فرقہ ورانہ سوچ کا خاتمہ
ایک اور استاد قتل ہوا۔ گجرات یونیورسٹی کے استاد پروفیسر شیر شاہ کو یونیورسٹی آتے ہوئے نامعلوم افراد نے۔۔۔
ایک اور استاد قتل ہوا۔ گجرات یونیورسٹی کے استاد پروفیسر شیر شاہ کو یونیورسٹی آتے ہوئے نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ راولپنڈی میں 10 محرم کو ہونے والے سانحے کے خلاف یوں تو پورے ملک میں کشیدگی تھی مگر پنجاب میں اس کشیدگی کی شدت انتہائی زیادہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا پر خوفناک کہانیاں لوگوںکے ذہنوں پر برا اثر ڈال رہی ہیں۔ حکومت نے مساجد کے لائوڈ اسپیکروں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگر 10 محرم کے سانحے کے بعد وفاقی حکومت فوری اقدامات نہ کرتی اور میڈیا ذمے داری کا ثبوت نہ دیتا تو پنجاب کے کئی شہروں میں فسادات شروع ہوجاتے۔ فرقہ وارانہ سوچ کا معاملہ فرد کے ذہن سے منسلک ہے اور ذہنوں کو بنانے میں طرز حکومت کا ایک بنیادی کردار ہے۔ یوں تو مختلف سیاسی جماعتوں نے فرقہ وارانہ سوچ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے مگر مسلم لیگ نے ہمیشہ اس ہتھیار کے ذریعے اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
جنرل ضیاء الحق نے متنازعہ اسلامی قوانین کو نافذ کرکے معاشرے کی ساخت کو نقصان پہنچایا تھا۔ جب ان قوانین کو تبدیل کرنے کا مطالبہ ہوا تو مسلم لیگ کی قیادت نے مخالفت شروع کردی۔ اگرچہ1991 میں جب میاں نواز شریف اقتدار میں آئے، اور پنجاب میں وائیں صاحب وزیر اعلیٰ بنے تو پنجاب میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ شروع ہوچکی تھی، حکومت پنجاب کے کئی اعلیٰ افسران اس صورتحال کی نذر ہوگئے تھے، حتیٰ کہ لاہور میں ایرانی سفارت خانہ کے ایک اعلیٰ افسر کو بھی قتل کیا گیا تھا مگر مسلم لیگی قیادت نے حقائق پر توجہ نہ دی پھر میاں صاحب کی دوسری حکومت میں یہ خاصا بڑا چیلنج تھا۔ ادیب، شاعر، سرکاری افسر، پولیس افسران کو قتل کیا گیا۔ اس زمانے میں وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین کے قریبی عزیز ایک پولیس افسر نے فرقہ وارانہ قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا تھا، انتہا پسندوں نے اس پولیس افسر کو بھی قتل کردیا تھا۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے کارکن ریاض بسرا نے پنجاب پولیس کی نیندیں حرام کی ہوئی تھیں۔ اس شخص نے ایک کھلی کچہری میں میاں نواز شریف سے مصحافہ کیا اور تصویر اخبارات میں شایع کراکے تہلکہ مچا دیا تھا مگر حکومت نے فرقہ وارانہ سوچ کے خاتمے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
بعض صحافی کہتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیاں ان عناصر کو افغانستان اور کشمیر میں استعمال کررہی تھیں۔ مسلم لیگ کے بعض ارکان ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کشمیر میں بھیجے جانے والے رضاکاروں کا عسکری ٹریننگ کیمپ چلارہے تھے، ان میں شیخ رشید قابل ذکر تھے اور اعلیٰ سطح سے ہدایات تھیں کہ اس قسم کے آپریشن میں مداخلت نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ مدرسوں کی حوصلہ افزائی ہورہی تھی۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں جنونی مواد زیادہ سے زیادہ شامل کرکے نوجوان نسل کو نفرت کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا۔ جب سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے واقعے کے بعد انتہاپسند انہ ذہن کو تبدیل کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے تو مسلم لیگ کے تمام گروپ ان اقدمات کے خلاف متحد ہوئے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ اور نیشنل پارٹی کی کوششوں سے متنازعہ زنا آرڈیننس میں ترمیم کے لیے قانون قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو مسلم لیگ ن کی قیادت نے ایم ایم اے کے ساتھ مل کر اس کی مخالفت کی۔ پاسپورٹ سے مذہب کا خاتمہ کرنے کی تجویز پر عمل درآمد کا وقت آیا تو مسلم لیگ ن والے چوہدری شجاعت حسین کے موقف سے متفق ہوگئے۔
پنجاب میں طالبان نے 2009-2010 میں دہشت گردی سے راولپنڈی، لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی عمارتوں کو خودکش حملہ آوروں نے تہس نہس کیا۔ لاہور کی مون مارکیٹ میں ہونے والے دھماکوں میں بہت سے لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس کے ساتھ اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے، یہ الزام لگایا گیا کہ جنوبی پنجاب میں مذہبی انتہا پسندوں نے اپنی کمین گاہیں قائم کرلی ہیں، اس کے ساتھ جھنگ میں ہونے والی ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ اور کالعدم تنظیموں کے اتحاد کی خبریں شایع ہوئیں۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اﷲ ان الزامات کو منفی پروپیگنڈہ قرار دے رہے تھے۔بعض صحافیوں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ پنجاب میں دہشت گردی کی روک تھام ہوئی مگر انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں اردو کا نصاب تبدیل کیا گیا تو بعض رجعت پسندوں کے شور مچانے پر بنیادی اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ فیصلہ منسوخ کردیا۔ مسلم لیگی حکومت کی انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی پالیسی کی بناء پر معاشرے میں توازن بگڑ گیا اور انتہا پسندانہ سوچ فروغ پانے لگی، جس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھ گئی اور راولپنڈی کا سانحہ رونما ہوا۔ اس سانحے کی سب سے منفی بات یہ ہے کہ عوام کے دو گروہ ایک دوسرے سے تصادم کا شکار ہوئے۔
اس صورتحال کا جائزہ اگر کراچی اور پشاور میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے کیا جائے تو بہت فرق نظر آتا ہے۔ کراچی اور پشاور میں گزشتہ برسوں کے دوران مسلمانوں کے ایک فرقے کی مسجدوں پر حملے ہوئے اور ان کے جلوسوں اور فرقے کی مسجدوں پر حملے ہوئے اور جلوسوں کو ریموٹ کنٹرول بموں اور خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا مگر ان سانحات کے باوجود عوامی سطح پر کوئی تصادم نہیں ہوا اور تمام فرقوں سے تعلق رکھنے والے امدادی کاموں کے لیے متحرک ہوئے۔ عوامی سطح پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی نے دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا۔ راولپنڈی کا سانحہ اور پنجاب کے مختلف شہروں میں تصادم اور کشیدگی انتہائی گہری ہوگئی ہے اور عام آدمی اس کشیدگی کی تپش سے متاثر ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ سوچ کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ان اقدامات میں مدرسوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنا، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں فرقہ وارانہ مواد کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے ساتھ اساتذہ کے ذہن کو بھی تبدیل کرنا ضروری ہے، متنازعہ قوانین کی منسوخی کے ساتھ قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریرکے مطابق ریاست کی تشکیل نو ضروری ہے۔ اگر مسلم لیگی قیادت نے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی نہیں کی تو فرقہ وارانہ خلیج اتنی بڑھ جائے گی کہ خانہ جنگی کے امکانات بڑھ جائیں گے، جس کے اثرات سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے۔ پاکستان کو بچانے کے لیے فرقہ وارانہ سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔