قائد اعظم کشمیر میں جنگ بند کرنے کے خلاف تھے
عالمی طاقتوں نے کسی نہ کسی بہانے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی
( قسط نمبر 3)
اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ہی 24 اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا، اور پھر اس کے تین ماہ نو دن بعد 2 فروری 1946 کو اس کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سیکرٹری جنرل ناروے کے ٹریگولی Traygve Lie منتخب ہوئے جو اس عہدے پر 10 نومبر 1952 تک فائز رہے، اِن کے دور میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملد ر آمد شروع ہوا اور بتدریج غلام یعنی نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ملک سیاسی طور پر آزاد اور خود مختار ہو کر اقوام متحددہ کے رکن بھی بننے لگے۔
یہ زمانہ یا دور پوری دنیا کے لیے بہت عجیب سا تھا ایک جانب دنیا کی 3% سے زیادہ آبادی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اور جسمانی طور پر اس سے دگنی آبادی زخمی اور معذور ہوئی تھی، 6 اور9 اگست 1945 کو دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم جیسا ہتھیار استعمال ہو چکا تھا، جرمنی، فرانس ، برطانیہ، روس سمیت پورا یورپ اور ایشیا میں جاپان، ہانگ کانگ، برما اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ملکوں کے شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے، چین سمیت کچھ ملکوں میں کنٹرول میں نہ آنے والی آزادی کی مسلح تحریکیں بڑی قوتوں کے لیے چیلنج بن گئی تھیں، اب ایک جانب خصوصاً مغربی یورپ اور جاپان کی تعمیرنو کا عمل تھا جس کو نہایت تیزرفتاری سے اور مختصر عرصے یعنی دو تین برسوں میں مکمل کرنا تھا تاکہ اِن ملکوں کے عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور پوری دنیا کو یہ یقین بھی دلانا تھا کہ اقوام متحد ہ کا ادارہ واقعی دنیا میں امن قائم کر دے گا اور اب دنیا میں کوئی عالمی جنگ نہیں ہو گی۔
یہ پوری دنیا کی سیاست، اقتصادیات، معاشیات اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لیے ایسا تھا جیسے کسی پرانی عمارت کو گرا کر وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے تمام اندیشوں اور امکانات کو مدِنظر رکھ کر نئی مضبوط اور پختہ عمارت تعمیر کے مرحلے میں ہو چونکہ اُسی وقت نو آبادیاتی قوتوں نے اپنے سیاسی اقتصادی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر اِن غلام ملکوں کو آزاد کر نے کا سلسلہ شروع کیا تھا، یورپ کی تقریباً 90% اور باقی دنیا کی تقریباً 30% آبادی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دوسری جنگ عظیم سے متا ثر ہوئی تھی، یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری عالمی صورتحال میں پوری دنیا کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی حیثیت ایک ری ہیبلی ٹیشن سنٹر یعنی بحالی و آباد کاری کے مرکز کی سی تھی جس طرح قدرتی آفات کی تباہی اور بربادی کے ساتھ ساتھ اِن قدرتی آفات کے بعد اس کے کچھ یا قدرے مثبت پہلو یا امکانات بھی ہوتے ہیں جیسے سیلاب سے کسی ملک میں تباہی تو آتی ہے مگر سیلاب زمینو ں پر مٹی کی نئی تہہ بچھا کر زیادہ زرخیز کر دیتے ہیں۔
جھیلوں، ندی نالوں کو صاف کر دیتے ہیں جیسے زلزلے ، طوفان، قحط، وبائی امراض تباہی مچاتے ہیں تو ماہرینِ علمِ آبادیات بڑی آبادیوں کے لیے اِن قدرتی آفات کو پازیٹو چیک بھی کہتے ہیں کہ اِن قدرتی آفات کے بعد کسی خطے اور اس پر قائم معاشرے میں آبادی کے اچانک کم ہونے سے بچ جانے والی آبادی اور وسائل میں بہتر توازن قائم ہو جاتا ہے اور یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ ایسے متاثرہ خطے اور اس پر قائم معاشرے میں اصلاحات اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر نو کی جائے۔ یوں جنگ ، خانہ جنگیاں اور انقلابات بھی انسانی آبادیوں کے لیے غیر قدرتی آفات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے جہاں بے پناہ تباہی و بربادی ہوتی ہے وہاں ساتھ ہی یہ امکانات بھی ہوتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوںاور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ اور تباہی سے بچ جانے والی آبادیوںکا حوصلہ بھی بحال کیا جائے اور اِن میں حب الوطنی کے جوش وجذبے کے سا تھ آ گے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عزم پیدا کیا جائے۔
ایسی ہی صورت پہلی عالمی جنگ سے لیکر 21 سال بعد ہونے والی چھ سالہ نہایت تباہ کن دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی تھی، یوں اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیات جتنی بڑی اور جتنی زیادہ تعداد میں اُ س وقت دنیا بھر کے ملکوں اور قوموں میں بطور لیڈر پیدا ہوئیں، اُتنے بڑے اہم لیڈر اتنی بڑی تعداد میں دنیا کی تاریخ کے کسی ایک دور میں کبھی نہیں ملتے۔ یوں یہ تمام لیڈر بھی اہم تھے توساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اُس وقت دنیا کے
حالات بھی ایسے تھے کہ جس کی وجہ سے دنیا میں یہ بڑی شخصیات اور لیڈر بیک وقت اور بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، اِن میں جہاں امریکہ کے روز ویلٹ، برطانیہ کے چرچل، روس کے اسٹالن، فرانس کے ڈیگال اہم تھے وہیں نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے غلام ملکوں کے لیڈر بھی کہیں زیادہ اہم تھے جن میں مارشل ٹیٹو، بن بلا، سیکارنو، قائد اعظم محمد علی جناح ،مون داس کرم چند گاندھی، پنڈت جواہرلال نہرو،غازی امان اللہ خان، ماؤزے تنگ،چواین لائی،جمال عبدالناصر وغیرہ شامل ہیں۔ ان رہنماؤں نے اپنی غیر معمولی فہم و فراست، جذبہ حُب الوطنی اور انتھک محنت کی بدولت اپنی اقوام کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لیے مثالی جدوجہد کی۔
ان کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ انہیں ذہنی طور پر پسماندہ اور پچھڑی ہوئی قوموں کو جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ اس میں کسی لیڈر کو پوری کامیابی حاصل ہوئی تو کسی کو پچاس فیصد سے اسی فیصد کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آزادی حاصل کرنے میں جب یہ لیڈر شپ کامیاب ہو گئی تو اِن ملکوں اور قوموںکو اِن کے فوراً آنے والی لیڈر شپ اس معیار اور وقار کی نہیں ملی جو ملک و قوم کو ملنے والی آزادی کو مستحکم اور مضبوط کر سکتی کہیں تو یہ صورت خود ہی موجود تھی اور کہیں آزادی حاصل کرنے والی لیڈر شپ کو قتل کروا دیا گیا اور اس کے بعد نو آزاد ترقی پزیر ملکوں کو اپنے اقتصادی معاشی جال میں گرفتار کر کے اقتصادی نو آبایاتی نظام میں جکڑ لیا گیا۔ ہمارے ہاں اس صورتحال کو آزادی کے وقت کے نو جوان شاعرمحسن بھوپالی نے یوں بیان کیا تھا۔
نیرنگیِ سیاستِ دوران تو دیکھئے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
اُس وقت اگرچہ بڑی قوتوں نے اپنی کامیاب کوشش کی اور سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو نے والے ملکوں کو اپنے اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں جکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ خود کو بھی مضبوط کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی اور اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا تو چین ، پاکستان ، بھارت، مصر،انڈو نیشیا،ملائشیا، شام ، عراق، ایران ، سوڈان ، سعودی عرب، تیونس ، یمن ، ایسے ملک تھے کہ اگر یہاں کے عوام باشعور ہوتے، شرح خواندگی زیادہ ہوتی اور قیادت تسلسل کے ساتھ بہتر انداز کی میسر آتی تو صورت بہتر ہوتی۔
اِن ملکوں میں پہلے نمبر پر مکمل آزادی ، خودمختاری اور خود انحصاری کے لحاظ سے چین اہم رہا اور اُس نے جلد ہی دنیا بھر میں اپنے آپ کو مکمل آزاد،خود مختار اور خود انحصار ملک کی حیثیت سے تسلیم کر وا لیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت اور قدرے آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ایک ایسا بڑا ملک رہا جس کے مستقبل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ملک اگر ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر کر لے گا تو نہ صرف دنیا کااہم ملک بن جائے گا بلکہ وہ علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اِن ملکوں کے بلاک کی بنیاد پر اس دنیا میں عالمی سطح کی مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔
حکمت و دانائی کے لحاظ سے برصغیر کی اس اہمیت کو 1916 ہی میں قائداعظم نے سمجھ لیا تھا لیکن ہندو مسلم اتحاد کو آل انڈ یا کانگریس اور خصوصاً پنڈت موتی لال نہرو نے بہت نقصان پہنچایا، اور پھر 14 اور15 اگست 1947 کو برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت آزاد ملک کہلائے اور اس سے تقر یباً دو سال قبل اقوام ِ متحدہ کا ادارہ تشکیل پا چکا تھا۔
1946 تک تو اقوام متحدہ نے ابتدائی کام شروع کیا لیکن ساتھ ہی پہلے پہلے آزاد ہونے والے بڑے اور اہم ملک جو برطانیہ کی نوآبادیات تھے اِن کی آزادی کے مراحل ہی میں قتل و غارت گری، خانہ جنگی اور پھر جنگوں کی صورتحال پیدا ہو گئی، برطانوی نوآبادیات میں برطانیہ کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا برصغیر جس کو انگریز سونے کی چڑیا کہتے تھے۔
یہاں انگریزوں نے 1945-46 کے موسم سرما میں گیارہ صوبائی اسمبلیوں اور ساتھ ہی مرکزی یا سنٹرل اسمبلی کے لیے جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کروائے جن میں صوبائی سطح پر مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر 90% اور مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100% کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں اِن انتخابات کی بنیاد پر آزادی سے قبل مشترکہ ہندوستان میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کے وزیر اعظم آل انڈیا کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو ہوئے اور باقی کابینہ میں مسلم لیگ اور کانگریس کے وزرا شامل تھے جن میں مسلم لیگ کی طرف سے اہم وزیر یعنی وزیر ِ خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان تھے اور کانگریس کی جانب سے اہم وزیر ِ داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے۔
برصغیرکی مجموعی آبادی آزادی سے قبل چالیس کروڑ سے کچھ زیادہ تھی، 1914 ء میں جب جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی تو برصغیر میں انگریز مقامی آبادی کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھے اور اِن کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تھی اور برصغیر میں اِن انگریزوں نے بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود جس حکمت و دانائی سے چالیس کروڑ کی آبادی پر حکومت کی اس میں دو چیزیں اہم تھیں، ایک مقامی چالیس کروڑ آبادی کو تقسیم کرو، لڑاؤاور حکومت کرو، دوسرا برصغیر کا جاگیردارانہ نظام تھا جو بہت مستحکم انداز میں انگریزوں کو مغلوں کی حکومت ہی سے ملا تھا اور اس جاگیردارانہ نظام کو انگریزوں نے اپنے طور پر اپنے حق میں زیادہ بہتر انداز میں تبدیل بھی کیا تھا، افغان، ترک اور مغل جب سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے برصغیر آئے تو اِن حملہ آور بادشاہوں کی اپنی با قاعدہ فوج سے کہیں زیادہ قبائلی لشکر اِن کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔
یوں جب یہ بادشاہ ہندوستان کو فتح کر لیتے تھے تو اِن کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بڑی فوج تو مرکز یعنی دارالسلطنت میں رہتی تھی اور کچھ دستے ہر صوبے میں صوبائی گورنرکی ماتحتی میں ہوا کرتے تھے، جب کہ باقی قبائلی لشکر کی صورت یوں ہوتی تھی کہ اِن کے سرداروں کو اِن کے قبائلی لشکرکی تعداد کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہوئے بڑے بڑے رقبوں پر مشتمل علاقے جاگیر کی صورت میں الاٹ کر دئیے جاتے تھے اور یہ قبائلی سردار یہاں ان ریاستوں کے نوابین، راجے، مہاراجے، اور خوانین کہلاتے تھے، جہاں تک صوبوں کے گورنروں کا تعلق ہوتا تھا تو وہ اکثر و بیشتر بادشاہ کے خاندان کے قریبی رشتہ دار ہوا کرتے تھے، یوں شہزادے یا بادشاہ کے بھائی، چچا وغیرہ کو گورنر بنایا جاتا تھا، جاگیرداروں کی جاگیریں بنیادی طور پر بادشاہ کی جانب سے الاٹ کی جاتی تھیں اور ریاستوں کے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہوا کرتی تھیں یعنی مغلوں کے دور ِ حکومت تک زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا بلکہ زمین مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھی اور بادشاہ کے پاس یہ اختیار ہوا کرتا تھا کہ وہ جب چاہے جاگیردار نواب یا راجہ، مہاراجہ سے ریاست واپس لے کر اُسے بے دخل کر دے اور ایسا عموماً اُس صورت میں ہوا کرتا تھا جب کسی جاگیردار کی وفاداری پر شبہ ہوتا یا کوئی ریاستی حکمران بادشاہ کے خلاف بغاوت کرتا، یوں اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو وہ بادشاہ بھی بن سکتا تھا۔
جیسے بنگال کی ایک جا گیر سراسرم کے جاگیر دار کا بیٹا شیر شاہ سوری مغل بادشاہ ہمایوں کا تخت و تاج لینے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر جب تک جاگیردار باد شاہ کا وفادار رہتا جاگیر اُس کے پا س رہتی اور اُس کے وفات پا جانے کی صورت میں اُس کے بڑے بیٹے یعنی ولی عہد کو مل جاتی۔ مغلوں کے عہد میں کچھ جاگیردار نواب تو وہی تھے جو بابر کے ساتھ ہندوستان کی فتح میں شریک تھے پھر کچھ ہند و راجے، مہاراجے تھے جو اپنی مقامی قوت کے اعتبار سے اہم تھے اور کچھ ہندو مسلمان اہم مذہبی شخصیات تھیں جن کو مقامی آبادی پر اِن کے اثر اور قوت کی وجہ سے جاگیریں الاٹ کی گئی تھیں اور اِن سب کے لیے بنیادی شرط بادشاہ سے وفاداری تھی۔
مغلیہ دورِ حکومت میں یہ جاگیردار اپنے لشکر کی بنیاد پر اپنی جاگیر میں امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے تھے، وہ وہاں رعا یاسے زرعی پیداوار پر بادشاہ کے حکم سے لگان اور صنعت و تجارت پر ٹیکس وصول کرتے، اس کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت یعنی بادشاہ کو بھیجا جاتا، ایک حصہ ریاست کا نواب یا راجہ اپنی مقامی فوج کی تنخواہوں ٹرینگ اور ہتھیاروں پر خرچ کرتا اور خود اور اس کا خاندان بادشاہ کے علاقائی نائب کی حیثیت سے شاہانہ انداز سے خرچ کرتا تھا اور جب کبھی بادشاہ کو اس کی فوج کی ضرورت ہوتی تو وہ با دشاہ کے وفادار مقامی حکمران کی حیثیت سے اپنی مقامی فوج کو اپنی کمانڈ میں لے کر پہنچ جاتا۔
انگریز ہندوستان میں1757ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اُس کے غدار وزیر میرجعفر کی مدد سے شکست دیکر بنگال میں اپنی حکمرانی کی بنیاد قائم کر چکا تھا تو وہاں لارڈ کلائیوکی نگرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوئی تھی جو تاجِ برطانیہ کی تابعدار اور وفادار تھی اُس وقت بھی مرکزی مغلیہ حکومت کمزور ہو چکی تھی اور جاگیر دار اس مرکزی حکومت کو صرف علامتی طور پر ہی ہندوستان کی شہنشاہیت کے طور پر تسلیم کرتے تھے اور کوئی نواب یا راجہ اگر خود چاہتا تو از خود کچھ رقم بادشاہ کی نذرکردیا کرتا تھا، یوں بنگال، میسور اور حیدر آباد سمیت کئی ایسی ریاستیں تھیں جن کے راجہ خودمختار تھے ہندوستان میں ہندو پہلی بڑی اکثریت اور مسلمان دوسری اکثریت تھے اور مجموعی طور پر ہندوستان کی آبادی میں ہند وآبادی کا تناسب 70% اور مسلمان آبادی 30 فیصد تھی مگر صدیوں کی مسلم حکومتوں کے دور اقتدار میں ہندو مسلم برداشت اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔
انگر یز چونکہ اُس وقت ہند وستان میں آیا تھا جب علم و تحقیق کی بنیاد پر اہل مغرب اور خصوصاً انگریز دنیا میں بہت آ گے نکل چکے تھے اس لیے اِن کے حکومتی اور انتظامی امور بھی ٹیکنالوجی اور سائنسی برتری کے تابع تھے، یوں انگریزوں نے ہندوستان میں آتے ہی اس ملک کے سماج، تہذیب،آبادی کے لسانی، مذہبی خدوخال اور سیاسی انداز کا تحقیقی بنیادوں پر مطالعہ کیا اور پھر یہاں معاشرتی تضادات کو اپنے مقاصد کے لیے ابھارتے ہوئے یہاں کے جاگیردارانہ نظام کواپنی ضروریات کے مطابق تبدیل کر کے استعمال کیا۔ برطانیہ جس کی نوآبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہاں برطانیہ میں تو جمہوریت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا بلکہ 1857 تک جب ہندوستان میں علامتی مغلیہ بادشاہت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تھا تو برطانیہ میں روایتی طور پر عوام میں بادشاہت کی عزت اور شان شوکت کسی طرح کم نہیں تھی۔
دوسری جانب اُس وقت برطانیہ کی جمہوریت دنیا کے لیے مثالی تھی اور جہاں تک تعلق برطانیہ کی نوآبادیات کا تھا تو ہر غلام ملک میں انگر یز سربراہ جو گورنر جنرل اور وائسرائے کہلاتا تھا اکثر و بیشتر برطانیہ کے شاہی خاندان ہی کا فرد ہوتا تھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد کی تربیت کی جاتی ہے، یہاں تک کہ آج بھی اِن کے ولی عہد اور شہزادے اعزازی طور پر اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہیں اور اہم مواقع پر فوجی یونیفارم پہنتے ہیں ، شاہی خاندان کے اہم افراد ہاوس آف لارڈ کے رکن ہوتے ہیں، یوں مقبوضہ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِحکومت میں جہاں 540 سے زیادہ ریاستیں تھیں وہاں آزادی اور تقسیم ہند کے وقت تک گیارہ صوبے بھی تھے، صوبائی اور مرکزی حکومت پر برطانوی حاکمیت کے لحاظ سے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت گو رنر جنرل کہلاتی تھی اور یہی شخصیت ریاستوں کے لیے وائسرائے یعنی برطانوی شہنشاہت کی جانب سے بادشاہ کا نائب یا نائب بادشاہ ہوا کرتا تھا۔
انگریزوں کی کل تعداد یہاں ایک لاکھ تھی یوں یہاں نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے کے ساتھ صنعتی و تجارتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نظام چلانا تھا اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں تعلیم و تکنیک کی بنیاد پر یہاں افرادی قوت تیار کی گئی ، اگر چہ اعلیٰ سطح پر انگریز ہی بیوروکریسی کے لحاظ سے فائز تھے مگر جنگ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد انگریز فوج اور سویلین افسران کی سطح پر انگریز افرادی قوت کمی کا شکار ہوئے تو ہندوستانی افسران کی کچھ تعداد بھی اس نظام میں شامل ہو گئی۔ انگریروں کی جانب سے متعارف کردہ عدالتی نظام میں بھی بطور ایڈووکیٹ اور بیرسٹر ہندوستانیوں کی خاصی تعداد تھی جو انگریز وکلا سے زیادہ تھی اور یہ وکلا برطانوی قوانین، اِن کے پارلیمانی نظام اور آئین کو بہتر طور پر سمجھتے تھے جب کہ 1885 ء میں آل انڈ یا کانگریس اور پھر 1906 ء میں مسلم لیگ کے قیام سے ہندوستان کے خصوصاً غیر ریاستی علاقوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ قائداعظم نے جنگ عظیم اوّل کے دوران یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریز چاہے یہ جنگ جیتے یا ہارے ہر دوصورتوں میں تاج برطانیہ کی حکمرانی جو دنیا کی چوتھائی آبادی اور رقبے پر قائم ہے اِس پر اس کی گرفت کمزور ہو جائے گی اور اگر ہندوستان میں حقیقی اور منطقی ہندو مسلم اتحاد آئینی ضمانت پر قائم ہو جاتا ہے تو انگر یز کو ہندوستان سے نکالا جا سکتا ہے۔
یوں قائد اعظم کی کوششوں سے 1916 ء میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوئے اور اس میں دونوں جماعتوں کے درمیان لکھنو پیکٹ ''میثاق جمہوریت'' طے پایا۔ اس معاہدے میں مسلم لیگ کے جداگانہ طریقہ انتخاب اور مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ سمیت مسلم آبادی کے تناسب کی بنیاد پر معاشی و اقتصادی فارمولے کو بھی قبول کر لیا گیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اگر کانگریس اس معاہد ے پر قائم رہتی تو ہندوستان مشترکہ طور پر اور بہت پہلے آزاد ہو جاتا لیکن کانگریس نے یہ معاہدہ یک طرفہ طورپر 1928 ء میں تو ڑ دیا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے 1929 میں چودہ نکا ت پیش کر کے ایکبار پھر اس معاہد ے اور ہندو مسلم اتحاد کو بچانے کی کو شش کی مگر نا کام رہے اور پھر انہوں نے علامہ اقبال کی بات کو سمجھتے ہوئے قیام ِ پاکستان کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔
پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک عالمی سیاسی ،اقتصادی،صورتحال میں کا فی تبدیلی آچکی تھی جس کے پیش ِ نظر انگریز ہندوستان میں احتیاط سے معاملات کو آگے بڑھا رہا تھا، اُسے ہندوستان کی ہندو اکثریت کے دباؤ کا بھی سامنا تھا اور مسلم اکثریت کا بھی خوف تھا کیونکہ یہ بھی کل آباد ی کا 30 فیصد تھی اور یہ اکثریت برصغیر میں افغانستا ن ، ایران، چین اور برما کی سرحدوں کے نزدیک تھی، یوں انگریز نے پہلی کوشش یہ کی کہ کسی طرح برصغیر کی تقسیم سے قائد اعظم کو باز رکھا جائے اور جب برطانوی سرکار کو یہ یقین ہو گیا کہ قائد اعظم کسی صورت اس پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اُنہوں نے برصغیر کے بارے میں اس کی تقسیم کی بنیاد پر اپنے منصوبے کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق جلد از جلد طے کر نے کی حکمت عملی بنائی اور واقعات اور حالات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور انگر یز نے یہ طے کیا تھا کہ تقسیم اتنی جلدی اور ایسی کی جائے کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی حیثیت سے ابھرنے والا پاکستان ناکام ہو جائے۔
مارچ 1947 ء کو ہندوستان سے لارڈ ویول رخصت ہوا تو اُس کی جگہ لارڈ ماونٹ بیٹن آخری گورنر جنرل اور وائسرائے بن کر ہندوستان آیا اور 3 جون 1947 ء کو تقسیم ہند اور پاکستان اور بھارت کی آزادی کے منصوبے کا اعلان کردیا، جب کہ اِس منصوبے کی تفصیلات کی حتمی اور قانونی شکل 18 جولائی 1947 ء کو برطانوی پارلیمنٹ میںقانون آزادیِ ہند کے عنوان سے پاس ہونے والا قانون تھا۔ اس سے قبل ہندوستان میں آئینی حیثیت کا حامل قانون ہند 1935 ء بھی برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔ اس قانون کے ساتھ ہی قانون آزادی ہند کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کے تمام امور طے کئے گئے جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کو 14 اور15 اگست 1947 کو دو الگ ملکوں کی حیثیت دے دی جائے گی اور پہلے سال ان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی ہو گی اور قانون ہند 1935 ہی نافذالعمل رہے گا۔
اُس وقت بطور نئی اور الگ الگ ریاست کے قانون ِآزادی ہند کی روشنی میں 1935 کے قانون ہند میں ضروری ترمیم کر لیں مگر یہ ترمیم بھارت یا پاکستان کی پارلیمنٹ ایک سال تک نہیں کر سکے گی، اُس وقت تک اگر کوئی ترمیم کر نی ہوئی تو وہ صرف گورنر جنرل کرے گا۔ واضح رہے کہ بھارت کا گورنرجنرل لارڈ ماونٹ بیٹن ہی تھا اور پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ بھی واضح رہے کہ 1956 تک جب ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا، برطانیہ کا بادشاہ ہمارا آئینی سربراہ تھا اور اس کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ ہماری آئینی سربراہ اور ملکہ ہو گئی۔ البتہ بھارت نے آزادی کے ایک سال بعد اپنا آئین بنا لیا تھا۔
ہندوستان کی 540 سے زیادہ ریاستوں کے حوالے سے 18 جولٗائی1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اِن کے حکمران اپنی ریاستوں کی سرحد ی قربت اور عوام کی اکثریت کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے، اسی طرح ہندو مسلم اکثریت کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ تھا، بلوچستان کے لیے کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین اور شاہی جرگہ کے اراکین نے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا جب کہ مشرق پاکستان میں سلہٹ ضلع میں اور کے پی کے میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا کہ یہ علاقے بھارت یا پاکستان میں شامل ہوں اور سندھ کے لیے یہ طے پایا تھا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت یہ فیصلہ کرے گی۔
قائد اعظم اپنے وژن کی بنیاد پر یہ جان گئے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے لیکن اُن کے پاس وقت بہت کم تھا اُن کے معالج ڈاکٹر پاٹیل نے اُنہیں بتا دیا تھا کہ ٹی بی کی بیماری اُن کے پھیپھڑوں کو تباہ کر چکی اور موت نزدیک ہے، اس راز سے صرف ڈاکٹر پاٹیل، فاطمہ جناح اور خود قائد اعظم واقف تھے، قائد اعظم کو ادراک تھا کہ اُن کے بعد پاکستان کو آزاد کرانا مشکل ہو جائے گا، وہ اس کے لیے اپنی اسٹرٹیجی طے کر چکے تھے کہ اللہ اُنہیں اتنی زندگی ضرور دے گا کہ وہ اپنی زندگی یہ تاریخی فریضہ ضرور ادا کریں گے، 1941 کی مردم شماری کے مطابق مشترکہ پنجاب کی کل آبادی 28418819 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 16217242 تھی، یوں مجموعی طور پر پنجاب کی 57% آبادی مسلمان تھی اور بنگال کی کل آبادی 60306525 تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی33005434 تھی اور یہاں بھی مسلمان آبادی 54.73 فیصد تھی لیکن مشرق پنجاب میں سکھ اورہندو قدرے اکثریت میں تھے۔
جب اِ ن دونوں صوبوں کی تقسیم آبادی کی اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ ہوا تو قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ 1946 جنوری تک ہو نے والے مشترکہ ہند وستان کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ قومی حکومت تشکیل پائی ہے اُس میں وزارت ِداخلہ کانگریس کے نہایت متعصب ہندو لیڈر ولب بھائی پاٹیل کو دی گئی ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو گی، یوں قائد اعظم نے یہ تجویز دی کہ یہ تقسیم اقوام ِمتحدہ کے تحت کرائی جائے اور جب اس تجویز کو رد کیا گیا تو قائد نے یہ کہا کہ پنجاب کی تقسیم لندن کی پریوری کونسل کرے مگر اس کے لیے ریڈ کلف کو برطانوی حکومت نے تعینات کیا اور پھر اس تقسیم میں سازش کے تحت مشرقی پنجاب کے گورداسپور، فیروزپور اور زیرہ کے مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دے دیئے گئے اور سردار ولب بھائی پاٹیل نے سکھوں اور ہندوںکے جتھوں کے ذریعے فوراً ہی یہاں فسادات کرائے اور مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کروایا کہ یہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر پاکستانی پنجاب میں دھکیل دیا جائے۔
یہ اس لیے بھی کیا گیا کہ یہاں پانی کی تقسیم کے مادھوپور ہیڈ ورکس اور فیروز پور ہیڈ ورکس پر قبضے سے پاکستان کو جانے والے دریائی پانی پر کنٹرول حاصل کیا جائے اور ایک اور اہم وجہ تھی کہ کشمیر کو بیرونی دنیا کو ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں، یہاں مشرقی پنجاب میں اِن مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرنے سے پٹھان کوٹ سے ایک نیا اور مصنوعی راستہ بھارت کو فراہم کر دیا گیا، اور اس کے بعد جب پاکستان اور بھارت آزاد ہوگئے تو کشمیر جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یہاں مسلمانوں نے تحریک چلائی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے، اس پر بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ پر دباؤ ڈال کر ایک خاص منصوبے کے تحت کشمیر کا بھارت سے الحاق کروا دیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ 18 جولائی1947 کے قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی تقسیم کروانے والے لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے بطور بھارت کے پہلے گورنر جنرل اس معاہدے پر دستخط کر دئیے، البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھی بعد میں اس مسئلے پر کشمیر یوں کی مرضی معلوم کر نے کے لیے رائے شماری کی تجویز دی تھی لیکن اصول اور قانون کے مطابق لارڈماوئنٹ بیٹن نے غلط کیا تھا کیونکہ قانون آزادی ِہند واضح تھا کہ ریاستوں کے حکمرانوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ اپنے عوام کی مرضی اور ریاست کی سرحد ی قربت کو مدِنظر رکھ کر ہی حکمران یہ فیصلہ کر یں گے کہ ریاست کا الحاق پاکستان یا بھارت سے کیا جائے۔
بھارت نے ریاست حیدر آباد، بھوپال اور جوناگڑھ کے نوابین کے خلاف اسی بنیاد پر فوجی کار وائی کر کے اِن ریاستوں کو بھارت میں شامل کر لیا تھا کہ اِن کی آبادیوں کی اکثریت ہندو تھی اور سرحدی قربت بھی بھارت سے تھی مگر کشمیر کے اعتبار سے انگریز گورنر جنرل اور بھارت کا معیار دہرا تھا، بہرحال جہاں تک انگریز دورِ حکومت میں ریاستوں کا تعلق تھا تو کشمیر کی حیثیت بھی تاریخی لحاظ سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے مختلف تھی کہ یہ علاقہ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھوں سے جنگ میں فتح پانے کے بعد تاوان جنگ رقم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گلاب سنگھ کو 75 ہزار نانک شاہی کرنسی کے عوض فروخت کیا تھا ا س لیے یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستان 1947 کے مطابق اُس زمانے کی رقم کی قدر کی بنیاد پر ادائیگی کر کے مسلم اکثریت کا یہ علاقہ حاصل کر لیتا، بہرحال یہ مسئلہ تھا کہ اس کی بنیاد پر کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری1949 کو دونوں نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی۔
پاک فوج کے انگریز جنرل کمانڈر ان چیف جنرل سرڈ گلس ڈیوڈ گریسی 'جو اس جنگ کے خلاف تھے' تو قائد اعظم کے حکم پر میجر جنرل خورشیدانور ، کرنل شیر،کرنل اکبر خان کے علاوہ وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر نے شرکت کی اورآزادکشمیر،گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کر وا لیئے، جولائی 1948 ء کے آغاز پر قائد اعظم کی ٹی بی نہ صرف شدت اختیار کر گئی تھی بلکہ اب یہ بیماری راز بھی نہیں رہی تھی اور قائداعظم کو دارالحکومت کراچی سے دور بلوچستان کے سرد پہاڑی علاقے زیارت منتقل کر دیا گیا تھا اور پھر اسی دوران پاکستان پر بیرونی دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ یہ جنگ روک دی جائے اور کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم اس بات کو کسی صورت نہیں مان رہے تھے۔
غالباً وہ یہ جانتے تھے کہ جغرافیائی نقشے بدلنے والی تاریخی جدوجہد جب عزم و حوصلے کے ساتھ حتمی فتح کے قریب ہو تو کبھی بھی ایسی تحریک کو نہیں روکنا چاہیے کہ پرُجوش قومی اتحاد تسلسل کے ساتھ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے مصلحت کی بنیاد پر روک دیا جائے تو پھر اسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے نکلنے والے ناکام کوہ پیماؤںکی طرح پستی کی ڈھلانوں میں دفن ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، قائد اعظم کو خواہش کے برعکس ان کی وفات کے تین مہینے پچیس دن بعد 5 جنوری 1949کو پاکستان نے اقوام متحد ہ کے کہنے پر یہ جنگ روک دی۔ اس جنگ کو رکوانے کے لیے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے خود کوشش کی تھی وہ کسی طرح مہلت چاہتے تھے اور بڑی قوتیں بھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کی جانب سے مزید پیش قدمی ہو کیونکہ اس طرح اس علاقے میں اسٹرٹیجک برتری بھارت کے ہاتھوں سے نکلنے والی تھی۔
اس کے بعد 27 جولائی 1949 کو پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدہ کراچی میں ہوا جس میں ضامن اقوام متحدہ تھا جو ثالثی کا کردار اس لیے ادا کر رہا تھا کہ اس کے لیے کمیشن، یو این فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے لیے بھارت نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اصولی طور پر اقوام متحدہ کا کردار اُس وقت جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا شفاف تھا۔ اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے میجر جنرل ڈبلیو جے کاوتھون اور بھارت کی جانب سے لیفٹینٹ جنرل شیر ینگیش نے اور اقوام متحدہ کی جانب سے دو نمائندوں ہیرنانڈوسامپر اور ایم ، ڈیلوئی نے دستخط کئے تھے۔
یہ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کا سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ تھا، اور اس کا حل اس لیے آسان تھا کہ اس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کے اس حل پر متفق تھے کہ کشمیر کا فیصلہ یہاں کی مقامی آبادی اپنی مرضی سے ووٹ کی بنیاد پر اقوام متحد ہ کی نگرانی میں کرے گی۔ معاہدہ کراچی میں بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے سامنے جنگ بندی لائن کو تسلیم کر لیا تھا اور جو علاقے پاکستان کے پاس ہیں اُن میں پا کستان آج بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کروانے کے لیے تیار ہے، پاکستان 30 ستمبر 1947 کو اپنے قیام کے ایک ماہ سولہ دن کے بعد اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا اور اُس وقت اقوام متحدہ کو قائم ہوئے ایک سال گیارہ مہینے چھ دن ہوئے تھے۔
بھارت جو انڈیا کے نام سے1919 میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشن ''اقوامِ عالم '' میں برطانوی نوآبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اس کا رکن بنا تھا اس کی اسی رکنیت کے تحت 30 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کے باقاعدہ قیام کے چھ دن بعد رکن بن گیا تھا، اور اِن دونوں رکن ملکوں کے درمیان کراچی معاہدے کی ثالثی اقوام متحدہ نے کرائی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جو قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منظور ہوئیں اُس وقت اُن قرار دادوںکی حمایت سکیورٹی کونسل کے تمام ویٹو اراکین نے کی تھی اور اصول و ضوابط کے مطابق اُن قراردادوں پر عملد آمد ہونا چاہیے اور پا کستان کا موقف آج بھی یہی ہے کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی اُنہی قراردادوں کے مطابق ہو، جب کہ بھارت پہلے حیلوں بہانوں سے اِن قراردادوں پر عملدر آمد کو ٹالتا رہا اور پھر رفتہ رفتہ اِن سے منحرف ہونے لگا اور اب یہ صورت ہے کہ وہ اِن قرار دادوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور چین کے علاوہ سکیورٹی کونسل کے چاروں اراکین یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی انداز سے کشمیر کے مسئلے پر سکیورٹی کونسل میں بھارت کی ناجائز حمایت کرتے رہے ہیں۔
آخری بار اس مسئلے پر 2019 میں فرانس نے بھارتی مفاد کے حق میں فیصلہ دیا، اقوام متحدہ کے ٹیبل پر اُس کی 75 سالہ تاریخ میں مسئلہ کشمیر 71 سالہ سب سے پرانا مسئلہ ہے جو سیاست کے لحاظ سے منفی اور مفاد پرستانہ عالمی رویوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور حقوقِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، یہ عالمی ادارہ دنیا کے ممالک اور عوام کی حکومتوں پر مشتمل ہے اور اس نے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس کے ڈکلیریشن میں دنیا بھرمیں ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کی جارحیت کی شدت سے ممانعت کر رکھی ہے، اسی طرح دنیا بھر میں انسانوں کی مرضی کے خلاف ظلم و جبر کی بنیاد پر حکومت کے خلاف کاروائی کا حق اس کے چارٹر میں شامل ہے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر کے مسئلے کو اب تک حل نہیں کر پایا ہے اور اب 2020 میں اس کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر بہرحال اقوام متحدہ کو اس کا جواب بھی دینا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ ہی 24 اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کا ادارہ تشکیل پا گیا، اور پھر اس کے تین ماہ نو دن بعد 2 فروری 1946 کو اس کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سیکرٹری جنرل ناروے کے ٹریگولی Traygve Lie منتخب ہوئے جو اس عہدے پر 10 نومبر 1952 تک فائز رہے، اِن کے دور میں اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملد ر آمد شروع ہوا اور بتدریج غلام یعنی نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ملک سیاسی طور پر آزاد اور خود مختار ہو کر اقوام متحددہ کے رکن بھی بننے لگے۔
یہ زمانہ یا دور پوری دنیا کے لیے بہت عجیب سا تھا ایک جانب دنیا کی 3% سے زیادہ آبادی اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئی تھی اور جسمانی طور پر اس سے دگنی آبادی زخمی اور معذور ہوئی تھی، 6 اور9 اگست 1945 کو دنیا میں پہلی مرتبہ ایٹم بم جیسا ہتھیار استعمال ہو چکا تھا، جرمنی، فرانس ، برطانیہ، روس سمیت پورا یورپ اور ایشیا میں جاپان، ہانگ کانگ، برما اور اسی طرح افریقہ کے اکثر ملکوں کے شہر ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے، چین سمیت کچھ ملکوں میں کنٹرول میں نہ آنے والی آزادی کی مسلح تحریکیں بڑی قوتوں کے لیے چیلنج بن گئی تھیں، اب ایک جانب خصوصاً مغربی یورپ اور جاپان کی تعمیرنو کا عمل تھا جس کو نہایت تیزرفتاری سے اور مختصر عرصے یعنی دو تین برسوں میں مکمل کرنا تھا تاکہ اِن ملکوں کے عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور پوری دنیا کو یہ یقین بھی دلانا تھا کہ اقوام متحد ہ کا ادارہ واقعی دنیا میں امن قائم کر دے گا اور اب دنیا میں کوئی عالمی جنگ نہیں ہو گی۔
یہ پوری دنیا کی سیاست، اقتصادیات، معاشیات اور زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لیے ایسا تھا جیسے کسی پرانی عمارت کو گرا کر وقت کے تقاضوں اور مستقبل کے تمام اندیشوں اور امکانات کو مدِنظر رکھ کر نئی مضبوط اور پختہ عمارت تعمیر کے مرحلے میں ہو چونکہ اُسی وقت نو آبادیاتی قوتوں نے اپنے سیاسی اقتصادی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر اِن غلام ملکوں کو آزاد کر نے کا سلسلہ شروع کیا تھا، یورپ کی تقریباً 90% اور باقی دنیا کی تقریباً 30% آبادی ذہنی اور نفسیاتی طور پر دوسری جنگ عظیم سے متا ثر ہوئی تھی، یوں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پوری عالمی صورتحال میں پوری دنیا کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کی حیثیت ایک ری ہیبلی ٹیشن سنٹر یعنی بحالی و آباد کاری کے مرکز کی سی تھی جس طرح قدرتی آفات کی تباہی اور بربادی کے ساتھ ساتھ اِن قدرتی آفات کے بعد اس کے کچھ یا قدرے مثبت پہلو یا امکانات بھی ہوتے ہیں جیسے سیلاب سے کسی ملک میں تباہی تو آتی ہے مگر سیلاب زمینو ں پر مٹی کی نئی تہہ بچھا کر زیادہ زرخیز کر دیتے ہیں۔
جھیلوں، ندی نالوں کو صاف کر دیتے ہیں جیسے زلزلے ، طوفان، قحط، وبائی امراض تباہی مچاتے ہیں تو ماہرینِ علمِ آبادیات بڑی آبادیوں کے لیے اِن قدرتی آفات کو پازیٹو چیک بھی کہتے ہیں کہ اِن قدرتی آفات کے بعد کسی خطے اور اس پر قائم معاشرے میں آبادی کے اچانک کم ہونے سے بچ جانے والی آبادی اور وسائل میں بہتر توازن قائم ہو جاتا ہے اور یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ ایسے متاثرہ خطے اور اس پر قائم معاشرے میں اصلاحات اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیر نو کی جائے۔ یوں جنگ ، خانہ جنگیاں اور انقلابات بھی انسانی آبادیوں کے لیے غیر قدرتی آفات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے جہاں بے پناہ تباہی و بربادی ہوتی ہے وہاں ساتھ ہی یہ امکانات بھی ہوتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوںاور کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ اور تباہی سے بچ جانے والی آبادیوںکا حوصلہ بھی بحال کیا جائے اور اِن میں حب الوطنی کے جوش وجذبے کے سا تھ آ گے بڑھنے اور ترقی کرنے کا عزم پیدا کیا جائے۔
ایسی ہی صورت پہلی عالمی جنگ سے لیکر 21 سال بعد ہونے والی چھ سالہ نہایت تباہ کن دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی تھی، یوں اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قائدانہ صلاحیتوں کی حامل شخصیات جتنی بڑی اور جتنی زیادہ تعداد میں اُ س وقت دنیا بھر کے ملکوں اور قوموں میں بطور لیڈر پیدا ہوئیں، اُتنے بڑے اہم لیڈر اتنی بڑی تعداد میں دنیا کی تاریخ کے کسی ایک دور میں کبھی نہیں ملتے۔ یوں یہ تمام لیڈر بھی اہم تھے توساتھ یہ بھی اہم ہے کہ اُس وقت دنیا کے
حالات بھی ایسے تھے کہ جس کی وجہ سے دنیا میں یہ بڑی شخصیات اور لیڈر بیک وقت اور بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، اِن میں جہاں امریکہ کے روز ویلٹ، برطانیہ کے چرچل، روس کے اسٹالن، فرانس کے ڈیگال اہم تھے وہیں نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے غلام ملکوں کے لیڈر بھی کہیں زیادہ اہم تھے جن میں مارشل ٹیٹو، بن بلا، سیکارنو، قائد اعظم محمد علی جناح ،مون داس کرم چند گاندھی، پنڈت جواہرلال نہرو،غازی امان اللہ خان، ماؤزے تنگ،چواین لائی،جمال عبدالناصر وغیرہ شامل ہیں۔ ان رہنماؤں نے اپنی غیر معمولی فہم و فراست، جذبہ حُب الوطنی اور انتھک محنت کی بدولت اپنی اقوام کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لیے مثالی جدوجہد کی۔
ان کا ایک امتیازیہ بھی ہے کہ انہیں ذہنی طور پر پسماندہ اور پچھڑی ہوئی قوموں کو جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ اس میں کسی لیڈر کو پوری کامیابی حاصل ہوئی تو کسی کو پچاس فیصد سے اسی فیصد کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آزادی حاصل کرنے میں جب یہ لیڈر شپ کامیاب ہو گئی تو اِن ملکوں اور قوموںکو اِن کے فوراً آنے والی لیڈر شپ اس معیار اور وقار کی نہیں ملی جو ملک و قوم کو ملنے والی آزادی کو مستحکم اور مضبوط کر سکتی کہیں تو یہ صورت خود ہی موجود تھی اور کہیں آزادی حاصل کرنے والی لیڈر شپ کو قتل کروا دیا گیا اور اس کے بعد نو آزاد ترقی پزیر ملکوں کو اپنے اقتصادی معاشی جال میں گرفتار کر کے اقتصادی نو آبایاتی نظام میں جکڑ لیا گیا۔ ہمارے ہاں اس صورتحال کو آزادی کے وقت کے نو جوان شاعرمحسن بھوپالی نے یوں بیان کیا تھا۔
نیرنگیِ سیاستِ دوران تو دیکھئے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
اُس وقت اگرچہ بڑی قوتوں نے اپنی کامیاب کوشش کی اور سیاسی نو آبادیاتی نظام سے آزاد ہو نے والے ملکوں کو اپنے اقتصادی نوآبادیاتی نظام میں جکڑ لیا اور ساتھ ہی ساتھ خود کو بھی مضبوط کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی اور اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا تو چین ، پاکستان ، بھارت، مصر،انڈو نیشیا،ملائشیا، شام ، عراق، ایران ، سوڈان ، سعودی عرب، تیونس ، یمن ، ایسے ملک تھے کہ اگر یہاں کے عوام باشعور ہوتے، شرح خواندگی زیادہ ہوتی اور قیادت تسلسل کے ساتھ بہتر انداز کی میسر آتی تو صورت بہتر ہوتی۔
اِن ملکوں میں پہلے نمبر پر مکمل آزادی ، خودمختاری اور خود انحصاری کے لحاظ سے چین اہم رہا اور اُس نے جلد ہی دنیا بھر میں اپنے آپ کو مکمل آزاد،خود مختار اور خود انحصار ملک کی حیثیت سے تسلیم کر وا لیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت اور قدرے آزاد خارجہ پالیسی کے ساتھ ایک ایسا بڑا ملک رہا جس کے مستقبل کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ملک اگر ہمسایہ ملکوں سے اپنے تعلقات بہتر کر لے گا تو نہ صرف دنیا کااہم ملک بن جائے گا بلکہ وہ علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اِن ملکوں کے بلاک کی بنیاد پر اس دنیا میں عالمی سطح کی مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔
حکمت و دانائی کے لحاظ سے برصغیر کی اس اہمیت کو 1916 ہی میں قائداعظم نے سمجھ لیا تھا لیکن ہندو مسلم اتحاد کو آل انڈ یا کانگریس اور خصوصاً پنڈت موتی لال نہرو نے بہت نقصان پہنچایا، اور پھر 14 اور15 اگست 1947 کو برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت آزاد ملک کہلائے اور اس سے تقر یباً دو سال قبل اقوام ِ متحدہ کا ادارہ تشکیل پا چکا تھا۔
1946 تک تو اقوام متحدہ نے ابتدائی کام شروع کیا لیکن ساتھ ہی پہلے پہلے آزاد ہونے والے بڑے اور اہم ملک جو برطانیہ کی نوآبادیات تھے اِن کی آزادی کے مراحل ہی میں قتل و غارت گری، خانہ جنگی اور پھر جنگوں کی صورتحال پیدا ہو گئی، برطانوی نوآبادیات میں برطانیہ کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا برصغیر جس کو انگریز سونے کی چڑیا کہتے تھے۔
یہاں انگریزوں نے 1945-46 کے موسم سرما میں گیارہ صوبائی اسمبلیوں اور ساتھ ہی مرکزی یا سنٹرل اسمبلی کے لیے جداگانہ بنیادوں پر انتخابات کروائے جن میں صوبائی سطح پر مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر 90% اور مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100% کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں اِن انتخابات کی بنیاد پر آزادی سے قبل مشترکہ ہندوستان میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کے وزیر اعظم آل انڈیا کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو ہوئے اور باقی کابینہ میں مسلم لیگ اور کانگریس کے وزرا شامل تھے جن میں مسلم لیگ کی طرف سے اہم وزیر یعنی وزیر ِ خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خان تھے اور کانگریس کی جانب سے اہم وزیر ِ داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل تھے۔
برصغیرکی مجموعی آبادی آزادی سے قبل چالیس کروڑ سے کچھ زیادہ تھی، 1914 ء میں جب جنگِ عظیم اوّل شروع ہوئی تو برصغیر میں انگریز مقامی آبادی کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھے اور اِن کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں تھی اور برصغیر میں اِن انگریزوں نے بہت کم تعداد میں ہونے کے باوجود جس حکمت و دانائی سے چالیس کروڑ کی آبادی پر حکومت کی اس میں دو چیزیں اہم تھیں، ایک مقامی چالیس کروڑ آبادی کو تقسیم کرو، لڑاؤاور حکومت کرو، دوسرا برصغیر کا جاگیردارانہ نظام تھا جو بہت مستحکم انداز میں انگریزوں کو مغلوں کی حکومت ہی سے ملا تھا اور اس جاگیردارانہ نظام کو انگریزوں نے اپنے طور پر اپنے حق میں زیادہ بہتر انداز میں تبدیل بھی کیا تھا، افغان، ترک اور مغل جب سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے برصغیر آئے تو اِن حملہ آور بادشاہوں کی اپنی با قاعدہ فوج سے کہیں زیادہ قبائلی لشکر اِن کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔
یوں جب یہ بادشاہ ہندوستان کو فتح کر لیتے تھے تو اِن کے اپنے قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ بڑی فوج تو مرکز یعنی دارالسلطنت میں رہتی تھی اور کچھ دستے ہر صوبے میں صوبائی گورنرکی ماتحتی میں ہوا کرتے تھے، جب کہ باقی قبائلی لشکر کی صورت یوں ہوتی تھی کہ اِن کے سرداروں کو اِن کے قبائلی لشکرکی تعداد کی بنیاد پر اہمیت دیتے ہوئے بڑے بڑے رقبوں پر مشتمل علاقے جاگیر کی صورت میں الاٹ کر دئیے جاتے تھے اور یہ قبائلی سردار یہاں ان ریاستوں کے نوابین، راجے، مہاراجے، اور خوانین کہلاتے تھے، جہاں تک صوبوں کے گورنروں کا تعلق ہوتا تھا تو وہ اکثر و بیشتر بادشاہ کے خاندان کے قریبی رشتہ دار ہوا کرتے تھے، یوں شہزادے یا بادشاہ کے بھائی، چچا وغیرہ کو گورنر بنایا جاتا تھا، جاگیرداروں کی جاگیریں بنیادی طور پر بادشاہ کی جانب سے الاٹ کی جاتی تھیں اور ریاستوں کے حکمرانوں کی ذاتی ملکیت نہیں ہوا کرتی تھیں یعنی مغلوں کے دور ِ حکومت تک زمین کی نجی ملکیت کا تصور نہیں تھا بلکہ زمین مملکت کی ملکیت ہوا کرتی تھی اور بادشاہ کے پاس یہ اختیار ہوا کرتا تھا کہ وہ جب چاہے جاگیردار نواب یا راجہ، مہاراجہ سے ریاست واپس لے کر اُسے بے دخل کر دے اور ایسا عموماً اُس صورت میں ہوا کرتا تھا جب کسی جاگیردار کی وفاداری پر شبہ ہوتا یا کوئی ریاستی حکمران بادشاہ کے خلاف بغاوت کرتا، یوں اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو وہ بادشاہ بھی بن سکتا تھا۔
جیسے بنگال کی ایک جا گیر سراسرم کے جاگیر دار کا بیٹا شیر شاہ سوری مغل بادشاہ ہمایوں کا تخت و تاج لینے میں کامیاب ہو گیا تھا مگر جب تک جاگیردار باد شاہ کا وفادار رہتا جاگیر اُس کے پا س رہتی اور اُس کے وفات پا جانے کی صورت میں اُس کے بڑے بیٹے یعنی ولی عہد کو مل جاتی۔ مغلوں کے عہد میں کچھ جاگیردار نواب تو وہی تھے جو بابر کے ساتھ ہندوستان کی فتح میں شریک تھے پھر کچھ ہند و راجے، مہاراجے تھے جو اپنی مقامی قوت کے اعتبار سے اہم تھے اور کچھ ہندو مسلمان اہم مذہبی شخصیات تھیں جن کو مقامی آبادی پر اِن کے اثر اور قوت کی وجہ سے جاگیریں الاٹ کی گئی تھیں اور اِن سب کے لیے بنیادی شرط بادشاہ سے وفاداری تھی۔
مغلیہ دورِ حکومت میں یہ جاگیردار اپنے لشکر کی بنیاد پر اپنی جاگیر میں امن وامان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوتے تھے، وہ وہاں رعا یاسے زرعی پیداوار پر بادشاہ کے حکم سے لگان اور صنعت و تجارت پر ٹیکس وصول کرتے، اس کا ایک بڑا حصہ مرکزی حکومت یعنی بادشاہ کو بھیجا جاتا، ایک حصہ ریاست کا نواب یا راجہ اپنی مقامی فوج کی تنخواہوں ٹرینگ اور ہتھیاروں پر خرچ کرتا اور خود اور اس کا خاندان بادشاہ کے علاقائی نائب کی حیثیت سے شاہانہ انداز سے خرچ کرتا تھا اور جب کبھی بادشاہ کو اس کی فوج کی ضرورت ہوتی تو وہ با دشاہ کے وفادار مقامی حکمران کی حیثیت سے اپنی مقامی فوج کو اپنی کمانڈ میں لے کر پہنچ جاتا۔
انگریز ہندوستان میں1757ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اُس کے غدار وزیر میرجعفر کی مدد سے شکست دیکر بنگال میں اپنی حکمرانی کی بنیاد قائم کر چکا تھا تو وہاں لارڈ کلائیوکی نگرانی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوئی تھی جو تاجِ برطانیہ کی تابعدار اور وفادار تھی اُس وقت بھی مرکزی مغلیہ حکومت کمزور ہو چکی تھی اور جاگیر دار اس مرکزی حکومت کو صرف علامتی طور پر ہی ہندوستان کی شہنشاہیت کے طور پر تسلیم کرتے تھے اور کوئی نواب یا راجہ اگر خود چاہتا تو از خود کچھ رقم بادشاہ کی نذرکردیا کرتا تھا، یوں بنگال، میسور اور حیدر آباد سمیت کئی ایسی ریاستیں تھیں جن کے راجہ خودمختار تھے ہندوستان میں ہندو پہلی بڑی اکثریت اور مسلمان دوسری اکثریت تھے اور مجموعی طور پر ہندوستان کی آبادی میں ہند وآبادی کا تناسب 70% اور مسلمان آبادی 30 فیصد تھی مگر صدیوں کی مسلم حکومتوں کے دور اقتدار میں ہندو مسلم برداشت اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے۔
انگر یز چونکہ اُس وقت ہند وستان میں آیا تھا جب علم و تحقیق کی بنیاد پر اہل مغرب اور خصوصاً انگریز دنیا میں بہت آ گے نکل چکے تھے اس لیے اِن کے حکومتی اور انتظامی امور بھی ٹیکنالوجی اور سائنسی برتری کے تابع تھے، یوں انگریزوں نے ہندوستان میں آتے ہی اس ملک کے سماج، تہذیب،آبادی کے لسانی، مذہبی خدوخال اور سیاسی انداز کا تحقیقی بنیادوں پر مطالعہ کیا اور پھر یہاں معاشرتی تضادات کو اپنے مقاصد کے لیے ابھارتے ہوئے یہاں کے جاگیردارانہ نظام کواپنی ضروریات کے مطابق تبدیل کر کے استعمال کیا۔ برطانیہ جس کی نوآبادیات میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہاں برطانیہ میں تو جمہوریت کو فروغ حاصل ہو رہا تھا بلکہ 1857 تک جب ہندوستان میں علامتی مغلیہ بادشاہت کا خاتمہ بھی کر دیا گیا تھا تو برطانیہ میں روایتی طور پر عوام میں بادشاہت کی عزت اور شان شوکت کسی طرح کم نہیں تھی۔
دوسری جانب اُس وقت برطانیہ کی جمہوریت دنیا کے لیے مثالی تھی اور جہاں تک تعلق برطانیہ کی نوآبادیات کا تھا تو ہر غلام ملک میں انگر یز سربراہ جو گورنر جنرل اور وائسرائے کہلاتا تھا اکثر و بیشتر برطانیہ کے شاہی خاندان ہی کا فرد ہوتا تھا اور ہمیشہ کی طرح آج بھی برطانیہ کے شاہی خاندان کے افراد کی تربیت کی جاتی ہے، یہاں تک کہ آج بھی اِن کے ولی عہد اور شہزادے اعزازی طور پر اعلیٰ فوجی عہدہ رکھتے ہیں اور اہم مواقع پر فوجی یونیفارم پہنتے ہیں ، شاہی خاندان کے اہم افراد ہاوس آف لارڈ کے رکن ہوتے ہیں، یوں مقبوضہ ہندوستان میں انگریزوں کے دورِحکومت میں جہاں 540 سے زیادہ ریاستیں تھیں وہاں آزادی اور تقسیم ہند کے وقت تک گیارہ صوبے بھی تھے، صوبائی اور مرکزی حکومت پر برطانوی حاکمیت کے لحاظ سے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی شخصیت گو رنر جنرل کہلاتی تھی اور یہی شخصیت ریاستوں کے لیے وائسرائے یعنی برطانوی شہنشاہت کی جانب سے بادشاہ کا نائب یا نائب بادشاہ ہوا کرتا تھا۔
انگریزوں کی کل تعداد یہاں ایک لاکھ تھی یوں یہاں نوآبادیاتی نظام کو قائم رکھنے کے ساتھ صنعتی و تجارتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے نظام چلانا تھا اور اس کے لیے مختلف شعبوں میں تعلیم و تکنیک کی بنیاد پر یہاں افرادی قوت تیار کی گئی ، اگر چہ اعلیٰ سطح پر انگریز ہی بیوروکریسی کے لحاظ سے فائز تھے مگر جنگ عظیم اوّل اور دوئم کے بعد انگریز فوج اور سویلین افسران کی سطح پر انگریز افرادی قوت کمی کا شکار ہوئے تو ہندوستانی افسران کی کچھ تعداد بھی اس نظام میں شامل ہو گئی۔ انگریروں کی جانب سے متعارف کردہ عدالتی نظام میں بھی بطور ایڈووکیٹ اور بیرسٹر ہندوستانیوں کی خاصی تعداد تھی جو انگریز وکلا سے زیادہ تھی اور یہ وکلا برطانوی قوانین، اِن کے پارلیمانی نظام اور آئین کو بہتر طور پر سمجھتے تھے جب کہ 1885 ء میں آل انڈ یا کانگریس اور پھر 1906 ء میں مسلم لیگ کے قیام سے ہندوستان کے خصوصاً غیر ریاستی علاقوں میں سیاسی شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ قائداعظم نے جنگ عظیم اوّل کے دوران یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریز چاہے یہ جنگ جیتے یا ہارے ہر دوصورتوں میں تاج برطانیہ کی حکمرانی جو دنیا کی چوتھائی آبادی اور رقبے پر قائم ہے اِس پر اس کی گرفت کمزور ہو جائے گی اور اگر ہندوستان میں حقیقی اور منطقی ہندو مسلم اتحاد آئینی ضمانت پر قائم ہو جاتا ہے تو انگر یز کو ہندوستان سے نکالا جا سکتا ہے۔
یوں قائد اعظم کی کوششوں سے 1916 ء میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوئے اور اس میں دونوں جماعتوں کے درمیان لکھنو پیکٹ ''میثاق جمہوریت'' طے پایا۔ اس معاہدے میں مسلم لیگ کے جداگانہ طریقہ انتخاب اور مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ سمیت مسلم آبادی کے تناسب کی بنیاد پر معاشی و اقتصادی فارمولے کو بھی قبول کر لیا گیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اگر کانگریس اس معاہد ے پر قائم رہتی تو ہندوستان مشترکہ طور پر اور بہت پہلے آزاد ہو جاتا لیکن کانگریس نے یہ معاہدہ یک طرفہ طورپر 1928 ء میں تو ڑ دیا۔ اس کے بعد قائد اعظم نے 1929 میں چودہ نکا ت پیش کر کے ایکبار پھر اس معاہد ے اور ہندو مسلم اتحاد کو بچانے کی کو شش کی مگر نا کام رہے اور پھر انہوں نے علامہ اقبال کی بات کو سمجھتے ہوئے قیام ِ پاکستان کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔
پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک عالمی سیاسی ،اقتصادی،صورتحال میں کا فی تبدیلی آچکی تھی جس کے پیش ِ نظر انگریز ہندوستان میں احتیاط سے معاملات کو آگے بڑھا رہا تھا، اُسے ہندوستان کی ہندو اکثریت کے دباؤ کا بھی سامنا تھا اور مسلم اکثریت کا بھی خوف تھا کیونکہ یہ بھی کل آباد ی کا 30 فیصد تھی اور یہ اکثریت برصغیر میں افغانستا ن ، ایران، چین اور برما کی سرحدوں کے نزدیک تھی، یوں انگریز نے پہلی کوشش یہ کی کہ کسی طرح برصغیر کی تقسیم سے قائد اعظم کو باز رکھا جائے اور جب برطانوی سرکار کو یہ یقین ہو گیا کہ قائد اعظم کسی صورت اس پر آمادہ نہیں ہو رہے تو اُنہوں نے برصغیر کے بارے میں اس کی تقسیم کی بنیاد پر اپنے منصوبے کو اپنی مرضی اور مفادات کے مطابق جلد از جلد طے کر نے کی حکمت عملی بنائی اور واقعات اور حالات کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس اور انگر یز نے یہ طے کیا تھا کہ تقسیم اتنی جلدی اور ایسی کی جائے کہ دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کی حیثیت سے ابھرنے والا پاکستان ناکام ہو جائے۔
مارچ 1947 ء کو ہندوستان سے لارڈ ویول رخصت ہوا تو اُس کی جگہ لارڈ ماونٹ بیٹن آخری گورنر جنرل اور وائسرائے بن کر ہندوستان آیا اور 3 جون 1947 ء کو تقسیم ہند اور پاکستان اور بھارت کی آزادی کے منصوبے کا اعلان کردیا، جب کہ اِس منصوبے کی تفصیلات کی حتمی اور قانونی شکل 18 جولائی 1947 ء کو برطانوی پارلیمنٹ میںقانون آزادیِ ہند کے عنوان سے پاس ہونے والا قانون تھا۔ اس سے قبل ہندوستان میں آئینی حیثیت کا حامل قانون ہند 1935 ء بھی برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔ اس قانون کے ساتھ ہی قانون آزادی ہند کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم کے تمام امور طے کئے گئے جس کے مطابق پاکستان اور بھارت کو 14 اور15 اگست 1947 کو دو الگ ملکوں کی حیثیت دے دی جائے گی اور پہلے سال ان کی حیثیت ڈومینین اسٹیٹ کی ہو گی اور قانون ہند 1935 ہی نافذالعمل رہے گا۔
اُس وقت بطور نئی اور الگ الگ ریاست کے قانون ِآزادی ہند کی روشنی میں 1935 کے قانون ہند میں ضروری ترمیم کر لیں مگر یہ ترمیم بھارت یا پاکستان کی پارلیمنٹ ایک سال تک نہیں کر سکے گی، اُس وقت تک اگر کوئی ترمیم کر نی ہوئی تو وہ صرف گورنر جنرل کرے گا۔ واضح رہے کہ بھارت کا گورنرجنرل لارڈ ماونٹ بیٹن ہی تھا اور پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح تھے اور یہ بھی واضح رہے کہ 1956 تک جب ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا، برطانیہ کا بادشاہ ہمارا آئینی سربراہ تھا اور اس کے بعد ملکہ برطانیہ الزبتھ ہماری آئینی سربراہ اور ملکہ ہو گئی۔ البتہ بھارت نے آزادی کے ایک سال بعد اپنا آئین بنا لیا تھا۔
ہندوستان کی 540 سے زیادہ ریاستوں کے حوالے سے 18 جولٗائی1947 کے قانون ِ آزادیِ ہند میں یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اِن کے حکمران اپنی ریاستوں کی سرحد ی قربت اور عوام کی اکثریت کی مرضی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے، اسی طرح ہندو مسلم اکثریت کی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا فیصلہ تھا، بلوچستان کے لیے کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین اور شاہی جرگہ کے اراکین نے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا جب کہ مشرق پاکستان میں سلہٹ ضلع میں اور کے پی کے میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا کہ یہ علاقے بھارت یا پاکستان میں شامل ہوں اور سندھ کے لیے یہ طے پایا تھا کہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت یہ فیصلہ کرے گی۔
قائد اعظم اپنے وژن کی بنیاد پر یہ جان گئے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے لیکن اُن کے پاس وقت بہت کم تھا اُن کے معالج ڈاکٹر پاٹیل نے اُنہیں بتا دیا تھا کہ ٹی بی کی بیماری اُن کے پھیپھڑوں کو تباہ کر چکی اور موت نزدیک ہے، اس راز سے صرف ڈاکٹر پاٹیل، فاطمہ جناح اور خود قائد اعظم واقف تھے، قائد اعظم کو ادراک تھا کہ اُن کے بعد پاکستان کو آزاد کرانا مشکل ہو جائے گا، وہ اس کے لیے اپنی اسٹرٹیجی طے کر چکے تھے کہ اللہ اُنہیں اتنی زندگی ضرور دے گا کہ وہ اپنی زندگی یہ تاریخی فریضہ ضرور ادا کریں گے، 1941 کی مردم شماری کے مطابق مشترکہ پنجاب کی کل آبادی 28418819 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 16217242 تھی، یوں مجموعی طور پر پنجاب کی 57% آبادی مسلمان تھی اور بنگال کی کل آبادی 60306525 تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی33005434 تھی اور یہاں بھی مسلمان آبادی 54.73 فیصد تھی لیکن مشرق پنجاب میں سکھ اورہندو قدرے اکثریت میں تھے۔
جب اِ ن دونوں صوبوں کی تقسیم آبادی کی اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ ہوا تو قائد اعظم یہ جانتے تھے کہ 1946 جنوری تک ہو نے والے مشترکہ ہند وستان کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ قومی حکومت تشکیل پائی ہے اُس میں وزارت ِداخلہ کانگریس کے نہایت متعصب ہندو لیڈر ولب بھائی پاٹیل کو دی گئی ہے اور اس تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کے ساتھ زیادتی ہو گی، یوں قائد اعظم نے یہ تجویز دی کہ یہ تقسیم اقوام ِمتحدہ کے تحت کرائی جائے اور جب اس تجویز کو رد کیا گیا تو قائد نے یہ کہا کہ پنجاب کی تقسیم لندن کی پریوری کونسل کرے مگر اس کے لیے ریڈ کلف کو برطانوی حکومت نے تعینات کیا اور پھر اس تقسیم میں سازش کے تحت مشرقی پنجاب کے گورداسپور، فیروزپور اور زیرہ کے مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کو دے دیئے گئے اور سردار ولب بھائی پاٹیل نے سکھوں اور ہندوںکے جتھوں کے ذریعے فوراً ہی یہاں فسادات کرائے اور مسلمانوں کا قتل عام صرف اس لیے کروایا کہ یہاں سے لاکھوں مسلمانوں کو نکال کر پاکستانی پنجاب میں دھکیل دیا جائے۔
یہ اس لیے بھی کیا گیا کہ یہاں پانی کی تقسیم کے مادھوپور ہیڈ ورکس اور فیروز پور ہیڈ ورکس پر قبضے سے پاکستان کو جانے والے دریائی پانی پر کنٹرول حاصل کیا جائے اور ایک اور اہم وجہ تھی کہ کشمیر کو بیرونی دنیا کو ملانے والے چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں، یہاں مشرقی پنجاب میں اِن مسلم اکثریتی علاقوں کو بھارت کے حوالے کرنے سے پٹھان کوٹ سے ایک نیا اور مصنوعی راستہ بھارت کو فراہم کر دیا گیا، اور اس کے بعد جب پاکستان اور بھارت آزاد ہوگئے تو کشمیر جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے یہاں مسلمانوں نے تحریک چلائی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے کیا جائے، اس پر بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے کشمیر کے راجہ ہری سنگھ پر دباؤ ڈال کر ایک خاص منصوبے کے تحت کشمیر کا بھارت سے الحاق کروا دیا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ 18 جولائی1947 کے قانون آزادی ہند کے تحت برصغیر کی تقسیم کروانے والے لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے بطور بھارت کے پہلے گورنر جنرل اس معاہدے پر دستخط کر دئیے، البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے بھی بعد میں اس مسئلے پر کشمیر یوں کی مرضی معلوم کر نے کے لیے رائے شماری کی تجویز دی تھی لیکن اصول اور قانون کے مطابق لارڈماوئنٹ بیٹن نے غلط کیا تھا کیونکہ قانون آزادی ِہند واضح تھا کہ ریاستوں کے حکمرانوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ اپنے عوام کی مرضی اور ریاست کی سرحد ی قربت کو مدِنظر رکھ کر ہی حکمران یہ فیصلہ کر یں گے کہ ریاست کا الحاق پاکستان یا بھارت سے کیا جائے۔
بھارت نے ریاست حیدر آباد، بھوپال اور جوناگڑھ کے نوابین کے خلاف اسی بنیاد پر فوجی کار وائی کر کے اِن ریاستوں کو بھارت میں شامل کر لیا تھا کہ اِن کی آبادیوں کی اکثریت ہندو تھی اور سرحدی قربت بھی بھارت سے تھی مگر کشمیر کے اعتبار سے انگریز گورنر جنرل اور بھارت کا معیار دہرا تھا، بہرحال جہاں تک انگریز دورِ حکومت میں ریاستوں کا تعلق تھا تو کشمیر کی حیثیت بھی تاریخی لحاظ سے ہندوستان کی دوسری ریاستوں سے مختلف تھی کہ یہ علاقہ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی موت کے بعد سکھوں سے جنگ میں فتح پانے کے بعد تاوان جنگ رقم کی کمی کو پورا کرنے کے لیے گلاب سنگھ کو 75 ہزار نانک شاہی کرنسی کے عوض فروخت کیا تھا ا س لیے یہ بھی ہو سکتا تھا کہ پاکستان 1947 کے مطابق اُس زمانے کی رقم کی قدر کی بنیاد پر ادائیگی کر کے مسلم اکثریت کا یہ علاقہ حاصل کر لیتا، بہرحال یہ مسئلہ تھا کہ اس کی بنیاد پر کشمیر میں 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری1949 کو دونوں نئے آزاد ہونے والے ملکوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی۔
پاک فوج کے انگریز جنرل کمانڈر ان چیف جنرل سرڈ گلس ڈیوڈ گریسی 'جو اس جنگ کے خلاف تھے' تو قائد اعظم کے حکم پر میجر جنرل خورشیدانور ، کرنل شیر،کرنل اکبر خان کے علاوہ وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی لشکر نے شرکت کی اورآزادکشمیر،گلگت بلتستان کے علاقے آزاد کر وا لیئے، جولائی 1948 ء کے آغاز پر قائد اعظم کی ٹی بی نہ صرف شدت اختیار کر گئی تھی بلکہ اب یہ بیماری راز بھی نہیں رہی تھی اور قائداعظم کو دارالحکومت کراچی سے دور بلوچستان کے سرد پہاڑی علاقے زیارت منتقل کر دیا گیا تھا اور پھر اسی دوران پاکستان پر بیرونی دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ یہ جنگ روک دی جائے اور کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم اس بات کو کسی صورت نہیں مان رہے تھے۔
غالباً وہ یہ جانتے تھے کہ جغرافیائی نقشے بدلنے والی تاریخی جدوجہد جب عزم و حوصلے کے ساتھ حتمی فتح کے قریب ہو تو کبھی بھی ایسی تحریک کو نہیں روکنا چاہیے کہ پرُجوش قومی اتحاد تسلسل کے ساتھ اگر منزل پر پہنچنے سے پہلے مصلحت کی بنیاد پر روک دیا جائے تو پھر اسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے نکلنے والے ناکام کوہ پیماؤںکی طرح پستی کی ڈھلانوں میں دفن ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، قائد اعظم کو خواہش کے برعکس ان کی وفات کے تین مہینے پچیس دن بعد 5 جنوری 1949کو پاکستان نے اقوام متحد ہ کے کہنے پر یہ جنگ روک دی۔ اس جنگ کو رکوانے کے لیے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے خود کوشش کی تھی وہ کسی طرح مہلت چاہتے تھے اور بڑی قوتیں بھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کی جانب سے مزید پیش قدمی ہو کیونکہ اس طرح اس علاقے میں اسٹرٹیجک برتری بھارت کے ہاتھوں سے نکلنے والی تھی۔
اس کے بعد 27 جولائی 1949 کو پاکستان بھارت کے درمیان سیز فائر معاہدہ کراچی میں ہوا جس میں ضامن اقوام متحدہ تھا جو ثالثی کا کردار اس لیے ادا کر رہا تھا کہ اس کے لیے کمیشن، یو این فار انڈیا اینڈ پاکستان تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے لیے بھارت نے اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اصولی طور پر اقوام متحدہ کا کردار اُس وقت جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا شفاف تھا۔ اس معاہدے پر پاکستان کی طرف سے میجر جنرل ڈبلیو جے کاوتھون اور بھارت کی جانب سے لیفٹینٹ جنرل شیر ینگیش نے اور اقوام متحدہ کی جانب سے دو نمائندوں ہیرنانڈوسامپر اور ایم ، ڈیلوئی نے دستخط کئے تھے۔
یہ معاہدہ انگریزی میں تحریر کیا گیا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اس کا سب سے پہلا اور اہم ترین مسئلہ تھا، اور اس کا حل اس لیے آسان تھا کہ اس میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اس کے اس حل پر متفق تھے کہ کشمیر کا فیصلہ یہاں کی مقامی آبادی اپنی مرضی سے ووٹ کی بنیاد پر اقوام متحد ہ کی نگرانی میں کرے گی۔ معاہدہ کراچی میں بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے سامنے جنگ بندی لائن کو تسلیم کر لیا تھا اور جو علاقے پاکستان کے پاس ہیں اُن میں پا کستان آج بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کروانے کے لیے تیار ہے، پاکستان 30 ستمبر 1947 کو اپنے قیام کے ایک ماہ سولہ دن کے بعد اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا اور اُس وقت اقوام متحدہ کو قائم ہوئے ایک سال گیارہ مہینے چھ دن ہوئے تھے۔
بھارت جو انڈیا کے نام سے1919 میں قائم ہونے والی لیگ آف نیشن ''اقوامِ عالم '' میں برطانوی نوآبادی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے ملک کی حیثیت سے اس کا رکن بنا تھا اس کی اسی رکنیت کے تحت 30 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کے باقاعدہ قیام کے چھ دن بعد رکن بن گیا تھا، اور اِن دونوں رکن ملکوں کے درمیان کراچی معاہدے کی ثالثی اقوام متحدہ نے کرائی اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جو قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منظور ہوئیں اُس وقت اُن قرار دادوںکی حمایت سکیورٹی کونسل کے تمام ویٹو اراکین نے کی تھی اور اصول و ضوابط کے مطابق اُن قراردادوں پر عملد آمد ہونا چاہیے اور پا کستان کا موقف آج بھی یہی ہے کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی اُنہی قراردادوں کے مطابق ہو، جب کہ بھارت پہلے حیلوں بہانوں سے اِن قراردادوں پر عملدر آمد کو ٹالتا رہا اور پھر رفتہ رفتہ اِن سے منحرف ہونے لگا اور اب یہ صورت ہے کہ وہ اِن قرار دادوں کو تسلیم ہی نہیں کرتا اور چین کے علاوہ سکیورٹی کونسل کے چاروں اراکین یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس کسی نہ کسی وقت اور کسی نہ کسی انداز سے کشمیر کے مسئلے پر سکیورٹی کونسل میں بھارت کی ناجائز حمایت کرتے رہے ہیں۔
آخری بار اس مسئلے پر 2019 میں فرانس نے بھارتی مفاد کے حق میں فیصلہ دیا، اقوام متحدہ کے ٹیبل پر اُس کی 75 سالہ تاریخ میں مسئلہ کشمیر 71 سالہ سب سے پرانا مسئلہ ہے جو سیاست کے لحاظ سے منفی اور مفاد پرستانہ عالمی رویوں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور حقوقِ انسانی کے لیے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، یہ عالمی ادارہ دنیا کے ممالک اور عوام کی حکومتوں پر مشتمل ہے اور اس نے اپنے چارٹر اور ہیومن رائٹس کے ڈکلیریشن میں دنیا بھرمیں ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کی جارحیت کی شدت سے ممانعت کر رکھی ہے، اسی طرح دنیا بھر میں انسانوں کی مرضی کے خلاف ظلم و جبر کی بنیاد پر حکومت کے خلاف کاروائی کا حق اس کے چارٹر میں شامل ہے، مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ کشمیر کے مسئلے کو اب تک حل نہیں کر پایا ہے اور اب 2020 میں اس کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر بہرحال اقوام متحدہ کو اس کا جواب بھی دینا چاہیے۔