آلو کی توقیر

کہتے ہیں عروج و زوال ہر ایک کے نصیب میں ہے۔ مگر بیچارا آلو جو کبھی کس کھیت کی مولی تھا، اب اپنی ۔۔۔


فاطمہ نقوی November 26, 2013

کہتے ہیں عروج و زوال ہر ایک کے نصیب میں ہے۔ مگر بیچارا آلو جو کبھی کس کھیت کی مولی تھا، اب اپنی قسمت پر نازاں پھر رہا ہے اور دعا گو ہے کہ موجودہ حکومت اسی طرح برقرار رہی تو اس کی شان اور آن میں ٹماٹر سے زیادہ اضافہ ہوتا رہے گا۔ پھرتا تھا ذلیل و خوار سبزیوں کے بیچ میں آج 80 روپے کلو کی سطح پر اس کی قیمت پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے آلو میاں کی گردن فخر سے اکڑ گئی ہے، آلو ایک ایسی سبزی ہے جس کا تقریباً اکثر سبزیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے بلکہ یوں کہیے شاندار ''ڈیل'' ہے۔ اپنی بے قدری پر اکیلے ہی آٹھ آٹھ آنسو روتا مگر آلو میاں سب سے بنا کر رکھتا تا کہ اس کی توقیر میں کسی سبزی کے ساتھ مل کر کچھ اضافہ ہو جائے تو کبھی گوشت تو کبھی کسی سبزی کی چاپلوسی میں مشغول رہتا مگر دال بڑی چالاک تھی اس لیے آلو میاں کو کبھی منہ ہی نہیں لگایا کہ وہ اس سے اپنا مدعا بیان کرتے۔ لگتا ہے اتحادی سیاست آلو کے اتحادی جذبہ کی مرہون منت ہے۔ کل سبزیوں میں گریٹر اور سدا بہار اتحاد آلو کا طرہ امتیاز ہے۔

اسی ادھیڑ بن میں دن گزر رہے تھے کہ کیا کریں کس طرح اوقات میں اضافہ ہو آلو میاں اس ذلت پر آٹھ آٹھ آنسو روتے اور دیگر سبزیاں، دالیں حتیٰ کہ پھل بھی اتراتے اور ان پر طعنے تشنے کستے، کوئی چیز پیر فقیر نہ چھوڑا، ہزاروں چلے کاٹے غرض کہ جس نے جو بتایا وہ کیا مگر قیمت 20 روپے سے زیادہ نہ بڑھی۔ 12 برس کے بعد تو ''گھورے'' کی بھی پھر جاتی ہے تو آلو میاں کی دعائیں بھی رنگ لائیں، چہلے، لہکے اور جھوم جھوم کے گانے لگے۔

رنگ لائے گی ہے ہماری فاقہ مستی ایک دن

دیر آید درست آید کے مصداق نواز شریف حکومت کے آتے ہی پہلا بجٹ جو انھوں نے پیش کیا تو امیدیں بندھی کہ شاید میرا بھی کچھ بھلا ہو جائے۔ انھوں نے پہلی فرصت میں ایک خط لکھا اور ایوان وزیر اعظم میں بھیج دیا ۔ خط کا مضمون تھا، ''جناب عالیٰ میں آپ کا ہمیشہ سے معتقد رہا ہوں۔ پرویز مشرف نے تو اپنے پورے دور میں سبزیوں و تمام بنیادی ضرورت کی چیزوں کو کنٹرول میں رکھ کر ہماری بڑی رسوائی کی۔ بچے تک مذاق اڑانے لگے تھے کہ آلو میاں اگر تمہارے الف کا مد ہٹا دیں تو الّو بن جائو گے۔ اور پھر ان کے معصوم سے قہقہے... زرداری سب پر بھاری رہے ان کی حکومت آئی تو ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھونے لگی شاید ورلڈ بینک کے قرضے سے اضافی پر لگائے گئے، مگر وائے افسوس! انھوں نے بھی مجھے اوقات میں رکھا میں بے پر کی اڑان سے بھی گیا گزرا تھا۔ اب حضور کی آمد سے مجھ ناچیز کو بھی امید ہو چلی ہے کہ میری اوقات میں بھی اضافہ ہو گا۔'' قارئیں کرام مبارک ہو۔ یہ درخواست نما خط پڑھتے ہی جناب وزیر اعظم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

وزیر خوراک کو ہمدردی اور آلو دوستی کا خیال آیا، انھوں نے فوراً ڈالر بھائی کو بلا کر کہا میرے دور حکومت میں ایسا انیائے نہ ہو گا میرا تو یہ اصول ہے کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ کا پانی پئیں بلکہ میں تو بکری کو شیر کی کھال پہنا کر ایک گھاٹ پر پانی پلواتا ہوں تو ڈالر بھائی تم مجھے رسوا نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ عوام کو کچھ سہولت مل جائے اور دیکھو یہ آلو میاں کی درخواست ہے اس پر کچھ فوری اقدام کرو کیوں کہ آلو میاں کے جذبات میرے بارے میں بڑے مخلصانہ دوستانہ اور صوفیانہ ہیں۔ ان کی قدر کرو اور جس طرح سے میں نے اپنے وزیروں، سفیروں، عزیزوں کو جنھیں کچھ نہیں آتا انھیں بڑی بڑی وزارتیں، سفارتیں دے کر ان کی اوقات بلند کی ہے اسی طرح تم بھی کچھ کر کے دکھائو۔ تم اپنی ہی مثال لے لو کہ تمہیں خزانوں کی رکھوالی کا کام سونپ دیا۔ کئی اور بھی اس قابل تھے مگر میں نے حکومت پاکستان کے خزانے کی کنجیاں تمہیں تھما دیں ورنہ تم تو آئی ایم ایف کے بندے ہو مگر برا ہو اس رشتے داری کا جس کا میں نے خیال رکھا اسی طرح آلو میاں کی توقیری پر بھی کام کرو۔

ڈالر بھائی نے ہاتھ جوڑ کر کہا جناب بے فکر رہیں۔ یہ غریب عوام جو آلو دال کھاکر پیٹ بھرکر سو جاتے ہیں تو میری پوری کوشش ہو گی کہ ان کے منہ میں روٹی کا نوالہ نہ جانے پائے۔ آٹے کو تو میں نے آتے ہی عوام کی پہنچ سے دور کرنے کے عظیم مقصد پر کام شروع کر دیا ہے آج سے آپ کے اس آلو میاں کی عزت و توقیر پر بھی کام شروع اور پھر ہوا یوں کہ آلو کی قیمتوں کو پر لگ گئے، آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ غریب عوام کی غریبانہ سبزی بھی ان کی پہنچ سے دور بہت دور جا رہی ہے نہ تیل ہے نہ آٹا ہے نہ بجلی نہ سبزی صرف اور صرف غریب عوام رہ گئے ہیں ایک دن آئے گا یہ بھی ختم ہو جائیں گے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری، آبادی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی فیملی پلاننگ والے بھی کچھ نہ کر سکے مگر اب کچھ ہو جائے گا۔ کچھ دہشت گردی میں مریں گے، کچھ فرقہ وارانہ فسادات کی نذر ہو جائیں گے کچھ خودکشیاں کر لیں گے اور جو لوگ بچ جائیں گے وہ بھوک کے ہاتھوں مر جائیں گے۔ پھر صرف اور صرف بادشاہ ہوں گے اور ان کے درباری کہ ان کے نزدیک عوام کا کام ہی مرنا یا راگ درباری گانا ہے، یا نعرے لگانا۔ اب بھی وقت ہے اے میرے ملک کے مجبور و مفلس عوام ہوش کے ناخن لو، اپنی قدر پہچانو جب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو گے یہ خونیں کردار تمہارا لہو پیتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔