آنسو بھی خشک ہوجائیں گے
’’اماں تمہارے زمانے میں ڈاکو کیسے ہوتے تھے۔‘‘<br />
’’اﷲ معاف کرے میں نے کبھی دیکھا تھوڑی ہے اور نہ ہی اﷲ دکھائے۔‘‘
''اماں تمہارے زمانے میں ڈاکو کیسے ہوتے تھے۔''
''اﷲ معاف کرے میں نے کبھی دیکھا تھوڑی ہے اور نہ ہی اﷲ دکھائے۔''
''پھر بھی اماں سنا تو ہوگا۔''
''ہاں منہ پر ڈھاٹے باندھے ہوتے تھے بڑی بڑی مونچھیں، لمبے چوڑے بندوقیں، گھوڑے پر سوار دیکھ کر خوف آتاتھا۔''
''اماں منہ کیوں ڈھانپ کر آتے تھے۔''
بھئی پہچانے جانے اور قانون کا خوف ہوتا تھا کہ پکڑے نہ جائیں۔''
''مگر اماں آج کل تو ڈاکو بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ہلکے پھلکے کم عمر منہ کھلے اسکوٹر پر آتے ہیں۔''
''ظاہر ہے نا پہچانے جانے کی شرم ہے اورنہ ہی قانون کا خوف۔''
''اماں قانون کہاں ہوتاہے''
''کہیں نظر آیا تو بتادوںگی''
''واہ اماں کیا فقرہ پھینکا ہے۔ بس کیچ آؤٹ نہ ہوجائے۔''
''اے بی بی کیچ ہٹادو تو صرف آؤٹ رہ جاتاہے۔''
''اے اماں یہ ان اور آؤٹ کا کھیل بھی دلچسپ ہوتاہے۔''
''بی بی ہمیں تو صرف آؤٹ ہی آؤٹ نظر آرہاہے۔''
''اماں تمہاری باتوں سے تو لگتاہے کہ بڑے بڑے کھلاڑی تمہارے آگے پانی بھرتے ہیں...''
''اگر پانی چلو بھر ہوا تو؟...''
''اگر شاطر کھلاڑی پانی پانی ہوگیا تو؟''
''دونوں صورتوں میں ڈوبنے کا خطرہ ہے۔''
''مجھے تو ہر طرف خطرہ ہی خطرہ نظر آرہاہے۔''
''اندرونی یا بیرونی''
''اماں اندر ہو یا باہر بندہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ روز ایک بساط بچھائی جاتی ہے، بازی لگتی ہے۔ مہروں کی جگہ بدلی جاتی ہے۔''
''کہتی تو صحیح ہو۔ مہرے ہوں یا کٹھ پتلیاں سب کھیل ایک جیسے لگتے ہیں سب میں بیرونی ہاتھ کا استعمال ہوتاہے۔''
''اماں یہ بیرونی ہاتھ اندرونی ہاتھ کیا ہاتھوں کی قسمیں بڑھتی نہیں جارہی ہیں۔''
''یوں کہوں کہ استعمال بھی بڑھتا جارہاہے۔''
''ارے ہاں استعمال اور بڑھنے سے یاد آیا گھریلو استعمال کی چیزیں اور خاص طورپر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ سمجھو آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔''
''اے بی بی زمین پر تو کوئی ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں، مجبوراً اب آسمان سے باتیں نہ کریں تو کیا کریں۔''
''اماں مجھے تو ڈر لگتاہے اگر زمین کی آہ و زاریاں سن کر زمین وآسمان کے مالک کو غصہ آگیا تو ہم سب اپنی حرکتوں کے ساتھ اس کے غضب سے کیسے بچیں گے؟''
''ارے زمین انسانوں کے اعمال سے لرز رہی ہے، پہاڑوں کا کلیجہ پھٹ رہا ہے، مگر انسان کا دل نہیں کانپتا۔''
''اماں دل ہو تو کانپ بھی جائے۔ دل کی جگہ پتھر جو رکھ لیاہے۔''
''اچھا یہ دل اور پتھر کی کہانی چھوڑو یہ بتاؤ کہ ڈی فریزر میں قربانی کا گوشت کچھ بچا یا ختم ہوگیا۔؟''
''اے اماں تم نے تو پوری گائے ہی ڈی فریزر میں سمیٹ لی۔ کچھ غریبوں کو بھی دے دیا کرو۔ سمیٹ سمیٹ کر امیر امیر ترین ہورہے ہیں، غریب غریب ترین سچ اماں تمہاری حرکتیں بھی خوب ہیں۔''
''دیکھو میرا منہ نہ کھلواؤ غریبوں سے صرف زبانی ہمدردی ہے۔ زبان کا کیا ہے خرچ کرنے میں کوئی پیسے تھوڑی لگتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر گنوارہی ہو۔ چار غریب بچوں کو پڑھادیا کرو تو صدقہ جاریہ ہے۔''
''کیوں بھائی تم کیوں بیروزگاروں کی تعداد بڑھانا چاہتی ہو۔''
''اے لو پڑھائی کا، بیروزگاروں سے کیا تعلق۔''
''تمہیں نہیں پڑھے لکھے بیروزگاروں کی تعداد نظر آرہی ہے؟ مزید بچے پڑھ لیں گے تو کون سا تیر مارلیں گے۔''
''مجھے لگتاہے اﷲ نے تمہیں بھی کچھ دماغ دے دیا۔ جب ہی تو کبھی کبھی ٹھکانے کی بات کرجاتی ہو۔''
''اماں ٹھکانے کی بات نہیں ڈھنگ کی بات اردو ایسے بولتی ہو جیسے کوئی کیل ٹھونک دی ہو دماغ میں۔''
''اپنی اردو کی خیر مناؤ صبح مجھ سے دعاؤں کی جگہ بول رہی تھیں کہ اماں آشیر باد دے دو، میرے بچپن پر اعتبار کرو اماں چنتا نہ کرو۔''
''میری بھولی اماں میں تو مذاق کررہی تھی۔ ویسے اماں اپنی زبان کی خوبی دیکھو سارے لفظ ایسے سمیٹ لیتی ہے جیسے اپنی ہی زبان کا حصہ ہوں۔''
''اپنی زبان کی قدر تو اہل زبان ہی کرسکتے ہیں۔ بے چاری قومی زبان ناقدری کا شکار ہورہی ہے۔ قومی زبان اور قومی اتحاد کا آپس میں خاص تعلق ہے۔ ناسمجھ نہیں سمجھ پاتے۔''
''اماں پوری قوم ہی ناقدری کا شکار ہے۔ کس کس کا رونا روئیں۔''
''ڈرو اس وقت سے جب آنسو بھی خشک ہوجائیں گے اور ہم احساس زیاں سے بھی محروم ہوجائیں گے۔''