ایک انقلابی کی سرگزشت
ادب کے قارئین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت ناول اور سوانح حیات دنیا بھر میں سب سے۔۔۔
LONDON:
ادب کے قارئین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت ناول اور سوانح حیات دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھنے والی جانے والی اصناف ہیں، جب کہ ہمارے ہاں اکثر معاملات کی طرح یہ معاملہ بھی اس کے برعکس ہے۔ یہاں سب سے زیادہ شاعری لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ ناول اور سوانح حیات کی کتابوں کی ضخامت ہی ہمارے آج کے سہل پسند قاری کو اکتا دینے کو کافی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے دنیا بھر میں ان اصناف کے پڑھے جانے کا جواز بھی ہے۔ ناول جہاں زندگی کی گوناگونیت کے پہلو اجاگر کرتے ہیں، وہیں سوانح حیات ہمیں دوسرے کے تجربوں سے آگاہی دیتی ہیں۔ نیز ہم تاریخ کو ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھ پاتے ہیں، جو اکثر درست ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ تاریخ نہ تو کسی مفاد کے تحت لکھی گئی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی کو خوش کرنے کی نیت سے۔ اور جب یہ سوانح حیات کسی ایسے آدمی کی ہو جو عمر بھر انسانی زندگی کو بہتر بنانے کی افضل جدوجہد کا عملی کردار رہا ہو، تو اس پر اعتبار یوں بھی بڑھ جاتا ہے۔ انور احسن صدیقی کی سوانح حیات 'دلِ پُرخوں کی اک گلابی سے' ایسی ہی ایک نفیس، دل نشیں اور سادہ مگر دل چسپ داستان ہے۔
انور احسن صدیقی کو ہم نے اخبارات کے ذریعے جانا۔ 'ایکسپریس' میں شایع ہونے والے ان کے کالم سے ان کی فکری وابستگی چھلکی پڑتی تھی۔ پھر جب 2011 میں اپنے گل خان نصیر کا اردو کلام پہلی بار کتابی صورت میں شایع کیا تو اس میں چند تراجم بھی تھے، اور ایک نظم کے ترجمے میں صدیقی صاحب کا نام درج تھا۔ یہ ان سے دوسرا تعارف تھا۔ جس کے بعد اپنے بزرگوں سے ان کے 'ہم خیال' ہونے کی تائید تو ہوئی، لیکن ان کے کام اور کلام سے کوئی آشنائی نہ ہونے پائی۔ حال ہی میں ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے اور معروف ادیب آصف فرخی نے ان کی یہ سوانح حیات اپنے ادارے سے چھاپی تو ہم اس اچھے آدمی کے بارے میں کچھ مزید جان پائے، نیز ان کے توسط سے ساٹھ کی دہائی سے لے کر نوے تک کی ترقی پسند سیاست کے بارے میں بھی جس پر، ہماری نسل کے لیے اب بھی دھند کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے۔
انور احسن صدیقی جتنے سادہ منش آدمی تھے، اتنی ہی سادہ ان کی تحریر ہے۔ کوئی فقرہ بازی ہے، نہ جملہ سازی۔ حتیٰ کہ انھوں نے اسے باضابطہ سوانح عمری بنانے کی کوشش بھی نہیں کی، جس کے باعث ربط اور تسلسل کی کمی کا احساس تو رہتا ہے لیکن دلچسپی کا عنصر کم نہیں ہونے پاتا۔ ماسوائے ان چند مقامات کے جہاں مصنف اپنی بسیار نویسی کے باعث تبصرے شروع کر دیتے ہیں۔ نیز پچاس سے زائد صفحات انھوں نے ہندوستان میں اپنے خاندان کی رہائش اور طرزِ معاشرت پر صرف کر دیے ہیں، جس سے شاید عام قاری کو اتنی دلچسپی نہ ہو۔ البتہ سن پچاس کی دہائی کے کراچی کا جو نقشہ انھوں نے کھینچا ہے وہ اپنی جگہ معلومات افروز بھی ہے، اور دلچسپ بھی۔
اس کے بعد کوئی دو سو کے قریب صفحات اُنیس سو ساٹھ کی دہائی پر پھیلے ہوئے ہیں، جو ان کی سیاسی سرگرمیوں کے عروج کا دور تھا۔ شاید اس لیے انھوں نے تمام تر جزئیات اسی میں بیان کر دی ہیں۔ باقی پھر آگے کے تیس، چالیس سال انھوں نے تیس، چالیس صفحات میں سمیٹ لیے ہیں۔
باوجود اس کے یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انھوں نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی، جیسا دیکھا، جو محسوس کیا، جتنا سمجھا، بڑے خلوص سے بیان کر دیا ہے۔ نیز ان کے تجزیات بھی کس قدر بر محل ہیں، اس کی صرف ایک مثال دیکھ لیجیے۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کے مقابلے میں کس طرح دھاندلی سے کامیابی حاصل کی، اس کی تفصیل انھوں نے کتاب کے آخری باب میں بیان کی ہے، اور پھر اس کے بعد کراچی میں جس طرح پہلی بار پشتو اور اردو بولنے کے درمیان فسادات کا بیچ ڈال دیا گیا اس کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ اس کا مقصد...
''...ملک بھر کے عوام کو یہ باور کرا دینا تھا کہ کوئی بھی شخص اس خوش فہمی کا شکار نہ رہے کہ اس ملک میں جمہوریت وغیرہ کا کوئی قصہ چلے گا اور یہاں آئین و قانون کی سربلندی جیسی کسی بدعت کو پنپنے دیا جائے گا اور بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کے کسی تماشے کو برداشت کیا جائے گا۔ واضح کر دیا گیا کہ یہ ملک فاشزم کی حکمرانی کے لیے بنا ہے اور یہاں صرف فاشزم کی ہی حکمرانی ہو گی۔ نیز یہ بھی واضح کر دینا مقصود تھا کہ حکمرانوں کے لیے کسی بھی قانون کی کوئی اوقات نہیں ہے اور حکومت کی مخالفت کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔''(صفحہ 285)
ذرا غور فرمایئے، پاکستان میں آج بھی انھی خطوط پر حکمرانی کی جا رہی ہے۔ حکمرانوں نے اس ملک کے عوام پر حکمرانی کے جس طرز کا تعین پچاس برس پہلے کر دیا تھا، چولے بدل بدل کروہ اسی پر عمل پیرا ہیں۔
نیز ایک اور جگہ ان کا یہ کہنا پیغمبرانہ پیش گوئی سے کیا کم معلوم ہوتا ہے کہ، ''پاکستانی نظام معاشرت میں سچائی اور ایمان داری کے لیے کہیں کوئی ذرا سی بھی جگہ باقی نہیں رہ گئی ہے۔''(ص،236)
صدیقی صاحب کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں، لیکن کتاب میں کراچی کی اردو آبادی کے معاملے پر (لاشعوری ہی سہی) ان کی جانب داری کھٹکتی ضرور ہے۔ مثلاََانھوں نے اردو آبادی پر ہونے والے حملوں کا تذکرہ تو ضرور کیا ہے، لیکن اس کے بعد پھر اہلِ اردو نے اہلِ کراچی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ نیپ سے لے کر پیپلز پارٹی کی ناکامیوں پر انھوں نے خوب تنقید کی ہے لیکن ایم کیو ایم کا تذکرہ خدا جانے کس مصلحت سے ان سے رہ گیا ہے۔ نیز بھٹو کے دور میں سندھ اسمبلی سے سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دیے جانے کے بل کی منظوری کو بھی انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کا ڈراما قرار دیتے ہوئے اسے سندھ کی سندھی اور اردو آبادی کے درمیان نفاق کی سازش قرار دیا ہے۔(ص،301) مجھے ذاتی طور پر یہاں ان کا تجزیہ غلط ہوتا نظر آتا ہے۔ نیز بنگالی کو اردو کے ساتھ سرکاری زبان قرار دیے جانے کے عمل کو درست قرار دینے لیکن اسی عمل کو سندھ میں سازش قرار دینا، بھلا 'ترقی پسندی' کا کون سا پیمانہ ہو سکتا ہے! مردہ آدمی سے اختلاف کی خدا جانے کتنی گنجائش اور اہمیت ہو گی، لیکن نقطہ نظر کی حد تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بل اگر منظور ہو جاتا اور سندھی، سندھ کی سرکاری زبان قرار پا جاتی تو آج انور احسن صدیقی صاحب کی کتاب شاید ہم سندھی میں پڑھ رہے ہوتے، ان کی موجودہ نسلیں سندھی میں لکھنے پڑھنے میں سہولت محسوس کر رہی ہوتیں، اور آیندہ دو تین نسلیں اپنے سابقہ تعارف کو ہی بھول کر اس مٹی میں ضم ہو چکی ہوتیں۔
چلتے چلتے کلرکوں والی چند غلطیوں کی نشاندہی... اپنی جیل یاترا کے تفصیلی تذکرے کے آخر میں وہ لکھتے ہیں ،''ہم لوگ 30 جون 1961کو ملتان سے اپنے نامعلوم اور پراسرار سفر پر روانہ ہوئے تھے اور 2 جنوری 1961 کی رات کو کراچی پہنچے...''(ص،258)......ظاہر یہ ہے ثانی الذکر سن ،62ء ہو گا۔
اسی طرح نیپ کو ایک جگہ نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) جب کہ وہیں دوسری سطر میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) لکھا گیا ہے (ص،300)۔ یہ معمولی سی اغلاط ہیں لیکن یہ یوں بھی کھٹکتی ہیں کہ کتاب کے آخر میں پسِ نوشت (ایپی لاگ) میں آصف فرخی جب یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ کتاب کو ایڈٹ بھی کر چکے ہیں۔
البتہ ایک اور چیز کتاب میں دلچسپ ہے اور وہ ہے زبان۔ صدیقی صاحب اہلِ زبان تو ہیں ہی، اور پھر انھوں نے بچپن سے ہی زبان دانی میں اپنی مہارت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ اس لیے ان کی زبان صاف اور شستہ ہے۔ (یہ بات انھوں نے فاطمہ جناح کے لیے بھی لکھی ہے کہ انھوں نے صاف اور شستہ اردو میں تقریر کی، یہ بات میرے لیے نئی اور انکشاف انگیز ہے کہ فاطمہ جناح کو اردو آتی تھی اور وہ بھی صاف اور شستہ!) اس لیے بے تحاشہ رونے کے لیے 'زارو زار' یا 'زار و قطار' کی بجائے 'دھاروں دار' رونے کا استعمال اچھا لگا۔ اس فعل کے لیے اپنی ہیئت میں بھی یہی لفظ درست اور بھلا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اردو کے عام لفظ 'دھکیل' (دھکیلنا) کی جگہ 'ڈھکیل' بالکل ہی مناسب نہیں لگا۔ خدا جانے یہ پروف کا معاملہ ہے یا زبان کا!
بہرکیف، پاکستان کی ترقی پسند سیاست کے چند گوشوں سے یہ کتاب ضرور آگاہ کرواتی ہے۔ بالخصوص ہماری ہم عصر نسل جسے نہ کوئی تحریک دیکھنا نصیب ہوا، نہ کوئی منظم سیاسی پلیٹ فارم، اس کے لیے اس کتاب کا مطالعہ اپنی جڑوں سے آشنائی کا عمل ثابت ہو گا، کہ یہ بہرحال یہ ایک ایسے شریف النفس انسان کی آپ بیتی ہے جس نے ننگی کمرشلائزیشن کے اور نظریات کے کاروبار والے دور میں بھی علی الاعلان لکھا کہ ،''مارکسزم کے مطالعے نے میری آنکھیں کھول دیں اور میرے سینے میں ایقان کی شمع کو روشن کر دیا کہ طبقاتی امتیاز کے خاتمے کے بغیر نوعِ انسانی کے دکھوں کا درماں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔''(ص،158)
ہم پسماندہ بلوچستان والے، اس اچھے انسان کی مقدس روح کو یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ایقان کی یہ شمع آیندہ نسلوں تک جلائے رکھیں گے۔ آنکھیں کھول دینے والے اس عمل کے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔