عبدالسلام تھیم سندھ کی سیاست کا ایک ستون
ماضی کے سیاستدانوں میں ایک اچھا سچا اور وفادار سیاستدان عبدالسلام تھیم بھی تھا۔
سندھ کی سیاست میں بھٹو کے آنے کے بعد ایک بہت بڑا انقلاب آیا جس میں بڑے بڑے پرانے سیاست کے کھلاڑی ہارگئے اور کئی نوجوان قیادت نے سیاست میں قدم رکھا جس میں عوام کو فوقیت اور اہمیت حاصل ہوگئی۔ اس میں خاص طور پر سانگھڑ ضلع سیاست میں بڑی تبدیلی آئی اور پی پی پی نے ایک ریکارڈ قائم کیا اور یہ سلسلہ بھٹو کی شہادت کے بعد بینظیر کی موجودگی میں بھی پروان چڑھتا رہا جس میں سچائی اور عوام کے مسائل سے دلچسپی شامل تھی۔
ماضی کے سیاستدانوں میں ایک اچھا سچا اور وفادار سیاستدان عبدالسلام تھیم بھی تھا جو عوام کی خدمت کرتے کرتے 12 اپریل 2012 میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس نے اپنی پوری زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی جس کے بدلے میں عوام اسے خادم عوام کہتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جب بھٹو پر سانگھڑ کے دورے کے دوران 1970 والے الیکشن میں حملہ ہوا تھا تو عبدالسلام ان کے برابر کھڑے تھے اور اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے کھڑے ہوگئے۔
تھیم کی پارٹی کے ساتھ سچائی اور وفاداری کی وجہ سے انھیں تعلقہ شہداد پور کے صدر، ضلع سانگھڑ کے صدر، حیدرآباد ڈویژن کے صدر اور سندھ کے انفارمیشن سیکریٹری بھی رہے۔ جب بھٹو کو شہید کیا گیا اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو تھیم کو بھی بڑا ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ وہ پارٹی سے الگ ہو جائے مگر وہ اپنی وفاداری پر ڈٹا رہا۔ اس وفاداری کو مزید مضبوط رکھنے کے لیے اس نے مارشل لا حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور پھر اسے جوڈیشل لاک اپ، پولیس لاک اپ، سب جیل، ڈسٹرکٹ جیل، سینٹرل جیل جانا پڑا اور یہ سلسلہ 7 سال مسلسل چلتا رہا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے اور وفاداری کا دامن تھامے پارٹی کا ساتھ دیا۔
جب ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو اس نے اس میں بڑا سرگرم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں اس کے گاؤں طیب تھیم میں ایک بڑا آپریشن ہوا تاکہ اس کو ڈرایا جائے اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت پارٹی چھوڑ دیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں اس کے دو ذاتی ملازم اور ان کی بیٹی ماری گئی اور باقی گاؤں والے شدید زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے ورکروں کو جیل بھیج دیا گیا۔
تھیم پر بھی تشدد کیا گیا تاکہ وہ معافی لکھ کر دیں اور پارٹی سے الگ ہو جائیں جب کچھ نہیں ہوا تو اسے بڑے اقتدار اور پیسوں کی لالچ بھی دی گئی جنھیں اس نے ایک دم ٹھکرا دیا اور ظلم اور زیادتیوں کے آگے نہیں جھکے اور بھٹو کے لیے اپنے ارادوں میں مزید وفاداریاں دکھائیں۔ ان تمام مراحل کے بعد جب ضیا الحق ایک جہاز کے حادثے میں مارے گئے تو 1988 کے الیکشن کا اعلان ہوا جس میں تھیم اپنے علاقے سے ایم پی اے کی نشست پر کامیاب ہوئے اور وہ صوبائی کابینہ میں وزیر بن گئے۔
جب 1990 میں دوبارہ جنرل الیکشن ہوئے تو انھیں زبردستی ہرایا گیا مگر 1993 کے جنرل الیکشن میں وہ دوبارہ ایم پی اے بن گئے اور وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے پکے امیدوار تھے لیکن جیساکہ وہ گریجویٹ نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کا نام ڈراپ ہو گیا اور وہ وزیر تعلیم بن گئے جب کہ اس سے 1988 والے الیکشن جیتنے کے بعد وہ ایکسائز اور ٹیکسیشن کے وزیر بنے تھے۔ اس نے 2008کے عام انتخابات میں بھی جیت کر سندھ کابینہ میں بطور وزیر برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن بن گئے۔
تھیم کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس نے اپنے دفتر، اوطاق اور گھر پر عوام سے ملنے کے لیے دروازے کھلے رکھے، اس نے اپنے علاقے میں ہر قسم کی ترقی کروائی، بیروزگار نوجوانوں کو سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں دلوائیں۔ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو اس نے کئی نئے اسکول بنوائے، پرانے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کی مرمت کروائی۔ اساتذہ کی کمی کو پر کرنے کے لیے پوسٹیں create کروائیں۔
اس کے علاوہ اپنے علاقوں میں میٹھا پانی پینے کے لیے کئی اسکیمیں شروع کروائیں، طبی سہولتیں دینے کے لیے نئے اسپتال قائم کروائے، ڈاکٹروں کا تقرر کروایا، گاؤں میں بجلی کے کنکشن دلوائے، ٹیلی فون کی سہولت کے لیے بھاگ دوڑ کی، شہروں اور گاؤں کے لیے ڈرینج سسٹم، سڑکوں کی مرمت اور نئے روڈ بنوانے کے لیے اور چھوٹے موٹے پول بنوائے اس کی یہ خواہش تھی کہ وہ ریلوے پھاٹک پر اوور ہیڈ پل اور اسٹیڈیم بنوائے جو اس کی کوششیں اس کے اس دنیا کو چھوڑنے کے بعد پوری ہوئیں۔
2011کی شدید بارشوں میں شہداد پور میں بھی بڑا نقصان ہوا تھا جس میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، لوگ بے گھر ہوگئے اور شہر کی سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا اور اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اس نے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ تھیم کی اس بات سے آپ اندازہ لگائیں کہ اسے لوگوں سے کتنا پیار تھا کہ وہ اپنی گردوں کی بیماری کے باوجود گھر میں بیٹھ کر آرام نہیں کیا اور لوگوں کی مدد کرنے کے لیے لوگوں کے کاموں کے لیے، بارشوں سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے نکل پڑے حالانکہ اسے شوگر اور سانس کے امراض بھی تھے اور ڈاکٹروں نے اسے کام سے سختی سے منع کیا تھا۔
وہ صبح کو نکلتے اور بارشوں اور سیلاب کے متاثر لوگوں کے لیے کھانے کا، دواؤں کا، ڈاکٹروں کا، بستروں کا انتظام کرنے میں لگے رہے اور متاثرین کے لیے جو کیمپ بنائے تھے وہاں جاکر خود پر کام کو دیکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ زیادہ بیمار پڑ گئے اور انھیں زبردستی اسپتال میں داخل کردیا گیا مگر وہ وہاں سے بھاگ کر متاثرین کے پاس پہنچ جاتے تھے۔اس وجہ سے گردوں کی تکلیف میں زیادہ اضافہ ہوگیا اور اسے ڈائیلاسیس کے لیے کراچی آنا پڑتا تھا مگر وہ وہاں بھی فارغ وقت میں ترقیاتی کاموں کے بارے میں اور متاثرین کی امداد کے سلسلے میں افسران سے رابطے میں رہتے تھے۔
دفتر کا کام بھی اسپتال میں کرتے تھے۔تھیم 1 جنوری 1950 میں اپنے والد رئیس گل محمد خان کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ اس فیملی کے بڑے سربراہ طیب خان تھیم جیکب آباد سے آکر یہاں آئے تھے اور تعلقہ شہداد پور میں طیب نام سے گاؤں آباد کیا۔ جب کہ ان کے آبا و اجداد سعودی عرب سے آکر سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ عبدالسلام نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں سے، سیکنڈری تعلیم میونسپل ہائی اسکول شہداد پور سے، انٹرمیڈیٹ تعلیم ڈی سی ہائی اسکول نواب شاہ سے حاصل کی۔
جب اس نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں داخلہ حاصل کیا تو یونین آف اسٹوڈنٹس میں حصہ لینا شروع کیا۔ جب بھٹو نے پارٹی کا اعلان کیا تو تھیم نے بھٹو کی شخصیت کی وجہ سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بھٹو کے سامنے ہی رکنیت کا فارم پرکیا۔ جب بھٹو سانگھڑ جایا کرتے تو ان کے بھائی کے پاس ناشتہ کیا کرتے تھے۔ ان کی وجہ اور کاوش سے سانگھڑ میں کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں آیا تھا۔
ماضی کے سیاستدانوں میں ایک اچھا سچا اور وفادار سیاستدان عبدالسلام تھیم بھی تھا جو عوام کی خدمت کرتے کرتے 12 اپریل 2012 میں خالق حقیقی سے جا ملا۔ اس نے اپنی پوری زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی جس کے بدلے میں عوام اسے خادم عوام کہتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اسے اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جب بھٹو پر سانگھڑ کے دورے کے دوران 1970 والے الیکشن میں حملہ ہوا تھا تو عبدالسلام ان کے برابر کھڑے تھے اور اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے کھڑے ہوگئے۔
تھیم کی پارٹی کے ساتھ سچائی اور وفاداری کی وجہ سے انھیں تعلقہ شہداد پور کے صدر، ضلع سانگھڑ کے صدر، حیدرآباد ڈویژن کے صدر اور سندھ کے انفارمیشن سیکریٹری بھی رہے۔ جب بھٹو کو شہید کیا گیا اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو تھیم کو بھی بڑا ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ وہ پارٹی سے الگ ہو جائے مگر وہ اپنی وفاداری پر ڈٹا رہا۔ اس وفاداری کو مزید مضبوط رکھنے کے لیے اس نے مارشل لا حکومت کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور پھر اسے جوڈیشل لاک اپ، پولیس لاک اپ، سب جیل، ڈسٹرکٹ جیل، سینٹرل جیل جانا پڑا اور یہ سلسلہ 7 سال مسلسل چلتا رہا مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے اور وفاداری کا دامن تھامے پارٹی کا ساتھ دیا۔
جب ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو اس نے اس میں بڑا سرگرم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں اس کے گاؤں طیب تھیم میں ایک بڑا آپریشن ہوا تاکہ اس کو ڈرایا جائے اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت پارٹی چھوڑ دیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں اس کے دو ذاتی ملازم اور ان کی بیٹی ماری گئی اور باقی گاؤں والے شدید زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے ورکروں کو جیل بھیج دیا گیا۔
تھیم پر بھی تشدد کیا گیا تاکہ وہ معافی لکھ کر دیں اور پارٹی سے الگ ہو جائیں جب کچھ نہیں ہوا تو اسے بڑے اقتدار اور پیسوں کی لالچ بھی دی گئی جنھیں اس نے ایک دم ٹھکرا دیا اور ظلم اور زیادتیوں کے آگے نہیں جھکے اور بھٹو کے لیے اپنے ارادوں میں مزید وفاداریاں دکھائیں۔ ان تمام مراحل کے بعد جب ضیا الحق ایک جہاز کے حادثے میں مارے گئے تو 1988 کے الیکشن کا اعلان ہوا جس میں تھیم اپنے علاقے سے ایم پی اے کی نشست پر کامیاب ہوئے اور وہ صوبائی کابینہ میں وزیر بن گئے۔
جب 1990 میں دوبارہ جنرل الیکشن ہوئے تو انھیں زبردستی ہرایا گیا مگر 1993 کے جنرل الیکشن میں وہ دوبارہ ایم پی اے بن گئے اور وزیر اعلیٰ کے منصب کے لیے پکے امیدوار تھے لیکن جیساکہ وہ گریجویٹ نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کا نام ڈراپ ہو گیا اور وہ وزیر تعلیم بن گئے جب کہ اس سے 1988 والے الیکشن جیتنے کے بعد وہ ایکسائز اور ٹیکسیشن کے وزیر بنے تھے۔ اس نے 2008کے عام انتخابات میں بھی جیت کر سندھ کابینہ میں بطور وزیر برائے ٹیکنیکل ایجوکیشن بن گئے۔
تھیم کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس نے اپنے دفتر، اوطاق اور گھر پر عوام سے ملنے کے لیے دروازے کھلے رکھے، اس نے اپنے علاقے میں ہر قسم کی ترقی کروائی، بیروزگار نوجوانوں کو سرکاری اور غیر سرکاری نوکریاں دلوائیں۔ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو اس نے کئی نئے اسکول بنوائے، پرانے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں کی مرمت کروائی۔ اساتذہ کی کمی کو پر کرنے کے لیے پوسٹیں create کروائیں۔
اس کے علاوہ اپنے علاقوں میں میٹھا پانی پینے کے لیے کئی اسکیمیں شروع کروائیں، طبی سہولتیں دینے کے لیے نئے اسپتال قائم کروائے، ڈاکٹروں کا تقرر کروایا، گاؤں میں بجلی کے کنکشن دلوائے، ٹیلی فون کی سہولت کے لیے بھاگ دوڑ کی، شہروں اور گاؤں کے لیے ڈرینج سسٹم، سڑکوں کی مرمت اور نئے روڈ بنوانے کے لیے اور چھوٹے موٹے پول بنوائے اس کی یہ خواہش تھی کہ وہ ریلوے پھاٹک پر اوور ہیڈ پل اور اسٹیڈیم بنوائے جو اس کی کوششیں اس کے اس دنیا کو چھوڑنے کے بعد پوری ہوئیں۔
2011کی شدید بارشوں میں شہداد پور میں بھی بڑا نقصان ہوا تھا جس میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، لوگ بے گھر ہوگئے اور شہر کی سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا اور اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اس نے بڑی بھاگ دوڑ کی۔ تھیم کی اس بات سے آپ اندازہ لگائیں کہ اسے لوگوں سے کتنا پیار تھا کہ وہ اپنی گردوں کی بیماری کے باوجود گھر میں بیٹھ کر آرام نہیں کیا اور لوگوں کی مدد کرنے کے لیے لوگوں کے کاموں کے لیے، بارشوں سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے نکل پڑے حالانکہ اسے شوگر اور سانس کے امراض بھی تھے اور ڈاکٹروں نے اسے کام سے سختی سے منع کیا تھا۔
وہ صبح کو نکلتے اور بارشوں اور سیلاب کے متاثر لوگوں کے لیے کھانے کا، دواؤں کا، ڈاکٹروں کا، بستروں کا انتظام کرنے میں لگے رہے اور متاثرین کے لیے جو کیمپ بنائے تھے وہاں جاکر خود پر کام کو دیکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ زیادہ بیمار پڑ گئے اور انھیں زبردستی اسپتال میں داخل کردیا گیا مگر وہ وہاں سے بھاگ کر متاثرین کے پاس پہنچ جاتے تھے۔اس وجہ سے گردوں کی تکلیف میں زیادہ اضافہ ہوگیا اور اسے ڈائیلاسیس کے لیے کراچی آنا پڑتا تھا مگر وہ وہاں بھی فارغ وقت میں ترقیاتی کاموں کے بارے میں اور متاثرین کی امداد کے سلسلے میں افسران سے رابطے میں رہتے تھے۔
دفتر کا کام بھی اسپتال میں کرتے تھے۔تھیم 1 جنوری 1950 میں اپنے والد رئیس گل محمد خان کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ اس فیملی کے بڑے سربراہ طیب خان تھیم جیکب آباد سے آکر یہاں آئے تھے اور تعلقہ شہداد پور میں طیب نام سے گاؤں آباد کیا۔ جب کہ ان کے آبا و اجداد سعودی عرب سے آکر سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ عبدالسلام نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں سے، سیکنڈری تعلیم میونسپل ہائی اسکول شہداد پور سے، انٹرمیڈیٹ تعلیم ڈی سی ہائی اسکول نواب شاہ سے حاصل کی۔
جب اس نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں داخلہ حاصل کیا تو یونین آف اسٹوڈنٹس میں حصہ لینا شروع کیا۔ جب بھٹو نے پارٹی کا اعلان کیا تو تھیم نے بھٹو کی شخصیت کی وجہ سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بھٹو کے سامنے ہی رکنیت کا فارم پرکیا۔ جب بھٹو سانگھڑ جایا کرتے تو ان کے بھائی کے پاس ناشتہ کیا کرتے تھے۔ ان کی وجہ اور کاوش سے سانگھڑ میں کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں آیا تھا۔