نیٹو سپلائی کی بندش سے وفاقی حکومت کو مشکلات
سیاسی جماعتوں کا نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف میدان میں نکلنے سے لگتا یہ ہے کہ فائنل راؤنڈ شروع ہوگیا ہے۔
RAWALPINDI:
تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف میدان میں نکلنے سے لگتا یہ ہے کہ فائنل راؤنڈ شروع ہوگیا ہے اور ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ پہلی مرتبہ امریکہ قبائلی علاقوں کی حدود کو پار کرتے ہوئے اب خیبرپختونخوا میں بھی اپنے ڈرونز سمیت آن وارد ہوا ہے ۔
ہنگو کی تحصیل ٹل میں مدرسہ پر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کے بقول وہاں پر نہ صرف یہ کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ موجود تھے بلکہ اس تنظیم کے کچھ دیگر کمانڈرز بھی تھے۔ اس حملہ میں خود حقانی نیٹ ورک کے سربراہ تو محفوظ رہے تاہم ان کے دیگر دو کمانڈرز ہلاک ہوئے ہیں ۔ پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ اسی حقانی نیٹ ورک کے تعاقب میں امریکہ کے ڈرونز قبائلی علاقہ جات کی حدود کو پار کرتے ہوئے پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں گھس آئے ہیں جس کے بعد اب مسلسل یہ خطرہ موجود رہے گا کہ ہنگو کے بعد اگلا نشانہ خیبرپختونخوا کا کوئی بھی علاقہ ہو سکتا ہے۔
معاملہ حقانی نیٹ ورک کا نہ بھی ہوتا تو امریکہ نے خطے میں دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کو توسیع دینی ہی تھی جس کے آثار کافی عرصہ سے نظر آرہے تھے تاہم اس کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار حکمران اتحاد امریکہ کے انہی ڈرون حملوں کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور ہنگو ڈرون حملہ سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جا چکا تھا کہ نیٹوسپلائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے روکا جائے گا ۔
جس کے حوالے سے مختلف خدشا ت اور امکانات کا اظہار کیا جا رہا تھا ایسے ہی میں خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ بھی کردیا گیا جسے نیٹو سپلائی کی بندش پر امریکہ کی جانب سے قبل از وقت ری ایکشن سے بھی تعبیر کیاجا رہا ہے تاہم اگر ایسا نہیں بھی تھا اور امریکہ نے اپنی معمول کی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے یہ ڈرون حملہ کیا تو اب کیا ہوگا۔
جبکہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے نہ صرف یہ کہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا بلکہ ان حملوں کے حوالے سے نیٹو سپلائی کے خیبرپختونخوا سے گزرنے والے تمام راستوں کو بھی بند کردیا ہے اور یہ بندش ایسی ہے کہ جس کے فوری طور پر کھلنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ یہ کام صوبائی حکومت نہیں کر رہی بلکہ تحریک انصاف اور اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ورکر سڑکو ں پر جمع ہوکر یہ کام کر رہے ہیں ، یہ صورت حال ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے یقینی طور پر خیبرپختونخوا سے تو فی الحال نیٹو کو جانے والے سامان کی بندش ہوگئی ہے جبکہ اس کے بعد اسی طریقہ کار کو چمن سے افغانستان جانے والے راستے کو بند کرنے کے لیے اپنایا جا رہا ہے، جس کے بعد سوال یہ ہوگا کہ اب مرکز کیا کرتا ہے اور امریکہ کا کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے ؟
اس بات کا کافی حد تک امکان موجود ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں اب تک آل پارٹیز کانفرنس اس لیے نہ بلاسکے ہوں کہ انھیں شاید نئے آرمی چیف کے چارج سنبھالنے کا انتظار ہو اور نئے آرمی چیف کے عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اے پی سی کا انعقاد کریں تاہم اگر وزیراعظم کے پیش نظر یہ بات نہ بھی ہو اور انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے اے پی سی بلانے پر غور نہ بھی کیا ہو تو اب ان کو اس بارے میں ضرور غور کرنا چاہیے۔
کیونکہ نیٹو کو رسد کی بندش سے مرکز پر دباؤ بڑھے گا اور یہ دباؤ کہاں ،کہاں سے ہوگا؟ اس کا مرکز کو بخوبی اندازہ ہے اس لیے مرکز ان حالات سے تب ہی نکل سکتا ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کو 9 ستمبر کی طرح ایک مرتبہ پھر یکجا کرے اور ان کی مشاورت سے معاملات کو آگے بڑھائے کیونکہ اگر اس وقت مرکز خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرتا ہے اور صوبائی حکومت کو معطل کرتے ہوئے گورنر راج کا نفاذ کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ مزید خطرناک نظر آرہا ہے کیونکہ تحریک انصاف اپنے ورکروں کو سڑکوں پر لانے پر کامیاب ہوگئی ہے اور وہ ورکر جو نیٹو سپلائی کو بند کرنے کے لیے پہلے ہی سے سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
وہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف نیٹو سپلائی کی بندش کے ساتھ مرکز کے خلاف بھی احتجاج شروع کردیں گے جس کی وجہ سے مرکزی حکومت جو اس وقت کئی مسائل میں گھری ہوئی ہے اس کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ اس لیے خیبرپختونخوا میں نیٹو اور افغان ٹرانزٹ کے تحت سامان لے جانے والے ٹرکوں کو روکنے پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر کٹنے کے باوجود شاید ہی مرکز تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھائے، البتہ الفاظ کی جنگ جاری رہے گی۔
مرکز کے لیے صرف تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے معاملات شدت اختیا ر نہیں کر رہے بلکہ مرکز کے گرد گھیرا عدالتوں کے ذریعے بھی تنگ کرنے کی کوششیں کی جا
رہی ہیں کیونکہ پشاور ہائی کورٹ نے ڈرون حملوں کی روک تھام کے لیے جو فیصلہ دیا تھا نہ تو مرکز نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے او ر نہ ہی اس پر عمل درآمد کیا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب تو وہ فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے اور دوسری جانب اس پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث مرکز توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں پہلی رٹ کرنے والے مولانا سمیع الحق ہی اب توہین عدالت کی رٹ لے کر عدالت چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے پشاور ہائی کورٹ اب اس رٹ کی سماعت کرے گا جس میں اگر مرکز پر اس ضمن میں توہین عدالت ثابت ہوگئی تو اس صورت میں مرکز کو یا تو مجبوراًعدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑے گا یا پھر عدالت عالیہ کے فیصلہ پر عمل کرنا ہوگا ،مولانا سمیع الحق ، نظریاتی طور پر مسلم لیگ کے قریب اور میاں نواز شریف کے حلیف گردانے جاتے ہیں۔
تاہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو پر ان کے ذریعے معاملات طے نہ کرنے کی وجہ سے مولانا سمیع الحق ناراض لگتے ہیں اور اپنی اسی ناراضگی کا اظہار وہ مرکز کے خلاف توہین عدالت کیس میں عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کر رہے ہیں کیونکہ دوسری جانب شنید ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ مولانا فضل الرحمن کے تشکیل کردہ اسی قبائلی جرگہ کے حوالے ہو رہا ہے جسے اسی سال انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا تھا جس میں حقیقت اس لیے بھی نظر آتی ہے کہ گزشتہ کافی عرصہ سے ''کوما''میں پڑے مذکورہ قبائلی جرگہ کو مولانا فضل الرحمن نے فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے جرگہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔
اے این پی کی صورت حال یہ ہے کہ بھائی کے بعد بہن بھی اسفندیارولی خان کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں لیکن جس طرح اعظم ہوتی کے میدان میں نکلنے اوراسفندیارولی خان پر الزامات کی بوچھاڑ کے بعد سے مسلسل یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان الزامات اور اعظم ہوتی کے میدان میں نکلنے کا فائدہ اسفندیارولی خان ہی کو جائے گا اور وہ گزشتہ پانچ سال اے این پی کے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے پارٹی میں جن مسائل کا شکار ہوئے ہیں ان میں اعظم ہوتی کی مخالفت کی وجہ سے کمی ہو جائیگی اور اسفندیارولی خان پارٹی کے ایک مرتبہ پھر سربراہ منتخب ہو جائیں گے اسی طرح بیگم نسیم ولی خان کے میدان میں نکلنے کا فائدہ بھی اسفندیارولی خان ہی کو پہنچنے کا امکان ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ بلور فیملی کی جانب سے بغاوت کا تھا لیکن نئے فارمولے کے تحت اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ ہارون بلور کو دینے سے یہ قصہ بھی ختم ہی سمجھئے اور بلور فیملی بھی اسفندیارولی خان کے پہلو ہی میں رہے گی ۔
تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف میدان میں نکلنے سے لگتا یہ ہے کہ فائنل راؤنڈ شروع ہوگیا ہے اور ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ پہلی مرتبہ امریکہ قبائلی علاقوں کی حدود کو پار کرتے ہوئے اب خیبرپختونخوا میں بھی اپنے ڈرونز سمیت آن وارد ہوا ہے ۔
ہنگو کی تحصیل ٹل میں مدرسہ پر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کے بقول وہاں پر نہ صرف یہ کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ موجود تھے بلکہ اس تنظیم کے کچھ دیگر کمانڈرز بھی تھے۔ اس حملہ میں خود حقانی نیٹ ورک کے سربراہ تو محفوظ رہے تاہم ان کے دیگر دو کمانڈرز ہلاک ہوئے ہیں ۔ پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ اسی حقانی نیٹ ورک کے تعاقب میں امریکہ کے ڈرونز قبائلی علاقہ جات کی حدود کو پار کرتے ہوئے پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں گھس آئے ہیں جس کے بعد اب مسلسل یہ خطرہ موجود رہے گا کہ ہنگو کے بعد اگلا نشانہ خیبرپختونخوا کا کوئی بھی علاقہ ہو سکتا ہے۔
معاملہ حقانی نیٹ ورک کا نہ بھی ہوتا تو امریکہ نے خطے میں دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی جنگ کو توسیع دینی ہی تھی جس کے آثار کافی عرصہ سے نظر آرہے تھے تاہم اس کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار حکمران اتحاد امریکہ کے انہی ڈرون حملوں کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے اور ہنگو ڈرون حملہ سے پہلے ہی یہ اعلان کیا جا چکا تھا کہ نیٹوسپلائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے روکا جائے گا ۔
جس کے حوالے سے مختلف خدشا ت اور امکانات کا اظہار کیا جا رہا تھا ایسے ہی میں خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ بھی کردیا گیا جسے نیٹو سپلائی کی بندش پر امریکہ کی جانب سے قبل از وقت ری ایکشن سے بھی تعبیر کیاجا رہا ہے تاہم اگر ایسا نہیں بھی تھا اور امریکہ نے اپنی معمول کی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے یہ ڈرون حملہ کیا تو اب کیا ہوگا۔
جبکہ تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں نے نہ صرف یہ کہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا بلکہ ان حملوں کے حوالے سے نیٹو سپلائی کے خیبرپختونخوا سے گزرنے والے تمام راستوں کو بھی بند کردیا ہے اور یہ بندش ایسی ہے کہ جس کے فوری طور پر کھلنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں کیونکہ یہ کام صوبائی حکومت نہیں کر رہی بلکہ تحریک انصاف اور اور اس کی اتحادی جماعتوں کے ورکر سڑکو ں پر جمع ہوکر یہ کام کر رہے ہیں ، یہ صورت حال ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے یقینی طور پر خیبرپختونخوا سے تو فی الحال نیٹو کو جانے والے سامان کی بندش ہوگئی ہے جبکہ اس کے بعد اسی طریقہ کار کو چمن سے افغانستان جانے والے راستے کو بند کرنے کے لیے اپنایا جا رہا ہے، جس کے بعد سوال یہ ہوگا کہ اب مرکز کیا کرتا ہے اور امریکہ کا کیا ری ایکشن ہوسکتا ہے ؟
اس بات کا کافی حد تک امکان موجود ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں اب تک آل پارٹیز کانفرنس اس لیے نہ بلاسکے ہوں کہ انھیں شاید نئے آرمی چیف کے چارج سنبھالنے کا انتظار ہو اور نئے آرمی چیف کے عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ اے پی سی کا انعقاد کریں تاہم اگر وزیراعظم کے پیش نظر یہ بات نہ بھی ہو اور انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے اے پی سی بلانے پر غور نہ بھی کیا ہو تو اب ان کو اس بارے میں ضرور غور کرنا چاہیے۔
کیونکہ نیٹو کو رسد کی بندش سے مرکز پر دباؤ بڑھے گا اور یہ دباؤ کہاں ،کہاں سے ہوگا؟ اس کا مرکز کو بخوبی اندازہ ہے اس لیے مرکز ان حالات سے تب ہی نکل سکتا ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کو 9 ستمبر کی طرح ایک مرتبہ پھر یکجا کرے اور ان کی مشاورت سے معاملات کو آگے بڑھائے کیونکہ اگر اس وقت مرکز خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرتا ہے اور صوبائی حکومت کو معطل کرتے ہوئے گورنر راج کا نفاذ کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ مزید خطرناک نظر آرہا ہے کیونکہ تحریک انصاف اپنے ورکروں کو سڑکوں پر لانے پر کامیاب ہوگئی ہے اور وہ ورکر جو نیٹو سپلائی کو بند کرنے کے لیے پہلے ہی سے سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔
وہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کسی بھی اقدام کے خلاف نیٹو سپلائی کی بندش کے ساتھ مرکز کے خلاف بھی احتجاج شروع کردیں گے جس کی وجہ سے مرکزی حکومت جو اس وقت کئی مسائل میں گھری ہوئی ہے اس کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔ اس لیے خیبرپختونخوا میں نیٹو اور افغان ٹرانزٹ کے تحت سامان لے جانے والے ٹرکوں کو روکنے پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر کٹنے کے باوجود شاید ہی مرکز تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کوئی قدم اٹھائے، البتہ الفاظ کی جنگ جاری رہے گی۔
مرکز کے لیے صرف تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے معاملات شدت اختیا ر نہیں کر رہے بلکہ مرکز کے گرد گھیرا عدالتوں کے ذریعے بھی تنگ کرنے کی کوششیں کی جا
رہی ہیں کیونکہ پشاور ہائی کورٹ نے ڈرون حملوں کی روک تھام کے لیے جو فیصلہ دیا تھا نہ تو مرکز نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے او ر نہ ہی اس پر عمل درآمد کیا ہے جس کی وجہ سے ایک جانب تو وہ فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے اور دوسری جانب اس پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث مرکز توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس سلسلے میں پہلی رٹ کرنے والے مولانا سمیع الحق ہی اب توہین عدالت کی رٹ لے کر عدالت چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے پشاور ہائی کورٹ اب اس رٹ کی سماعت کرے گا جس میں اگر مرکز پر اس ضمن میں توہین عدالت ثابت ہوگئی تو اس صورت میں مرکز کو یا تو مجبوراًعدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑے گا یا پھر عدالت عالیہ کے فیصلہ پر عمل کرنا ہوگا ،مولانا سمیع الحق ، نظریاتی طور پر مسلم لیگ کے قریب اور میاں نواز شریف کے حلیف گردانے جاتے ہیں۔
تاہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ایشو پر ان کے ذریعے معاملات طے نہ کرنے کی وجہ سے مولانا سمیع الحق ناراض لگتے ہیں اور اپنی اسی ناراضگی کا اظہار وہ مرکز کے خلاف توہین عدالت کیس میں عدالت سے رجوع کرتے ہوئے کر رہے ہیں کیونکہ دوسری جانب شنید ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ مولانا فضل الرحمن کے تشکیل کردہ اسی قبائلی جرگہ کے حوالے ہو رہا ہے جسے اسی سال انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا تھا جس میں حقیقت اس لیے بھی نظر آتی ہے کہ گزشتہ کافی عرصہ سے ''کوما''میں پڑے مذکورہ قبائلی جرگہ کو مولانا فضل الرحمن نے فعال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے جرگہ کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔
اے این پی کی صورت حال یہ ہے کہ بھائی کے بعد بہن بھی اسفندیارولی خان کے خلاف میدان میں نکل آئی ہیں لیکن جس طرح اعظم ہوتی کے میدان میں نکلنے اوراسفندیارولی خان پر الزامات کی بوچھاڑ کے بعد سے مسلسل یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان الزامات اور اعظم ہوتی کے میدان میں نکلنے کا فائدہ اسفندیارولی خان ہی کو جائے گا اور وہ گزشتہ پانچ سال اے این پی کے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے پارٹی میں جن مسائل کا شکار ہوئے ہیں ان میں اعظم ہوتی کی مخالفت کی وجہ سے کمی ہو جائیگی اور اسفندیارولی خان پارٹی کے ایک مرتبہ پھر سربراہ منتخب ہو جائیں گے اسی طرح بیگم نسیم ولی خان کے میدان میں نکلنے کا فائدہ بھی اسفندیارولی خان ہی کو پہنچنے کا امکان ہے۔ سب سے زیادہ خطرہ بلور فیملی کی جانب سے بغاوت کا تھا لیکن نئے فارمولے کے تحت اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ ہارون بلور کو دینے سے یہ قصہ بھی ختم ہی سمجھئے اور بلور فیملی بھی اسفندیارولی خان کے پہلو ہی میں رہے گی ۔