حکومت داخلی اور خارجی سطح پر کڑی آزمائش سے دوچار

وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ نیٹو سپلائی اور امریکہ سے تعلقات جیسے اہم معاملات پر منتشر المزاجی کا شکار ہیں۔

ایران سے ممکنہ طور پر اٹھنے والی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان کیلئے برآمدات بڑھانے اوراپنا تجارتی توازن بہتر بنانے کا سنہری موقع میسر نظر آ رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

داخلی اور خارجی اعتبار سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اگر ناکام نہیں تو گزشتہ پانچ ماہ کے دوران کوئی قابل ذکر کامیابیاں بھی نہ سمیٹ سکی۔

البتہ وزیراعظم نواز شریف کو قسمت کا دھنی ضرور سمجھا جانا چاہیے کہ جہاں ان کی اپنی کابینہ کے ارکان امن مذاکرات، ڈرون حملوں، نیٹو سپلائی اور امریکہ سے تعلقات جیسے اہم معاملات پر منتشر المزاجی کا شکار ہیں وہاں قدرت ان پر اس حد تک مہربان ہے کہ مایوسی کے اندھیرے جوں ہی وفاقی دارالحکومت پر اپنے سائے گہرے کرنا ہی چاہتے ہیں تو وہاں ایران سے ممکنہ طور پر اٹھنے والی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں پاکستان کے لیے برآمدات بڑھانے اور اپنا تجارتی توازن بہتر بنانے کا سنہری موقع میسر نظر آ رہا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم یوتھ پروگرام کے لیے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی صورت میں ایک متحرک، فعال اور جواں سال قیادت دستیاب ہو جانا ہی اس پروگرام کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جا رہا ہے۔ چند ہفتے قبل جب طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششوں اور بعد ازاں امریکہ کی جانب سے حسب معمول ڈرون حملہ کرکے امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا اس کے بعد سے ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تو عملاً فارغ ہو کر بیٹھ گئے اور انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے بتا دیا کہ اب ان مذاکرات کو واپس اس مقام تک لانے کے لیے تین ماہ کی مدت درکار ہو گی۔ حکیم اللہ محسود کی موت سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ آل پارٹیز کانفرنس میں پوری قوم کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کے لیے دیا گیا مینڈیٹ اور قومی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔

اس دوران امریکی سفیر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی خواہش لیے، وزارت داخلہ کے دروازے کھٹکھٹاتے رہے مگر چوہدری نثار علی خان نے امریکی سفیر کی ان سے ملاقات کی خواہش کی آواز پر ہی کان نہ دھرے جس سے ملاقات کے لیے ہمارے ہاں سیاسی رہنما طرح طرح کے پاپڑ بیلتے ہیں۔ اس کا خمیازہ چوہدری نثار علی خان کو زیادہ اس لیے شاید نہ بھگتنا پڑے کہ ان کے اہل و عیال امریکی شہریت رکھتے ہیں اس لیے انہیں امریکیوں کا داماد ہونے کے ناطے اتنا نخرا کرنے کا تو حق ہے ۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی البتہ مجبوری تھی، انہوں نے امریکیوں کی بات بھی سنی اور سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے یہ بھی انکشاف کر ڈالا کہ اب امریکہ طالبان سے پاکستان کے مذاکراتی عمل کے دوران ڈرون حملہ نہ کرے گا، البتہ سرتاج عزیز یہ وضاحت نہ کر پائے کہ حکومت پاکستان اس وقت طالبان کے ساتھ حالتِ مذاکرات میں ہے یا نہیں اور پھر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا اگلے ہی روز امریکی ڈرون شورش زدہ علاقے کی بجائے پاکستان کے بندوبستی علاقے ہنگو میں ایک دینی مدرسے پر آن گرا۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے تو اسے یوں تعبیر کیا کہ یہ ڈرون حملہ پاکستان پر نہیں ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز پر گرا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے بھی صورتحال کا کم اور سرتاج عزیز کا زیادہ سختی سے نوٹس لیا انہیں اپنے دفتر طلب کرکے خارجہ امور کے بارے میں مشورہ لینے کی بجائے یہ مشورہ دیا کہ جناب محترم آئندہ سے آپ امریکہ اور ڈرون کے حوالے سے کوئی بھی بیان دینے سے پہلے مجھے اعتماد میں ضرور لے لیا کریں۔ وزیراعظم کی جواب طلبی اور اپوزیشن کی تنقید کو سرتاج عزیز نے دل پر لے لیا اور انہیں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ جنرل (ر) اظہر محمود کیانی سے مشورہ کے لیے جانا پڑا جہاں انہیں انجیوگرافی کے عمل سے گزارنے کے بعد یہ مشورہ دیا گیا کہ آپ پیچیدہ خارجی و داخلی معاملات میں الجھنے کی بجائے آرام کو ترجیح دیں۔



 


امریکہ کے ساتھ ہمارے خارجی تعلقات کشیدگی کے دور سے نہیں تو سردمہری اور نیم سردمہری کے کسی عمل سے ضرور گزر رہے ہیں مگر گزشتہ روز جینیوا میں ایران اور 5 یورپی ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے نے ہمارے لیے ترقی و خوشحالی کی نئی راہیں کھول دی ہیں اب یہاں بھی ہمارے حکمرانوں کی سفارتی، خارجی اور تجارتی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا کہ وہ ایران سے ممکنہ طور پر اٹھنے والی اقتصادی پابندیوں کے بعد مسابقت کے اس دور میں چین اور بھارت سے بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی برآمدات بڑھانے اور تجارتی توازن بہتر کرنے میں کس قدر فعال کردار ادا کرتے ہیں۔

ڈرون حملے رکوانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھرنا اور احتجاج کا اعلان کیا تو حسب معمول وفاقی کابینہ کے ارکان دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے اور ابھی تک وزیر اطلاعات پرویز رشید اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق جیسے ذمہ دار وزراء دو مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔

عمران خان کے دھرنے سے نیٹو سپلائی کتنے روز تک روکی جا سکتی ہیں یہ زیادہ مشکل سوال اس لیے بھی نہیں کہ پاکستان کا امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ ایک معاہدہ ہے اسی لاجسٹک معاہدے کے تحت ان کے کنٹینر یہاں سے گزر رہے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایران کے ساتھ حال ہی میں کیا جانے والا معاہدہ کہیں امریکی اور نیٹو فورسز کو ایران، تاجکستان اور کرغزستان کے راستے آمد و رفت کی سہولت دینے کے لیے تو نہیں ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟

سود و زیاں کی فکر اگر ہماری قوم کو لاحق ہو ہی گئی ہے تو ہمیں بحیثیت قوم اپنا احتساب یوں بھی کرنا ہوگا کہ فرقہ واریت اور لسانیت کی آگ میں کودے ہمیں ایک مدت ہو گئی اور آج ہم کبھی سانحہ راولپنڈی کی صورت میں اور کبھی ہزارہ کے متاثرین کی آہ و بکا کی صورت یہ ناخوشگوار اور انتہائی مکروہ فصل کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سانحہ راولپنڈی سے توجہ ہٹانے کے لیے جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل (6)کے تحت کارروائی کا نقارہ بجادیا ۔ جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف اعلان کردہ عدالتی کارروائی بھی پاکستان کی سیاست کے لیے طلاطم خیز ہو گی ، اس بحث کے دوران بہت سے اہم قومی رازوں سے پردہ اٹھتا نظر آ رہا ہے۔ بعض سنجیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ ان قومی معاملات پر جتنی بحث و تمحیص ہو جمہوریت اور ہمارے مستقبل کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ جہاں کراچی میں چین کے تعاون سے 2117 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ سے ترقی و خوشحالی کی جانب مثبت قدم اٹھا لیا گیا ہے وہاں وزیراعظم یوتھ پروگرام کے لیے مریم نواز شریف جیسی متحرک اور فعال لیڈر میدانِ عمل میں اتر چکی ہیں۔ انہوں نے بحیثیت چیئرپرسن یوتھ پروگرام یہ بات واضح کر دی ہے کہ نوجوانوں کی فلاح و ترقی کے لیے شروع کی جانے والی تمام چھ کی چھ سکیموں سے ہر پاکستانی نوجوان فائدہ اٹھا سکتا ہے چاہے وہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ٹوٹ کر چاہنے والا نوجوان ہی کیوں نہ ہو۔

وزیراعظم نواز شریف نے ان سکیموں کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ نوجوانوں کو مفت لیپ ٹاپ، فیسوں کی ادائیگی، کاروبار کے لیے قرضوں کے اجراء سمیت تمام سکیموں کو انتظامی و سیاسی طور پر ہر قسم کے دباؤ سے آزاد رکھا جائے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مریم نواز شریف کو عملی طور پر بھی فری ہینڈ دیا جائے تاکہ وہ اپنی عوامی خدمت اور انتظامی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کر سکیں۔

وزیراعظم نواز شریف کو 30 نومبر کو افغانستان کے ایک روزہ دورے پر جانا ہے جہاں آزاد پرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے انہیں بہت سے وعدے کرنا ہوں گے مگر ا س سے قبل سعودی امیر ترین پرنس ولید بن طلال نے یہ بیان داغ کر کہ نواز شریف بہت حد تک سعودیہ کے ہی آدمی ہیں، اقوام عالم کو باور کرانے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان کو بھی ان کی سعودی عرب کے حوالے سے ذمہ داریاں اور تعلقات کی نوعیت یاد دلا دی ہے۔

امید ہے افغان صدر حامد کرزئی بھی وزیراعظم پاکستان سے بات چیت کرتے ہوئے سعودی شہزادے کی یہ بات ذہن میں رکھیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف کو افغانستان جانے سے قبل پاکستان آرمی کے سربراہ کے نام کا بھی اعلان کرنا ہے جو ان کے لیے نہ سہی قوم کے لیے معمہ ضرور بنا ہوا ہے۔ توقع نہ ہونے کے باوجود امید کی جانی چاہیے کہ ہمارے وزیراعظم ملک و قوم کی بہتری کے لیے جلد اور مستحسن فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
Load Next Story