روپے کی بے قدری کا تسلسل جاری اوپن مارکیٹ میں ڈالر10960روپے کا ہو گیا

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر43 پیسے کے اضافے سے108.27 روپے کی سطح پر پہنچ گئی.

موجودہ حکومت کے صرف5 ماہ میں امریکی ڈالر کی قدرمیں مجموعی طور پر9 روپے سے زائد کا اضافہ ہوا،امریکی شرائط کے مطابق 107 روپے سے کم نہیں کیا جاسکتا، ماہرین فوٹو: اے ایف پی/فائل

زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں امریکی ڈالر کی نسبت پاکستانی روپیہ کی تنزلی کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ متعلقہ ریگولیٹر کے پاس امریکی ڈالر پر قابو پانے کے تمام ٹولز ختم ہوگئے ہیں یا پھر یہ اطلاعات مصدقہ ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر روپے کی قدر گھٹائی جارہی ہے، منگل کو انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی نسبت ڈالر کی قدرمزید43 پیسے کے اضافے سے108.27 روپے کی سطح پر پہنچ گئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں بظاہرڈالر کے ریٹ109.60 روپے پر مستحکم نظر آئے لیکن حقیقت میں طلبگاروں کے لیے فی ڈالر110 روپے میں بھی دستیاب نہ تھا، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال2008 میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام حاصل کیا تو اس وقت بھی ڈالر کی نسبت روپے کو بے قدری کا سامنا رہا تھا۔

زرمبادلہ کے ذخائر گررہے تھے اور ادائیگیوں کا توازن بگڑ رہا تھا جس کے بعد قرض ملنے کی منظوری حاصل ہوئی اور معاشی ماہرین پانچ سال تک معیشت کو گھسیٹتے رہے جس کے بعد نوازشریف کی قیادت میں نئی حکومت آئی تو مسائل اور تاریخ نے خود کو دہرایا، قرض خواہ تو وہی تھا مگر قرض دینے والے ادارے نے شرائط میں اضافہ کردیا، قسط وار قرض کی فراہمی سے زرمبادلہ کو صرف زندہ رہنے کا سہارا تو حاصل ہوا لیکن مکمل آکسیجن حاصل نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ امریکی ڈالر کی قدر بے قابو ہوتی چلی گئی، فی الوقت پاکستان کے پاس ایک ماہ کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں، صرف نومبر میں عالمی مالیاتی ادارے کو ایک ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔




 

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ادائیگیوں کی وجہ سے روپے پر دباؤکم بھی نہیں ہورہا بلکہ مستقبل کے اندیشے بڑھتے جارہے ہیں، منگل کو بینکوں کے درمیان ڈالر کا لین دین108.27 روپے میں ہوا جبکہ درآمدکنندگان نے چھ ماہ کے لیے ڈالر کے فارورڈ سودے111 روپے فی ڈالر کے حساب سے کیے، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجود دورحکومت کے صرف5 ماہ کے دوران امریکی ڈالر کی قدرمیں مجموعی طور پر9 روپے سے زائد کا اضافہ ہوچکا ہے، اوپن مارکیٹ میں ناقابل یقین بحرانی کیفیت طاری ہے کہیں ڈالر کی کمی اور کہیں 110 روپے میں ڈالرفروخت کرکے منافع کمایا جارہا ہے۔

حکومت کی جانب سے ہرسطح پر اس بات کی تردید کی گئی لیکن اطلاعات یہی زیرگردش ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق امریکی ڈالر کو 107 روپے سے کم نہیں کیا جاسکتا ہے، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم پیشہ عناصر کے بعد اب کارپوریٹ کریمنلز نے بھی مشکلات پیدا کردی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی نسبت امریکی ڈالر کی قدر میں ہونے والے مستقل اضافے سے ملکی برآمدات کو بلحاظ ویلیواگرچہ فائدہ ضرور ہوگا لیکن ملک کا درآمدی بل خطرناک حد تک بڑھ جائے گا اور اسکے نتیجے میں ان تمام اشیا کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جن کا براہ راست تعلق صارفین سے ہے کیونکہ ملک میں سالانہ 4 ارب ڈالرسے زائد مالیت کے صرف غذائی اشیا درآمد ہوتی ہیں جس میں سرفہرست پروڈکٹ پام کا ہے۔

ڈالر کی قدر میں اضافے سے برآمدکنندگان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ انہیں بھی بیشترصنعتی خام مال کی لاگت میں ہوشربا اضافے کا سامنا ہے، ڈالر کی قدر میں اضافے کے نتیجے میں پاکستان پربیرونی قرضوں کی مالیت بھی 500 ارب روپے سے زائد بڑھ جائے گی، صنعتی شعبے کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ڈالر کی قدر کو قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے جبکہ روپیہ آج بھی بے بس دکھائی دے رہا ہے دوسری جانب ایکس چینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ایک ماہ ہوگیا ہے لیکن انہیں تجارتی بینکوں نے ڈالر فراہم نہیں کیے ہیں جومستقل ڈالر بحران کا باعث بن رہی ہے جبکہ چھوٹے پیمانے کی ایکس چینج کمپنیوں میں امریکی ڈالر کے ذخائر ختم ہوچکے ہیں۔
Load Next Story