی کردار کے پیرو کاروں نے پوری مسلم امہ کو نہ صرف یر غمال بنا رکھا ہے بلکہ اپنا غلام بھی بنا لیا ہے اور مسلمانوں کو ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں ، آج کی تمام مسلم قومیں منتظر ہیں کہ کوئی وقت کا حسین آئے اور ان یزیدی قوتوں سے بر سر پیکار ہو کر انھیں شکست سے دو چارکر دے اور انسانیت کو فلاح بخشے۔
کربلائے فلسطین آج بھی مظلومیت کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے کہ جہاں وقت کا یزید اسرائیل قابض ہو چکا ہے اور فلسطین کے عوام پر انسانیت سوز مظالم کے ذریعے اپنے ظالم ہونے کا اعلان کر رہا ہے لیکن افسوس ناک بات ہے کہ پوری دنیا میں 1.8بلین مسلمان موجود ہونے کے باوجود بھی کربلائے فلسطین کو نجات دلوانے میں ناکام رہے ہیں، مسلمانوں کی کاہلی اور سستی اس بات کا موجب بنی ہے کہ یزید وقت امریکا اور اسرائیل کی چیرہ دستیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ، یہ مسلم امہ کی خاموشی ہے جس نے کربلائے فلسطین کو اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے ، آج مسلمانوں کوکربلا سے درس حاصل کرتے ہوئے دور حاضر کی سب سے بڑی کربلا ، کربلائے فلسطین کو آزاد کروانا ہو گا وگرنہ غاصب اسرائیل مسلم امہ کے مقدس ترین مقامات پر اپنے غاصبانہ تسلط سے دور نہیں رہے گا بلکہ فلسطین میں موجود قبلہ اول پر صیہونی تسلط کے بعد حتماً صیہونی اپنے عظیم تر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کے تحت کعبۃ اللہ یعنی مکۃ المکرمہ کی طرف اپنی میلی آنکھیں اٹھائے گا، اس سے قبل کہ غاصب اسرائیل اپنے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے لیے حرکت کرے ہمیں چاہیے کہ ہم آگے بڑھ کر اس وقت کے یزید کے ہاتھ کاٹ دیں۔
ہماری نظر میں فلسطین کی اہمیت اور بھی آشکار ہو جانی چاہیے کہ آج اس خطے کی یزیدی قوتوں کے سامنے آزادی دراصل اسلام کی آزادی اور دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کی اہم کڑی ہے۔
دور حاضر کے میدان فلسطین میں آج یزیدی کردار کی حامل قوتیں امریکا اور اسرائیل سمیت ان کے مدد گار معصوم فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش ہیں، غاصب اسرائیلی دشمن کی طرف سے معصوم فلسطینیوں کا محاصرہ کیا گیا ہے ان پر خوراک، ادویات، پانی اور زندگی سے متعلق تمام تر اشیاء کو بند کردیا گیا ہے ، جس طرح کربلا میں امام حسین اور آپ کے اصحاب کے لیے یزید نے پانی بند کر دیا تھا، آج وقت کا یزید اسرائیل معصوم فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہا ہے، خواتین اور بزرگوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، نوجوانوں کو جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے، اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کو جنگی جہازوں کی مدد سے تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، فلسطینی زمینوں پر موجود کھیتوں میں پیدا ہونے والی اللہ کی نعمتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، فلسطینی عوام کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے،
فلسطینیوں کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں سے مسمار کیا جاتا ہے پھر وہاں پر صیہونیوں کے لیے عالی شان عمارات تعمیر کی جارہی ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے صیہونی دہشت گرد نظریات کے حامل یہودیوں کو لا کر فلسطینیوں کی زمینوں کا مالک بنایا جا رہا ہے، فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، غرض یہ کہ فلسطینیوں کی عزت و تکریم کو مجروح کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ فلسطینیوں کو روزگار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، سمندر میںمچھلیاں پکڑنے والے ماہی گیروں کو جیلوں میں قید کیا جاتا ہے، خود جیلوں میں چودہ سو قیدی ایسے موجود ہیں جو مختلف قسم کی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں لیکن ان کا پرسان حال کوئی بھی نہیں ہے،معصوم بچوں کو موت کی چکی میں پیس دیا گیا ہے۔
ان تمام حالات سے بھی بڑھ کر مسلمانوں کے مقدس مقام قبلہ اول بیت المقدس کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ، تماشبین یہودی مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر اللہ کے گھر کی بے حرمتی کرتے ہیں اور وہاں پر ناچ گانے کی محافل بپا کرتے ہیں لیکن افسوس ہے غیرت مسلماں پر کہ جو جوش میں آتی ہی نہیں، کاش کہ کوئی وقت کا حسین آئے اور اس دور حاضر کی کربلا ''کربلائے فلسطین'' کو وقت کے یزیدوں امریکا اور اسرائیل کے چنگل سے آزاد کروا دے۔