نظام تعلیم میں تبدیلی
صوبہ سندھ جو سیاسی ناانصافیوں کا شکار رہا ہے آج حکومتوں کی کھلی ناانصافیوں کی وجہ پسماندہ ترین شہر بن گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یکساں نظام تعلیم کے مسئلے پر وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد اسکولوں کے ڈیزائن کو تبدیل کرنا صوبائی حکومت کی ذمے داری بن گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے جواباً کہا کہ یہ کام سندھ حکومت کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد اسکول کے نصاب کو تبدیل کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم نے اس مقصد کے ساتھ ہی ایک اور قدم اٹھایا ہے کہ پورے ملک میں یکساں نظام متعارف کرایا جاسکے۔
انھوں نے یقین دلایا کہ ان کی حکومت اس منصوبے کی حمایت کرے گی۔ مدرسوں کی رجسٹریشن کے بعد وفاقی مدارس اور علما کرام کو اعتماد میں لیا ہے، وفاقی حکومت کے اس منصوبے کے بعد اس کام کی نگرانی کے لیے متعلقہ کمشنر کے ماتحت کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ علما کرام اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ ہمارے مدارس کے لوگ امن کے فروغ کے ساتھ ساتھ ''باضابطہ تعلیم'' متعارف کرانے میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم نے صوبائی وزیر تعلیم سے ملاقات میں کہا کہ ملک میں یکساں نظام تعلیم سے عام آدمی کا مستقبل بہتر ہوگا۔
بدقسمتی سے آج تک تمام حکومتیں ملک میں تعلیم کے مستقبل کے حوالے سے عدم دلچسپی کا شکار رہیں۔ ہماری حکومت پہلی حکومت ہے جو ملک کے اہم اور بنیادی مسائل میں دلچسپی لے رہی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مثبت تجویز ہے جس کی وجہ سے غریب طبقات کو فائدہ ہوگا اور ان کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ آج تک شعبہ تعلیم حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ بدنظمی اور کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔
ہماری یہ اجتماعی بدقسمتی ہے کہ 72 سالوں میں جتنی حکومتیں آئیں انھوں نے تعلیم جیسے بنیادی مسئلے میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں لی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اشرافیہ کی اولاد کو ہر قسم کی سہولتیں مہیا کی گئیں اور غریب کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں دھکیل کر یہ جتانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان شعبہ تعلیم میں بھرپور طریقے سے ترقی کر رہا ہے۔
عمران حکومت پر یہ الزام درست ہے کہ اس نے کسی شعبے میں اتنی دلچسپی نہیں لی جو اسے لینا چاہیے تھی لیکن اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ اب عمران حکومت ملک کے اہم حل طلب مسائل میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہے۔
پاکستان کا اصل مسئلہ غربت ہے۔ طبقاتی نظام کی جڑیں گہری ہیں، جس ملک میں اشرافیہ مستحکم ہوتی ہے وہاں اشرافیہ کا ہی بول بالا رہتا ہے۔ غریب طبقات کے وہ نوجوان جو اپنی ذاتی کوششوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیتے ہیں انھیں اعلیٰ جگہیں نہیں ملتیں، وہ کسی سرکاری محکمے میں محض کلرک کی جگہ حاصل کرنے میں آدھی زندگی برباد کر لیتے ہیں دیگر ملکوں جن میں ہمارا پڑوسی بھارت بھی شامل ہے عوام کی بہتری کے لیے نئے نئے پروگرام بنتے ہی نہیں بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت میں طبقاتی پستی عوام کے لیے اتنی خوفناک نہیں جتنی دیگر پسماندہ ملکوں میں دیکھی جا رہی ہے، اسے ہم کھلی سازش کہیں یا اتفاق کہ بھارت اور پاکستان خاص طور پر پاکستان تعلیمی میدان میں بہت پسماندہ ملک ہے۔ آج عمران خان پر چاروں طرف سے یلغار کرنے والی اشرافیہ دس سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود تعلیم کے ساتھ انصاف نہ کرسکی بلکہ اب عمران حکومت کو گرانا اس کا واحد مشن بن گیا ہے۔
صوبہ سندھ جو سیاسی ناانصافیوں کا شکار رہا ہے آج حکومتوں کی کھلی ناانصافیوں کی وجہ پسماندہ ترین شہر بن گیا ہے خاص طور پر مہاجر طبقے کا اس صوبے میں کوئی والی وارث نہیں جس کا نتیجہ اردو اسپیکنگ کے خاص طور پر نوجوان نسل میں سخت مایوسی پھیلا رہا ہے کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ سندھ میں سرکاری نوکریوں میں سخت نا انصافی ہو رہی ہے جمہوریت میں مختلف طبقات کو جو سیاسی ناانصافیوں کا شکار رہے ہیں حکمران خصوصی مراعات دے کر ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرتی رہتی ہے کراچی میں رہنے والے نوجوان طبقات جب اس قسم کی ناانصافیوں کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی حب الوطنی پر حرف آجاتا ہے۔
ہر ملک کی ترقی کا دارو مدار اس ملک میں تعلیمی حالت سے لگایا جاسکتا ہے لیکن جب اس حوالے سے ہم سندھ خاص طور پر کراچی کو دیکھتے ہیں تو مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اب سندھ کے تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں یہ تبدیلیاں اس وقت کام دیں گی جب حکومت لسانی انصاف سے کام لے گی ورنہ ایک اور ناانصافی کا اضافہ ہی ہوگا۔