پاکستان کی معیشت

پاکستانی معیشت کو جہاں دوسرے مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ ایکسپورٹ میں اضافہ بھی ہے۔


Zamrad Naqvi March 02, 2020
www.facebook.com/shah Naqvi

آئی ایم ایف نے دورہ پاکستان کے مذاکرات کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے بات چیت مثبت رہی۔ پاکستان میں مالیاتی خسارہ کم ہوا ہے۔

معاشی سرگرمیاں مستحکم ہوگئی ہیں اور پاکستان مرحلہ وار ریکوری کے راستے پر گامزن ہے جب کہ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ادھر پاکستانی وزارت خزانہ کے حکام نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان میں معاشی اصلاحات میں پیشرفت کا اعتراف کر لیا ہے۔ یہ ہماری بڑی کامیابی ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں ٹیکس ریوینو بڑھانے پر بھی زور دیا۔ سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت نان ٹیکس ریونیو بڑھانے کی یقین دہائی کرا دی گئی۔ یوں پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات کامیابی سے مکمل ہو گئے۔ جب کہ وزارت خزانہ کے ذرایع نے کہا ہے کہ ٹیکس وصولی بڑھانے کے لیے کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔

مذاکرات میں نجکاری پروگرام کو بہتر کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے اور بجلی ٹیرف میں ماہانہ سہ ماہی اضافے کے بجائے ایک بار بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرایع کا کہنا تھا کہ زرعی پیداوار پر سیلز ٹیکس آیندہ مالی سال تک موخر کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فنانس ڈویژن کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ یہ مذاکرات تمام امور پر مکمل مفاہمت اور تمام شعبوں میں پیشرفت کے ذکرکے ساتھ تکمیل پذیر ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف مشن نے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی پیشرفت پر اطمینان کے اظہار کے ساتھ اپنا دورہ مکمل کیا ہے۔ توقع ہے کہ آئی ایم بورڈ جائزہ ٹیم کی سفارشات کی منظوری دیدے گا۔

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ پاکستان کی برآمدات انتہائی کم ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان، افغانستان، یمن، سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ کھڑا ہے، ملک ایسے نہیں چلا کرتے۔ معاشی اشاریے اب بہت بہتر ہو چکے۔ ایکسچینج ریٹ اور زرمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش ہیں۔ تنقید کرنے والے بھی خاموش ہیں۔ مالی اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم ہو گیا۔ سود کی شرح میں کمی افراط زر کم ہونے پر کی جائے گی۔

اْن کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ترقی کر رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک مستقبل کے لیے پر امید ہے۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور مالیاتی خسارے کا بڑی خوش اسلوبی سے انتظام کیا گیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ اسمال، میڈیم انڈسٹریز کو سستے قرضے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ان کو 500 ارب روپے کے قرضے جاری کیے جائیں گے۔ تاہم یہ حجم ابھرتی ہوئی معیشتوں کے تناسب سے کافی کم ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے لیکن خواتین کی نمایندگی 5 فیصد سے بھی کم ہے۔ ملک کی بالغ آبادی میں خواتین اکاونٹ ہولڈر کی تعداد صرف 15 فیصد ہے۔ دنیا میں یہ تناسب 55 فیصد سے بھی زائد ہے۔ خواتین کے لیے خصوصی اسکیم متعارف کرائی ہیں۔

مشکل وقت کا سامنا ہے۔ آسان فیصلے کرنے ہوتے تو پہلے کر لیے جاتے۔ جی ڈی پی میں ایکسپورٹ کا تناسب دس فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ تناسب عالمی تناسب سے کافی کم ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ معاشی ترقی کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہماری ایکسپورٹ دگنی ہونی چاہیے تھیں۔ برآمدات کے لیے بین الاقوامی قیمت کسی کے اختیار میں نہیں ہوتی۔

پاکستانی معیشت کو جہاں دوسرے مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک بڑا مسئلہ ایکسپورٹ میں اضافہ بھی ہے۔ لیکن برطانیہ کے بریگزٹ سے نکلنے کے بعد جی ایس پی پلس کا متبادل تلاش کیا جا رہا ہے۔ یہ بات برطانوی وفد کی سربراہ نے بتائی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات اپنی اعلیٰ کوالٹی کے باعث پورے یورپ میں مقبول ہیں۔ جب کہ موثر مارکیٹنگ کے ذریعے ان کی برآمد میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کریڈٹ سوئس نے پاکستانی معیشت کو مستحکم قرار دیدیا ہے۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق روپے کی قدر میں 4 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح سود میں فوری کمی کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مہنگائی کو دیکھتے ہوئے شرح سود کو کم کرے گا۔ اسٹاک مارکیٹ میں قلیل مدت کے دوران محدود دائرے میں ٹریڈنگ ہو گی۔ طویل مدت کے لیے انڈیکس میں اضافے کا امکان ہے۔

دوسری طرف چین میں کرونا وائرس نے اس کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو متاثر کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو برآمدی آرڈر کی بھرمار ہو گئی ہے۔ کیونکہ پاکستان کو متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو عالمی منڈی میں اپنے حریفوں پر سبقت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ ایک طرف اس کی مصنوعات اعلیٰ ہیں تو دوسری طرف نسبتاً سستی ہیں۔

خبر ہے کہ چین کے صدر شی جن دوراں سال جون میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔ چینی صدر اپنے دورے کے دوران سرمایہ کاری تجارت اور معاشی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر بات چیت کریں گے۔ ان معاہدوں کو دورے سے قبل حتمی شکل دی جائے گی۔ اس مشکل وقت میں یہ معاہدے پاکستان کی کمزور معیشت کو ایک ایسی طاقت فراہم کریں گے۔حقائق یہ بھی ہیں کہ پچھلے 15 سال کے عرصے میں پاکستان کی برآمدات میں پونے دو فیصد اضافہ ہوا جب کہ ان پندرہ سالوں میں مشرف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں رہیں۔ جب کہ بھارت میں اس عرصے میں یہ اضافہ ساڑھے پانچ فیصد، ویت نام بارہ فیصد، بنگلہ دیش کا اسی مد میں ساڑھے سات فیصد اضافہ ہوا۔

ایک اور مثال سے اندازہ لگالیں کہ 2000 میں پاکستان کی جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ 13.5 تھا اور 2018 میں کم ہو کر صرف 7.5 فیصد رہ گیا۔ مندرجہ بالا تمام ممالک میں جی ڈی پی کی سالانہ شرح نمو سات فیصد کے قریب رہی جب کہ ہماری معیشت ٍاوسطاً تین سے چار فیصد تک ہی محدود رہی۔ جب کہ انھی ممالک میں جی ڈی پی میں برآمدات کا حصہ بڑھ کر بھارت میں تیرہ سے بیس فیصد، بنگلہ دیش بارہ فیصد سے بڑھ کر پندرہ فیصد، ترکی کا انیس فیصد سے بڑھ کر تیس فیصد جب کہ ویت نام نے تو کمال ہی کر دیا کہ اْس کا اضافہ تقریباً سو فیصد تک پہنچ گیا۔ 18 سالوں میں اس کارکردگی پر صرف سبحان اللہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ ہے ہمارے حکمران طبقات کی کارکردگی...سب نالائق کے نالائق ہی نکلے۔ کوئی اور ملک ہوتا تو اس بھیانک کارکردگی پرکیا سزا ملتی، اس بارے میں کچھ نہ ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔

4527997-0346

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔