دہرے عالمی معیار
جب بات مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کی ہو تو انسانی حقوق کے معیار ایک دم بہت ارفع و اعلیٰ شکل اختیار کرلیتے ہیں
فرض کریں کہ پچھلے کچھ دنوں سے ہم زیادہ تر سوشل میڈیا کے وسیلے سے ہندوستان میں جو کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ سب پاکستان میں ہورہا ہوتا یا پاکستان کررہا ہوتا تو دنیا بھر میں منظرنامہ کیا ہوتا؟
فرض کریں کہ پاکستان میں کوئی این آر سی جیسا اقلیتوں کے خلاف امتیازی قانون پاس ہوا ہوتا۔ فرض کریں کہ پاکستان میں کسی متنازع علاقے میں مہینوں سے ایسا کرفیو نافذ ہوتا کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکتا اور لوگ بدترین محصور زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے ہوتے اور اگر بین الاقوامی مبصرین، ادارے یا میڈیا اس کرفیو زدہ علاقے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو انہیں ٹکا سا جواب دے کر منع کردیا جاتا۔ فرض کریں کہ پاکستان میں کسی گرجا یا مندر کو کھلے عام جلایا جاتا، توڑا پھوڑا جاتا اور دوسری اقلیتوں کی مذہبی یادگاروں کو کھلے عام دیدہ دلیری سے پرجوش مذہبی نعرے لگاتے ہوئے منہدم کیا جاتا۔ فرض کریں کہ راہ چلتے غیر مسلم لوگوں کو پکڑ کر ان سے اپنے مذہب کے خلاف جبراً نعرے لگوائے جاتے، انہیں بے دردی سے مارا جاتا اور یہ سب کرنے والوں کی سرپرستی ریاست پاکستان کھلے عام کررہی ہوتی تو پھر کیا خیال ہے آپ کا کہ ساری دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں کیا حال ہوتا اور کیسا شور مچا ہوا ہوتا؟
پھر کچھ ایسا ہوتا کہ دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان اور بھونچال آیا ہوا ہوتا۔ یہ نام نہاد آزاد عالمی میڈیا پاکستان اور اس کی آڑ میں اسلام کو طرح طرح سے نشانہ بنارہا ہوتا۔ اقوامِ متحدہ میں آئے دن دھڑادھڑ اجلاس ہورہے ہوتے اور پاکستان کے خلاف قراردادیں لائی جارہی ہوتیں یا لائے جانے پر غور کیا جارہا ہوتا۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آرہے ہوتے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف ویڈیوز اور تبصروں کا جیسے سیلاب آیا ہوا ہوتا۔ اس ملک میں اقوام متحدہ کی امن فوج اتارنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہوتا اور ساری نام نہاد مہذب دنیا اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو انسانی ہمدردی کا بخار چڑھا ہوا ہوتا۔ پاکستان کو ساری دنیا میں معطون کیا جارہا ہوتا اور بہت سے ممالک اس ملک سے سفارتی تعلقات توڑنے یا معطل کرنے پر غور کررہے ہوتے اور شاید اب تک پاکستان پر عالمی پابندیاں بھی عائد کی جاچکی ہوتیں۔
کیا ایسا نہ ہوتا؟ یقیناً کم و بیش ایسا ہی ہورہا ہوتا، بلکہ شاید لکھا کم گیا ہے اس سے کچھ زیادہ ہی پیش آرہا ہوتا۔
اب یہ سب کیونکہ انڈیا میں ہورہا ہے، اس لیے عالمی میڈیا میں ایک سکون کی سی کیفیت ہے۔ گاہے گاہے تبرک کےلیے کچھ تھوڑی بہت خبریں وہاں کی دنیا بھر کے میڈیا میں پیش کی جارہی ہیں، وگرنہ دیگر اہم معاملات پر توجہ زیادہ مرکوز ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی کبھی کبھار کوئی رسمی اور نمائشی سا بیان جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے نظر آرہے۔ کیونکہ انڈیا ایک بہت بڑی تجارتی مارکیٹ ہے اور عالمی تجار و ساہوکار اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ پھر مزید یہ کہ نقصان اٹھانے والے، کرفیو میں سسک سسک کر جینے والے، مارے کاٹے اور جلائے جانے والے لوگ کیونکہ مسلمان ہیں، اس لیے عالمی ممالک خاص طور پر مغربی ممالک اور ان کے چیف امریکا بہادر کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
یہ وہ دہرے عالمی معیار ہیں، جن سے تقریباً ہر اوسط درجے کی عقل رکھنے والا فرد واقف ہے کہ جب بات مسلمانوں کے علاوہ کسی اور برادری، طبقے یا گروہ کی ہو تو انسانی حقوق کے معیار ایک دم بہت ارفع و اعلیٰ شکل اختیار کرلیتے ہیں لیکن جب بات، معاملہ اور مسئلہ مسلمانوں کا ہو تو کیونکہ وہ تو شاید عالمی پیمانوں کے مطابق انسان ہی نہیں ہیں، بلکہ نیم انسان ہیں، اس لیے سارے انسانی حقوق اور ان کے عالمی علم بردار اپنی اپنی دمیں سمیٹ کر خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ بات اداروں اور ممالک کے تناظر میں کہی جارہی ہے۔ عوامی سطح پر ہر ملک کے عام لوگ انڈیا میں بپا ہونے والے المیوں پر مضطرب اور پریشان ہیں۔ جس کا ثبوت ساری دنیا کے عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی سیکڑوں اور ہزاروں ویڈیوز سے مل رہا ہے۔ لیکن عالمی صاحبان اختیار و اقتدار کیونکہ اپنی اپنی سیاسی اور تجارتی مصلحتوں کے اسیر ہیں، اس لیے انہیں شاید نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کچھ سنائی دے رہا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہندوستان میں جو کچھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، وہ ظلم و جبر کی بدترین مثال ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بڑی دیدہ دلیری سے سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فسادیوں اور ظالموں کی بیخ کنی کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سارے المیے کا کیا انجام ہوگا اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ہندوستان کے علما و مشائخ نے اس ساری بدترین صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر کہیں دفاعی جہاد کا مشترکہ اعلان کردیا تو پھر جو کچھ ہوگا اس کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ غنڈہ عناصر، فسادی اور پولیس تو پولیس پھر تو اس جہادی ردعمل کو انڈیا کی آرمی بھی نہیں سنبھال پائے گی۔
چلو غیر تو غیر ہیں، ان سے کیا وفا کی توقع کرنا۔ لیکن دکھ تو مسلمان ممالک پر ہوتا ہے کہ سوائے ترکی اور ملائیشیا کے کسی مسلم ملک نے بدترین بھارتی مظالم کی مذمت نہیں کی۔ جو اس نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر روا رکھے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں لاکھوں بھارتی کام کررہے ہیں۔ اگر صرف اور صرف ڈرانے کےلیے ہی یہ مسلمان ممالک ان سب بھارتیوں کو فی الفور ڈی پورٹ کرنے کا صرف بیان ہی دے دیں تو دنیا دیکھے گی کہ بی جے پی سرکار کے ہوش اڑ جائیں گے اور یہ سارے بھارتی مظالم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجائیں گے کہ بنیے کی فطرت ہے کہ وہ مال میں کمی کو تو کیا اس میں کمی آنے کے خدشے کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن ہمارے یہ امیر ترین مسلم ممالک ایسے خاموش ہیں جیسے گونگے کا گڑ کھا کر بیٹھے ہوں۔ تو پھر یہ سب مناظر دیکھ کر اور غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے حسی کا مشاہدہ کرکے مسلم امہ اور اس سے متعلقہ باتیں صرف جیسے باتیں ہی لگنے لگتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
فرض کریں کہ پاکستان میں کوئی این آر سی جیسا اقلیتوں کے خلاف امتیازی قانون پاس ہوا ہوتا۔ فرض کریں کہ پاکستان میں کسی متنازع علاقے میں مہینوں سے ایسا کرفیو نافذ ہوتا کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکتا اور لوگ بدترین محصور زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے ہوتے اور اگر بین الاقوامی مبصرین، ادارے یا میڈیا اس کرفیو زدہ علاقے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو انہیں ٹکا سا جواب دے کر منع کردیا جاتا۔ فرض کریں کہ پاکستان میں کسی گرجا یا مندر کو کھلے عام جلایا جاتا، توڑا پھوڑا جاتا اور دوسری اقلیتوں کی مذہبی یادگاروں کو کھلے عام دیدہ دلیری سے پرجوش مذہبی نعرے لگاتے ہوئے منہدم کیا جاتا۔ فرض کریں کہ راہ چلتے غیر مسلم لوگوں کو پکڑ کر ان سے اپنے مذہب کے خلاف جبراً نعرے لگوائے جاتے، انہیں بے دردی سے مارا جاتا اور یہ سب کرنے والوں کی سرپرستی ریاست پاکستان کھلے عام کررہی ہوتی تو پھر کیا خیال ہے آپ کا کہ ساری دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں کیا حال ہوتا اور کیسا شور مچا ہوا ہوتا؟
پھر کچھ ایسا ہوتا کہ دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایک طوفان اور بھونچال آیا ہوا ہوتا۔ یہ نام نہاد آزاد عالمی میڈیا پاکستان اور اس کی آڑ میں اسلام کو طرح طرح سے نشانہ بنارہا ہوتا۔ اقوامِ متحدہ میں آئے دن دھڑادھڑ اجلاس ہورہے ہوتے اور پاکستان کے خلاف قراردادیں لائی جارہی ہوتیں یا لائے جانے پر غور کیا جارہا ہوتا۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آرہے ہوتے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف ویڈیوز اور تبصروں کا جیسے سیلاب آیا ہوا ہوتا۔ اس ملک میں اقوام متحدہ کی امن فوج اتارنے کے بارے میں غور کیا جارہا ہوتا اور ساری نام نہاد مہذب دنیا اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو انسانی ہمدردی کا بخار چڑھا ہوا ہوتا۔ پاکستان کو ساری دنیا میں معطون کیا جارہا ہوتا اور بہت سے ممالک اس ملک سے سفارتی تعلقات توڑنے یا معطل کرنے پر غور کررہے ہوتے اور شاید اب تک پاکستان پر عالمی پابندیاں بھی عائد کی جاچکی ہوتیں۔
کیا ایسا نہ ہوتا؟ یقیناً کم و بیش ایسا ہی ہورہا ہوتا، بلکہ شاید لکھا کم گیا ہے اس سے کچھ زیادہ ہی پیش آرہا ہوتا۔
اب یہ سب کیونکہ انڈیا میں ہورہا ہے، اس لیے عالمی میڈیا میں ایک سکون کی سی کیفیت ہے۔ گاہے گاہے تبرک کےلیے کچھ تھوڑی بہت خبریں وہاں کی دنیا بھر کے میڈیا میں پیش کی جارہی ہیں، وگرنہ دیگر اہم معاملات پر توجہ زیادہ مرکوز ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی کبھی کبھار کوئی رسمی اور نمائشی سا بیان جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے نظر آرہے۔ کیونکہ انڈیا ایک بہت بڑی تجارتی مارکیٹ ہے اور عالمی تجار و ساہوکار اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ پھر مزید یہ کہ نقصان اٹھانے والے، کرفیو میں سسک سسک کر جینے والے، مارے کاٹے اور جلائے جانے والے لوگ کیونکہ مسلمان ہیں، اس لیے عالمی ممالک خاص طور پر مغربی ممالک اور ان کے چیف امریکا بہادر کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
یہ وہ دہرے عالمی معیار ہیں، جن سے تقریباً ہر اوسط درجے کی عقل رکھنے والا فرد واقف ہے کہ جب بات مسلمانوں کے علاوہ کسی اور برادری، طبقے یا گروہ کی ہو تو انسانی حقوق کے معیار ایک دم بہت ارفع و اعلیٰ شکل اختیار کرلیتے ہیں لیکن جب بات، معاملہ اور مسئلہ مسلمانوں کا ہو تو کیونکہ وہ تو شاید عالمی پیمانوں کے مطابق انسان ہی نہیں ہیں، بلکہ نیم انسان ہیں، اس لیے سارے انسانی حقوق اور ان کے عالمی علم بردار اپنی اپنی دمیں سمیٹ کر خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ بات اداروں اور ممالک کے تناظر میں کہی جارہی ہے۔ عوامی سطح پر ہر ملک کے عام لوگ انڈیا میں بپا ہونے والے المیوں پر مضطرب اور پریشان ہیں۔ جس کا ثبوت ساری دنیا کے عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی سیکڑوں اور ہزاروں ویڈیوز سے مل رہا ہے۔ لیکن عالمی صاحبان اختیار و اقتدار کیونکہ اپنی اپنی سیاسی اور تجارتی مصلحتوں کے اسیر ہیں، اس لیے انہیں شاید نہ کچھ دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کچھ سنائی دے رہا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہندوستان میں جو کچھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، وہ ظلم و جبر کی بدترین مثال ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ بڑی دیدہ دلیری سے سرکاری سرپرستی میں ہورہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے فسادیوں اور ظالموں کی بیخ کنی کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سارے المیے کا کیا انجام ہوگا اور یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ہندوستان کے علما و مشائخ نے اس ساری بدترین صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر کہیں دفاعی جہاد کا مشترکہ اعلان کردیا تو پھر جو کچھ ہوگا اس کا ابھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ غنڈہ عناصر، فسادی اور پولیس تو پولیس پھر تو اس جہادی ردعمل کو انڈیا کی آرمی بھی نہیں سنبھال پائے گی۔
چلو غیر تو غیر ہیں، ان سے کیا وفا کی توقع کرنا۔ لیکن دکھ تو مسلمان ممالک پر ہوتا ہے کہ سوائے ترکی اور ملائیشیا کے کسی مسلم ملک نے بدترین بھارتی مظالم کی مذمت نہیں کی۔ جو اس نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر روا رکھے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں لاکھوں بھارتی کام کررہے ہیں۔ اگر صرف اور صرف ڈرانے کےلیے ہی یہ مسلمان ممالک ان سب بھارتیوں کو فی الفور ڈی پورٹ کرنے کا صرف بیان ہی دے دیں تو دنیا دیکھے گی کہ بی جے پی سرکار کے ہوش اڑ جائیں گے اور یہ سارے بھارتی مظالم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجائیں گے کہ بنیے کی فطرت ہے کہ وہ مال میں کمی کو تو کیا اس میں کمی آنے کے خدشے کو بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ لیکن ہمارے یہ امیر ترین مسلم ممالک ایسے خاموش ہیں جیسے گونگے کا گڑ کھا کر بیٹھے ہوں۔ تو پھر یہ سب مناظر دیکھ کر اور غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے حسی کا مشاہدہ کرکے مسلم امہ اور اس سے متعلقہ باتیں صرف جیسے باتیں ہی لگنے لگتی ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔