ایک عاشق زار کی خطرناک دھمکی
اپنی نالائقی اور پھسڈی پن سے ہم خوش تو کبھی نہیں رہے، پرائمری سے لے کر جوانی کے پرائم ٹائم تک اور ۔۔۔
اپنی نالائقی اور پھسڈی پن سے ہم خوش تو کبھی نہیں رہے، پرائمری سے لے کر جوانی کے پرائم ٹائم تک اور اس کے بعد کے خیالی اور تصوراتی ''جرائم ٹائم'' تک ہم نے اپنے لیے کوئی ایک بھی ایسا ''فین'' نہیں بنایا ؎
آسماں کتنے ستارے ہیں تری محفل میں
اپنی قسمت کا مگر کوئی ستارہ نہ ہوا
لے دے کر یہی دو چار ''ہتھ پنکھے'' ہماری کل بساط ہیںلیکن باجوڑ سے ہمارے ایک ''فین'' نے ہوا دینے کے بجائے ہم پر ایک کیس ٹھونک دیا ہے۔وہ ایک دن کسی سے قرض لے کر سیدھے ہمارے گھر پہنچیں گے اور اس کے سامنے ''خودکشی'' کر لیں گے
کھائے ہیں ہم نے بہت سے ڈنڈے تری گلی میں
ہم خودکشی کریں گے ون ڈے تری گلی میں
دعویٰ اس کا ہم پر یہ ہے کہ ہمارے کالموں سے اسے ''عشق'' کا خطرناک اور جاں لیوا مرض لاحق ہوا ہے اور اب اس کا یہ حال ہے کہ پرانے شہزادوں کی طرح جس بھی سیلبرٹی کا نام سنتے ہیں اس پر ہزار جان سے نادیدہ ہی عاشق ہو جاتے ہیں
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشق ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
جب سے اس فل ٹائم عاشق پیشہ فین نے ہمیں نوٹس دیا ہے ہمارا خواب و خور حرام ہو گیا ہے، بالکل وہی حالت ہماری بھی ہو گئی ہے جو رحمن بابا کی عشق میں ہوئی تھی کہ
خوب خندا پہ بے غمئی کیگی رحمانہ
چہ پہ زڑہ ئے د یار غم وی سہ بہ خوب کا
یعنی سونا اورکھانا تب ہوتا ہے جب انسان ''بے غم'' ہوتا ہے جس کے دل پر یار کا غم ہو وہ کیا سوئے گا کیا کھائے گا، بقول منیرؔ نیازی
کچھ عشق دیاں راہواں اوکھیاں سن
کچھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
اس عشق مارے کی شرط کا ذکر تو ہم بعد میں کریں گے پہلے ہم اس سوچ سے اپنا دامن نہیں چھڑا پا رہے ہیں کہ آخر ہمارے کالموں میں ایسی کیا چیز تھی جس سے اس بے چارے کو عشق کے جراثیم اس بری طرح چمٹ گئے ہیں کہ وائس آف امریکا اور بی بی سی سے لے کر آس پاس کے سیکڑوں ایف ایم چینلز کی تمام اے جیز آر جیز اور ڈی جیز اس کی فہرست میں شامل ہیں، ایسا لگتا ہے کہ بے چارے کے گھر میں ٹی وی بھی نہیں ہے اور ڈش انٹینا یا کیبل سے بھی محروم ہے ورنہ تعداد پاکستان کی پوری اور بھارت کی آدھی آبادی کے برابر ہوتی
اک ''ریڈیو'' نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر
وہ تو اچھا ہے کہ موصوف کے گھر ٹی وی نہ ہوا
ہم ابھی تک معلوم نہیں کر پائے کہ ہمارے کون سے کالم کی کس بات میں عشق کے اتنے بے پناہ جراثیم تھے کہ میلوں دور جا کر باجوڑ میں اس بے چارے کو زدہ کر گئے، ہاں کبھی کبھار ہم بھی کسی ''سیلبرٹی'' کا ذکر کر لیتے ہیں، کنڈولیزا رائس، اوپرا ونفرے اور وہ ولیمز سسٹرز وغیرہ لیکن اس میں اتنا دل پھینک ہونے کی کیا بات ہے، ان بے چاریوں میں ایسی کوئی بات ہوتی تو شادیاں نہ ہو گئی ہوتیں، وہ نام تو یاد نہیں لیکن فارسی کا کوئی شاعر تھا جس نے اپنا کلام سنایا تو ایک احمق کو بڑھ بڑھ کر داد دیتے ہوئے دیکھا، وہ رو پڑا کسی نے وجہ پوچھی ۔۔۔ تو بولے ۔۔۔ رو اس لیے رہا ہوں کہ میں نے اپنے شعروں میں ایسی کون سی احمقانہ بات کہی ہے جو اس احمق کی سمجھ میں آ گئی اور اس پر رو رہا ہے
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد نادان پر کلام نرم و نازک بے اثر
وہ تو ہم یونہی ان بے چاری کلوٹیوں کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کے لیے کہتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی ان بے چاریوں کو بھی مُٹھی بھر گھاس ڈال ہی دے، وہ بھی اس لیے کہ ان کلوٹیوں کو ہم اپنے ہی جیسا محروم اور بدنصیب پاتے ہیں رنگت میں نہ سہی کسی کی سنگت میں ہی سہی، ہم نے جب جوشؔ ملیح آبادی کی یادوں کی بارات پڑھی اور اس میں جوشؔ صاحب کا لکھا ہوا یہ پڑھا کہ اسی سال کی عمر میں بھی ان پر ایک بیس سالہ حسینہ لٹو ہو گئی تھی تو کم از کم آٹھ سو کلو میٹر لمبی آہ کھنیچ کر کہا کہ قسمت اسے کہتے ہیں ادھر ہم ہیں کہ بیس سال کی عمر میں ہم پر کسی اسی سالہ عفیفہ تک نے دوسری نگاہ نہیں ڈالی تھی پہلی ہی نگاہ میں وہ ہمیں مسترد کر دیتی تھی اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
چنانچہ ان بے چاری کلوٹیوں کو اپنی طرح محروم جان کر ہم للہ فی اللہ ان کی پبلسٹی کرتے تھے کیا پتہ تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کوئی اس ذکر اذکار کو دیکھ کر اپنی الگ دکان کھول ڈالے گا، بلکہ الٹا ہم پر طعنہ زنی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنے لیے تو ایسی ''حسینائیں'' منتخب کی ہیں جن کے ساتھ کسی رقیب کا خطرہ ہی نہیں اور مجھے ایسی سیلبرٹیز سے الجھا دیا جہاں رقیبوں کی تعداد پاکستان کے سیاسی لیڈروں سے بھی زیادہ ہے دنیا میں ایسا کوئی ہے ہی نہیں جو ان پر بری نظر نہ رکھ رہا ہو، اس سارے قصے میں سب سے خطرناک چیز اس عاشق جانباز کی وہ دھمکی ہے جو اس نے ہمیں دی ہے، دھمکی یہ ہے کہ اگر ہم نے علامہ بریانی سے اس کے لیے ''تعویز حُب'' نہیں لکھوایا تو پھر وہ اپنی دھمکی پر عمل پیرا ہو جائے گا، اور ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، اس عاشق نامراد نے ہمارے لیے بہانے کا بھی کوئی در نہیں چھوڑا ہے، لکھتا ہے کہ علامہ کے تعویز حُب میں جو سامان لگتا ہے وہ اس نے فراہم کیا ہوا ہے ایک پٹواری کی قبر سے دس ہٹے کٹے کالے بچھو پکڑ کر اس نے ایک شیشے کی جار میں رکھ لیے ہیں، تھانیدار کی قبر پر اگنے والی گھاس بھی حاصل کر کے اس نے سکھائی ہوئی رکھی ہے، ایک دو لیڈروں کے اعمال کی سیاہی بھی اس نے حاصل کر لی ہے اور تعویز لکھنے کے ایک الراشی و المرتشی افسر کی جیب کا کپڑا بھی اس نے مہیا کر لیا ہے، اب دیر صرف اس بات کی ہے کہ ہم علامہ کو پٹا کر تعویز لکھنے پر تیار کریں اطلاع ملتے ہی وہ اس مطلوبہ سامان کے ساتھ حاضر ہو جائے گا، اب آپ ہی بتائیں کہ ہم علامہ بریانی عرف برڈ فلو عرف عامل کامل تعویزات حب والے کو کہاں سے لائیں کہ وہ کسی ایک جگہ کسی ایک فرد کی صورت میں تو موجود ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے ہر شہر ہر گاؤں اور ہر گلی میں اتنا زیادہ بکھرا ہوا ہے کہ بہت زیادہ بکھرنے کی وجہ سے ناپید ہو گیا ہے صرف یہی ایک صورت باقی ہے کہ
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
اور وہ آئینہ یہ ہے کہ ذرا آس پاس نظر ڈالیے آپ کے قرب و جوار میں ہی کہیں علامہ بریانی موجود ہو گا بڑی عام اور ہر جگہ دستیاب چیز ہے، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اور آج کل تو ان کی بہت زیادہ بہتات ہو گئی ہے اسے پکڑیئے اور ہماری جان چھوڑ یے، ویسے چاہو تو تم خود بھی بن سکتے ہو اس میں لگتا ہی کیا ہے، صرف احمقوں کی ضرورت پڑتی ہے اور پاکستان میں بہت ہیں۔
آسماں کتنے ستارے ہیں تری محفل میں
اپنی قسمت کا مگر کوئی ستارہ نہ ہوا
لے دے کر یہی دو چار ''ہتھ پنکھے'' ہماری کل بساط ہیںلیکن باجوڑ سے ہمارے ایک ''فین'' نے ہوا دینے کے بجائے ہم پر ایک کیس ٹھونک دیا ہے۔وہ ایک دن کسی سے قرض لے کر سیدھے ہمارے گھر پہنچیں گے اور اس کے سامنے ''خودکشی'' کر لیں گے
کھائے ہیں ہم نے بہت سے ڈنڈے تری گلی میں
ہم خودکشی کریں گے ون ڈے تری گلی میں
دعویٰ اس کا ہم پر یہ ہے کہ ہمارے کالموں سے اسے ''عشق'' کا خطرناک اور جاں لیوا مرض لاحق ہوا ہے اور اب اس کا یہ حال ہے کہ پرانے شہزادوں کی طرح جس بھی سیلبرٹی کا نام سنتے ہیں اس پر ہزار جان سے نادیدہ ہی عاشق ہو جاتے ہیں
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشق ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
جب سے اس فل ٹائم عاشق پیشہ فین نے ہمیں نوٹس دیا ہے ہمارا خواب و خور حرام ہو گیا ہے، بالکل وہی حالت ہماری بھی ہو گئی ہے جو رحمن بابا کی عشق میں ہوئی تھی کہ
خوب خندا پہ بے غمئی کیگی رحمانہ
چہ پہ زڑہ ئے د یار غم وی سہ بہ خوب کا
یعنی سونا اورکھانا تب ہوتا ہے جب انسان ''بے غم'' ہوتا ہے جس کے دل پر یار کا غم ہو وہ کیا سوئے گا کیا کھائے گا، بقول منیرؔ نیازی
کچھ عشق دیاں راہواں اوکھیاں سن
کچھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
اس عشق مارے کی شرط کا ذکر تو ہم بعد میں کریں گے پہلے ہم اس سوچ سے اپنا دامن نہیں چھڑا پا رہے ہیں کہ آخر ہمارے کالموں میں ایسی کیا چیز تھی جس سے اس بے چارے کو عشق کے جراثیم اس بری طرح چمٹ گئے ہیں کہ وائس آف امریکا اور بی بی سی سے لے کر آس پاس کے سیکڑوں ایف ایم چینلز کی تمام اے جیز آر جیز اور ڈی جیز اس کی فہرست میں شامل ہیں، ایسا لگتا ہے کہ بے چارے کے گھر میں ٹی وی بھی نہیں ہے اور ڈش انٹینا یا کیبل سے بھی محروم ہے ورنہ تعداد پاکستان کی پوری اور بھارت کی آدھی آبادی کے برابر ہوتی
اک ''ریڈیو'' نے اٹھا رکھی ہے دنیا سر پر
وہ تو اچھا ہے کہ موصوف کے گھر ٹی وی نہ ہوا
ہم ابھی تک معلوم نہیں کر پائے کہ ہمارے کون سے کالم کی کس بات میں عشق کے اتنے بے پناہ جراثیم تھے کہ میلوں دور جا کر باجوڑ میں اس بے چارے کو زدہ کر گئے، ہاں کبھی کبھار ہم بھی کسی ''سیلبرٹی'' کا ذکر کر لیتے ہیں، کنڈولیزا رائس، اوپرا ونفرے اور وہ ولیمز سسٹرز وغیرہ لیکن اس میں اتنا دل پھینک ہونے کی کیا بات ہے، ان بے چاریوں میں ایسی کوئی بات ہوتی تو شادیاں نہ ہو گئی ہوتیں، وہ نام تو یاد نہیں لیکن فارسی کا کوئی شاعر تھا جس نے اپنا کلام سنایا تو ایک احمق کو بڑھ بڑھ کر داد دیتے ہوئے دیکھا، وہ رو پڑا کسی نے وجہ پوچھی ۔۔۔ تو بولے ۔۔۔ رو اس لیے رہا ہوں کہ میں نے اپنے شعروں میں ایسی کون سی احمقانہ بات کہی ہے جو اس احمق کی سمجھ میں آ گئی اور اس پر رو رہا ہے
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد نادان پر کلام نرم و نازک بے اثر
وہ تو ہم یونہی ان بے چاری کلوٹیوں کی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کے لیے کہتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی ان بے چاریوں کو بھی مُٹھی بھر گھاس ڈال ہی دے، وہ بھی اس لیے کہ ان کلوٹیوں کو ہم اپنے ہی جیسا محروم اور بدنصیب پاتے ہیں رنگت میں نہ سہی کسی کی سنگت میں ہی سہی، ہم نے جب جوشؔ ملیح آبادی کی یادوں کی بارات پڑھی اور اس میں جوشؔ صاحب کا لکھا ہوا یہ پڑھا کہ اسی سال کی عمر میں بھی ان پر ایک بیس سالہ حسینہ لٹو ہو گئی تھی تو کم از کم آٹھ سو کلو میٹر لمبی آہ کھنیچ کر کہا کہ قسمت اسے کہتے ہیں ادھر ہم ہیں کہ بیس سال کی عمر میں ہم پر کسی اسی سالہ عفیفہ تک نے دوسری نگاہ نہیں ڈالی تھی پہلی ہی نگاہ میں وہ ہمیں مسترد کر دیتی تھی اور یہی سلسلہ آج تک جاری ہے
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
چنانچہ ان بے چاری کلوٹیوں کو اپنی طرح محروم جان کر ہم للہ فی اللہ ان کی پبلسٹی کرتے تھے کیا پتہ تھا کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کوئی اس ذکر اذکار کو دیکھ کر اپنی الگ دکان کھول ڈالے گا، بلکہ الٹا ہم پر طعنہ زنی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنے لیے تو ایسی ''حسینائیں'' منتخب کی ہیں جن کے ساتھ کسی رقیب کا خطرہ ہی نہیں اور مجھے ایسی سیلبرٹیز سے الجھا دیا جہاں رقیبوں کی تعداد پاکستان کے سیاسی لیڈروں سے بھی زیادہ ہے دنیا میں ایسا کوئی ہے ہی نہیں جو ان پر بری نظر نہ رکھ رہا ہو، اس سارے قصے میں سب سے خطرناک چیز اس عاشق جانباز کی وہ دھمکی ہے جو اس نے ہمیں دی ہے، دھمکی یہ ہے کہ اگر ہم نے علامہ بریانی سے اس کے لیے ''تعویز حُب'' نہیں لکھوایا تو پھر وہ اپنی دھمکی پر عمل پیرا ہو جائے گا، اور ہماری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، اس عاشق نامراد نے ہمارے لیے بہانے کا بھی کوئی در نہیں چھوڑا ہے، لکھتا ہے کہ علامہ کے تعویز حُب میں جو سامان لگتا ہے وہ اس نے فراہم کیا ہوا ہے ایک پٹواری کی قبر سے دس ہٹے کٹے کالے بچھو پکڑ کر اس نے ایک شیشے کی جار میں رکھ لیے ہیں، تھانیدار کی قبر پر اگنے والی گھاس بھی حاصل کر کے اس نے سکھائی ہوئی رکھی ہے، ایک دو لیڈروں کے اعمال کی سیاہی بھی اس نے حاصل کر لی ہے اور تعویز لکھنے کے ایک الراشی و المرتشی افسر کی جیب کا کپڑا بھی اس نے مہیا کر لیا ہے، اب دیر صرف اس بات کی ہے کہ ہم علامہ کو پٹا کر تعویز لکھنے پر تیار کریں اطلاع ملتے ہی وہ اس مطلوبہ سامان کے ساتھ حاضر ہو جائے گا، اب آپ ہی بتائیں کہ ہم علامہ بریانی عرف برڈ فلو عرف عامل کامل تعویزات حب والے کو کہاں سے لائیں کہ وہ کسی ایک جگہ کسی ایک فرد کی صورت میں تو موجود ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے ہر شہر ہر گاؤں اور ہر گلی میں اتنا زیادہ بکھرا ہوا ہے کہ بہت زیادہ بکھرنے کی وجہ سے ناپید ہو گیا ہے صرف یہی ایک صورت باقی ہے کہ
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
اور وہ آئینہ یہ ہے کہ ذرا آس پاس نظر ڈالیے آپ کے قرب و جوار میں ہی کہیں علامہ بریانی موجود ہو گا بڑی عام اور ہر جگہ دستیاب چیز ہے، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اور آج کل تو ان کی بہت زیادہ بہتات ہو گئی ہے اسے پکڑیئے اور ہماری جان چھوڑ یے، ویسے چاہو تو تم خود بھی بن سکتے ہو اس میں لگتا ہی کیا ہے، صرف احمقوں کی ضرورت پڑتی ہے اور پاکستان میں بہت ہیں۔