کورونا… نا اب کرو… نا
دنیا نے کتنی ترقی کرلی، ہر بلندی پرکمند ڈال دی ، چاند ، سورج ، ستارے کچھ بھی نہ چھوڑے
دنیا نے کتنی ترقی کرلی، ہر بلندی پرکمند ڈال دی ، چاند ، سورج ، ستارے کچھ بھی نہ چھوڑے۔ حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا '' ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں/ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ تو حضرت انسان عشق کے مزید امتحان دینے کے لیے تیار ہوگئے اور چاند ستاروں سے آگے موجود جہانوں کی کھوج میں نکل کھڑے ہوئے، خدا کی خدائی کی تلاش میں دن رات ایک کر دیے، مگر '' نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم/ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ غالب نے بھی نتیجتاً کہہ دیا ''نہ تھا کچھ تو خدا تھا' کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا/ ڈبویا مجھ کو ہونے نے' نہ ہوتا میں توکیا ہوتا۔ پھر غالب نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا ''سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں/ ابرکیا چیز ہے' ہوا کیا ہے۔
انسان اللہ کا نائب ہے، نائبی کا یہ منصب خود اللہ نے انسان کو عطا کیا ہے اور اسے اشرف المخلوقات کی مسند پر بٹھا دیا ہے۔ یہ دو بہت بڑے مرتبے دینے کے باوجود اللہ نے اپنی وحدانیت کو قائم و دائم رکھا اور کہا اللہ ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں'' سجدہ اسی اللہ کے لیے ہے ، وہ زمین وآسمان کا خالق ہے۔ سمندر اور پہاڑ اللہ کے ترازو (Balance) ہیں۔ ذرا ترازو کے پاٹ ہلتے ہیں بس '' ذرا '' سا ہلتے ہیں تو سمندر خشکی پر چڑھائی کر دیتا ہے، آسمان کو چھوتے پہاڑ '' ذرا '' سا ہلتے ہیں تو زمین پھٹ جاتی ہے اور شہرکے شہر زمین میں غرق ہو جاتے ہیں، تہذیبیں مٹ جاتی ہیں۔ تاریخ مٹ جاتی ہے، کیسی کیسی تہذیبیں، کیسے کیسے تمدن تھے، اور آثار قدیمہ بن کر رہ گئے۔ شداد ، نمرود ، فرعون ، چنگیز خان ، ہلاکو خان، ہٹلر، سکندر اعظم و دیگر۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
یہ نمرود ، فرعون ، شداد وغیرہ یہ سب خود کو آسمان جیسا بلند و بالا گردانتے تھے، مگر خود فریبی کا شکار بن گئے۔ بھول گئے کہ:
اے زمین رب دی، آسمان رب دا
ساڈا، ساریاں دا، سانجھا، اے جہان رب دا
کتھے ریا نمرود، تے فرعون کتھے آ
سدا جگ اُتے رہنا اے نشان رب دا
(جالب)
اور دیکھ لیں نمرود ، فرعون نہیں رہے اور وقت کے نمرود اور فرعون بھی نہیں رہیں گے۔ '' بس نام رہے گا اللہ کا '' (فیض)۔ اور یہ بھی سب پر ظاہر ہے کہ بس اللہ ہی کا نام ہے ، باقی سب '' فریب سود و زیاں'' (اقبال)۔
دو دن کی زندگانی کے لیے انسان کیا کیا کرتا ہے! اگر میں '' کیا کیا کرتا ہے'' کے بیان میں لگ گیا تو صفحے کے صفحے بھر جائیں گے اور '' کیا کیا '' ختم نہیں ہوگا اور نہ یہ کیا کیا کرنے والے باز آئیں گے۔
بات بڑی ہی سادہ سی ہے۔ یہ سادہ سی بات اللہ نے اپنے آخری نبی کے ذریعے انسان تک پہنچائی کہ '' کسی کا حق نہ مارو'' مگر انسان جب ظالم بن جاتا ہے تو اسے حق مارنے میں مزہ آنے لگتا ہے اور اسی مزے کی لذت میں سرشار ہوکر ''حق مارنے'' کے نت نئے طریقے بناتا ہے اور ''پل دو پل کے عیش کی خاطر '' زمینی خداؤں کے سامنے جھک جاتا ہے اور حق داروں کا حق مارنے میں لگ جاتا ہے۔ ظالم کا ہمنوا بننا ، ظالم کا ساتھ دینا ، ظالم کا دست و بازو بننا ، یہ سب کچھ انسان کو انسان کے رتبے سے گرا دیتا ہے اور انسان حیوان بن جاتا ہے۔
یہ جو اللہ کی باتیں بھول کر ، فراموش کرکے، عیش وآرام کا سامان کرلیتے ہیں یہ نافرمانِ اللہ اور رسول ، تعداد میں کم ہوتے ہیں اور ایک بہت بڑی اکثریت پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ ساری دنیا کو یہی چند فیصد حیوان صفت لوگ گھیرے ہوئے ہیں اور ویتنام ، فلسطین ، انگولا ، کانگو ، افریقہ کے دیگر ممالک کشمیر، انڈیا، شام، لبنان، مصر، عراق، ایران، افغانستان اور پاکستان و سری لنکا ، بنگال، نیپال اور پاکستان و دیگر ممالک میں ان کے ظلم کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہتھیار ان کے پاس ہیں ، وسائل پر ان کا قبضہ ہے۔ اللہ کی زمین پر یہ قابض ہیں اورکاسہ لیس، خوشامد پیشہ ، قصیدہ گو ، قلم کار سب ان ظالموں کے ساتھ ہیں۔ یوں یہ سب خراب کردار والے بھی ظالم کے ظلم کا حصہ ہیں۔
ظالم اور مظلوم کا یہ سلسلہ بہت قدیم تاریخ لیے ہوئے ہے۔ درباری ہر دربار میں حاضر رہے ہیں اور چند ''انکاری'' دربار کے انکاری حسین ؓاپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ ہزاروں کے مقابل رہ گئے۔ باقی تمام اہل کوفہ نے حسینؓ پر اپنے گھروں کے دروازے بند کردیے تھے۔اہل کوفہ کو اپنی تجوریوں ، اپنے اصطبل اور جاہ و ہشم عزیز تھے سو وہ سب دربارکے ساتھ رہے اور حسینؓ اپنے ساتھیوں سمیت سچ کی راہوں میں مار دیے گئے۔
جون ایلیا ہمارے عہد کے بڑے شاعر ہیں ان سے کسی نے پوچھا ''جون بھائی! اگر واقعہ کربلا آج ہوتا تو ہمارے علما، دانشور، اہل قلم کس کے ساتھ ہوتے؟'' جون ایلیا صاحب نے برجستہ کہا '' یہ سب یزید کے لشکر میں ہوتے''
یہ سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ سچ کا ساتھ دینے والوں کو صعوبتیں برداشت کرنے میں ہی مزہ آتا ہے اور سچ کی راہوں میں مر کر امر ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ کا ساتھ دینے والوں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ منصور حلاج ، سرمد ، قاضی نذرالاسلام ، ایران کے بادشاہوں کے خلاف کلمہ حق بولتے ہوئے مارے جانے والے ، جن کے جسموں میں جلتی ہوئی موم بتیاں داخل کر دی جاتی تھیں مگر وہ پھر بھی سچ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ ان سچ بولنے والوں کو آج بھی زمانہ یاد رکھے ہوئے ہے اور دربار کا ساتھ دینے والوں کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔
بہر حال اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ یہ بھی تاریخ ہے کہ اللہ کی لاٹھی مختلف عذابوں کی صورت ہلتی رہی ہے اور آج دنیا کورونا وائرس کے عذاب سے گزر رہی ہے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک تک کورونا کی زد میں آچکے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں بھی کورونا نکل آیا ہے اور حق ماروں سے کہہ رہا ہے، کورونا۔ نا، یعنی نہیں کرو، باز آجاؤ، حق داروں کا حق نہ مارو۔ اور کورونا۔ کاسہ لیسوں ، حاشیہ برداروں ، خوشامد پیشہ لوگوں ، قصیدہ گو اہل قلم، خواتین و حضرات سے بھی کہہ رہا ہے کورونا۔نا۔
مگر یہ بہت مشکل ہے گھر کو آگ لگا کر کون حق و سچ کے راستے پر چلتا ہے اور یہ جو ہر زمانے میں چند بڑے اونچے کردار کے لوگ ہوتے ہیں جو آخری سانس تک سچ بولتے بولتے آخری ہچکی لے کر اپنی قبر میں ساتھ ایمان کے اتر جاتے ہیں انھی کا نام لوح جہاں پر لکھا رہ جاتا ہے۔
کورونا آگیا ہے۔ اب کورونا۔ نا۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے، اس کی پرواہ نہیں۔
الٰہی کوئی آندھی اس طرف بھی
پلٹ دے ان کلاہ داروں کی صف بھی
زمانے کو جلال اپنا دکھا دے
جلا دے تخت و تاج ان کے جلا دے
(جالب)
انسان اللہ کا نائب ہے، نائبی کا یہ منصب خود اللہ نے انسان کو عطا کیا ہے اور اسے اشرف المخلوقات کی مسند پر بٹھا دیا ہے۔ یہ دو بہت بڑے مرتبے دینے کے باوجود اللہ نے اپنی وحدانیت کو قائم و دائم رکھا اور کہا اللہ ایک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں'' سجدہ اسی اللہ کے لیے ہے ، وہ زمین وآسمان کا خالق ہے۔ سمندر اور پہاڑ اللہ کے ترازو (Balance) ہیں۔ ذرا ترازو کے پاٹ ہلتے ہیں بس '' ذرا '' سا ہلتے ہیں تو سمندر خشکی پر چڑھائی کر دیتا ہے، آسمان کو چھوتے پہاڑ '' ذرا '' سا ہلتے ہیں تو زمین پھٹ جاتی ہے اور شہرکے شہر زمین میں غرق ہو جاتے ہیں، تہذیبیں مٹ جاتی ہیں۔ تاریخ مٹ جاتی ہے، کیسی کیسی تہذیبیں، کیسے کیسے تمدن تھے، اور آثار قدیمہ بن کر رہ گئے۔ شداد ، نمرود ، فرعون ، چنگیز خان ، ہلاکو خان، ہٹلر، سکندر اعظم و دیگر۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
یہ نمرود ، فرعون ، شداد وغیرہ یہ سب خود کو آسمان جیسا بلند و بالا گردانتے تھے، مگر خود فریبی کا شکار بن گئے۔ بھول گئے کہ:
اے زمین رب دی، آسمان رب دا
ساڈا، ساریاں دا، سانجھا، اے جہان رب دا
کتھے ریا نمرود، تے فرعون کتھے آ
سدا جگ اُتے رہنا اے نشان رب دا
(جالب)
اور دیکھ لیں نمرود ، فرعون نہیں رہے اور وقت کے نمرود اور فرعون بھی نہیں رہیں گے۔ '' بس نام رہے گا اللہ کا '' (فیض)۔ اور یہ بھی سب پر ظاہر ہے کہ بس اللہ ہی کا نام ہے ، باقی سب '' فریب سود و زیاں'' (اقبال)۔
دو دن کی زندگانی کے لیے انسان کیا کیا کرتا ہے! اگر میں '' کیا کیا کرتا ہے'' کے بیان میں لگ گیا تو صفحے کے صفحے بھر جائیں گے اور '' کیا کیا '' ختم نہیں ہوگا اور نہ یہ کیا کیا کرنے والے باز آئیں گے۔
بات بڑی ہی سادہ سی ہے۔ یہ سادہ سی بات اللہ نے اپنے آخری نبی کے ذریعے انسان تک پہنچائی کہ '' کسی کا حق نہ مارو'' مگر انسان جب ظالم بن جاتا ہے تو اسے حق مارنے میں مزہ آنے لگتا ہے اور اسی مزے کی لذت میں سرشار ہوکر ''حق مارنے'' کے نت نئے طریقے بناتا ہے اور ''پل دو پل کے عیش کی خاطر '' زمینی خداؤں کے سامنے جھک جاتا ہے اور حق داروں کا حق مارنے میں لگ جاتا ہے۔ ظالم کا ہمنوا بننا ، ظالم کا ساتھ دینا ، ظالم کا دست و بازو بننا ، یہ سب کچھ انسان کو انسان کے رتبے سے گرا دیتا ہے اور انسان حیوان بن جاتا ہے۔
یہ جو اللہ کی باتیں بھول کر ، فراموش کرکے، عیش وآرام کا سامان کرلیتے ہیں یہ نافرمانِ اللہ اور رسول ، تعداد میں کم ہوتے ہیں اور ایک بہت بڑی اکثریت پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ ساری دنیا کو یہی چند فیصد حیوان صفت لوگ گھیرے ہوئے ہیں اور ویتنام ، فلسطین ، انگولا ، کانگو ، افریقہ کے دیگر ممالک کشمیر، انڈیا، شام، لبنان، مصر، عراق، ایران، افغانستان اور پاکستان و سری لنکا ، بنگال، نیپال اور پاکستان و دیگر ممالک میں ان کے ظلم کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہتھیار ان کے پاس ہیں ، وسائل پر ان کا قبضہ ہے۔ اللہ کی زمین پر یہ قابض ہیں اورکاسہ لیس، خوشامد پیشہ ، قصیدہ گو ، قلم کار سب ان ظالموں کے ساتھ ہیں۔ یوں یہ سب خراب کردار والے بھی ظالم کے ظلم کا حصہ ہیں۔
ظالم اور مظلوم کا یہ سلسلہ بہت قدیم تاریخ لیے ہوئے ہے۔ درباری ہر دربار میں حاضر رہے ہیں اور چند ''انکاری'' دربار کے انکاری حسین ؓاپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ ہزاروں کے مقابل رہ گئے۔ باقی تمام اہل کوفہ نے حسینؓ پر اپنے گھروں کے دروازے بند کردیے تھے۔اہل کوفہ کو اپنی تجوریوں ، اپنے اصطبل اور جاہ و ہشم عزیز تھے سو وہ سب دربارکے ساتھ رہے اور حسینؓ اپنے ساتھیوں سمیت سچ کی راہوں میں مار دیے گئے۔
جون ایلیا ہمارے عہد کے بڑے شاعر ہیں ان سے کسی نے پوچھا ''جون بھائی! اگر واقعہ کربلا آج ہوتا تو ہمارے علما، دانشور، اہل قلم کس کے ساتھ ہوتے؟'' جون ایلیا صاحب نے برجستہ کہا '' یہ سب یزید کے لشکر میں ہوتے''
یہ سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ سچ کا ساتھ دینے والوں کو صعوبتیں برداشت کرنے میں ہی مزہ آتا ہے اور سچ کی راہوں میں مر کر امر ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ کا ساتھ دینے والوں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ منصور حلاج ، سرمد ، قاضی نذرالاسلام ، ایران کے بادشاہوں کے خلاف کلمہ حق بولتے ہوئے مارے جانے والے ، جن کے جسموں میں جلتی ہوئی موم بتیاں داخل کر دی جاتی تھیں مگر وہ پھر بھی سچ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔ ان سچ بولنے والوں کو آج بھی زمانہ یاد رکھے ہوئے ہے اور دربار کا ساتھ دینے والوں کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔
بہر حال اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ یہ بھی تاریخ ہے کہ اللہ کی لاٹھی مختلف عذابوں کی صورت ہلتی رہی ہے اور آج دنیا کورونا وائرس کے عذاب سے گزر رہی ہے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک تک کورونا کی زد میں آچکے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں بھی کورونا نکل آیا ہے اور حق ماروں سے کہہ رہا ہے، کورونا۔ نا، یعنی نہیں کرو، باز آجاؤ، حق داروں کا حق نہ مارو۔ اور کورونا۔ کاسہ لیسوں ، حاشیہ برداروں ، خوشامد پیشہ لوگوں ، قصیدہ گو اہل قلم، خواتین و حضرات سے بھی کہہ رہا ہے کورونا۔نا۔
مگر یہ بہت مشکل ہے گھر کو آگ لگا کر کون حق و سچ کے راستے پر چلتا ہے اور یہ جو ہر زمانے میں چند بڑے اونچے کردار کے لوگ ہوتے ہیں جو آخری سانس تک سچ بولتے بولتے آخری ہچکی لے کر اپنی قبر میں ساتھ ایمان کے اتر جاتے ہیں انھی کا نام لوح جہاں پر لکھا رہ جاتا ہے۔
کورونا آگیا ہے۔ اب کورونا۔ نا۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے، اس کی پرواہ نہیں۔
الٰہی کوئی آندھی اس طرف بھی
پلٹ دے ان کلاہ داروں کی صف بھی
زمانے کو جلال اپنا دکھا دے
جلا دے تخت و تاج ان کے جلا دے
(جالب)