خیبر پختونخوا حکومت کا قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ
آؤٹ سورس کئے جانے والے اسپتالوں کے لئے حکومت نے 900ملین روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں
خیبر پختونخوا حکومت نے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خیبر پختونخوا ہیلتھ فاونڈیشن نے باضابطہ آمادگی کے لیٹرز جاری کردئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک بار پھر صوبے میں پی پی ایچ آئی طرز کے تجربے کو دوہرانے کی تیاری کرلی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ سابقہ تجربے کی ہی طرز پر ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کے مالی و انتظامی امور منتخب تنظیموں کو دئیے جائیں گے تاکہ ان اسپتالوں میں طبی سروسز کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے۔
اس سلسلے میںمعاہدے کےلئے 10 تنظیموں و فرمز نے اپلائی کیا تھا جن میں 9 نے ٹیکنیکلی کوالیفائی کیا، تاہم فائنل بڈنگ میں 3 کو منتخب کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق میڈیکل ایمرجنسی ریسیلنس فاؤنڈیشن (مرف)کو چار اسپتال اور ٹرانس کونٹینیٹل نیشنل انٹیگریٹڈ ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن کو ایک اسپتال آؤٹ سورس معاہدے کے تحت نگرانی میں دیا جائےگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں مولا خان سرئی سروکئی اور ٹائپ ڈی اسپتال طوئی خلہ کے علاوہ مہمند میں ٹائپ ڈی اسپتال ڈوگر کرم، مامند گیٹ، ایف آر ڈی آئی خان میں ٹائپ ڈی اسپتال درا زندہ اور اورکزئی میں ٹائپ ڈی اسپتال گیلیجو شامل ہیں۔
ان ہسپتالوں کو تین سالہ مدت کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کیا جائےگا۔ ان آؤٹ سورس کئے جانے والے اسپتالوں کے لئے حکومت نے 900ملین روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں۔ ہر اسپتال کو ایک سال میں 150 ملین روپے فنڈز فراہم کئے جائیں گے جبکہ معاہدےکے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ یہ منتخب تنظیمیں حکومت کے مختص کردہ روٹین کے بجٹ کو استعمال کرسکیں گی اور مزید ضرورت کے تحت عملے کی بھرتی اور اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو مفت علاج کی فراہمی کی پابند ہوں گیں۔ جبکہ محکمہ صحت نے سخت مانیٹرنگ و آڈٹ سسٹم بھی متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ صحت نے پی پی ایچ آئی کی طرز کے اس سابقہ تجربے کے حوالے سے جو موقف اپنایا ہے اس کے مطابق دہشتگردی سے متاثرہ ان اضلاع میں اس وقت طبی عملے کی شدید کمی کمی کا سامنا ہے۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 979 ہیلتھ مراکز و اسپتالوں میں 9 ہزار طبی عملہ تعنیات ہے، تاہم ان میں 108 اسپشلسٹ کی آسامیوں میں 80 خالی ہیں۔
اسی طرح آدھی سے زائد ویمن میڈیکل آفیسرز کی آسامیاں بھی تاحال خالی ہیں۔ جس کی وجہ سے عام افراد کو طبی سروسز کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کے باعث ان اسپتالوں کو آؤٹ سورس کیا جارہا ہے تاکہ مختلف اسپشلٹیز کے ڈاکٹرز و دیگر طبی عملہ موجود ہو اور اسپتال بھی آباد ہوسکیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے ایک بار پھر صوبے میں پی پی ایچ آئی طرز کے تجربے کو دوہرانے کی تیاری کرلی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ سابقہ تجربے کی ہی طرز پر ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 6 اسپتالوں کے مالی و انتظامی امور منتخب تنظیموں کو دئیے جائیں گے تاکہ ان اسپتالوں میں طبی سروسز کی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے۔
اس سلسلے میںمعاہدے کےلئے 10 تنظیموں و فرمز نے اپلائی کیا تھا جن میں 9 نے ٹیکنیکلی کوالیفائی کیا، تاہم فائنل بڈنگ میں 3 کو منتخب کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق میڈیکل ایمرجنسی ریسیلنس فاؤنڈیشن (مرف)کو چار اسپتال اور ٹرانس کونٹینیٹل نیشنل انٹیگریٹڈ ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن کو ایک اسپتال آؤٹ سورس معاہدے کے تحت نگرانی میں دیا جائےگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان میں مولا خان سرئی سروکئی اور ٹائپ ڈی اسپتال طوئی خلہ کے علاوہ مہمند میں ٹائپ ڈی اسپتال ڈوگر کرم، مامند گیٹ، ایف آر ڈی آئی خان میں ٹائپ ڈی اسپتال درا زندہ اور اورکزئی میں ٹائپ ڈی اسپتال گیلیجو شامل ہیں۔
ان ہسپتالوں کو تین سالہ مدت کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ معاہدے کے تحت آؤٹ سورس کیا جائےگا۔ ان آؤٹ سورس کئے جانے والے اسپتالوں کے لئے حکومت نے 900ملین روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں۔ ہر اسپتال کو ایک سال میں 150 ملین روپے فنڈز فراہم کئے جائیں گے جبکہ معاہدےکے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ یہ منتخب تنظیمیں حکومت کے مختص کردہ روٹین کے بجٹ کو استعمال کرسکیں گی اور مزید ضرورت کے تحت عملے کی بھرتی اور اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو مفت علاج کی فراہمی کی پابند ہوں گیں۔ جبکہ محکمہ صحت نے سخت مانیٹرنگ و آڈٹ سسٹم بھی متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ صحت نے پی پی ایچ آئی کی طرز کے اس سابقہ تجربے کے حوالے سے جو موقف اپنایا ہے اس کے مطابق دہشتگردی سے متاثرہ ان اضلاع میں اس وقت طبی عملے کی شدید کمی کمی کا سامنا ہے۔ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 979 ہیلتھ مراکز و اسپتالوں میں 9 ہزار طبی عملہ تعنیات ہے، تاہم ان میں 108 اسپشلسٹ کی آسامیوں میں 80 خالی ہیں۔
اسی طرح آدھی سے زائد ویمن میڈیکل آفیسرز کی آسامیاں بھی تاحال خالی ہیں۔ جس کی وجہ سے عام افراد کو طبی سروسز کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال کے باعث ان اسپتالوں کو آؤٹ سورس کیا جارہا ہے تاکہ مختلف اسپشلٹیز کے ڈاکٹرز و دیگر طبی عملہ موجود ہو اور اسپتال بھی آباد ہوسکیں۔