جہالت ایک قوت ہے
یہ بات کبھی بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ آخر ہمارے اور ان لوگوں کے نصیب اور مقدر اتنے مختلف کیوں ہیں۔
ایک امریکن ریڈ انڈین سردارکا پوتا اپنے ایک دوست سے بہت رنجیدہ اور بدلے کی آگ میں جلتا ہوا اس کے پاس آیا تو اس نے اس سے، اس کی کہانی سن کر کہا ''ہم میں سے ہر شخص کے اندر دو بھیڑئیے ہوتے ہیں جو آپس میں مسلسل برسر پیکار اورگتھم گتھا رہتے ہیں۔
ایک بھیڑیا اچھا ہے وہ محبت، استقامت، قربانی، امید، فیاضی، سچائی اور ایمان کی علامت ہے جب کہ دوسرا بھیڑیا شیطانی فطرت رکھتا ہے اور غصے، حسد، پچھتاوے، غم و حرص، بڑ بولے پن، غرور، جھوٹ، احساس کمتری اور انا کی علامت ہے بس پوری زندگی ہمارے اندر دونوں بھیڑئیے آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں اور جو جیت جائے وہ ہمارے اندر پر حکمرانی کرتا ہے'' پوتے نے اپنے سردار دادا کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا ''لیکن کون سا بھیڑیا جیتتا ہے؟''
سردار مسکرایا اور اس کا کاندھا تھپک کر بولا ''دونوں میں سے وہ بھیڑیا جیت جاتا ہے جسے تم زیادہ گوشت کھلاتے ہو'' اسے ہم قدرت کی نا انصافی کہیں یا ہماری بدقسمتی کہیں کہ ہمارے حصے میں با اختیار و اقتدار، اشرافیہ، بیوروکریٹس، سرمایہ دار، تاجر، جاگیر دار جو آئے وہ سب کے سب دوسرے بھیڑئیے کو گوشت کھلاتے آ رہے ہیں۔
اس لیے وہ اختیار و اقتدار پا کر عوام دوستی، رحمدلی، انصاف وعدل، عقل و شعورکا ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں اور سنگدلی، بے رحمی، بے حسی،کرپشن، لوٹ مارکا ہاتھ تھام لیتے ہیں، پھر انھیں اپنے آپ، اپنے پیاروں اور ساتھیوں کے علاوہ اورکچھ نہ تو دکھائی دیتا ہے اور نہ سجھائی دیتا ہے ان کی ساری سوچ اپنے آپ سے شروع ہو کر اپنے آپ پر ختم ہو جاتی ہے وہ اس کے علاوہ اورکچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیے گئے ہیں اور دوسری طرف آخر امریکا، برطانیہ، یورپ، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے نصیب اور مقدر میں ایسے لوگ کیوں آتے ہیں جو اختیار و اقتدار پا کر رحم دلی ، ایمانداری، عوام دوستی، انصاف و عدل اور اصولوں کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک نارمل انسان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
یہ بات کبھی بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ آخر ہمارے اور ان لوگوں کے نصیب اور مقدر اتنے مختلف کیوں ہیں، آخر ان کی مٹی میں ایسا کیا ہے جو وہ ایسے انسانوں کو جنم دیتی ہے اورآخر ہماری مٹی میں ایسا کیا ہے جو ایسے انسانوں کو جنم نہیں دیتی۔
آخر ہماری مٹی اتنی بانجھ کیوں ہے اور یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ان ممالک کے لوگ خدا کی ایسی کونسی عبادت کر رہے ہیں جو کہ ہم نہیں کرتے اور یہ بھی کہ وہ لوگ کونسے ایسے نیک کام اور اعمال کر رہے ہیں جو ہم نہیں کرتے یا کر رہے ہیں۔
یہ سوچ سوچ کر ذہن سن ہو جاتا ہے اپنا کام کرنا بند کر دیتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے وہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں خطا کے پتلے اورکمزور۔ لیکن خدا ان سے اتنا کیوں راضی ہے اور ہم سے اتنا کیوں ناراض ہے وہ ہم سے ترقی،کامیابی، خوشحالی، سکون، امن، چین میں اتنے آگے ہیں کہ ہمیں ان تک پہنچنے کے لیے صدیاں بھی کم پڑ جائیں گی اور دوسری طرف ہم جہالت، غربت، افلاس، بھوک، مہنگائی، بربادی، بیماریوں، ذلت و خواریوں، پریشانیوں، مصیبتوں، آفتوں، گندگیوں، غلامیوں، انتہا پسندیوں، کر پشن، لوٹ مار، بد انتظامی، بد اعمالی، میں ان سے اتنا آگے ہیں کہ انھیں ہم جیسا بننے کے لیے بھی صدیاں کم پڑ جائیں گی۔
یہ سن سن کر ہم سب بیزار ہو گئے ہیں کہ مشکل کے دن بس ختم ہونے ہی والے ہیں۔ ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بس بہنے ہی والی ہیں بہت جلد ہی ملک سے مہنگائی ، بیروزگاری، غربت اور افلاس کا خاتمہ ہونے ہی والا ہے۔ آخر یہ جھوٹ اور فریب کے دعوے اور وعدے ہمارا پیچھاچھوڑ کیوں نہیں دیتے ہیں۔ یہ سنگدل، بے رحم، بے حس، کرپٹ حکمران ہمیں سنہرے خواب دکھانا آخر بندکیوں نہیں کر دیتے ہیں۔ جب وہ ملک اور عوام کے حالات تبدیل نہیں کر سکتے تو وہ کیوں ایک روز عوام کے سامنے آ کر انھیں یہ سچ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اس ملک میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے تمہیں ان ہی حالات میں اسی طرح جینا اور مرنا ہے اپنی تمام خواہشوں، آرزئوں کو آگ لگا دو اپنے سارے خواب جلا ڈالو، سوچنے پر خا ک ڈال دو۔
اپنی آنکھیں کرچیوں اورکنکر سے بھر لو۔ اپنے دل سینے سے نکال کر پھینک دو اورآیندہ ہم سے کوئی سوال نہ کرنا۔ دنیاکے مشہور ترین ادیب ڈاکٹر ڈینیل گول مین کہتا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ طبقہ امرا میں شامل لوگوں کو وہ کچھ سنائی اور دکھائی ہی نہیں دیتا ہے جس میں ان کے آس پاس کے غریب غربا وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ جارج اور ویل نے اپنی مشہور تصنیف'' 1984'' میں لکھا تھا کہ ایک تصوراتی مملکت کی ''سچائی کی وزارت'' پر پارٹی کا منشور تحریر تھا جو کچھ اس طرح سے تھا ''جنگ امن ہے، آزادی ایک غلامی ہے، 'جہالت ایک قوت ہے۔''
ان ہی سب چیزوں کو آج ہم اپنے ملک میں رونما ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ہر وہ طریقہ اور راستہ جس سے لوگ کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جائیں ہمارے ملک میں اپنایا جاتا رہا ہے، نتیجے میں آج لوگ مردوں سے زیادہ بد ترین زندگی گزار رہے ہیں۔
مارکس آئیڈیالوجی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریہ وہ ہے جو حقیقت کو الٹ دیتا ہے۔ مارکس ہی کے الفاظ میں یہ اسے سر کے بل کھڑا کر دیتا ہے ،کسی سماج کی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی محض سوچ، فکر کی تبدیلی ہی سے سماج تبدیل کیاجا سکتا ہے اگر فکر کو تبدیل کر دیا جائے یا فکرکی توجیہہ کسی اور طریقے سے کر دی جائے تو سماجی تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سماج کی تمام خرابیاں محض غلط فکر کی وجہ سے جنم لیتی ہیں، کچھ لوگ برا سوچنے لگتے ہیں جب کہ لوگوں کی اکثریت اچھا سوچتی ہے یہ برے لوگ تمام سماج کو خراب کر دیتے ہیں، نجانے وہ دن کب آئے گا جب ہمارے سماج کے برے لوگ اچھا سوچنے لگیں گے یا شاید کبھی نہ آئے۔
آج شیکسپیئر بہت یاد آتا ہے وہ اپنے ڈرامےKing Lear میں دکھاتا ہے کہ جب تک شاہ لیئر پاگل نہیں ہو جاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہو جاتا۔
ایک بھیڑیا اچھا ہے وہ محبت، استقامت، قربانی، امید، فیاضی، سچائی اور ایمان کی علامت ہے جب کہ دوسرا بھیڑیا شیطانی فطرت رکھتا ہے اور غصے، حسد، پچھتاوے، غم و حرص، بڑ بولے پن، غرور، جھوٹ، احساس کمتری اور انا کی علامت ہے بس پوری زندگی ہمارے اندر دونوں بھیڑئیے آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے ہیں اور جو جیت جائے وہ ہمارے اندر پر حکمرانی کرتا ہے'' پوتے نے اپنے سردار دادا کی آنکھوں میں جھانکا اور پوچھا ''لیکن کون سا بھیڑیا جیتتا ہے؟''
سردار مسکرایا اور اس کا کاندھا تھپک کر بولا ''دونوں میں سے وہ بھیڑیا جیت جاتا ہے جسے تم زیادہ گوشت کھلاتے ہو'' اسے ہم قدرت کی نا انصافی کہیں یا ہماری بدقسمتی کہیں کہ ہمارے حصے میں با اختیار و اقتدار، اشرافیہ، بیوروکریٹس، سرمایہ دار، تاجر، جاگیر دار جو آئے وہ سب کے سب دوسرے بھیڑئیے کو گوشت کھلاتے آ رہے ہیں۔
اس لیے وہ اختیار و اقتدار پا کر عوام دوستی، رحمدلی، انصاف وعدل، عقل و شعورکا ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں اور سنگدلی، بے رحمی، بے حسی،کرپشن، لوٹ مارکا ہاتھ تھام لیتے ہیں، پھر انھیں اپنے آپ، اپنے پیاروں اور ساتھیوں کے علاوہ اورکچھ نہ تو دکھائی دیتا ہے اور نہ سجھائی دیتا ہے ان کی ساری سوچ اپنے آپ سے شروع ہو کر اپنے آپ پر ختم ہو جاتی ہے وہ اس کے علاوہ اورکچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے محروم کر دیے گئے ہیں اور دوسری طرف آخر امریکا، برطانیہ، یورپ، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، روس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے نصیب اور مقدر میں ایسے لوگ کیوں آتے ہیں جو اختیار و اقتدار پا کر رحم دلی ، ایمانداری، عوام دوستی، انصاف و عدل اور اصولوں کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ایک نارمل انسان کی زندگی کی طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
یہ بات کبھی بھی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ آخر ہمارے اور ان لوگوں کے نصیب اور مقدر اتنے مختلف کیوں ہیں، آخر ان کی مٹی میں ایسا کیا ہے جو وہ ایسے انسانوں کو جنم دیتی ہے اورآخر ہماری مٹی میں ایسا کیا ہے جو ایسے انسانوں کو جنم نہیں دیتی۔
آخر ہماری مٹی اتنی بانجھ کیوں ہے اور یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آخر ان ممالک کے لوگ خدا کی ایسی کونسی عبادت کر رہے ہیں جو کہ ہم نہیں کرتے اور یہ بھی کہ وہ لوگ کونسے ایسے نیک کام اور اعمال کر رہے ہیں جو ہم نہیں کرتے یا کر رہے ہیں۔
یہ سوچ سوچ کر ذہن سن ہو جاتا ہے اپنا کام کرنا بند کر دیتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے وہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں خطا کے پتلے اورکمزور۔ لیکن خدا ان سے اتنا کیوں راضی ہے اور ہم سے اتنا کیوں ناراض ہے وہ ہم سے ترقی،کامیابی، خوشحالی، سکون، امن، چین میں اتنے آگے ہیں کہ ہمیں ان تک پہنچنے کے لیے صدیاں بھی کم پڑ جائیں گی اور دوسری طرف ہم جہالت، غربت، افلاس، بھوک، مہنگائی، بربادی، بیماریوں، ذلت و خواریوں، پریشانیوں، مصیبتوں، آفتوں، گندگیوں، غلامیوں، انتہا پسندیوں، کر پشن، لوٹ مار، بد انتظامی، بد اعمالی، میں ان سے اتنا آگے ہیں کہ انھیں ہم جیسا بننے کے لیے بھی صدیاں کم پڑ جائیں گی۔
یہ سن سن کر ہم سب بیزار ہو گئے ہیں کہ مشکل کے دن بس ختم ہونے ہی والے ہیں۔ ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بس بہنے ہی والی ہیں بہت جلد ہی ملک سے مہنگائی ، بیروزگاری، غربت اور افلاس کا خاتمہ ہونے ہی والا ہے۔ آخر یہ جھوٹ اور فریب کے دعوے اور وعدے ہمارا پیچھاچھوڑ کیوں نہیں دیتے ہیں۔ یہ سنگدل، بے رحم، بے حس، کرپٹ حکمران ہمیں سنہرے خواب دکھانا آخر بندکیوں نہیں کر دیتے ہیں۔ جب وہ ملک اور عوام کے حالات تبدیل نہیں کر سکتے تو وہ کیوں ایک روز عوام کے سامنے آ کر انھیں یہ سچ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اس ملک میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے تمہیں ان ہی حالات میں اسی طرح جینا اور مرنا ہے اپنی تمام خواہشوں، آرزئوں کو آگ لگا دو اپنے سارے خواب جلا ڈالو، سوچنے پر خا ک ڈال دو۔
اپنی آنکھیں کرچیوں اورکنکر سے بھر لو۔ اپنے دل سینے سے نکال کر پھینک دو اورآیندہ ہم سے کوئی سوال نہ کرنا۔ دنیاکے مشہور ترین ادیب ڈاکٹر ڈینیل گول مین کہتا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ طبقہ امرا میں شامل لوگوں کو وہ کچھ سنائی اور دکھائی ہی نہیں دیتا ہے جس میں ان کے آس پاس کے غریب غربا وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ جارج اور ویل نے اپنی مشہور تصنیف'' 1984'' میں لکھا تھا کہ ایک تصوراتی مملکت کی ''سچائی کی وزارت'' پر پارٹی کا منشور تحریر تھا جو کچھ اس طرح سے تھا ''جنگ امن ہے، آزادی ایک غلامی ہے، 'جہالت ایک قوت ہے۔''
ان ہی سب چیزوں کو آج ہم اپنے ملک میں رونما ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ہر وہ طریقہ اور راستہ جس سے لوگ کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جائیں ہمارے ملک میں اپنایا جاتا رہا ہے، نتیجے میں آج لوگ مردوں سے زیادہ بد ترین زندگی گزار رہے ہیں۔
مارکس آئیڈیالوجی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نظریہ وہ ہے جو حقیقت کو الٹ دیتا ہے۔ مارکس ہی کے الفاظ میں یہ اسے سر کے بل کھڑا کر دیتا ہے ،کسی سماج کی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت نہیں ہوتی محض سوچ، فکر کی تبدیلی ہی سے سماج تبدیل کیاجا سکتا ہے اگر فکر کو تبدیل کر دیا جائے یا فکرکی توجیہہ کسی اور طریقے سے کر دی جائے تو سماجی تبدیلی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ سماج کی تمام خرابیاں محض غلط فکر کی وجہ سے جنم لیتی ہیں، کچھ لوگ برا سوچنے لگتے ہیں جب کہ لوگوں کی اکثریت اچھا سوچتی ہے یہ برے لوگ تمام سماج کو خراب کر دیتے ہیں، نجانے وہ دن کب آئے گا جب ہمارے سماج کے برے لوگ اچھا سوچنے لگیں گے یا شاید کبھی نہ آئے۔
آج شیکسپیئر بہت یاد آتا ہے وہ اپنے ڈرامےKing Lear میں دکھاتا ہے کہ جب تک شاہ لیئر پاگل نہیں ہو جاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہو جاتا۔