تضاد کیوں

صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے میں ہونے والے ڈرون حملے کے خلاف چند روز قبل پشاور کا رنگ روڈ ایک ۔۔۔

صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقے میں ہونے والے ڈرون حملے کے خلاف چند روز قبل پشاور کا رنگ روڈ ایک خوبصورت اور موسیقی سے مزین دھرنے سے سجایا گیا اور نیٹو سپلائی لائن بھی روکنے کا اعلان کیا گیا۔ اس جلسے میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو موسیقی کو حرام جانتی ہیں لیکن وہ بھی اس موسیقی سے اپنی ارواح کو محظوظ کر رہی ہیں جب کہ یہ سپلائی لائن چمن اور طور خم کی سرحدوں سے رواں دواں رہے گی۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ طالبان کی جانب سے آج تک نیٹو سپلائی لائن کاٹنے کا مطالبہ نہیں کیا لیکن ان کی حمایت یافتہ جماعتیں اس پر مصر رہتی ہیں کہ یہ لائن بند کی جائے۔ اتحادیوں کا یہ تضاد اس لیے ہے کہ طالبان نیٹو سپلائی پر حملے کر کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان لوٹ کر اپنی ضرورت کا ایک حصہ پورا کرتے ہیں اور ان کے اتحادی اس پر سیاست چمکاتے رہتے ہیں۔

اگر ہنگو میں ڈرون حملے میں پاکستانی مارے گئے اور یہ حملہ امریکا نے کیا تو اس کا مقدمہ کیوں نہ امریکا کے خلاف قائم کیا گیا اور یہ ایف آئی آر نامعلوم افراد کے نام پر درج کیوں کی گئی ہے؟ جو جماعتیں ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کے حق میں اس لیے سڑکوں پر آتے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیں تو وہ لوگ جو طالبان کے ہاتھوں مارے گئے جس میں افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار سمیت پچاس ہزار سے زائد نفوس شامل ہیں۔ ان کے حق میں اور انھیں مارنے کی ذمے داری قبول کرنے والے طالبان کے خلاف سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ جب تک ہم اپنی جماعتی اور وقتی سیاست چمکانے کے لیے ملک کے مفاد کو پس پشت ڈالیں گے تو ملک بحرانوں سے نہیں نکل سکے گا۔

ڈرون جہاں ہماری خود مختاری کو متاثر کرتا ہے وہیں وہ جنگجو جو سرحد پار سے آ کر پاکستان کی سر زمین سے دیگر ممالک سے لڑ رہے ہیں کیا وہ ہماری خود مختاری کو چیلنج نہیں کر رہے؟ اگر ڈرون کی بندش کے مطالبے کے ساتھ ان جنگجوئوں کے خلاف حکومتی کارروائی کا مطالبہ کیا جائے تو مناسب ہوتا کیوں کہ یہ دونوں عناصر ہماری قومی وحدت، سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں۔ خارجہ امور کے مسائل پر اپنے ہی ملک میں احتجاج کر کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے اس کے لیے سفارتی سطح پر بہتر اور متفقہ پالیسی اور حکمت عملی اختیار کر کے ہی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایران اور جوہری طاقتوں کے مابین ہونے والا معاہدہ ہے جو انتہائی حساس معاملے سے تعلق رکھتا ہے ایران کو یہ کامیابی اپنے اندورنی اتحاد، خارجہ پالیسوں میں یکسانیت اور تسلسل کے باعث حاصل ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ایران نے اپنے قدرتی وسائل نہ صرٖف بہتر انداز قابل استعمال بنائے بلکہ متوازن خارجہ پالیسی کی مدد سے اس کی اہمیت دنیا والوں کے سامنے منوائی اور ایک زندہ اور آزاد ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت ثابت کی۔


ڈرون حملوں کا جواب طالبان افغانستان میں قائم امریکی اڈوں پر حملے کر کے کیوں نہیں دیتے؟ روس کے خلاف ہونے والی جنگ کے دوران بھی روسی طیارے افغانی جنگجوئوں کے لیے خوف کی علامت بنے رہے اور جس طرح اسوقت کے مجاہدین اور آج کے طالبان نے اپنے اتحادی سے اسٹن گنز میزائل کا مطالبہ کیا اور انھیں فراہم کیے گئے۔ جس کے بعد روس افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا بالکل اسی طرح ڈرون آج طالبان کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں لیکن آج ان کے پاس نہ تو ایسا ہتھیار ہے جس سے ڈرون کو گرایا جا سکے اور نہ ہی کوئی ایسا غیر ملکی اتحادی دستیاب ہے۔ اگر افغانی روس کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑ کر کامیابی حاصل کرتے تو آج دنیا میں ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت اپنی شناخت رکھتے نہ کہ ایک ایسے ملک کی حیثیت سے جو خانہ جنگی اور غیر ملکی اقوام کی مداخلت سے پہچانا جائے۔

یہی وجہ ہے افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا روسی مداخلت سے طویل خانہ جنگی اور اس طویل جنگ کو کل کے مجاہدیں اور آج کے طالبان لڑ رہے ہیں۔ خود مختاری کا حقیقی کلیہ یہ کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر حالات کا مقابلہ کریں یہ ممکن نہیں کہ اربوں ڈالرز کی بھیک لے کر اپنے مطالبات بھی منوا سکیں جب کہ ہماری سفارتی کمزوریا ں اندورنی اختلافات بھی عروج پر ہوں۔ لہذا خود مختاری کا کلیہ یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہم طالبان اور امریکا دونوں کو اپنی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرنے کا کہیں اگر طالبان اپنے آپ کو پاکستانی گردانتے ہیں تو افواج پاکستان، عوام اور ملک کی جمہوری سیاسی جماعتوں کے خلاف اپنی مذموم کارروائیاں فوری بند کریں اور آئین پاکستان میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں اگر امریکہ سے جنگ طالبان کے لیے ناگزیر ہے تو اس کے لیے پاک سرزمین دستیاب نہیں اپنی کارروائیاں امریکا کے خلاف شروع کریں۔

پاکستان کے عوام کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں البتہ اگر کسی نے ہماری زمین استعمال کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور نہ ہی کوئی اپنے مخصوص مذہبی نظریات کسی پر مسلط کریں پاکستان کے دستور نے قرآن کو اعلیٰ ترین قانون تسلیم کیا ہوا ہے۔ اجتہاد کے توسط سے قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کاوششیں جاری ہیں پاکستان کے عوام نے11 مئی کے انتخابات حصہ لے کر اس طریقہ کار تسلیم کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل جو ایک آئینی ادارہ ہے اپنے مجوزہ طریقہ کار کے تحت کام کر رہا ہے لہذا طالبان سمیت جو گروہ طاقت کے ذریعے اپنے مخصوص مطالبات منوانہ چاہتے ہیں ان کی پاکستان کے نظام کوئی گنجائش نہیں پاکستان کا مستقبل ایک ایسے جمہوری نظام میں ہے جہاں طاقت نہیں بلکہ دلیل کے ذریعے اپنی بات منوائی جائے۔
Load Next Story