آئینے ٹوٹ بھی جاتے ہیں

شام کو ڈوبتا ہوا سورج ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ایک دن اورگزرگیا ۔زندگی کے شب و روز یونہی گزرتے رہتے ہیں۔

khurram.sohail99@gmail.com

شام کو ڈوبتا ہوا سورج ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ایک دن اورگزرگیا ۔زندگی کے شب و روز یونہی گزرتے رہتے ہیں ۔زندگی انسان کی تربیت گاہ کا عملی میدان ہے ،اس میں انسان ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سیکھتا ہے،مگرہم کبھی یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ سیکھ لیا، لیکن جونہی ہم کسی نئے تجربے سے دوچار ہوتے ہیں توپتا چلتا ہے کہ زندگی کے حقیقی پہلو سے تو ہم واقف ہی نہیں تھے ۔اسی دھوکے میں زندگی گزرتی رہتی ہے ،مگر اس رویے سے زندگی سے جڑے رشتے متاثر ہوتے ہیں،کیونکہ ہمارا رویہ بعض اوقات ان کے لیے بیزاری کا سبب بنتا ہے۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا اور ہم اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی خرچ کر بیٹھتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے سیکھنے کی فطرت انسان کو ودیعت کی ہے ،مگر اس کے ساتھ یہ بھی طے کیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی وسیلے سے سیکھے گا۔کچھ لوگ ٹھوکرکھا کر سیکھتے ہیں حادثے ان کے ناصح ہوتے ہیں ،کوئی دوسرے کی کھائی ہوئی ٹھوکر سے سبق لے کر ہی سیکھ لیتا ہے ۔یوں زندگی انسان پر مختلف انداز میں اپنی تکمیل کرتی ہے ۔انسان سیکھنے کے تمام مراحل سے گزرتا ہوا زندگی کے ایسے موڑ پر آجاتا ہے ،جب اس کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ شعورکی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے ،اس موڑ پر اسے ماضی میں رونما ہونے والے واقعات بہت عجیب دکھائی دیتے ہیں اور وہ ان پر دل کھول کر ہنستا ہے یا شرمندہ دکھائی دیتا ہے ،یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شعورکی دہلیز سے اندر داخل ہوچکا ہے۔زندگی کے اس دائرے میں آچکا ہے ،جہاں لفظ اپنے اندر بہت گہرے معنی رکھتے ہیں ۔

شعورکی کوئی حتمی تعریف متعین نہیں کی جاسکتی ،کیونکہ شعور کی کوئی عمر نہیں ہوتی ہے ۔شعور کو یہ خزانہ کسی کو بچپن کے ٹوٹے ہوئے کھلونوں میں بھی مل سکتا ہے اور کسی کو زندگی کی طویل مسافت طے کر کے وہ راستہ نہیں ملتا جس پر چل کر شعورکا جزیرہ دریافت کیا جاسکے ۔شعور بھی ایک فطری نعمت کے طور پر خدا انسان کو عطا کرتا ہے وگرنہ انسان کے لبادے میں حیوان کی زندگی گزارنے کو کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔انسان اور حیوانیت کو شعورکی لکیر ہی تقسیم کرتی ہے ۔

اسی طرح انسان سیکھنے اور شعور کے عمل سے گزر کر زندگی کے نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے ،یہ مرحلہ ہے کہ ''ہم کسی سے متاثر ہوں ''ان اثرات کو ہم کسی بھی انسان کی زندگی میں جھانک کر دیکھ لیں ہمیں ضرور ملیں گے ۔زندگی کے اس مرحلے پر ہماری ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ جذبات بھی شریک ِ سفر ہوجاتے ہیں۔ جذبات کی اپنی ایک زبان اور شعور ہوتا ہے ،لفظیات کی اپنی ایک معنویت ہوتی ہے ۔ہمار اسچ دوسرے کے لیے جھوٹ بھی ہوسکتا ہے ،کسی دوسرے کا سچ ہمارے لیے جھوٹ بھی ہوسکتاہے۔

ہم اگراجتماعی زندگی کے دائرے سے اپنی سوچ سمیٹ کر اپنی ذات پر لے آئیں تو بھی ہم اس سیکھنے کو عمل کو ایک نئے رخ سے دیکھ سکتے ہیں ۔ انفرادی طور پر بھی ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ۔کہا جاتاہے ''ایک علم وہ ہوتاہے جو انسان جامعات سے سیکھتا ہے اور اس علم کی سند ملتی ہے لیکن ایک علم وہ بھی ہوتا ہے، جو صحبتوں سے حاصل ہوتاہے۔اس کی سند ،وہ مشاہدہ ہوتا ہے جو ہماری تما م زندگی پر محیط ہے ،جو ہماری شخصیت اور کردار میں جھلکتا ہے۔''

اسی رخ پر ہم اور باریکی سے اگر زندگی کا جائزہ لیں، تو ہمیں یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ زندگی ہمیں کئی روابط عنایت کرتی ہے ،ان میں سے کچھ تو خونی رشتے ہوتے ہیں جو ہم چاہیں یا نہ چاہیں ،ہماری زندگی میں موجود ہوتے ہیں لیکن کچھ رشتے ہمیں قدرت عطا کرتی ہے ،اُن رشتوں کو ہم زندگی کی بھیڑ میں سے چُنتے ہیں ۔یہ رشتے ہمارا رویہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ان روابط کو ہم ساری زندگی اوڑھ کر اپنے خواب اور آرزو کے سفر پر گامزن رہتے ہیں ۔


اس طرح انسان کئی رنگوں میں زندگی گزارتا ہے ۔اس کی آنکھ زندگی کو دیکھنے کے لیے کئی زاویے مرتب کرتی ہے ،لہذا سیکھنے کا عمل ختم ہونہیں سکتا مختلف رنگوں میں انسان کی زندگی بسر ہوتی ہے اور انسان کو ان رنگوں کو سمجھ کر ایک دوسرے کے لیے خوشی اور غم کا ساماں کرتا ہے ۔بقول خلیل جبران''اگر تم نے اپنے دوست کو اُس کے ہر رنگ میں نہیں پہچانا تو یاد رکھو ،تم اس کو اب سمجھتے ہو نہ آیندہ کبھی سمجھ سکو گے''

دراصل ہماری غورو فکر کرنے کی عادت ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ہم بہت زیادہ گہرا ئی سے زندگی کو سوچنے کے عادی نہیں رہے ۔ہم سستے اور مادی جذبات کے زیرِ اثر اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں اور ہم ابھی جس طرزِ فکر کی بات کررہے ہیں ،آج کے تیز رفتار اور عملی دور میں اس طرح کی باتیں پاگل پن لگتی ہیں ۔ہم ایک لفظ کی گہرائی میں اتر کر اس کی معنویت کی تہہ میں نہیں اترنا چاہتے ۔ہم صرف وہ دیکھنا چاہتے ہیں جو ہمیں دیکھنے کی خواہش ہے، ہماری تمناؤں میں ہماری ''انا''کا عکس جھلکتا ہے ۔یہ انا اگر کسی رشتے میںشامل ہو جائے تو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح لوہے کو زنگ کھا لیتا ہے ۔بقول احمد ندیم قاسمی۔

یہ معجزہ ہے میری انا کا
آندھی میں چراغ جل رہا ہے

اس شعر میں انا کا دوسرا رنگ ہے ۔ہم یہی بات کررہے ہیں کہ اگر ہم زندگی اور لفظوں کو دیکھنے کے زاویے طے کرلیں تو شاید بہت سی منفی باتیں بھی ہمارے لیے مثبت ہو جائیں گی ۔ہمیں اپنی سوچ کو ایک مدار پر مرکوز کریں تو بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں ایک آئینہ چاہیے جس میں ہمیں سچ اور جھوٹ کی شکل دکھائی دے ،وہ آئینہ فریب نہ دیتا ہو،ایسا آئینہ ہو جو ہمیں ضمیر سے مکالمہ کروائے ،جی ہاں ،وہی ضمیر جو ہماری زندگیوں سے عنقا ہوچکا ہے ۔

ہمارے گھروں اور ہمارے دل میں لگے ہوئے آئینوں میں اب سب کچھ دھندلا ہے ورنہ ہم زندگی اس ڈھب پر نہ گزارتے ،جس طرز پر اب گزر رہی ہے ۔زندگی کے اس موڑ پر آکر ہمیں پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ،یا جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ ہم عملی طور پر اپنی زندگی میں شامل نہیں کر پائے ،تو سیکھنے کی چاہت اور شعور کا سفر رائیگاں ہوا اگر ہم نے اپنی سوچ کے ثمر سے انسانیت کا بھلا نہیں کیا ،اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لیے مسرت دریافت نہ کی اور اپنے پیچھے آنے والوں کو راستہ نہیں دکھایا ، تو ہم جوابدہ ہونگے۔

بہت سارے سوال ہمارے رویوں پر اٹھتے ہیں، اگر ہم غور کریں۔ان گنت سوال ہماری تربیت اور ہمارے شعور کا تعاقب کرتے ہیں ،اگر ہم پیچھے مڑکر دیکھیں، مگر ہمیں تو پتھر کاہو جانے کا خوف ہے ۔زندگی کو کئی زاویوں سے دیکھنا ہے اور وقت کا آئینہ ہمارے سامنے ہے ،عمر رواں میں بناوٹ کا سنگھار کرتے ہوئے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آئینے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔
Load Next Story