بڑے لوگ

مہتاب علی مصور ہیں۔ خصوصاً پورٹریٹ بنانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، اسی فن میں بہت بڑا نام اقبال مہدی مرحوم مہتاب علی۔۔۔

مہتاب علی مصور ہیں۔ خصوصاً پورٹریٹ بنانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، اسی فن میں بہت بڑا نام اقبال مہدی مرحوم مہتاب علی کے استاد تھے۔ مہتاب علی سے پچیس سال پہلے ملاقات ہوئی تھی، پنجابی کے عوامی شاعر استاد دامن کا انتقال ہوچکا تھا۔ مہتاب اس وقت تیس سال کے تھے۔ یہ یاد نہیں کہ ان سے کیسے رابطہ ہوا تھا۔ مگر ہم ان تک پہنچ گئے تھے۔ میں اور پنجابی زبان کے معروف شاعر بابا نجمی مل کر استاد دامن کی یاد میں ایک بڑا پروگرام ترتیب دے چکے تھے۔ یہ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن مذاکرے کا تھا۔

سہ پہر ہونے والے مذاکرے کی صدارت سبط حسن نے کی تھی، فیض صاحب کے ساتھ سبط حسن، استاد دامن کی کھولی میں جاچکے تھے۔ یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ٹکسالی گیٹ لاہور کی اسی کھولی میں شاہ حسین بھی رہا کرتے تھے۔ شاہ حسین پنجابی شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کی خواہش دل ہی میں مچل مچل کر رہ گئی کہ شاہ حسین اس کے دربار میں حاضری دے۔ مگر شاہ دربار میں نہیں گیا اور مغل اعظم شاعر کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ اب میں لکھتے لکھتے اس مقام پر آگیا ہوں کہ اپنے عہد کے ایک اور پیارے انسان کا ذکر ان ہی کی تحریر کے حوالے سے کروں۔

یہ ہیں استاد محترم سابق وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی، دانشور، پروفیسر کرار حسین۔ میں نے جالب صاحب کی شاعری کی ایک کتاب بنائی تھی ''جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے'' ان کی کتاب پر کچھ لکھوانے کے لیے میں پروفیسر کرار حسین صاحب کے گھر حاضر ہوا اور مدعا بیان کیا جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے اور پھر دو چار روز بعد ان کا فون آیا کہ ''مضمون لکھ لیا ہے۔ جب سہولت ہو لے جانا'' ان کا مضمون جالب صاحب کی کتاب میں شامل ہے۔ شاہ حسین کے حوالے سے پروفیسر کرار حسین صاحب کے مضمون مورخہ 8 اپریل 1977 سے اقتباس پیش کرتا ہوں:

''اب قلندری کا رواج بہت کم ہوگیا ہے۔ پچھلے معاشرے کے ماحول میں جسے اصطلاحاً روایتی معاشرہ کہا جاتا ہے، زندگی کی ایک لہر قلندری کی بھی تھی۔ جس معاشرے کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس کے دو قطب تھے۔ شمالی قطب تو بادشاہ کا دربار تھا۔ جنوبی قطب فقیر صوفی کی خانقاہ تھی، وہ بھی اپنی جگہ شاہ تھا۔ بادشاہی اور شاہی کے ان دو ستونوں پر معاشرہ قائم تھا، اور ان ہی قطبین کی باہمی رقابت سے معاشرے کا کلچر پیدا ہوتا تھا۔ اس کلچر کا ایک خاص نمایندہ شاعر ہوتا تھا'' اسی مضمون میں آگے چل کر پروفیسر صاحب لکھتے ہیں ''ہر قسم کی ہوس سے آزادی کا راستہ عشق ہے، زمین اور آسمان کی دنیا میں انسان مجبور ہے۔ زمین سخت ہے اور آسمان دور ہے، لیکن دل کی دنیا میں وہ آزاد ہے۔ جنون کے لیے صحرا بھی ہے اور فردیت کی معراج کے لیے فراز دار بھی ہے۔

قلندر اسی بغاوت اور اسی آزادی کا لقب ہے۔ جب انسان نے یہ حقیقت دریافت کی کہ زمین اور آسمان کی دنیا میں بھی وہ مجبور نہیں ہے بلکہ وہ زمین اور آسمان کو بدل سکتا ہے۔ بادشاہ کا آنکھوں کو چندھیانے والا لباس خود اس کی نگاہ کا فریب ہے، ورنہ بادشاہ تو خود ننگا ہے۔ معاشرے کے قارون کے خزانے میں اسی کے خون پسینے کی کمائی ہے، تو دنیا ہی بدل گئی اور اس نے بغاوت اور آزادی اور قربانی کے اس جذبے کا رخ جو خانقاہ کی تربیت سے حاصل کیا تھا، اقتدار کے فرعونوں اور استحصال کے قارونوں کی سمت موڑ لیا اور اسے اپنی فردیت عوام سے کٹنے میں نہیں بلکہ عوام ہی کا ایک فرد بننے میں نظر آنے لگی۔ اب معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہوگیا۔ عوام کا استحصال کرنے والے اور عوام ظالم اور مظلوم'' یقینا پروفیسر صاحب کی تحریر ذہن میں نئے دریچے کھولتی ہے۔ سچ ہے بڑے لوگ بڑی باتیں کرتے ہیں۔


پنجابی زبان کا عوامی انقلابی شاعر اسی ایک کمرے کی کھولی میں رہتا تھا جہاں کبھی شاہ حسین کا ڈیرہ تھا۔ شاہ حسین بھی دربار میں نہیں گیا اور استاد دامن بھی نہیں گیا۔ کرار صاحب کے کہے کے مطابق دامن نے بھی بغاوت، آزادی اور قربانی کے جذبوں کا رخ فرعونوں اور قارونوں کی طرف موڑ لیا اور دامن کو بھی عوام سے جڑے رہنے میں ہی عافیت نظر آئی۔

استاد دامن جنرل ایوب کے مقابل موجود قائد اعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ رہا۔ موچی گیٹ لاہور کے تاریخی انتخابی جلسے میں جس سے محترمہ فاطمہ جناح نے خطاب کیا تھا۔ لاکھوں کے اس جلسے میں استاد دامن نے بھی حاکم وقت کے خلاف اپنا حصہ ڈالا تھا ، یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ اس جلسے سے دو تین دن پہلے حبیب جالب صاحب کو فوجی جرنیل اور گورنر نواب کالا باغ نے اقدام قتل کی دفعہ 307 کے تحت گرفتار کرلیا تھا، حبیب جالب کے بیگ سے آلہ قتل بھی برآمد کرلیا گیا تھا۔ زخمی شخص بابو وارث بی ڈی ممبر علاقہ کرشن نگر جو علاقے کا ہسٹری شیٹر تھا۔

وہ میو اسپتال میں زخمی حالت میں پڑا تھا اور بقول حکومت یہ زخم حبیب جالب نے لگائے تھے۔ خیر اسی تاریخی جلسے میں استاد دامن نے اپنی شاعری پیش کی تھی۔ بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو انھوں نے بھی استاد دامن کو گرفتار کرلیا اور ان کی کھولی سے گولا بارود، بندوقیں برآمد کرلیں۔ استاد دامن ضمانت پر باہر آئے تو بولے ''شکر ہے کھولی میں رہتا ہوں ورنہ رانی توپ بھی میرے ہی گھر سے برآمد ہوتی'' 65 کی جنگ میں رانی توپ بہت مشہور ہوئی تھی۔ جس نے لاہور بارڈر پر خوب کارکردگی دکھائی تھی۔

استاد دامن کی اسی کھولی میں فیض احمد فیض، سبط حسن، مولانا کوثر نیازی، اداکار علاؤ الدین (جو استاد کے بیٹے بنے ہوئے تھے) اور لاہورگورنمنٹ کالج، ایف سی کالج ودیگر کالجوں کے طلبا و طالبات استاد دامن سے ملنے آتے تھے۔ استاد کی کھولی علم و ادب کا خزینہ تھی۔ ایک عدد الماری کتابوں سے بھری ہوئی، چھوٹی سی میز پر کتابیں ڈھیر، چارپائی بھی آدھی کتابوں سے لدی ہوئی۔ استاد دامن خاص طور پر ان کی کھولی میں آنے والے رات کے مہمان چوہوں کے لیے گھی اور روٹی کی چوری روزانہ بناتے تھے تاکہ ان کی کتابیں چوہوں سے محفوظ رہیں۔

استاد دامن کی وفات کے بعد میں نے اور بابا نجمی نے مل کر استاد دامن کی یاد میں مذاکرے اور مشاعرے کا اہتمام کیا تھا۔ مذاکرے کی صدارت جناب سبط حسن نے کی تھی اور مشاعرے کی صدارت انعام درانی نے کی تھی۔ انعام درانی صاحب بھی بڑے بے باک، بے خوف کالم نگار اور شاعر تھے۔ آرٹس کونسل کراچی کے منظر اکبر ہال میں ہونے والے پروگرام کے اسٹیج پر استاد دامن کی بہت بڑی پورٹریٹ آویزاں کی گئی تھی۔ 40 فٹ 6x پورٹریٹ نوجوان مصور مہتاب علی نے بنائی تھی اور کمال بنائی تھی۔

آج اس بات کو کم و بیش پچیس سال ہوگئے۔ مہتاب علی صاحب نے ایک اور پورٹریٹ بنائی ہے۔ یہ میری کتاب ''اماں'' کا ٹائٹل ہے جو میں نے دوستوں کے کہنے اور خود اپنی بھی خواہش کے تحت لکھی ہے۔ کتاب جنوری 2014 میں منظر عام پر آجائے گی۔ کتاب ہماری اماں کی جدوجہد کی کہانی ہے۔ اماں! جس نے دنیا کو حبیب جالب دیا۔
Load Next Story