بلدیاتی الیکشن کے لئے 10 جماعتی اتحاد
بلوچستان میں سیاسی و قوم پرست جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس(APDA) تشکیل دے دیا گیا ہے۔
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئی ہیں اور اس سلسلے میں مختلف الائنس بھی بن رہے ہیں جبکہ کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دس مذہبی ، سیاسی و قوم پرست جماعتوں پر مشتمل آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس(APDA) تشکیل دے دیا گیا ہے۔
اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ (زیڈ)، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔کوشش کی جا رہی ہے کہ اس اتحاد کا سلسلہ صوبے تک وسیع کیا جائے ، اتحاد نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دس رکنی خود مختار کوآرڈی نیشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں ہر جماعت سے ایک ایک رکن کو شامل کیا گیا ہے کمیٹی انتخابات میں تمام مراحل کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ اتحاد کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں عام انتخابات کی طرح کسی کو دھاندلی کرنے نہیں دی جائے گی۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع اور تحصیلوں میں بعض مقامات پر بلا مقابلہ بھی ڈسٹرکٹ اور تحصیل لیول پر اراکین منتخب ہوگئے ہیں۔ صوبائی الیکشن کمشنر سلطان بایزید کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق جو شیڈول جاری کئے گئے تھے اس کے مطابق چار مراحل میں یہ انتخابات مکمل ہوں گے، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے32 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کیلئے ممکنہ تمام تیاریاں کر لی گئی ہیں اور تمام اضلاع میں نامزد اُمیدواروں کی فہرستیں بھی مرتب ہونے کے بعد آویزاں کی جائیں گی۔
اُنہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے ڈسٹرکٹ کونسلوں کے ممبران کی تعداد635 ہے جن میں اب تک140 بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں اسی طرح یونین کونسل کے ممبران کی تعداد5498 ہے جن میں سے 1939 بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن،میونسپل کمیٹی اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ممبران کی تعداد1057 ہے جن میں سے253 بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وڈھ میں آر او کا دفتر جلانے کی وجہ سے دوبارہ شیڈول جاری کیا گیا ہے وہاں کاغذات نامزدگی دوبارہ جمع کرائے گئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق ان بلدیاتی انتخابات میں جن میں اب کچھ ہی وقت باقی رہ گیا ہے تیزی سے مختلف سیاسی اتحادتشکیل پا رہے ہیں جن میں زیادہ تر علاقائی سطح پر اتحاد قائم کئے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی علاقائی سطح پر ان اتحادوں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق کیونکہ عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کی سیاست میں کافی فرق ہے اس لئے سیاسی جماعتیں علاقائی سطح پر بننے والے اتحادوں کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں جبکہ بعض سیاسی جماعتوں میں پارٹی ٹکٹ پر بھی کافی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔
جس کی وجہ سے ان جماعتوں کے کارکن پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض بھی دکھائی دے رہے ہیں اور ٹکٹ نہ ملنے والے اکثر کارکن پارٹی ٹکٹ سے ہٹ کر بھی آزاد حیثیت سے ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ابھی کس جماعت کو اکثریت ملتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کارکنوں نے اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ نہیں لئے ہیں۔ اکثریت آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہے ان ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے پورے بلوچستان کے صرف نو سے دس ٹکٹ ہی جاری ہوسکے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسلام آباد میں مختلف سیاسی رہنماؤں اوراہم شخصیات سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت کی اولین کوشش ہے کہ بلوچستان کے مسائل جلد از جلد حل ہوں اور خاص طور پر بلوچستان کے ناراض قوم پرست رہنماؤں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس سلسلے میں جلد ہی ان ناراض قوم پرستوں سے رابطے کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دسمبر میں اے پی سی کوئٹہ میں بلائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین کو مدعو کیا جائے گا تاکہ بلوچستان کے مسائل حل کئے جاسکیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی سابق وزراء اعلیٰ کی طرح بلوچستان میں حالات کی خرابی کا بیرونی قوتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سابقہ ادواروں میں امن و امان اور کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ ہمارے چھ ماہ کے دور اقتدار میں ہم پر کسی نے کرپشن کا الزام نہیں لگایا جو بلوچستان حکومت کی کامیابی ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اب تک کوئی بڑی اور قابل ذکر کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی مگر ہم پرامید ہیں کہ بہت جلد اس مسئلے کو بھی حل کرلیں گے۔ جہاں تک بات لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ کی ہے احتجاج کا راستہ ہر ایک کا جمہوری حق ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ سے780 کلو میٹر کا طویل فاصلہ پیدل طے کرکے کراچی پہنچنے والے بلوچ قومی قافلے نے کراچی پریس کلب سامنے احتجاجی کیمپ قائم کر لیا ہے جس میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی تصاویر آویزاں کردی ہیں۔
کراچی پہنچنے پر قافلے کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ اگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اسلام آباد، اقوام متحدہ یا دولت مشترکہ تک بھی جانا پڑا تو وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جائیں گے چاہے اس کیلئے انہیں کسی بھی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ پیدل لانگ مارچ کے شرکاء سے حب کے مقام پر نیشنل پارٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے مرکزی اور ضلعی قائدین کے وفد نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میر طاہر بزنجو کی قیادت میں ملاقات کی ، وفد نے قافلے کے شرکاء کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی وفاق المدارس اور دینی جماعتوں کی اپیل پر سانحہ راولپنڈی کے خلاف یوم احتجاج منایا گیا اس حوالے سے اہلسنّت والجماعت اور جمعیت علماء اسلام (نظریاتی) نے بھی الگ الگ احتجاجی ریلی اور جلسے منعقد کئے احتجاجی جلسوں میں مذمتی قراردیں بھی منظور کی گئیں اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ سانحے کے ذمہ دار ملزمان کو گرفتار کرکے سزا دی جائے یوم احتجاج کے روز صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مکمل ہڑتال رہی۔
اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان مسلم لیگ (زیڈ)، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔کوشش کی جا رہی ہے کہ اس اتحاد کا سلسلہ صوبے تک وسیع کیا جائے ، اتحاد نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے دس رکنی خود مختار کوآرڈی نیشن کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں ہر جماعت سے ایک ایک رکن کو شامل کیا گیا ہے کمیٹی انتخابات میں تمام مراحل کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ اتحاد کے رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں عام انتخابات کی طرح کسی کو دھاندلی کرنے نہیں دی جائے گی۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع اور تحصیلوں میں بعض مقامات پر بلا مقابلہ بھی ڈسٹرکٹ اور تحصیل لیول پر اراکین منتخب ہوگئے ہیں۔ صوبائی الیکشن کمشنر سلطان بایزید کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کیلئے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق جو شیڈول جاری کئے گئے تھے اس کے مطابق چار مراحل میں یہ انتخابات مکمل ہوں گے، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے32 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کیلئے ممکنہ تمام تیاریاں کر لی گئی ہیں اور تمام اضلاع میں نامزد اُمیدواروں کی فہرستیں بھی مرتب ہونے کے بعد آویزاں کی جائیں گی۔
اُنہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے ڈسٹرکٹ کونسلوں کے ممبران کی تعداد635 ہے جن میں اب تک140 بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں اسی طرح یونین کونسل کے ممبران کی تعداد5498 ہے جن میں سے 1939 بلا مقابلہ منتخب ہو چکے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن،میونسپل کمیٹی اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ممبران کی تعداد1057 ہے جن میں سے253 بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وڈھ میں آر او کا دفتر جلانے کی وجہ سے دوبارہ شیڈول جاری کیا گیا ہے وہاں کاغذات نامزدگی دوبارہ جمع کرائے گئے ہیں۔
سیاسی حلقوں کے مطابق ان بلدیاتی انتخابات میں جن میں اب کچھ ہی وقت باقی رہ گیا ہے تیزی سے مختلف سیاسی اتحادتشکیل پا رہے ہیں جن میں زیادہ تر علاقائی سطح پر اتحاد قائم کئے گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی علاقائی سطح پر ان اتحادوں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق کیونکہ عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات کی سیاست میں کافی فرق ہے اس لئے سیاسی جماعتیں علاقائی سطح پر بننے والے اتحادوں کو زیادہ اہمیت دے رہی ہیں جبکہ بعض سیاسی جماعتوں میں پارٹی ٹکٹ پر بھی کافی اختلافات پائے جاتے ہیں ۔
جس کی وجہ سے ان جماعتوں کے کارکن پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض بھی دکھائی دے رہے ہیں اور ٹکٹ نہ ملنے والے اکثر کارکن پارٹی ٹکٹ سے ہٹ کر بھی آزاد حیثیت سے ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ابھی کس جماعت کو اکثریت ملتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کارکنوں نے اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ نہیں لئے ہیں۔ اکثریت آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہے ان ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے پورے بلوچستان کے صرف نو سے دس ٹکٹ ہی جاری ہوسکے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اسلام آباد میں مختلف سیاسی رہنماؤں اوراہم شخصیات سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت کی اولین کوشش ہے کہ بلوچستان کے مسائل جلد از جلد حل ہوں اور خاص طور پر بلوچستان کے ناراض قوم پرست رہنماؤں سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس سلسلے میں جلد ہی ان ناراض قوم پرستوں سے رابطے کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ دسمبر میں اے پی سی کوئٹہ میں بلائی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائدین کو مدعو کیا جائے گا تاکہ بلوچستان کے مسائل حل کئے جاسکیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی سابق وزراء اعلیٰ کی طرح بلوچستان میں حالات کی خرابی کا بیرونی قوتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سابقہ ادواروں میں امن و امان اور کرپشن سب سے بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ ہمارے چھ ماہ کے دور اقتدار میں ہم پر کسی نے کرپشن کا الزام نہیں لگایا جو بلوچستان حکومت کی کامیابی ہے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اب تک کوئی بڑی اور قابل ذکر کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی مگر ہم پرامید ہیں کہ بہت جلد اس مسئلے کو بھی حل کرلیں گے۔ جہاں تک بات لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ کی ہے احتجاج کا راستہ ہر ایک کا جمہوری حق ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کوئٹہ سے780 کلو میٹر کا طویل فاصلہ پیدل طے کرکے کراچی پہنچنے والے بلوچ قومی قافلے نے کراچی پریس کلب سامنے احتجاجی کیمپ قائم کر لیا ہے جس میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے اپنے پیاروں کی تصاویر آویزاں کردی ہیں۔
کراچی پہنچنے پر قافلے کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ اگر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اسلام آباد، اقوام متحدہ یا دولت مشترکہ تک بھی جانا پڑا تو وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جائیں گے چاہے اس کیلئے انہیں کسی بھی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ پیدل لانگ مارچ کے شرکاء سے حب کے مقام پر نیشنل پارٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کے مرکزی اور ضلعی قائدین کے وفد نے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میر طاہر بزنجو کی قیادت میں ملاقات کی ، وفد نے قافلے کے شرکاء کو اپنی مکمل حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔
ملک کے دیگر حصوں کی طرح کوئٹہ میں بھی وفاق المدارس اور دینی جماعتوں کی اپیل پر سانحہ راولپنڈی کے خلاف یوم احتجاج منایا گیا اس حوالے سے اہلسنّت والجماعت اور جمعیت علماء اسلام (نظریاتی) نے بھی الگ الگ احتجاجی ریلی اور جلسے منعقد کئے احتجاجی جلسوں میں مذمتی قراردیں بھی منظور کی گئیں اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ سانحے کے ذمہ دار ملزمان کو گرفتار کرکے سزا دی جائے یوم احتجاج کے روز صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مکمل ہڑتال رہی۔