ہمارے دکھ اور ہماری پریشانیاں
شاہی گھوڑوں کے اصطبل کے قریب غریبوں کی ایک بستی تھی۔ اس بستی میں ایسے افراد کی اکثریت تھی، جو تانگہ چلا کر اپنی روزی روٹی حاصل کرتے تھے۔ اندھیرا پھیلتے ہی بستی میں جگہ جگہ خالی تانگے افقی سمت میں کھڑے نظر آتے اور تھکے ماندے گھوڑے اپنے اپنے کھونٹوں سے باندھ دیے جاتے۔ کم خوراک اور زیادہ مشقت ان گھوڑوں کا مقدر تھا۔ صبح سویرے انھیں تانگوں میں جوت دیا جاتا اور شام تک یہ گھوڑے مسافروں کو ڈھو ڈھو کر ان کی منزل تک پہنچاتے، پھر اپنے مالک اور اس کے خاندان کی خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو کچھ بچتا وہ راتب کی شکل میں شام کو ان کے آگے ڈال دیا جاتا، تا کہ اگلی صبح کے لیے یہ پھر تیار ہو جائیں۔ یہ گھوڑے، شاہی اصطبل کے گھوڑوں کو بڑی رشک آمیز نظروں سے دیکھتے اور اپنے مقدر کو روتے۔ شاہی اصطبل کے گھوڑوں کی صبح، شام مالش کی جاتی۔ سائیس ان کے صحت مند جسم پر کھریرا پھیرتا۔
انھیں بہترین خوراک اور میوے کھلائے جاتے۔ غذائیں کھانے اور ہلکی پھلکی دوڑ لگانے کے سوا انھیں کوئی کام نہ تھا۔ یہ شاہی گھوڑے آپس میں چہلیں کرتے اور دیوار سے اپنا صحت مند جسم رگڑ کر جب خوشی سے ہنہناتے تو بستی والے گھوڑوں کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے۔ وہ اپنے مقدر کو کوس کر آسمان کی جانب یوں منہ اٹھاتے، جیسے اوپر والے سے گلا کر رہے ہوں کہ اے دو جہانوں کے مالک، ہمارے نصیبوں میں دکھ و الم اور ان شاہی گھوڑوں پر انعام و اکرام اور تیری نعمتوں کی یہ بارش، کیا ہمارے ساتھ نا انصافی نہیں ہے؟ ''ہرگز نہیں'' بالاآخر ان میں موجود ایک کمزور اور بزرگ گھوڑا ایک دن بول اٹھا۔ یہ گھوڑا کچھ عرصے تک شاہی اصطبل کے گھوڑوں میں شامل رہ چکا تھا۔ پھر ٹانگ میں معمولی سا نقص پیدا ہو جانے کے بعد شاہی فوج سے بے دخل ہو کر، دربدر پھرتے ہوئے اس بستی کے ایک کوچوان تک آ پہنچا تھا۔ دوسرے گھوڑوں نے اس گھوڑے کو ہمیشہ مطمئن اور خوش و خرم ہی دیکھا تھا۔ پوری بستی کا یہ واحد گھوڑا تھا جو اپنے مقدر پر خوش تھا اور خدا کا شکر گزار علیحدہ تھا۔ آج جب یہ بولا تو تمام ''بد نصیب'' اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
اس گھوڑے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ''تمہارے ساتھ خدا نے کوئی نا انصافی نہیں کی، وہ اس کائنات کا خالق ہے اس نے اس کائنات کا ایک نظام وضع کیا ہوا ہے۔ اس نظام میں کوئی چھوٹا ہے اور کسی کا مرتبہ بڑا ہے۔ جس کا مرتبہ بڑا ہے، اس کی ذمے داریاں بھی اس کی بڑائی کے تناسب سے زیادہ ہیں۔ وہ اوپر والا کسی جاندار پر اس کی قوت برداشت سے زیادہ دکھ اور پریشانیاں نہیں ڈالتا۔ وہ ہمارا خالق ہے، اس سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہماری قوت برداشت کتنی ہے؟ تم نے شاہی گھوڑوں کا عیش و آرام تو دیکھا ہے، مگر ان کے دکھ نہیں دیکھے، جس دن ان کے دکھوں کا نظارہ کر لو گے، اس دن اپنے دکھوں پر رشک کرو گے۔'' یہ کہہ کر وہ بزرگ اور تجربہ کار گھوڑا خاموش ہو گیا ۔ کچھ کی سمجھ میں یہ بات آئی اور اکثریت نے گردن جھٹک کر اسے ایک فضول قسم کی تقریر قرار دے دیا لیکن چند روز کے بعد ہی بستی کے تمام گھوڑے، اس بزرگ گھوڑے کی عقل و دانش پر ایمان لے آئے۔ ہوا یوں کہ اچانک ہی جنگ شروع ہو گئی اور اصطبل کے شاہی گھوڑے میدان جنگ کی طرف روانہ کر دیے گئے۔ شام کو میدان جنگ سے واپسی پر یہ گھوڑے اسی بستی سے جب گزرے، تو بستی کے گھوڑوں کو پہلی مرتبہ، شاہی گھوڑوں کے دکھوں کا نظارہ کرنے کا موقع ملا۔
انھوں نے دیکھا کہ کسی گھوڑے کی ایک آنکھ کا ڈھیلا باہر لٹکا ہوا ہے کسی کی رانوں میں تیر پیوست ہیں، کسی کی کمر پر کلہاڑے نے گہرا گھاؤ لگا دیا ہے اور زخم سے بھل بھل خون بہہ رہا ہے۔ کسی کی گردن چوتھائی کٹی ہوئی ہے اور وہ درد ناک آوازیں نکالتا ہوا، اصطبل کی طرف خود کو گھسیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے ایسے تھے جو اصطبل سے تو روانہ ہوئے لیکن واپس آنا ان کے مقدر میں نہ لکھا تھا۔ وہ جنگ کا ایندھن بن کر جنگ کے شعلوں میں ہی بھسم ہو گئے یہ دل ہلانے والا منظر دیکھ کر، بستی کے گھوڑوں کو پہلی مرتبہ اپنے دکھوں پر رشک آیا اور ان کے سر خدا کے حضور شکر گزاری کے جذبات سے بوجھل ہو کر جھک گئے یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنے دکھ اور پریشانیاں زیادہ بڑی نظر آتی ہیں اور دوسروں کے عیش و آرام پر وہ رشک یا حسد میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اکثر آپ کو ایسے لوگ ملے ہونگے، جو بجائے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے کے، اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں کسی ایسی شخصیت کو اپنے طور پر چن لیتے ہیں، جو ان کے خیال کے مطابق، ان کی کامیابیوں سے جلتا ہے۔
حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ یہ خود اسی شخص سے حسد کرتے ہیں۔ پھر یہ اپنی تمام ناکامیوں کا ملبہ اسی شخص پر گراتے ہوئے یہ باورکر لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرواتے ہیں کہ ''اسی شخص نے کچھ کروا دیا ہے۔'' یہ پھر کسی ''عامل'' سے رجوع کرتے ہیں اور ''عامل'' پہلا کام یہ کرتا ہے کہ ان کے شک کو مضبوط بنیادیں فراہم کر کے ''یقین'' میں بدل دیتا ہے۔ اگر عامل ایسا نہ کرے تو خود بھوکا مر جائے۔ کیونکہ مشکوک شخصیت کی جانب سے کروایا گیا نام نہاد عمل، غیر موثر بنانے اور اس کا توڑ کرنے کی فیس لینے کے لیے ہی تو وہ وہاں بیٹھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عامل سے رجوع کرنے والے صاحب کی مالی پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ کیونکہ خود پر کیے جانے والے عمل کا توڑ کرنے کے اخراجات بھی ان کے محدود بجٹ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ صاحب اپنے حالات پر خدا کا شکر ادا کرتے، اپنے دکھ اور پریشانیوں کو اپنی طاقت بنا کر مثبت عمل میں تبدیل کر کے محنت اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرتے تو خدا یقینا ان کے حالات بدل دیتا۔ لیکن ایسا کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں۔
انھیں دوسروں کے عیش اور اپنی پریشانیاں زیادہ بڑی نظر آتی ہیں۔ دور کیوں جائیے، کل تک پرویز مشرف اس ملک کے مالک و مختار تھے۔ یہ تھا ان کا عیش و آرام۔ اور آج انھیں غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔ جان کا خطرہ الگ لاحق ہے۔ اپنے سائے سے بھی بھڑکتے ہوں گے۔ یہ ان کے آج کے دکھ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں ان جیسا عیش و آرام حاصل نہیں تھا اور نہ ہی اب ہے، لیکن ان کو آج جس قسم کے دکھ اور پریشانیوں کا سامنا ہے، خدا کا شکر ادا کریں کہ ہمارے دکھ اتنے بڑے نہیں ہیں۔ کوئی بھی صورتحال ہمیشہ برقرار نہیں رہتی۔ ہمارے موجودہ بڑے بڑے دکھ اور پریشانیاں صرف تین ہیں۔۔ بد امنی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری۔ یہ تینوں دکھ، دو عشرے قبل ہمیں لاحق نہیں تھے۔ ہمیں ان دکھوں کا تحفہ دینے والے حکمران طبقے کو اب ہمارے دکھوں سے کہیں زیادہ بڑے دکھوں کا سامنا ہے۔ ان کا احتساب شروع ہو چکا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ''چھوٹے چھوٹے'' دکھوں کا خاتمہ بھی عنقریب ہو ہی جائے گا۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم ایک آزاد ملک کے اب بھی شہری ہیں اور حوصلہ رکھیں کہ دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہیں۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
انھیں بہترین خوراک اور میوے کھلائے جاتے۔ غذائیں کھانے اور ہلکی پھلکی دوڑ لگانے کے سوا انھیں کوئی کام نہ تھا۔ یہ شاہی گھوڑے آپس میں چہلیں کرتے اور دیوار سے اپنا صحت مند جسم رگڑ کر جب خوشی سے ہنہناتے تو بستی والے گھوڑوں کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے۔ وہ اپنے مقدر کو کوس کر آسمان کی جانب یوں منہ اٹھاتے، جیسے اوپر والے سے گلا کر رہے ہوں کہ اے دو جہانوں کے مالک، ہمارے نصیبوں میں دکھ و الم اور ان شاہی گھوڑوں پر انعام و اکرام اور تیری نعمتوں کی یہ بارش، کیا ہمارے ساتھ نا انصافی نہیں ہے؟ ''ہرگز نہیں'' بالاآخر ان میں موجود ایک کمزور اور بزرگ گھوڑا ایک دن بول اٹھا۔ یہ گھوڑا کچھ عرصے تک شاہی اصطبل کے گھوڑوں میں شامل رہ چکا تھا۔ پھر ٹانگ میں معمولی سا نقص پیدا ہو جانے کے بعد شاہی فوج سے بے دخل ہو کر، دربدر پھرتے ہوئے اس بستی کے ایک کوچوان تک آ پہنچا تھا۔ دوسرے گھوڑوں نے اس گھوڑے کو ہمیشہ مطمئن اور خوش و خرم ہی دیکھا تھا۔ پوری بستی کا یہ واحد گھوڑا تھا جو اپنے مقدر پر خوش تھا اور خدا کا شکر گزار علیحدہ تھا۔ آج جب یہ بولا تو تمام ''بد نصیب'' اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
اس گھوڑے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ''تمہارے ساتھ خدا نے کوئی نا انصافی نہیں کی، وہ اس کائنات کا خالق ہے اس نے اس کائنات کا ایک نظام وضع کیا ہوا ہے۔ اس نظام میں کوئی چھوٹا ہے اور کسی کا مرتبہ بڑا ہے۔ جس کا مرتبہ بڑا ہے، اس کی ذمے داریاں بھی اس کی بڑائی کے تناسب سے زیادہ ہیں۔ وہ اوپر والا کسی جاندار پر اس کی قوت برداشت سے زیادہ دکھ اور پریشانیاں نہیں ڈالتا۔ وہ ہمارا خالق ہے، اس سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہماری قوت برداشت کتنی ہے؟ تم نے شاہی گھوڑوں کا عیش و آرام تو دیکھا ہے، مگر ان کے دکھ نہیں دیکھے، جس دن ان کے دکھوں کا نظارہ کر لو گے، اس دن اپنے دکھوں پر رشک کرو گے۔'' یہ کہہ کر وہ بزرگ اور تجربہ کار گھوڑا خاموش ہو گیا ۔ کچھ کی سمجھ میں یہ بات آئی اور اکثریت نے گردن جھٹک کر اسے ایک فضول قسم کی تقریر قرار دے دیا لیکن چند روز کے بعد ہی بستی کے تمام گھوڑے، اس بزرگ گھوڑے کی عقل و دانش پر ایمان لے آئے۔ ہوا یوں کہ اچانک ہی جنگ شروع ہو گئی اور اصطبل کے شاہی گھوڑے میدان جنگ کی طرف روانہ کر دیے گئے۔ شام کو میدان جنگ سے واپسی پر یہ گھوڑے اسی بستی سے جب گزرے، تو بستی کے گھوڑوں کو پہلی مرتبہ، شاہی گھوڑوں کے دکھوں کا نظارہ کرنے کا موقع ملا۔
انھوں نے دیکھا کہ کسی گھوڑے کی ایک آنکھ کا ڈھیلا باہر لٹکا ہوا ہے کسی کی رانوں میں تیر پیوست ہیں، کسی کی کمر پر کلہاڑے نے گہرا گھاؤ لگا دیا ہے اور زخم سے بھل بھل خون بہہ رہا ہے۔ کسی کی گردن چوتھائی کٹی ہوئی ہے اور وہ درد ناک آوازیں نکالتا ہوا، اصطبل کی طرف خود کو گھسیٹ رہا ہے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے ایسے تھے جو اصطبل سے تو روانہ ہوئے لیکن واپس آنا ان کے مقدر میں نہ لکھا تھا۔ وہ جنگ کا ایندھن بن کر جنگ کے شعلوں میں ہی بھسم ہو گئے یہ دل ہلانے والا منظر دیکھ کر، بستی کے گھوڑوں کو پہلی مرتبہ اپنے دکھوں پر رشک آیا اور ان کے سر خدا کے حضور شکر گزاری کے جذبات سے بوجھل ہو کر جھک گئے یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے اپنے دکھ اور پریشانیاں زیادہ بڑی نظر آتی ہیں اور دوسروں کے عیش و آرام پر وہ رشک یا حسد میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اکثر آپ کو ایسے لوگ ملے ہونگے، جو بجائے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے کے، اپنے دوستوں اور رشتے داروں میں کسی ایسی شخصیت کو اپنے طور پر چن لیتے ہیں، جو ان کے خیال کے مطابق، ان کی کامیابیوں سے جلتا ہے۔
حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہے۔ یہ خود اسی شخص سے حسد کرتے ہیں۔ پھر یہ اپنی تمام ناکامیوں کا ملبہ اسی شخص پر گراتے ہوئے یہ باورکر لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرواتے ہیں کہ ''اسی شخص نے کچھ کروا دیا ہے۔'' یہ پھر کسی ''عامل'' سے رجوع کرتے ہیں اور ''عامل'' پہلا کام یہ کرتا ہے کہ ان کے شک کو مضبوط بنیادیں فراہم کر کے ''یقین'' میں بدل دیتا ہے۔ اگر عامل ایسا نہ کرے تو خود بھوکا مر جائے۔ کیونکہ مشکوک شخصیت کی جانب سے کروایا گیا نام نہاد عمل، غیر موثر بنانے اور اس کا توڑ کرنے کی فیس لینے کے لیے ہی تو وہ وہاں بیٹھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عامل سے رجوع کرنے والے صاحب کی مالی پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ کیونکہ خود پر کیے جانے والے عمل کا توڑ کرنے کے اخراجات بھی ان کے محدود بجٹ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ صاحب اپنے حالات پر خدا کا شکر ادا کرتے، اپنے دکھ اور پریشانیوں کو اپنی طاقت بنا کر مثبت عمل میں تبدیل کر کے محنت اور بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کرتے تو خدا یقینا ان کے حالات بدل دیتا۔ لیکن ایسا کم ہی لوگ سمجھ پاتے ہیں۔
انھیں دوسروں کے عیش اور اپنی پریشانیاں زیادہ بڑی نظر آتی ہیں۔ دور کیوں جائیے، کل تک پرویز مشرف اس ملک کے مالک و مختار تھے۔ یہ تھا ان کا عیش و آرام۔ اور آج انھیں غداری کے مقدمے کا سامنا ہے۔ جان کا خطرہ الگ لاحق ہے۔ اپنے سائے سے بھی بھڑکتے ہوں گے۔ یہ ان کے آج کے دکھ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں ان جیسا عیش و آرام حاصل نہیں تھا اور نہ ہی اب ہے، لیکن ان کو آج جس قسم کے دکھ اور پریشانیوں کا سامنا ہے، خدا کا شکر ادا کریں کہ ہمارے دکھ اتنے بڑے نہیں ہیں۔ کوئی بھی صورتحال ہمیشہ برقرار نہیں رہتی۔ ہمارے موجودہ بڑے بڑے دکھ اور پریشانیاں صرف تین ہیں۔۔ بد امنی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری۔ یہ تینوں دکھ، دو عشرے قبل ہمیں لاحق نہیں تھے۔ ہمیں ان دکھوں کا تحفہ دینے والے حکمران طبقے کو اب ہمارے دکھوں سے کہیں زیادہ بڑے دکھوں کا سامنا ہے۔ ان کا احتساب شروع ہو چکا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ''چھوٹے چھوٹے'' دکھوں کا خاتمہ بھی عنقریب ہو ہی جائے گا۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم ایک آزاد ملک کے اب بھی شہری ہیں اور حوصلہ رکھیں کہ دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہیں۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ