خواتین مارچ اور محروم طبقات

عورت مارچ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے، جس نے پاکستان بھر کی عورتوں کو یکجا ہوکر اپنے حقوق کےلیے آواز اٹھانے کی راہ دکھائی


خواتین کی بڑی تعداد سیاست، فنون لطیفہ، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کل تین تصویریں نظر سے گزریں۔ ایک تصویر بلوچستان کے کسی علاقے کی اس خبر کے ساتھ تھی کہ خاتون کو کھانا دیر سے بنانے پر شوہر نے قتل کردیا۔

دوسری تصویر 9 سالہ بچے کی تھی، جس کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔

اور تیسری تصویر نو سالہ بچی کی 75 سال کے شخص سے شادی کردینے کی خبر کے ساتھ تھی۔

یہ تینوں تصویریں اس مادی ارتقا کے دور میں ذہنی پستی کی انتہا کو چھوتی انسانیت کی ہیں۔ جہاں انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے اعمال پر منہ چھپاتا پھرے۔ انسانی رویوں اور احساسات پر صحتمندانہ بات نہ کرنے اور اس کو دبانے کی کوشش کرنے کی وجہ سے فرد اور معاشرہ ذہنی طور پر بیمار ہوجاتے ہیں۔ جس نفسیاتی قوت کو لاشعور میں دبانے کی کوشش کی جائے، وہ اپنا بھرپور بالواسطہ اظہار غلط اور خوفناک شکل میں کرتی ہے، اور اس کی مثالیں ہم خبروں میں پڑھتے اور اپنی زندگیوں میں دیکھتے رہتے ہیں۔

فی الوقت ہم اجتماعی بے حسی اور اجتماعی بے شعوری کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہر روز کسی نئی خبر کے دائرے میں دوڑتے نیم دیوانے، کولہو کے بیل کی طرح بس گھومے ہی چلے جاتے ہیں۔ کوئی ذہنی ارتقا، کوئی نئی صحتمند سوچ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جہاں مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے ہاتھوں تذلیل ہو اور پھر میڈیا بھی ایسے ناقص العقل لوگوں کو رائٹر کا درجہ دے کر لائم لائٹ میں لے آتا ہے۔ جن کے مطابق اخلاقیات، حدود اور وفا محض عورت کے وصف ہیں اور مرد کو ایک ایسی مخلوق کی صورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو کسی بھی قسم کی قوت برداشت، حد بندی، اور اخلاقیات سے مبرا ہے۔ ایسے عقل کے بونوں کے مطابق مذہبی پابندیاں بھی صرف عورت کےلیے ہیں، مرد کو ہر طرح کی آزادی ہے۔

اس کے بعد ہم عورت مارچ کے نام پر جو سلوگن اٹھاتے ہیں، وہ بھی حقیقی زندگی کے مسائل سے کہیں دور اور بے معنی نظر آتے ہیں۔ اصل چیز تو ایک بے شعور انسان نما ہجوم کو بنیادی انسانی سطح پر لانا ہے۔ جہاں ہر انسان دوسرے کو عمر، جنس اور اسٹیٹس کے فرق کے بغیر ایک انسان کے طور پر اہم سمجھے۔

جس بات کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، وہ عورت کو ذہنی اور جسمانی تشدد سے بچانا اور اس کےلیے قوانین بنانے کی راہ ہموار کرنا ہے، تاکہ وہ گھر اور گھر سے باہر مرد کی نرگسیت پر مبنی (narcissistic) سوچ سے محفوظ رہ سکے۔

عورت کی غلطی کو عورت کی نہیں بلکہ ایک انسان کی ہی غلطی سمجھا جائے۔ اس کی خواہشوں، اس کی سوچوں اور تقاضوں کو بشری پیمانے پر ناپا جانا چاہیے۔ آج تک ہم اسے صرف عورت ہونے پر نظر انداز کرتے آئے ہیں۔

ہمارے ہاں خواتین کی بڑی تعداد سیاست، فنون لطیفہ، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ ہے، لیکن تجزیہ کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں بڑی تعداد ایلیٹ اور بالائی متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے اور ان کے مسائل اور نصب العین نچلے طبقے یا محنت کش طبقہ سے بالکل جدا ہیں۔ یعنی معاشرے کے اصل محروم طبقات کےلیے کوئی گنجائش موجود نہیں۔

اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومتی خودمختاری کے باوجود صوبائی سطح پر مختلف جگہوں پر خانہ جنگی کی صورتحال رہی اور بلوچستان و گلگت بلتستان جیسے صوبے اب تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اور یقیناً اس میں بھی سب سے زیادہ عورتیں متاثر ہوئی ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ عورت مارچ ہمارے معاشرے کےلیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے، جس نے پاکستان بھر کی عورتوں کو یکجا ہوکر اپنے حقوق کےلیے آواز اٹھانے کی راہ دکھائی۔ گزشتہ دو ہی سال کے دوران اپنے پیش کیے گئے ایجنڈے میں مختلف خامیوں کے باوجود، اس تحریک نے اپنا آپ بین الاقوامی سطح پر منوایا ہے۔

لیکن یہاں پھر بات نچلے طبقے کی آتی ہے کہ اس محروم طبقے کے مسائل کو فوکس کیا جائے۔ یاد رہے کہ جو پگڈنڈیاں آج ہم بنائیں گے، وہی آنے والی نسلوں کےلیے شاہراہیں ہوں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں