ایف آئی اے افسران بیرون ملک سے بے دخل افراد کو لوٹنے لگے

بیرونی ممالک سے بے دخل گرفتار شہریوں کو ایف آئی اے افسران بھاری فیس پر مخصوص وکیل کرنے پر مجبور کرتے تھے

ڈائریکٹر ایف آئی اے نے رشوت لینے پر2 تفتیشی افسران کا حیدرآباد اورسکھر تبادلہ کردیا،مخصوص وکیل اکثر انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل میں ہوتے ہیں ۔ فوٹو: فائل

بہتر حالات زندگی کی تلاش میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں جمع پونجی لٹادینے والے پاکستانی شہریوں کو وطن واپسی پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسران لوٹنے لگے۔

بیرون ملک سے بے دخل پاکستانی شہریوں کو غیرضروری طور پر بھاری فیس کے عوض مخصوص وکیل کرنے پر مجبور کیا جانے لگا،ڈائریکٹر ایف آئی اے نے وکیلوں کے ذریعے رشوت لینے کا الزام ثابت ہونے پر 2 تفتیشی افسران کا تبادلہ کردیا،تفصیلات کے مطابق ہر ماہ درجنوں پاکستانی بیرون ملک سے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے باوجود قیام یا غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے کے الزام میں بے دخل کیے جاتے ہیں، بیرونی ممالک سے بے دخل ہونے والے اور نامکمل یا جعلی سفری دستاویزات پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرنے والے افراد کو امیگریشن حکام قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی اے کے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے حوالے کرتے ہیں جہاں ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔

زیادہ تر پاکستانی شہریوں کو مشرق وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب، عمان، متحدہ عرب امارات اور ترکی سے بے دخل کیا جاتا ہے، قوانین کے مطابق ایسے افراد جو براستہ ایران زمینی راستے سے غیرقانونی طور پر ترکی جاتے ہیں ان کے خلاف پاکستانی سرحد بغیر سفری دستاویزات کے عبور کرنے کے الزام میں مقدمات درج کیے جاتے ہیں چونکہ یہ افراد پہلے ہی انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی لٹاچکے ہوتے ہیں اس لیے ان کی مالی حالت خراب ہوتی ہے اور اکثر اوقات پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان پڑھ ملزمان کی رہائی کیلیے بھاگ دوڑ کرنے والا کراچی میں کوئی نہیں ہوتا،ایف آئی اے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے چند افسران ان افراد کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں غیرضروری طور پر بھاری فیس کے عوض اپنے تجویز کردہ وکیل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ تفتیشی افسران اور مخصوص وکیلوں کے مابین خفیہ معاہدے کے تحت سادہ لوح افراد سے وصول ہونے والی فیس میں سے آدھی رقم تفتیشی افسران کی جیب میں جاتی ہے چونکہ یہ رشوت وکیل کی فیس کی مد میں لی جاتی ہے اس لیے کوئی شخص رشوت وصولی کی شکایت بھی نہیں کرسکتا۔




دلچسپ امر یہ ہے کہ تفتیشی افسران کے تجویز کردہ وکیل ان افراد کا مقدمہ عدالت میں لڑنے کے بجائے انھیں اپنا جرم قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور عدالت پہلی یا دوسری پیشی پر جرمانہ کرکے ان کو رہا کردیتی ہے، قانونی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملزم کو اسی وقت وکیل کی ضرورت ہوتی ہے جب وہ اپنے خلاف لگائے جانے والے الزام کا دفاع کرتا ہے۔

جرم قبول کرنے کی صورت میں وکیل کی کسی صورت بھی ضرورت نہیں ہوتی اور ان افراد پر الزام معمولی نوعیت کا ہوتا ہے کہ عدالت انسانی ہمدردی پر صرف چند ہزار روپے جرمانے کی ادائیگی پر ان کو رہا کرنے کا حکم دے دیتی ہے جبکہ وکیل کو ادا کی جانے والی فیس جرمانے کی رقم سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اس سلسلے میں شکایات ملنے پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نجف مرزا نے انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل کے 2 تفتیشی افسران سہیل شیخ اور محمد صادق کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ دونوں تفتیشی افسران سرکل کے سربراہ ڈپٹی ڈائریکٹر کے قریبی سمجھے جاتے ہیں اور اسی لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران تمام اہم انکوائریز کی تفتیش ان دونوں افسران کے سپرد کی گئی۔

دونوں تفتیشی افسران کی جانب سے درج کیے جانے والے مقدمات میں ملزمان کی وکالت 2 مخصوص وکیلوں نے کی، تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا کہ مذکورہ وکیل اکثر اوقات انسداد انسانی اسمگلنگ سرکل میں ہی پائے جاتے ہیں، تفتیشی افسران اور وکیلوں کے درمیان دیرینہ مراسم ہیں، ڈائریکٹر ایف آئی اے نے الزام ثابت ہونے پر سب انسپکٹر سہیل شیخ کا تبادلہ حیدرآباد اور سب انسپکٹر محمد صادق کا تبادلہ سکھر کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں دونوں افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد کرچی چھوڑ کر حیدرآباد اور سکھر میں رپورٹ کریں۔
Load Next Story