شام میں ڈھائی سال کے دوران 6 ہزارسے زائد خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا رپورٹ
خواتین کو حزب اختلاف اور سرکاری اہلکاروں سے تعلقات کی بنا پر سہولت کے طور پراستعمال کیا جارہا ہے، ترجمان عالمی تنظیم
انسانی حقوق کی ایک عالمی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق شام میں مارچ 2011 سے حکومت اور باغیوں کے درمیان موجود تنازع میں تقریباً 6 ہزار خواتین کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
عالمی تنظیم دی یورو میڈیٹیرین ہیومن رائٹس نیٹ ورک(ای ایم ایچ آر این) نے شام کے حوالے سے جاری اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں سیکیورٹی فورسز اور باغیوں کی جانب سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک ہزاروں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے، خواتین کو عموماً ماہر نشانچی نشانہ بناتے ہیں اور ان کو اکثر اپنے بچوں کے ساتھ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بعد میں ان خواتین کو سماجی طور پر بدنام کیا جاتا ہے جس کے باعث اکثر خواتین اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان ڈھائی سالوں کے دوران سیکڑوں خواتین کو زبردستی گرفتار اور لاپتا کیا گیا اور پھر ان پر سرکاری مراکز میں مختلف طریقوں سے تشدد کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے خواتین کو اغوا کرنے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور خواتین پر مظالم ڈھانے کے دوران ان سے اجتماعی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔
تنظیم کی ترجمان نے رپورٹ جاری ہونے کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام کی مجودہ صورتحال میں خواتین کو حزب اختلاف کے کارکنان اور سرکاری اہلکاروں سے تعلقات ہونے کی بنا پر ایک سہولت کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور انہیں سیاسی تنازعات اور آسان ہدف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق شام میں مارچ 2011 سے جاری تنازع میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 20 لاکھ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
عالمی تنظیم دی یورو میڈیٹیرین ہیومن رائٹس نیٹ ورک(ای ایم ایچ آر این) نے شام کے حوالے سے جاری اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں سیکیورٹی فورسز اور باغیوں کی جانب سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک ہزاروں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے، خواتین کو عموماً ماہر نشانچی نشانہ بناتے ہیں اور ان کو اکثر اپنے بچوں کے ساتھ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، بعد میں ان خواتین کو سماجی طور پر بدنام کیا جاتا ہے جس کے باعث اکثر خواتین اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان ڈھائی سالوں کے دوران سیکڑوں خواتین کو زبردستی گرفتار اور لاپتا کیا گیا اور پھر ان پر سرکاری مراکز میں مختلف طریقوں سے تشدد کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے خواتین کو اغوا کرنے کی حکمت عملی بنائی جاتی ہے اور خواتین پر مظالم ڈھانے کے دوران ان سے اجتماعی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔
تنظیم کی ترجمان نے رپورٹ جاری ہونے کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام کی مجودہ صورتحال میں خواتین کو حزب اختلاف کے کارکنان اور سرکاری اہلکاروں سے تعلقات ہونے کی بنا پر ایک سہولت کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور انہیں سیاسی تنازعات اور آسان ہدف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے مطابق شام میں مارچ 2011 سے جاری تنازع میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 20 لاکھ نقل مکانی کر چکے ہیں۔