مودی وائرس
گاندھی بھی جیسے دلی سے رخصت ہوئے، مولانا آزاد ، نہرو۔ شرم تو خود پٹیل کو بھی آتی ہوگی۔
یوں لگتا ہے ہر جانب وائرس ہی وائرس ہو۔ چین سے کورونا وائرس ، امریکا سے ٹرمپ وائرس لیکن جو وائرس مودی کی شکل میں اس خطے کو لگ چکا ہے وہ تو جنرل ضیاء الحق سے بھی بد تر وائرس ہے۔
دلی میں پونے تین سو سال پہلے نادر شاہ آیا تھا اور آج وہاں پھر مودی آیا ہے، اس نے برہنہ شمشیر سے دلی کو لہولہان کیا تھا اور اس نے زبان سے نفرت کے بیو پارمیں سب کو مات دے دی۔ میں نے یوٹیوب پر ہندوستانی ٹی وی چینلزکے ٹاک شوز دیکھے، انتہائی نفرت کا بازارگرم تھا ۔ وہ تمام اینکر جیسے چھوٹے چھوٹے مودی تھے اور ایسے نہ جانے کتنے ہونگے جو مسلح ہوکر، لاٹھی ڈنڈا ہاتھ میں لے کر راستوں پے دندناتے پھرتے ہیں اور پولیس ان پر پہرا دیتی ہے۔
ان کو جانے دیتی ہے کہ جا ؤ اور جا کر مسجدیں جلائو، مسلمان کو مارو، عدالتوں کو جیسے چپ لگ گئی ہے، ہندوستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری ریزہ ریزہ ہوگئی ہے۔ کہاں گیا کیشوندہ کیس، گولکناتھ کیس، بومائے کیس سب جیسے ریزہ ریزہ ہو چکے۔
گاندھی بھی جیسے دلی سے رخصت ہوئے، مولانا آزاد ، نہرو۔ شرم تو خود پٹیل کو بھی آتی ہوگی جسکے مجسمے کے لیے مودی نے پورے ہندوستان کو آگ لگائی۔ اتنا بڑا مجسمہ توگاندھی کا بھی نہ بنایا گیا، نہ نہرو کا، نہ ہی گوتم بدھا کا ہے۔ وہ مجسمہ پٹیل کا مجسمہ نہیں تھا۔ وہ پٹیل جس کے ساتھ جناح مذاکرات کرتے تھے، پٹیل جو بھی تھے مگر وہ نہ تھے کہ ان کا قد آدم مجسمہ تراش کر آویزاں کیا جائے۔ گاندھی، جناح ، پٹیل اور مودی یہ سب گجراتی ہیں۔ بات یہ نہیں کہ 1947 میں ہندوستان کو آگ لگی وہ گجرات سے لگی ۔ مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ چن چن کر وہاں مسلمانوں کو مارا گیا، ریل گاڑیوں کو اور ان کی بستیوں کو آگ لگائی گئی۔
آج وہ آگ گجرات سے دلی تک پہنچ چکی ہے اس لیے کہ دلی میں عام آدمی پارٹی نے مودی کی پارٹی بی جی پی کو بری طرح شکست دی ہے۔ کانگریس بھی ہار گئی۔ بی جی پی کے پاس اپنی فوج ہے آر ایس ایس کے روپ میں جس سے اب کورٹ بھی ڈرتی ہے وہ کسی پر بھی فتویٰ صادرکرکے ان کے دفتر میں،گھر میں یا پھر عدالت ہی کیوں نہ ہوگھس کر بھی پٹائی کرسکتے ہیں یہی کام یہاں دائیں بازوکی جماعتیں کرتی تھیں اور کراچی میں اس کام کا بیڑا لسانی تنظیم نے اٹھایا ہوا تھا۔
یہ جو نفرتیں ہیں اچانک جنم نہیں لیتیں لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ یہ لوگوں کے مفاد کے ذریعہ بن جاتی ہیں۔ جس طرح ہٹلرکے ہاتھوں شاندار جرمنی ٹوٹ پھوٹ گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں پاکستان کا کیا انجام ہوا، جنرل ایوب نے مشرقی پاکستان کا یا اس سے پہلے جو رواداد اس نے رقم کی کسی اور نے نہیں کی ہمیں کسی اور نے نہیں، ہم نے خود اپنے آپ کو لوٹا ہے۔ 23 مارچ 1943 کی قراداد سے بنا پاکستان سولہ دسمبر 1971 کو سقوط ہوا۔
اب ہندوستان کی عظیم جمہوریت کو بھی وائرس لگ گیا۔ یہ نقصان ہندوستان کا نہیں، یہ نقصان بنی نوع انسان کی تاریخ ، تہذیب وتمدن کا ہے۔ہٹلر کو اپنے عظیم ہونے کا احساس تاریخ سے ملا مگر وہ جرمن نہیں تھا۔ مودی جس کو اپنے ہندو ہونے پر ناز ہے، یہ بھی خبر نہیںکہ وہ کون ہے، حب الوطنی ، اپنی نسل پر فخر اکثر ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے نیا نیا جنم لیتے ہیں اس دھرم میں، اس قبیلے میں اور وہ اس قوم و تہذیب و تاریخ کے وارث بنتے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں۔
مگر مجھے یقین ہے اورن دہتی رائے کا ہندوستان کہیں نہیں جاتا نہ جناح کا پاکستان۔ آج بہت سے فتنہ گر یہاں پر بھی تو پل رہے ہونگے کہ نفرت کی دلدل میں دھنسے، اس ہندوستان سے یہ بھی لطف اندوز ہوں، بڑے بڑے کالم نگارچیخیںگے، اینکر اپنے ٹاک شوز میں بھی کہیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح کورونا وائرس کے نام پر آج ماسک بلیک میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کو لگے مودی وائرس کی وجہ سے محبت ، امن و شانتی کی آوازیں دب گئی ہیں۔ ہر طرف بلوہ ہے، وہ کہتے ہیں وہ پندرہ کروڑ ہیں اور ہم ایک سوکروڑ۔ آج مسلمان ساٹھ کروڑ ہوتا اگر 1947 میں ہندوستان نہ ٹوٹتا۔
مودی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ہوٹل پر چائے کی پیالی کیسے بکتی ہے۔ اب مودی کو چائے نہیں نفرت کا معجون بیچنا ہے۔ بہت آسانی سے اور بہت تیزی سے یہ معجون بکتا ہے۔ ہوش و عقل کی بات نہیں بکتی، محبتوں کے پیغام نہیں سنے جاتے۔ ہری پرساد کی بانسری ہو، ذاکر حسین کا طبلہ ہو ، بسم اللہ خان کی شہنائی ہو یا روی شنکرکا ستار ہو۔ سب کے سب بے بس۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے سپریم کورٹ کا میزان بھی۔
وہ یوسف خان جو دلیپ کمار بنے۔ وہ رفیع جو لاہور سے گئے اور وہ سعادت منٹو جو بمبئی سے لاہور آئے۔ اس ہندوستان کو میں مودی کی نفرتوں بھری ندیا میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ میری تاریخ ہے میری تہذیب اورمیرا تمدن ہے۔ اگر مودی وائرس وہاں پھیلا ہے توکورونا وائرس کی طرح یہ سرحدیں پارکرکے یہاں بھی آسکتاہے بلکہ یہ وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
غربت سے بڑا کوئی وائرس نہیں ہوسکتا۔ جتنی نفرت کی باتیں ہوں گی اتنا ہی جنگ کے لیے سامان خریدنا ہوگا اور پھر اتنی ہی غربت پھیلتی جائے گی۔ اس نفرت کے وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جرمنی جہاں دائیں بازوکی پاپولر پارٹی نے کبھی نہ سوچا تھا کہ اقتدار میں اتحادی بھی بن سکتے ہیں۔ وہ کافکا کا ہنگری ، یوگو سلاویہ یا یوں کہیے ایسٹ یورپ بھی اس وائرس کی لپیٹ میں ہے۔
مودی اور ٹرمپ میں کتنی چیزیں یکساں ہیں۔ وہ امریکا میں سفید فام نیشنل ازم بیچتا ہے، اسلام فوبیا پھیلاتا ہے اور موی یہی کام ہندوستان میں کرتا ہے۔ ہم بھی معجون بیچتے ہیں مگرکم ازکم ضیا الحق جیسا نہیں۔ یہ ریاست یہ اقتدار لوگوں کی امانت ہے۔ یہ لوگوں کا ہی ہے۔ یہاں بندوق کی زور پر تالا آزمائی ہوئی، وہاں بیلٹ باکس کو کرپٹ کر دیا گیا ہو ۔ووٹر کے ذہن کو برین واش کردیا گیا۔ وہ بیانیہ جوکسی کا بھی نہیں، نہ گاندھی کا نہ نہروکا اور نہ ہی آزاد کا۔ جو وائرس ہندوستان کو لگا۔ خدا خیر کرے۔
دلی میں پونے تین سو سال پہلے نادر شاہ آیا تھا اور آج وہاں پھر مودی آیا ہے، اس نے برہنہ شمشیر سے دلی کو لہولہان کیا تھا اور اس نے زبان سے نفرت کے بیو پارمیں سب کو مات دے دی۔ میں نے یوٹیوب پر ہندوستانی ٹی وی چینلزکے ٹاک شوز دیکھے، انتہائی نفرت کا بازارگرم تھا ۔ وہ تمام اینکر جیسے چھوٹے چھوٹے مودی تھے اور ایسے نہ جانے کتنے ہونگے جو مسلح ہوکر، لاٹھی ڈنڈا ہاتھ میں لے کر راستوں پے دندناتے پھرتے ہیں اور پولیس ان پر پہرا دیتی ہے۔
ان کو جانے دیتی ہے کہ جا ؤ اور جا کر مسجدیں جلائو، مسلمان کو مارو، عدالتوں کو جیسے چپ لگ گئی ہے، ہندوستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری ریزہ ریزہ ہوگئی ہے۔ کہاں گیا کیشوندہ کیس، گولکناتھ کیس، بومائے کیس سب جیسے ریزہ ریزہ ہو چکے۔
گاندھی بھی جیسے دلی سے رخصت ہوئے، مولانا آزاد ، نہرو۔ شرم تو خود پٹیل کو بھی آتی ہوگی جسکے مجسمے کے لیے مودی نے پورے ہندوستان کو آگ لگائی۔ اتنا بڑا مجسمہ توگاندھی کا بھی نہ بنایا گیا، نہ نہرو کا، نہ ہی گوتم بدھا کا ہے۔ وہ مجسمہ پٹیل کا مجسمہ نہیں تھا۔ وہ پٹیل جس کے ساتھ جناح مذاکرات کرتے تھے، پٹیل جو بھی تھے مگر وہ نہ تھے کہ ان کا قد آدم مجسمہ تراش کر آویزاں کیا جائے۔ گاندھی، جناح ، پٹیل اور مودی یہ سب گجراتی ہیں۔ بات یہ نہیں کہ 1947 میں ہندوستان کو آگ لگی وہ گجرات سے لگی ۔ مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ چن چن کر وہاں مسلمانوں کو مارا گیا، ریل گاڑیوں کو اور ان کی بستیوں کو آگ لگائی گئی۔
آج وہ آگ گجرات سے دلی تک پہنچ چکی ہے اس لیے کہ دلی میں عام آدمی پارٹی نے مودی کی پارٹی بی جی پی کو بری طرح شکست دی ہے۔ کانگریس بھی ہار گئی۔ بی جی پی کے پاس اپنی فوج ہے آر ایس ایس کے روپ میں جس سے اب کورٹ بھی ڈرتی ہے وہ کسی پر بھی فتویٰ صادرکرکے ان کے دفتر میں،گھر میں یا پھر عدالت ہی کیوں نہ ہوگھس کر بھی پٹائی کرسکتے ہیں یہی کام یہاں دائیں بازوکی جماعتیں کرتی تھیں اور کراچی میں اس کام کا بیڑا لسانی تنظیم نے اٹھایا ہوا تھا۔
یہ جو نفرتیں ہیں اچانک جنم نہیں لیتیں لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ یہ لوگوں کے مفاد کے ذریعہ بن جاتی ہیں۔ جس طرح ہٹلرکے ہاتھوں شاندار جرمنی ٹوٹ پھوٹ گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں پاکستان کا کیا انجام ہوا، جنرل ایوب نے مشرقی پاکستان کا یا اس سے پہلے جو رواداد اس نے رقم کی کسی اور نے نہیں کی ہمیں کسی اور نے نہیں، ہم نے خود اپنے آپ کو لوٹا ہے۔ 23 مارچ 1943 کی قراداد سے بنا پاکستان سولہ دسمبر 1971 کو سقوط ہوا۔
اب ہندوستان کی عظیم جمہوریت کو بھی وائرس لگ گیا۔ یہ نقصان ہندوستان کا نہیں، یہ نقصان بنی نوع انسان کی تاریخ ، تہذیب وتمدن کا ہے۔ہٹلر کو اپنے عظیم ہونے کا احساس تاریخ سے ملا مگر وہ جرمن نہیں تھا۔ مودی جس کو اپنے ہندو ہونے پر ناز ہے، یہ بھی خبر نہیںکہ وہ کون ہے، حب الوطنی ، اپنی نسل پر فخر اکثر ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے نیا نیا جنم لیتے ہیں اس دھرم میں، اس قبیلے میں اور وہ اس قوم و تہذیب و تاریخ کے وارث بنتے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنتے ہیں۔
مگر مجھے یقین ہے اورن دہتی رائے کا ہندوستان کہیں نہیں جاتا نہ جناح کا پاکستان۔ آج بہت سے فتنہ گر یہاں پر بھی تو پل رہے ہونگے کہ نفرت کی دلدل میں دھنسے، اس ہندوستان سے یہ بھی لطف اندوز ہوں، بڑے بڑے کالم نگارچیخیںگے، اینکر اپنے ٹاک شوز میں بھی کہیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح کورونا وائرس کے نام پر آج ماسک بلیک میں فروخت ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کو لگے مودی وائرس کی وجہ سے محبت ، امن و شانتی کی آوازیں دب گئی ہیں۔ ہر طرف بلوہ ہے، وہ کہتے ہیں وہ پندرہ کروڑ ہیں اور ہم ایک سوکروڑ۔ آج مسلمان ساٹھ کروڑ ہوتا اگر 1947 میں ہندوستان نہ ٹوٹتا۔
مودی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ ہوٹل پر چائے کی پیالی کیسے بکتی ہے۔ اب مودی کو چائے نہیں نفرت کا معجون بیچنا ہے۔ بہت آسانی سے اور بہت تیزی سے یہ معجون بکتا ہے۔ ہوش و عقل کی بات نہیں بکتی، محبتوں کے پیغام نہیں سنے جاتے۔ ہری پرساد کی بانسری ہو، ذاکر حسین کا طبلہ ہو ، بسم اللہ خان کی شہنائی ہو یا روی شنکرکا ستار ہو۔ سب کے سب بے بس۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے سپریم کورٹ کا میزان بھی۔
وہ یوسف خان جو دلیپ کمار بنے۔ وہ رفیع جو لاہور سے گئے اور وہ سعادت منٹو جو بمبئی سے لاہور آئے۔ اس ہندوستان کو میں مودی کی نفرتوں بھری ندیا میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ میری تاریخ ہے میری تہذیب اورمیرا تمدن ہے۔ اگر مودی وائرس وہاں پھیلا ہے توکورونا وائرس کی طرح یہ سرحدیں پارکرکے یہاں بھی آسکتاہے بلکہ یہ وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
غربت سے بڑا کوئی وائرس نہیں ہوسکتا۔ جتنی نفرت کی باتیں ہوں گی اتنا ہی جنگ کے لیے سامان خریدنا ہوگا اور پھر اتنی ہی غربت پھیلتی جائے گی۔ اس نفرت کے وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جرمنی جہاں دائیں بازوکی پاپولر پارٹی نے کبھی نہ سوچا تھا کہ اقتدار میں اتحادی بھی بن سکتے ہیں۔ وہ کافکا کا ہنگری ، یوگو سلاویہ یا یوں کہیے ایسٹ یورپ بھی اس وائرس کی لپیٹ میں ہے۔
مودی اور ٹرمپ میں کتنی چیزیں یکساں ہیں۔ وہ امریکا میں سفید فام نیشنل ازم بیچتا ہے، اسلام فوبیا پھیلاتا ہے اور موی یہی کام ہندوستان میں کرتا ہے۔ ہم بھی معجون بیچتے ہیں مگرکم ازکم ضیا الحق جیسا نہیں۔ یہ ریاست یہ اقتدار لوگوں کی امانت ہے۔ یہ لوگوں کا ہی ہے۔ یہاں بندوق کی زور پر تالا آزمائی ہوئی، وہاں بیلٹ باکس کو کرپٹ کر دیا گیا ہو ۔ووٹر کے ذہن کو برین واش کردیا گیا۔ وہ بیانیہ جوکسی کا بھی نہیں، نہ گاندھی کا نہ نہروکا اور نہ ہی آزاد کا۔ جو وائرس ہندوستان کو لگا۔ خدا خیر کرے۔