کراچی واٹر بورڈ کے ذمہ اربوں روپے کی ادائیگی کا مسئلہ

کے ای ایس سی نےواٹربورڈکے پمپنگ اسٹیشنزکی بجلی کاٹ دی جس سے 2کروڑسے زائد آبادی والے شہرکو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی۔

کراچی میں پانی کی بندش کے واقعہ نے حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس / فائل

گزشتہ ہفتے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی) نے کراچی واٹربورڈکے پمپنگ اسٹیشنز کی بجلی منقطع کردی۔

جس سے دوکروڑسے زائد آبادی والے شہرکو پانی کی فراہمی معطل ہوگئی اورایک بڑابحران پیدا ہوگیا۔ یہ حکومت سندھ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ اس کیلئے حکومت کے ذمہ داران کوئی بھی جواز پیش کرتے رہیں، عوام اسے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے ایسی صورتحال کیوں پیدا ہونے دی ۔ ایک ادارہ اپنی من مانی کرتے ہوئے دوکروڑسے زائد لوگوں کا پانی بندکردے اور حکومت اس پر خاموش رہے، حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اس واقعہ نے حکومت کی رٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت سندھ نے مسئلے کو خود حل کرنے کی بجائے وفاقی حکومت سے مددطلب کر لی ہے۔کے ای ایس سی کا کہنا ہے کہ واٹربورڈ نے اس کے کئی ارب روپے کے واجبات اداکرنے ہیں لیکن کے ای ایس سی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ایسا اقدام کرے ،جس سے عوام الناس کو پریشانی ہو۔کے ای ایس سی نے بھی سوئی سدرن گیس کمپنی کو45 ارب روپے سے زیادہ کی رقم ادا کرنی ہے لیکن اسے گیس کی فراہمی بند نہیں کی گئی کیونکہ حکومت نے گیس کمپنی پر واضح کردیا ہے کہ گیس بند ہونے سے بجلی کی پیداوار رک جائے گی اور اس کے نتیجے میں عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو پریشانی سے بچانے کے لیے سوئی سدرن گیس کمپنی کو واجبات کی ادائیگی کا معاملہ موخرکردیا گیا۔ حالانکہ گیس کمپنی کا یہ حق ہے کہ وہ واجبات وصول کرے۔ اس وصولی میں اسے عوام کے مسئلے کو نظراندازکرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔کے ای ایس سی کے حکام یہ منطق ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں علم ہے کہ پمپنگ اسٹیشنز کی بجلی بند ہونے سے عوام کو پانی کی فراہمی بند ہو جائے گی تو اسے بجلی منقطع نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس نے اس بات کی پروا نہیں کی ۔

افسوس تو سندھ حکومت کے رویے پر ہوتا ہے،جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضرورتیں فراہم کرے اور ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دے ،جس سے امن وامان خراب ہو یا حکومتی عمل داری قائم کرنے میں رکاوٹ پیدا ہو۔ سندھ کے وزیر بلدیات واطلاعات شرجیل انعام میمن نے کے ای ایس سی حکام کے ساتھ مذاکرات کیے لیکن کے ای ایس سی کے حکام نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیربلدیات کو کے ای ایس سی کے حکام کے ساتھ مذاکرات ہی نہیں کرنے چاہئیں تھے ۔




یہ کام اسسٹنٹ کمشنر کا تھا ۔ علاقے کا اسسٹنٹ کمشنر امن عامہ کی خاطر ریاست کی طرف سے تمام اقدامات کرنے کا مجاز ہے۔ اسسٹنٹ کمشنرکے ای ایس ای حکام کو اپنے دفتر میں بلاتااورانہیں حکم دیتا کہ وہ بجلی بحال کریں۔ زیادہ سے زیادہ کمشنر کراچی ڈویژن یہ کام کرسکتا تھا۔ اگرکے ای ایس سی کے حکام ان کی بات نہ مانتے تو قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی تھی۔ یہ معاملہ صوبائی وزیر تک پہنچنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کے ای ایس سی کے حکام صوبائی وزیر اور وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی ٹکا ساجواب دے کر چلے گئے۔

اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے اس کام کے لیے وفاقی حکومت کی مدد طلب کر لی ، جوصرف ایک اسسٹنٹ کمشنر کرسکتا تھا۔ سندھ کے بارے میں پہلے ہی یہ تاثر ہے کہ یہاں گورننس نہیں ہے اورحکومت کی عمل داری نہ ہونے کے حوالے سے سندھ پاکستان میں سرفہرست ہے۔ سندھ حکومت خاموشی سے یہ دیکھتی رہی کہ کے ای ایس سی نے واٹر بورڈکی بجلی منقطع کردی اوراچانک شہر میں پانی کا بحران پیدا ہوگیا۔ اس واقعہ نے اس تاثرکومزید پختہ کردیا ہے کہ سندھ میں گورننس اور حکومتی عمل داری نہیں ہے۔

کے ای ایس سی نے بھی حکومت سندھ کے واجبات ادا کرنے ہیں لیکن وہ عوام کو بجلی فراہم کرنے کے نام پر یہ واجبات ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کے ای ایس سی کے حکام واجبات پر پیدا ہونے والے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے حکومت سندھ کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے تیارنہیں ہیں ۔کے ای ایس سی کا کہنا یہ ہے کہ اس نے واٹر بورڈکو جو بل دے دیا ہے، وہی اسے اداکیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا یہ ہے کہ وہ زائد بل کیوں اداکریں اور عوام کا پیسہ اس طرح اٹھا کرکیسے دے دیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو نے بھی بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سندھ کی ناکامی کے بعد کراچی واٹر بورڈ نے واجبات کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ حکومت سندھ کو اپنی اس ناکامی کا ذرہ بھی احساس نہیں ہے اور یہ بات لوگوں کے لیے افسوسناک ہے۔ پتہ نہیں سندھ کے حکمرانوں نے یہ اندازحکمرانی کہاں سے سیکھا ہے۔ وہ یا تو مصلحت کا شکار ہیں یا پھر اپنے مخصوص مفادات کے تابع ہیں۔

اگلے روزچیف منسٹر ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سے یہ سوال کیا گیا کہ کے ای ایس سی کے حکام عدالت کے فیصلوں کو نہیں مانتے ہیں۔ اگرعدالت کوئی فیصلہ کرے گی تو حکومت سندھ اس پر عمل درآمدکیسے کرائے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ سے دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ حکومت خودکے ای ایس سی کے سامنے بے بس ہے، وہ سوچے کہ عام آدمی کے ساتھ کراچی میں کیا ہو رہا ہے۔

کراچی کے لوگ زائد بلنگ پر چیخ رہے ہیں۔ ان کی کوئی سننے والا نہیں ہے۔ کیا حکومت سندھ عام آدمی کا مسئلہ بھی اٹھائے گی؟ وزیراعلیٰ سندھ ان دونوں سوالوں کا کوئی جواب نہ دے سکے اور کہاکہ مرکز میں ہماری حکومت نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت میں جو لوگ ہیں، وہ اپنے پروگرام پر چل رہے ہیں۔ اپنے صوبے کے لوگوں کا مسئلہ اگر وزیراعلی نہیں اٹھائیں گے تو اور کون اٹھائے گا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی بات سے یہ پیغام دیا ہے کہ اگرکراچی کے لوگ پریشان ہیں تووہ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔

کے ای ایس سی نے اگرچہ لوگوں کے دباؤ پر پمپنگ اسٹیشنز کی بجلی بحال کردی ہے لیکن ساتھ ہی اس نے 4گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا اعلان بھی کردیا ہے، جس کی وجہ سے واٹربورڈکو پانی کی فراہمی کے لیے وارہ بندی کرنا پڑی ہے۔ جوکام حکومت سندھ نہیں کر سکی ہے، توقع ہے کہ وہی کام گورنر سندھ ڈاکٹرعشرت العباد خان اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے کرلیں گے۔ یہ بات بھی حکومت سندھ کے لیے لمحہ فکریہ ہوگی۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ سندھ حکومت میں شامل لوگ آخرکیا کررہے ہیں؟
Load Next Story