پاکستان سپر لیگ نے سیاحت کا در کھول دیا
میچز کے کامیاب انعقاد سے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام بھی جارہا ہے کہ پاکستان ہر حوالے سے محفوظ ملک ہے
ڈینی موریسن سابق ٹیسٹ کرکٹر ہیں. انہوں نے 48 ٹیسٹ اور 96 ایک روزہ میچوں میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی اور اپنی شاندار اور جاندار کارکردگی سے دنیا بھر میں کیویز کا سر فخر سے بلند کیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کو خیر باد کہنے کے بعد کمنٹری کی دنیا میں آئے اور اس میدان میں بھی چھا گئے۔ پی ایس ایل کے ایڈیشنز کے دوران متعدد بار پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی سے خاصے متاثر بھی نظر آتے ہیں۔
حکومت پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی کی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور پی ایس ایل میں خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے کے ساتھ پاکستان کی اعزازی شہریت بھی دینے کا اعلان کیا تو کیویز ٹیسٹ کرکٹر ڈینی موریسن بھی کھل کر میدان میں آگئے اور انہوں نے بھی پاکستانی شہریت حاصل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ موریسن کے مطابق گزشتہ کئی سال سے باقاعدگی سے پاکستان آرہا ہوں، میری خدمات کے صلے میں مجھے بھی اعزازی شہریت سے نوازا جائے۔
پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا میلہ ان دنوں ملک بھر میں جاری ہے۔ ملکی کھلاڑی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی پلیئرز بھی کرکٹ کے اس جنون میں مبتلا ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے سابق گریٹ کپتان ویوین رچرڈ اور سابق آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جنوبی رہوڈز نے تو پاکستان کی خوب سیر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ پروٹیز کے سابق ممتاز فیلڈر نے ہیوی بائیک پر فیصل مسجد اور اطراف کا دورہ کرنے کے بعد مری روڈ کا بھی چکر لگایا اور وہاں کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
آسٹریلوی کھلاڑی شین واٹسن تو سب سے آگے نکل چکے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان اور ورلڈ کپ 1992 کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان سے ملاقات بھی کر ڈالی ہے۔ شین واٹسن کے مطابق عمران خان کرکٹ میں میرے ہیرو ہیں۔ ملاقات کے دوران عمران خان سے گریگ چیپل اور ویوین رچرڈ کی یادیں بھی تازہ کیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کے میچ کے درمیان کراچی میں بچوں اور چھاتی کے سرطان کا دن بھی منایا گیا۔ قومی اور فارن پلیئرز بازوﺅں پر گولڈن ربن پہن کر اس مہم کا حصہ بنے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کی صورت میں 2016 میں ملک بھر میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا جو پودا لگایا تھا، اب وہ جوان ہو کر تناور درخت بن چکا ہے اور اس کے پھل سے پورا پاکستان مستفید ہو رہا ہے۔ پی ایس ایل کے میلے نے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے شہریوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر رکھی ہے۔ اگرچہ پاکستان سپر لیگ کی افتتاحی تقریب نے شائقین کرکٹ کو مایوس کیا تھا تاہم بعد میں سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلوں نے لیگ میں جان ڈال رکھی ہے۔ کامران اکمل صرف 54 گیندوں پر سنیچری بناکر شائقین سے بھرپور داد سمیٹ چکے ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان 23 فروری کو قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول میچ لیگ کا اب تک کا سب سے سنسنی خیز مقابلہ ثابت ہوا۔ دونوں ٹیموں کے عمدہ کھیل کی وجہ سے آخری گیند تک اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ اسلام آباد اور لاہور میں سے فتح کس ٹیم کا مقدر ٹھہرے گی۔ یہ میچ قذافی اسٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں گزشتہ اتوار کو کھیلا گیا۔ چھٹی کا دن تھا اور موسم بھی خاصا خوشگوار تھا۔ کرکٹ کے دیوانوں اور مستانوں نے اس دلچسپ میچ سے خوب لطف اٹھایا اور دونوں ٹیموں کی کارکردگی کو دل کھول کر داد دی۔ ملتان میں طویل عرصہ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کا میلہ سجا تو پرستاروں کی بڑی تعداد نے اس میچ کو بھی ہر حوالے سے یادگار بنا دیا۔ مقامی شہریوں کے ساتھ جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے شائقین نے بھی بڑی تعداد میں اسٹیڈیم کا رخ کیا۔ ہوٹل اور کھانے پینے کے مراکز پر بے پناہ رش رہا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال پنڈی اسٹیڈیم میں بھی رہی اور شائقین نے اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان میچ کو بھی انجوائے کیا۔
دس دن کے وقفے کے بعد پاکستان سپر لیگ کا میلہ ایک بار پھر 3 مارچ سے زندہ دلوں کے شہر میں سجے گا۔ لیگ کے فائنل سمیت مجموعی طور پر مزید 11 مقابلوں کی میزبانی تاریخی اہمیت کا حامل قذافی اسٹیڈیم کرے گا۔ کرکٹ کے دیوانوں اور مستانوں میں جنون کا یہ عالم بڑھتا ہی جارہا ہے، جس کا بخوبی اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر کوئی ٹکٹ اور پاس حاصل کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اپنے تعلقات استعمال کرنے میں مصروف ہے۔
اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو پی ایس ایل کے میچز کےلیے شہریوں کا یہ جوش وخروش اور جنون ایک لحاظ سے خوش آئند بھی ہے۔ لیگ کے میچز کے کامیاب انعقاد سے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام بھی جارہا ہے کہ پاکستان ہر حوالے سے محفوظ ملک ہے۔ موجودہ حکومت کا اصل ہدف غیر ملکیوں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے سیاحت کا فروغ ہے۔ تارکین وطن کی بڑی تعداد پی ایس ایل کے میچز دیکھنے کےلیے پاکستان آرہی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا عالمی میلہ سیاحت کے بند دروازے کھولنے میں معاون ثابت ہوگا اور غیر ملکی بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرکے دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت اور روشن امیج کو اجاگر کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حکومت پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے ڈیرن سیمی کی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی اور پی ایس ایل میں خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے کے ساتھ پاکستان کی اعزازی شہریت بھی دینے کا اعلان کیا تو کیویز ٹیسٹ کرکٹر ڈینی موریسن بھی کھل کر میدان میں آگئے اور انہوں نے بھی پاکستانی شہریت حاصل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ موریسن کے مطابق گزشتہ کئی سال سے باقاعدگی سے پاکستان آرہا ہوں، میری خدمات کے صلے میں مجھے بھی اعزازی شہریت سے نوازا جائے۔
پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا میلہ ان دنوں ملک بھر میں جاری ہے۔ ملکی کھلاڑی ہی نہیں بلکہ غیر ملکی پلیئرز بھی کرکٹ کے اس جنون میں مبتلا ہیں۔ ویسٹ انڈیز کے سابق گریٹ کپتان ویوین رچرڈ اور سابق آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ جنوبی افریقہ کے جنوبی رہوڈز نے تو پاکستان کی خوب سیر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ پروٹیز کے سابق ممتاز فیلڈر نے ہیوی بائیک پر فیصل مسجد اور اطراف کا دورہ کرنے کے بعد مری روڈ کا بھی چکر لگایا اور وہاں کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔
آسٹریلوی کھلاڑی شین واٹسن تو سب سے آگے نکل چکے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم پاکستان اور ورلڈ کپ 1992 کی فاتح ٹیم کے کپتان عمران خان سے ملاقات بھی کر ڈالی ہے۔ شین واٹسن کے مطابق عمران خان کرکٹ میں میرے ہیرو ہیں۔ ملاقات کے دوران عمران خان سے گریگ چیپل اور ویوین رچرڈ کی یادیں بھی تازہ کیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کے میچ کے درمیان کراچی میں بچوں اور چھاتی کے سرطان کا دن بھی منایا گیا۔ قومی اور فارن پلیئرز بازوﺅں پر گولڈن ربن پہن کر اس مہم کا حصہ بنے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کی صورت میں 2016 میں ملک بھر میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا جو پودا لگایا تھا، اب وہ جوان ہو کر تناور درخت بن چکا ہے اور اس کے پھل سے پورا پاکستان مستفید ہو رہا ہے۔ پی ایس ایل کے میلے نے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے شہریوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر رکھی ہے۔ اگرچہ پاکستان سپر لیگ کی افتتاحی تقریب نے شائقین کرکٹ کو مایوس کیا تھا تاہم بعد میں سنسنی خیز اور دلچسپ مقابلوں نے لیگ میں جان ڈال رکھی ہے۔ کامران اکمل صرف 54 گیندوں پر سنیچری بناکر شائقین سے بھرپور داد سمیٹ چکے ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان 23 فروری کو قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول میچ لیگ کا اب تک کا سب سے سنسنی خیز مقابلہ ثابت ہوا۔ دونوں ٹیموں کے عمدہ کھیل کی وجہ سے آخری گیند تک اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ اسلام آباد اور لاہور میں سے فتح کس ٹیم کا مقدر ٹھہرے گی۔ یہ میچ قذافی اسٹیڈیم کی مصنوعی روشنیوں میں گزشتہ اتوار کو کھیلا گیا۔ چھٹی کا دن تھا اور موسم بھی خاصا خوشگوار تھا۔ کرکٹ کے دیوانوں اور مستانوں نے اس دلچسپ میچ سے خوب لطف اٹھایا اور دونوں ٹیموں کی کارکردگی کو دل کھول کر داد دی۔ ملتان میں طویل عرصہ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کا میلہ سجا تو پرستاروں کی بڑی تعداد نے اس میچ کو بھی ہر حوالے سے یادگار بنا دیا۔ مقامی شہریوں کے ساتھ جنوبی پنجاب سے آئے ہوئے شائقین نے بھی بڑی تعداد میں اسٹیڈیم کا رخ کیا۔ ہوٹل اور کھانے پینے کے مراکز پر بے پناہ رش رہا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال پنڈی اسٹیڈیم میں بھی رہی اور شائقین نے اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان میچ کو بھی انجوائے کیا۔
دس دن کے وقفے کے بعد پاکستان سپر لیگ کا میلہ ایک بار پھر 3 مارچ سے زندہ دلوں کے شہر میں سجے گا۔ لیگ کے فائنل سمیت مجموعی طور پر مزید 11 مقابلوں کی میزبانی تاریخی اہمیت کا حامل قذافی اسٹیڈیم کرے گا۔ کرکٹ کے دیوانوں اور مستانوں میں جنون کا یہ عالم بڑھتا ہی جارہا ہے، جس کا بخوبی اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہر کوئی ٹکٹ اور پاس حاصل کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اپنے تعلقات استعمال کرنے میں مصروف ہے۔
اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو پی ایس ایل کے میچز کےلیے شہریوں کا یہ جوش وخروش اور جنون ایک لحاظ سے خوش آئند بھی ہے۔ لیگ کے میچز کے کامیاب انعقاد سے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام بھی جارہا ہے کہ پاکستان ہر حوالے سے محفوظ ملک ہے۔ موجودہ حکومت کا اصل ہدف غیر ملکیوں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے سیاحت کا فروغ ہے۔ تارکین وطن کی بڑی تعداد پی ایس ایل کے میچز دیکھنے کےلیے پاکستان آرہی ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا عالمی میلہ سیاحت کے بند دروازے کھولنے میں معاون ثابت ہوگا اور غیر ملکی بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرکے دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت اور روشن امیج کو اجاگر کریں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔