سی پیکاہمیت افادیت اور اثرات حصہ اول
سی پیک دونوں معیشتوں میں تعلق پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ڈیووس 2020 میں پاتھ فائنڈر اور مارٹن ڈو گروپ کے زیر اہتمام پینل ڈسکشن میں عبدالحفیظ شیخ نے سی پیک کی اہمیت اور اس کی کامیابی سے متعلق اظہار خیال کیا۔ انھوں نے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے اہم پہلو، موجودہ بین الاقوامی معیشت، اور پاکستان اور چین کی معیشتوں سے متعلق اہم حقائق پیش کرتے ہوئے سی پیک کا سیاق و سباق فراہم کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے منصوبے سے متعلق ارادوںکی تکمیل اور اس کام سے متعلق دیگر اہم پہلوؤں کا احاطہ کیا۔
پاکستان اور چین کے مابین مضبوط سفارتی، سیاسی اور عسکری تعلقات ہیں۔ البتہ ماضی میں تجارتی تعلقات محدود رہے۔ چین کی عظیم معاشی تبدیلی کی جھلک ہمارے معاشی نظام میں ظاہر نہیں ہوئی۔ اب سی پیک دونوں معیشتوں میں تعلق پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر اس منصوبے کا موثر انداز میں اطلاق ہوتا ہے، تو یہ پاکستان، مغربی چین اور اس خطے میں بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس وقت چین کی آبادی 1.4 بلین اور اس کی جی ڈی پی 12 ٹریلین(کھرب)ڈالر ہے۔ یہ جاپان، روس، انڈیا اور برازیل کی مشترکہ GDP سے زیادہ ہے،اس محاذ پر فقط امریکا ہی 19ٹریلین کے ساتھ چین سے آگے دکھائی دیتا ہے۔
عالمی سطح پر مربوط معیشت کی حیثیت سے اس کی سالانہ تجارت چار ٹریلین ڈالر سے تجاویز کرچکی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی ایف) 1.4ٹریلین ڈالر ہے۔ممتاز چینی رہنما دنگ شا وپنگ کی اختیار کردہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیں 70 کی دہائی میں معاشی ترقی پہلے پہل نظر آئی تھی۔
چین کی کامیابی کو مندرجہ بالا کلیوں سے پرکھا جاسکتا ہے۔1۔1978 سے اب تک، تقریباً چالیس سال کے دوران، اوسط سالانہ شرح نمو 10 فی صد کے قریب رہی۔ 2۔ 800 ملین افراد کو غربت سے نجات دلانا اِس کا دوسرا اہم وصف تھا۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اگرافراد کی تعداد کے لحاظ سے معاشی اثرات کا جائزہ لیا جائے، تو بیسویں صدی میں دنگ شاوپنگ بے مثال تھے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ کے مطابق چین کو فی کس جی ڈی پی (GDP per capita) بہتر بنانے کے حوالے سے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپنی موجودہ نو ہزار ڈالر کیپٹل جی ڈی پی کے ساتھ چین گلوبل فہرست میں 71 ویں نمبر پر ہے۔اس فہرست میں سوئٹرزلینڈ 80 ہزار ڈالر، امریکا 60 ہزار ڈالر، سنگاپور57 ہزار ڈالر، جرمنی 44 ہزار ڈالر، جاپان 39ہزار ڈالر، یہاں تک کہ ترکی اور ملائیشیا بھی دس دس ہزار ڈالر کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔
چین کی موثر کارکردگی نے ملک سے آمدنی کے تفاوت کوکچھ ریجنز میں نمایاں نہیں ہونے دیا۔ شنگھائی، بیجنگ، تیانجن اورشنزین باقی حصوں سے بہتر نظر آتے ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میں فرق 3:1، جب کہ ساحلی اور اندرونی پٹی میں فرق کی شرح 2:1 ہے۔ اگر خطے پر نظر ڈالیں، تو ایک طرف20 ہزار ڈالر اوردوسری طرف پانچ ہزار ڈالر آمدنی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر شیخ نے اس علاقائی فرق کو معاشی ہم آہنگی کے لیے قابل تشویش ٹھہرایا۔
چین کی اقتصادی کامیابی کے پیچھے معاشی اور سیاسی استحکام، قیادت کی موثر تبدیلی، منظم اور سستی افرادی قوت نمایاں ہے۔ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ملک میںلانا، بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اتحاد اور دیگر ممالک کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی چینی قابلیت بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ اس کی برآمدات اس وقت 2.3 ٹریلین ہیں۔ چین کسی ملک کے ساتھ شدید سیاسی تنازع کے باوجود تجارتی افادیت کو پیش نظر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی ایک مثال چین اور بھارت کے تجارتی تعلقات ہیں۔ 85 بلین ڈالر کے حجم کے ساتھ چین انڈیا کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے۔ صرف گزشتہ برس ہی بھارت میں چینی برآمدات میں چالیس فی صد اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں اور بزنس کمیونٹی کی بڑی اور مسلسل ناکامیاں نہ صر ف عالمی، بلکہ علاقائی سطح پر بھی پاکستانی معیشت کو مربوط کرنے میں ناکام رہیں۔ پاکستان کبھی دیگر ممالک کو بڑی سرمایہ کاری پاکستان لانے پر آمادہ نہیں کرسکا۔ دیگر ملک کے ساتھ اتحاد اور معاشی تعلقات بنانے میں ہماری ناکامی چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے تجربات کے بالکل برعکس ہے۔ یہ پاکستانی معاشی تاریخ کے دو اہم حقائق ہیں، جنھوں نے ملک کی معاشی رفتار کو متاثر کیا اور اسے معاشی مقاصد کے حصول کی نچلی سطح تک محدود رکھا۔
ادھر چین کی کامیابی کے پیچھے اپنی پراڈکٹ دیگر ممالک کو فروخت کرنا اور بین الاقوامی کمپنیوں سے اتحاد قائم کرکے اربوں ڈالرز کا سرمایہ ملک میں لانے کے لیے قائل کرنے کی قابلیت کارفرما رہی۔پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ قیام کے بعد ہی سے یہ مسلسل حالت جنگ میں رہا۔ اس میں سرحدی محاذ، کشمیر تنازع، 1971کی جنگ، سرد جنگ، افغان جنگ اور نام نہاد ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' شامل ہے۔
یہ تنازعات پاکستانی معیشت کے لیے گراں ثابت ہوئے اور بڑے معاشی اداروں کو پاکستان کے ساتھ طویل المدتی معاہدوں سے روکے رکھنے کا باعث بنے۔اپنی پوری تاریخ میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔کسی منتخب وزیر اعظم نے مدت پوری نہیں کی، جس کا خمیازہ ملک نے بھگتا۔اس کے باعث معاشی ترقی رفتار نہیں پکڑ سکی۔ البتہ آخری چند برس میں آئین کی بحالی، انتخابات کا انعقاد، طاقت اور اقتدار کی موثر منتقلی، اظہار کی آزادی اور سول سوسائٹی کی صورت ایک مثبت پیش رفت ہوئی۔
قدرتی وسائل سے مالامال اس ملک میں پوٹینشل کی کمی نہیں۔ یہ کوئلہ، گیس، آبی وسائل کے ساتھ ساتھ جغرافیائی اہمیت کا بھی حامل ہے۔کیا اب سی پیک پاکستان کے لیے ایک بڑا معاشی موقع بن سکتا ہے؟ 75 ٹریلین کی گلوبل جی ڈی پی کے ساتھ 2017 میں شرح نمو 3.5 فی صد رہی تھی۔ اور آئی ایم ایف کا 2018 کے لیے شرح نمو کا تخمینہ 3.9 فی صد تھا۔ اس کی نسبت معاشی میدان میں بہتری کی واضح مثالیں ہمیں دنیا بھر میں دکھائی دیتی ہیں۔
زیریں سطح کیفیت پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر شیخ کے بہ قول، ''ہمارے پاس خطرہ مول لینے اور داؤ لگانے کے امکانات خاصے کم ہیں۔'' شرح سود پہلے ہی نچلی سطح پر ہے۔ اس وقت Fed ٹارگٹ ریٹ 1.5 فی صد ہے، جب کہ ECBریٹ صفر کے لگ بھگ ہے، جس کی وجہ سے مونٹیری پالیسی کے اثرات محدود ہوجاتے ہیں۔ ٹیکس میں 1.5 ٹریلن کی کٹوتی عوامی قرضے میں خطرناک حد تک بڑھوتی کا سبب بن سکتی ہے۔ چین میں پرائیویٹ قرضے کی شرح بہت بلند ہے۔ چند ممالک اس معاملے میں دائمی عدم تواز ن کا شکار ہیں۔ چین، جرمنی اور جاپان میں chronic Current Account surpluses کا تصور رائج ہے، جب کہ برطانیہ میں دائمی Current Account deficits کا نظام موجود ہے۔
امریکا اور یورپ کے کچھ حصوں میں '' ہائپر نیشنلسٹ ''اور''پروٹیکشنسٹ'' کی بابت بڑھتے مکالموں کے ساتھ عالمی مالیاتی ڈھانچے پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد کچھ یورپی ممالک میں رائے شماری میں سخت گیر طبقات نے کامیابی حاصل کی۔ امریکا کے ساتھ پیرس معاہدہ، شمالی امریکا آزاد تجارتی معاہدہ (NAFTA) اور Trans-Pacific Partnership دراصل ماضی کی پالیسیوں میںایک بڑی اور واضح تبدیلی ہے، چند اشیاء پر محصولات نافذ کرتے ہوئے مزید محصولات کی دھمکی دی گئی ہے۔
(سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار، اکرام سہگل کا ڈیووس 2020 میں 21 جنوری کو عشائیہ پر ہونے والی گفتگو کے اقتباسات پر مشتمل مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے)
پاکستان اور چین کے مابین مضبوط سفارتی، سیاسی اور عسکری تعلقات ہیں۔ البتہ ماضی میں تجارتی تعلقات محدود رہے۔ چین کی عظیم معاشی تبدیلی کی جھلک ہمارے معاشی نظام میں ظاہر نہیں ہوئی۔ اب سی پیک دونوں معیشتوں میں تعلق پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر اس منصوبے کا موثر انداز میں اطلاق ہوتا ہے، تو یہ پاکستان، مغربی چین اور اس خطے میں بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس وقت چین کی آبادی 1.4 بلین اور اس کی جی ڈی پی 12 ٹریلین(کھرب)ڈالر ہے۔ یہ جاپان، روس، انڈیا اور برازیل کی مشترکہ GDP سے زیادہ ہے،اس محاذ پر فقط امریکا ہی 19ٹریلین کے ساتھ چین سے آگے دکھائی دیتا ہے۔
عالمی سطح پر مربوط معیشت کی حیثیت سے اس کی سالانہ تجارت چار ٹریلین ڈالر سے تجاویز کرچکی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی ایف) 1.4ٹریلین ڈالر ہے۔ممتاز چینی رہنما دنگ شا وپنگ کی اختیار کردہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیں 70 کی دہائی میں معاشی ترقی پہلے پہل نظر آئی تھی۔
چین کی کامیابی کو مندرجہ بالا کلیوں سے پرکھا جاسکتا ہے۔1۔1978 سے اب تک، تقریباً چالیس سال کے دوران، اوسط سالانہ شرح نمو 10 فی صد کے قریب رہی۔ 2۔ 800 ملین افراد کو غربت سے نجات دلانا اِس کا دوسرا اہم وصف تھا۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اگرافراد کی تعداد کے لحاظ سے معاشی اثرات کا جائزہ لیا جائے، تو بیسویں صدی میں دنگ شاوپنگ بے مثال تھے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ کے مطابق چین کو فی کس جی ڈی پی (GDP per capita) بہتر بنانے کے حوالے سے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپنی موجودہ نو ہزار ڈالر کیپٹل جی ڈی پی کے ساتھ چین گلوبل فہرست میں 71 ویں نمبر پر ہے۔اس فہرست میں سوئٹرزلینڈ 80 ہزار ڈالر، امریکا 60 ہزار ڈالر، سنگاپور57 ہزار ڈالر، جرمنی 44 ہزار ڈالر، جاپان 39ہزار ڈالر، یہاں تک کہ ترکی اور ملائیشیا بھی دس دس ہزار ڈالر کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔
چین کی موثر کارکردگی نے ملک سے آمدنی کے تفاوت کوکچھ ریجنز میں نمایاں نہیں ہونے دیا۔ شنگھائی، بیجنگ، تیانجن اورشنزین باقی حصوں سے بہتر نظر آتے ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میں فرق 3:1، جب کہ ساحلی اور اندرونی پٹی میں فرق کی شرح 2:1 ہے۔ اگر خطے پر نظر ڈالیں، تو ایک طرف20 ہزار ڈالر اوردوسری طرف پانچ ہزار ڈالر آمدنی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر شیخ نے اس علاقائی فرق کو معاشی ہم آہنگی کے لیے قابل تشویش ٹھہرایا۔
چین کی اقتصادی کامیابی کے پیچھے معاشی اور سیاسی استحکام، قیادت کی موثر تبدیلی، منظم اور سستی افرادی قوت نمایاں ہے۔ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ملک میںلانا، بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اتحاد اور دیگر ممالک کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی چینی قابلیت بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ اس کی برآمدات اس وقت 2.3 ٹریلین ہیں۔ چین کسی ملک کے ساتھ شدید سیاسی تنازع کے باوجود تجارتی افادیت کو پیش نظر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی ایک مثال چین اور بھارت کے تجارتی تعلقات ہیں۔ 85 بلین ڈالر کے حجم کے ساتھ چین انڈیا کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے۔ صرف گزشتہ برس ہی بھارت میں چینی برآمدات میں چالیس فی صد اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر حفیظ شیخ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں اور بزنس کمیونٹی کی بڑی اور مسلسل ناکامیاں نہ صر ف عالمی، بلکہ علاقائی سطح پر بھی پاکستانی معیشت کو مربوط کرنے میں ناکام رہیں۔ پاکستان کبھی دیگر ممالک کو بڑی سرمایہ کاری پاکستان لانے پر آمادہ نہیں کرسکا۔ دیگر ملک کے ساتھ اتحاد اور معاشی تعلقات بنانے میں ہماری ناکامی چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے تجربات کے بالکل برعکس ہے۔ یہ پاکستانی معاشی تاریخ کے دو اہم حقائق ہیں، جنھوں نے ملک کی معاشی رفتار کو متاثر کیا اور اسے معاشی مقاصد کے حصول کی نچلی سطح تک محدود رکھا۔
ادھر چین کی کامیابی کے پیچھے اپنی پراڈکٹ دیگر ممالک کو فروخت کرنا اور بین الاقوامی کمپنیوں سے اتحاد قائم کرکے اربوں ڈالرز کا سرمایہ ملک میں لانے کے لیے قائل کرنے کی قابلیت کارفرما رہی۔پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ قیام کے بعد ہی سے یہ مسلسل حالت جنگ میں رہا۔ اس میں سرحدی محاذ، کشمیر تنازع، 1971کی جنگ، سرد جنگ، افغان جنگ اور نام نہاد ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' شامل ہے۔
یہ تنازعات پاکستانی معیشت کے لیے گراں ثابت ہوئے اور بڑے معاشی اداروں کو پاکستان کے ساتھ طویل المدتی معاہدوں سے روکے رکھنے کا باعث بنے۔اپنی پوری تاریخ میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔کسی منتخب وزیر اعظم نے مدت پوری نہیں کی، جس کا خمیازہ ملک نے بھگتا۔اس کے باعث معاشی ترقی رفتار نہیں پکڑ سکی۔ البتہ آخری چند برس میں آئین کی بحالی، انتخابات کا انعقاد، طاقت اور اقتدار کی موثر منتقلی، اظہار کی آزادی اور سول سوسائٹی کی صورت ایک مثبت پیش رفت ہوئی۔
قدرتی وسائل سے مالامال اس ملک میں پوٹینشل کی کمی نہیں۔ یہ کوئلہ، گیس، آبی وسائل کے ساتھ ساتھ جغرافیائی اہمیت کا بھی حامل ہے۔کیا اب سی پیک پاکستان کے لیے ایک بڑا معاشی موقع بن سکتا ہے؟ 75 ٹریلین کی گلوبل جی ڈی پی کے ساتھ 2017 میں شرح نمو 3.5 فی صد رہی تھی۔ اور آئی ایم ایف کا 2018 کے لیے شرح نمو کا تخمینہ 3.9 فی صد تھا۔ اس کی نسبت معاشی میدان میں بہتری کی واضح مثالیں ہمیں دنیا بھر میں دکھائی دیتی ہیں۔
زیریں سطح کیفیت پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر شیخ کے بہ قول، ''ہمارے پاس خطرہ مول لینے اور داؤ لگانے کے امکانات خاصے کم ہیں۔'' شرح سود پہلے ہی نچلی سطح پر ہے۔ اس وقت Fed ٹارگٹ ریٹ 1.5 فی صد ہے، جب کہ ECBریٹ صفر کے لگ بھگ ہے، جس کی وجہ سے مونٹیری پالیسی کے اثرات محدود ہوجاتے ہیں۔ ٹیکس میں 1.5 ٹریلن کی کٹوتی عوامی قرضے میں خطرناک حد تک بڑھوتی کا سبب بن سکتی ہے۔ چین میں پرائیویٹ قرضے کی شرح بہت بلند ہے۔ چند ممالک اس معاملے میں دائمی عدم تواز ن کا شکار ہیں۔ چین، جرمنی اور جاپان میں chronic Current Account surpluses کا تصور رائج ہے، جب کہ برطانیہ میں دائمی Current Account deficits کا نظام موجود ہے۔
امریکا اور یورپ کے کچھ حصوں میں '' ہائپر نیشنلسٹ ''اور''پروٹیکشنسٹ'' کی بابت بڑھتے مکالموں کے ساتھ عالمی مالیاتی ڈھانچے پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد کچھ یورپی ممالک میں رائے شماری میں سخت گیر طبقات نے کامیابی حاصل کی۔ امریکا کے ساتھ پیرس معاہدہ، شمالی امریکا آزاد تجارتی معاہدہ (NAFTA) اور Trans-Pacific Partnership دراصل ماضی کی پالیسیوں میںایک بڑی اور واضح تبدیلی ہے، چند اشیاء پر محصولات نافذ کرتے ہوئے مزید محصولات کی دھمکی دی گئی ہے۔
(سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار، اکرام سہگل کا ڈیووس 2020 میں 21 جنوری کو عشائیہ پر ہونے والی گفتگو کے اقتباسات پر مشتمل مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے)