3اضلاع کے بلدیاتی حلقہ بندیوں کا غلط نو ٹیفکیشن جاری الیکشن کمیشن کو مشکلات
ملیر،جنوبی اور غربی کی حلقہ بندیوں میں2011کی خانہ شماری کے چار جز و بلاکس نظرانداز کرکے98کے ظاہر کیے گئے ہیں.
صوبائی حکومت نے کراچی کے اضلاع ملیر، جنوبی اور غربی کے بلدیاتی حلقوں کی حد بندیوں میں2011ء کی خانہ شماری کے چارجز وبلاکس کو نظرانداز کرکے غلط نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے۔
الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستیں اور پولنگ اسکیم بنانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، دونوں اداروں میں رابطے کے فقدان کے باعث تینوں اضلاع کی یونین کونسلوں کی حد بندیوں کیلیے 98ء کی مردم شماری کے چارجز اور بلاکس ظاہر کیے گئے ہیں، صرف ضلع وسطی ، ضلع شرقی اور ضلع کورنگی کے بلدیاتی حلقوں کا نوٹی فکیشن درست جاری کیا گیا ہے،صوبائی الیکشن کمشنر طارق قادری نے کہا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے کچھ خامیاں ہیں جو الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت مشترکہ تعاون کے ذریعے بدھ تک حل کرلیں گی۔
تفصیلات کے مطابق سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے کراچی کے تین اضلاع ملیر، غربی اور جنوبی کے بلدیاتی حلقوں کی حدبندیوں کا غلط نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے،ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان گزشتہ اجلاسوں میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع کی یونین کونسلوں، یونین کمیٹیوں، ڈسٹرکٹ کونسلز اور وارڈز کی حلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے 98ء کی مردم شماری اور 2011ء کی خانہ شماری کے چارجز و بلاکس کو مدنظر رکھا جائے گا ، واضح رہے کہ 2سال قبل محکمہ مردم شماری کی جانب سے خانہ شماری کا کام مکمل کرلیا گیا تھا تاہم ناگزیر وجوہات کے باعث مردم شماری نہ ہوسکی تھی، سندھ حکومت کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں ڈیڑھ ماہ حلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے بے شمار مشقیں کی گئیں ۔
اس حوالے سے محکمہ مردم شماری، محکمہ ریونیو اور الیکشن کمیشن کے افسران کے مشترکہ اجلاس میں حلقہ بندیوں کا ماڈل تیار کیا گیا تاہم سیاسی دباؤ کے باعث کئی بار حلقہ بندیوں میں تبدیلیاں لائی گئیں اور اہم قانونی نکات کو نظرانداز کیا گیا، بعدازاں متعلقہ اداروں میں رابطے کا بھی فقدان پیدا ہوگیا جس کے باعث حلقہ بندیوں میں نقائص وسقم رہ گئے،ذرائع نے بتایا کہ کراچی سمیت سندھ کے بیشتر اضلاع میں اعتراضات جمع کرنے کیلیے ڈپٹی کمشنرز نے مجوزہ حلقہ بندیوں کو میڈیا میں بھی مشتہر نہیں کیا ، پیرکو سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا اور اس کی ایک کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوائی گئی تاکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلیے انتخابی فہرست یونین کونسل کی سطح پر ترتیب دی جائے اور پولنگ اسکیم بنائی جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو موصول ہونے والی حتمی حلقہ بندیوں میں نقائص کے باعث الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں اور پولنگ اسکیم کی تشکیل سے قاصر ہے،ضلع ملیر، غربی اور جنوبی میں بلدیاتی حلقوں کی حد بندیوں میں 1998ء کی آبادی اورچارجز وبلاکس ظاہر کیے گئے ہیں،اصولی طور پر 98ء کی مردم شماری اور 2011 کی خانہ شماری کے بلاکس وچارجز ظاہر کیے جانے تھے، اس سقم کے باعث الیکشن کمیشن کو ان اضلاع میں انتخابی فہرستیں اور پولنگ اسٹیشن و پولنگ اسٹاف کی تشکیل میں مشکلات درپیش ہیں،ذرائع نے بتایا کہ 2011ء کی خانہ شماری کے چارجز و بلاکس میںشہری و دیہی علاقوں اور گھرانوں کے ایڈریس کی درست نشاند ہی کی گئی ہے،اس اہم ڈیٹا کے ذریعے الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی انتخابی فہرستیں بھی ترتیب دی ہیں ، الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ ضلع وسطی ، ضلع کورنگی اور ضلع شرقی کی یونین کونسل کی سطح پر انتخابی فہرستوں کے کام کا آغاز کردیا گیا، ضلع ملیر، غربی اور جنوبی کے حلقہ بندیوں کو نقائص سے پاک کر کے جلد انتخابی فہرستیں مرتب کرلیں گے۔
الیکشن کمیشن کو انتخابی فہرستیں اور پولنگ اسکیم بنانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے، دونوں اداروں میں رابطے کے فقدان کے باعث تینوں اضلاع کی یونین کونسلوں کی حد بندیوں کیلیے 98ء کی مردم شماری کے چارجز اور بلاکس ظاہر کیے گئے ہیں، صرف ضلع وسطی ، ضلع شرقی اور ضلع کورنگی کے بلدیاتی حلقوں کا نوٹی فکیشن درست جاری کیا گیا ہے،صوبائی الیکشن کمشنر طارق قادری نے کہا ہے کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے کچھ خامیاں ہیں جو الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت مشترکہ تعاون کے ذریعے بدھ تک حل کرلیں گی۔
تفصیلات کے مطابق سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے کراچی کے تین اضلاع ملیر، غربی اور جنوبی کے بلدیاتی حلقوں کی حدبندیوں کا غلط نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے،ذرائع نے بتایا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان گزشتہ اجلاسوں میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع کی یونین کونسلوں، یونین کمیٹیوں، ڈسٹرکٹ کونسلز اور وارڈز کی حلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے 98ء کی مردم شماری اور 2011ء کی خانہ شماری کے چارجز و بلاکس کو مدنظر رکھا جائے گا ، واضح رہے کہ 2سال قبل محکمہ مردم شماری کی جانب سے خانہ شماری کا کام مکمل کرلیا گیا تھا تاہم ناگزیر وجوہات کے باعث مردم شماری نہ ہوسکی تھی، سندھ حکومت کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں ڈیڑھ ماہ حلقہ بندیوں کی تشکیل کیلیے بے شمار مشقیں کی گئیں ۔
اس حوالے سے محکمہ مردم شماری، محکمہ ریونیو اور الیکشن کمیشن کے افسران کے مشترکہ اجلاس میں حلقہ بندیوں کا ماڈل تیار کیا گیا تاہم سیاسی دباؤ کے باعث کئی بار حلقہ بندیوں میں تبدیلیاں لائی گئیں اور اہم قانونی نکات کو نظرانداز کیا گیا، بعدازاں متعلقہ اداروں میں رابطے کا بھی فقدان پیدا ہوگیا جس کے باعث حلقہ بندیوں میں نقائص وسقم رہ گئے،ذرائع نے بتایا کہ کراچی سمیت سندھ کے بیشتر اضلاع میں اعتراضات جمع کرنے کیلیے ڈپٹی کمشنرز نے مجوزہ حلقہ بندیوں کو میڈیا میں بھی مشتہر نہیں کیا ، پیرکو سندھ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا اور اس کی ایک کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوائی گئی تاکہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلیے انتخابی فہرست یونین کونسل کی سطح پر ترتیب دی جائے اور پولنگ اسکیم بنائی جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو موصول ہونے والی حتمی حلقہ بندیوں میں نقائص کے باعث الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں اور پولنگ اسکیم کی تشکیل سے قاصر ہے،ضلع ملیر، غربی اور جنوبی میں بلدیاتی حلقوں کی حد بندیوں میں 1998ء کی آبادی اورچارجز وبلاکس ظاہر کیے گئے ہیں،اصولی طور پر 98ء کی مردم شماری اور 2011 کی خانہ شماری کے بلاکس وچارجز ظاہر کیے جانے تھے، اس سقم کے باعث الیکشن کمیشن کو ان اضلاع میں انتخابی فہرستیں اور پولنگ اسٹیشن و پولنگ اسٹاف کی تشکیل میں مشکلات درپیش ہیں،ذرائع نے بتایا کہ 2011ء کی خانہ شماری کے چارجز و بلاکس میںشہری و دیہی علاقوں اور گھرانوں کے ایڈریس کی درست نشاند ہی کی گئی ہے،اس اہم ڈیٹا کے ذریعے الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی انتخابی فہرستیں بھی ترتیب دی ہیں ، الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ ضلع وسطی ، ضلع کورنگی اور ضلع شرقی کی یونین کونسل کی سطح پر انتخابی فہرستوں کے کام کا آغاز کردیا گیا، ضلع ملیر، غربی اور جنوبی کے حلقہ بندیوں کو نقائص سے پاک کر کے جلد انتخابی فہرستیں مرتب کرلیں گے۔