بھٹو کی پارٹی
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں سوشل ازم کا نعرہ لگایا، جسے نوجوانوں میں بہت مقبولیت ملی۔
ملکی سیاسی تاریخ میں پیپلزپارٹی ایک ایسی جماعت ہے، جو 1969ء میں وجود میں آئی، ذوالفقار علی بھٹو جو جنرل ایوب خان کے دورحکومت میں پہلے کم عمر وزیر ایندھن رہے پھر وہ وزیر خارجہ بنے۔ جب صدر ایوب خان نے معاہدہ تاشقندکیا تو انھوں نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی آزادی برائے نام بھی نہ تھی اور کسی میں اتنی جرات نہ تھی کہ وہ جنرل ایوب خان جو صدر پاکستان تھے ان کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو بار ایٹ لاء تھے، ان کی وکالت کا آفس کراچی میں تھا جہاں حفیظ پیر زادہ ، کمال اظفر، عبد الستارگبول ، ممتازعلی بھٹو جیسے وکیل اور دانشور موجود تھے، اس لیے انھوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد شروع کر دی اور اس کا آغاز انھوں نے پنجاب سے کیا ۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا بیانیہ بہت مقبول ہوا۔ اسلام ہمارا دین ، جمہوریت ہماری سیاست ، سوشل ازم ہماری معشیت اس جماعت کا منشور تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں سوشل ازم کا نعرہ لگایا، جسے نوجوانوں میں بہت مقبولیت ملی۔ جے اے رحیم ، معراج محمد خان ، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے اور ملک معراج خالد جیسے قابل ترین لوگوں نے بھٹوکو پنجاب میں سپورٹ کیا، اسی طرح سندھ میں ممتاز علی بھٹو ، حفیظ پیر زادہ ،کمال اظفر جیسے قابل لوگ بھی ملے۔
جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو سارے قوم پرست شیخ مجیب الرحمن کے طرح صوبائی خود مختاری کے لیے کوشاں تھے، بلکہ آزاد پختونستان ،گریٹر بلوچستان، سندھو دیش کی تحریکیں چلا رہے تھے۔ یہ لوگ پاکستان کے وفاق کوکمزورکر کے ایک کنفیڈریشن بنانا چاہتے تھے، مگر اہل پنجاب جو پاکستان کی آبادی کا باسٹھ فیصد ہیں انھوں نے بھٹوکی حمایت کر کے بقیہ پاکستان کو بچا لیا۔ جس زمانے میں جنرل یحیٰی خان حکمران تھے اور انھوں نے1970ء میں پہلی مرتبہ عام انتخابات وہ بھی شفاف کروائے تو لوگوں نے اپنے اپنے ووٹ لسانی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر دیے بلوچوں نے عطااللہ مینگل کو اور پختونوں نے ولی خان کی پارٹی کو ووٹ دیے۔
مذہبی جماعتوں میں بھی فرقے کی تفریق رہی۔ جماعت اسلامی کو وہابی مکتبہ فکرکے لوگوں نے ،جمعیت علمائے پاکستان( نورانی) کو اہلسنت نے اور مولانا مفتی محمود کو دیوبندی مکتبہ کے لوگوں نے ووٹ دیے۔ پیپلزپارٹی کو پنجاب اور سندھ سے سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حکمت عملی نے اپوزیشن کو چاروں خانہ چت کیا ہوا تھا اورجب ذوالفقار علی بھٹو کو کچھ جنرلوں نے کہا کہ مغربی پاکستان میں آپ کی اکثریت ہے۔ اس لیے ہم آپ کو حکومت بنانے کا موقع دیتے ہیں۔ تب بھی ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن سے ملنے ڈھاکہ دھان منڈی گئے تاکہ کسی صورت میں مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہو۔
شیخ مجیب الرحمن کی عوامی پارٹی نے مشرقی پاکستان میں لسانیت کی بنیاد پر اور اپنے چھ نکات جو پاکستان کو کنفیڈریشن بنانا چاہتے تھے اس میں انھیں بھر پورکامیابی ملی، لیکن آج کل جو یہ کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش بنوانے میں ذوالفقار علی بھٹوکا ہاتھ تھا، حقائق کے منافی ہے۔ بھٹو دراصل وفاق پرست تھے،انھوں نے ہندوستان سے نوے ہزار جنگی قیدی آزاد کروائے اور پاکستان کا مقبوضہ علاقہ واپس لیا، شملہ معاہدہ کیا اور اپنے پہلے دور میں ہی پاکستان کو پہلا اسلامی جوہری ملک بنا دیا۔ بھٹو کی شہرت اسلامی ممالک میں بڑھ گئی اور وہ ایشیائی مسلم رہنما کے طور ابھرنے لگے۔ اس بات کو اس وقت کی امریکی حکومت اور صدر جمی کارٹر ، وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو یہودی تھے کو بالکل پسند نہ آئی انھوں نے بھٹو سے انتقام لینے کے لیے 1977ء کے عام انتخابات کے نتائج کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف تحریک کی پشت پناہی کی۔
یہاں تک کہ بھٹو کے سامنے 32 نکات اس وقت کی حزب اختلاف نے رکھے، پہلا نقطہ ذوالفقار علی بھٹو کے استعفیٰ کا تھا، جو دوران مذاکرات واپس لے لیا گیا باقی31 نقاط پرکامیاب معاہدہ ہوگیا۔ جو امریکا کو پسند نہ آیا انھوں نے ایک سازش کے تحتجنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے پر مجبورکردیا۔ اس طرح پانچ جولائی 1977ء کو پاکستان کا سیاسی جمہوری چراغ گل ہوگیا اور پھر اسی امریکی سازش کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ لمحہ تھا جب ترقی کا پہیہ جام ہو گیا اورآمر ضیاء الحق نے بھٹو دشمنی میں پاکستان کی مقبول ترین جماعت کو بزور قوت ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور صاحبزادی بینظیر بھٹو نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر حال میں اپنی پارٹی کو بچا لیا۔
بینظیر بھٹوکا سیاست میں آنے کا ارادہ نہ تھا، وہ تو شعبہ وزارت خارجہ پر توجہ دے رہی تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو پر جو ظلم وستم ہوئے اور پارٹی کے وفاداروں کو کوڑے مارے گئے اس نے بینظیرکو مجبورکیاکہ وہ سیاسی کردار نبھائیں جو انھوں نے بڑے تحمل صبر اور اچھی حکمت عملی سے نبھایا یہاں تک کے جب وہ شہید ہوگئیں تو اس وقت پی پی پی سندھ اور پنجاب کی مقبول ترین جماعت تھی، اگر بینظیرکے بعد ان کی ہمشیرہ صنم بھٹو، پارٹی کی قیادت سنبھال لیتی تو پنجاب کے ووٹرز میں اضافہ ہوتا ، جو نہ ہو سکا اور دوسری سیاسی غلطی آصف علی زرداری نے کی کہ بجائے پنجاب میں بیٹھ کر پی پی پی کی تنظیم کو مضبوط کرتے انھوں نے پارٹی کی قیادت کے ساتھ ملک کی قیادت بھی اپنے ہاتھ میں لے لی اور صدر مملکت بن گئے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا اور اتنی بڑی جماعت ایک صوبے تک وہ بھی اندرون سندھ تک محدود ہوگئی، حالانکہ آصف علی زرداری اچھے سیاستدان ہیں۔
انھوں نے اپنی صدارت میں 1973ء کے آئین کو مکمل بحال کیا اور بہت سی آئینی اصلاحات کیں۔ اب اس جماعت کی قیادت بلاول بھٹوکے ہاتھ میں ہے۔ وہ نوجوان ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کی کم عمری میں بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کا ذہن منتشر ہے۔ وہ ابھی تک سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے میں کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں ، حالانکہ اس کا آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے سندھ کے شہری علاقوں کی ترقی پر توجہ دیتے، جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس شہرکراچی میں ترقیاتی کام کروائے ۔
سڑکیں بنوائیں ،گھر گھر پانی اورگیس پہنچائی۔ اسٹیل مل لگوائی ، عباسی شہید اسپتال بنایا۔ ان کے زمانے میں نہ بجلی ، نہ گیس ، نہ پانی کی کمی کی شکایت تھی نہ امن عامہ کی اس لیے اگر بلاول بھٹو اس شہرکی حالت کو سنوارنے اور ترقی دینے میں ترجیحا کام کرتے اور کم سے کم شہر قائدکو مثالی شہر بناتے، دوسرے صوبوں کے لوگ بھی پیپلزپارٹی کی حمایت کرتے۔ شہرکی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، گٹر ابل رہے ہیں اور پورا شہر کچرا کنڈی بن گیا ہے۔ شہرکراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت ایم کیو ایم منتشر ہوچکی ہے، اس کا سیاسی خلاء موجود ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سیاسی آزادی برائے نام بھی نہ تھی اور کسی میں اتنی جرات نہ تھی کہ وہ جنرل ایوب خان جو صدر پاکستان تھے ان کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو بار ایٹ لاء تھے، ان کی وکالت کا آفس کراچی میں تھا جہاں حفیظ پیر زادہ ، کمال اظفر، عبد الستارگبول ، ممتازعلی بھٹو جیسے وکیل اور دانشور موجود تھے، اس لیے انھوں نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف جدوجہد شروع کر دی اور اس کا آغاز انھوں نے پنجاب سے کیا ۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا بیانیہ بہت مقبول ہوا۔ اسلام ہمارا دین ، جمہوریت ہماری سیاست ، سوشل ازم ہماری معشیت اس جماعت کا منشور تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں سوشل ازم کا نعرہ لگایا، جسے نوجوانوں میں بہت مقبولیت ملی۔ جے اے رحیم ، معراج محمد خان ، غلام مصطفی کھر، حنیف رامے اور ملک معراج خالد جیسے قابل ترین لوگوں نے بھٹوکو پنجاب میں سپورٹ کیا، اسی طرح سندھ میں ممتاز علی بھٹو ، حفیظ پیر زادہ ،کمال اظفر جیسے قابل لوگ بھی ملے۔
جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو سارے قوم پرست شیخ مجیب الرحمن کے طرح صوبائی خود مختاری کے لیے کوشاں تھے، بلکہ آزاد پختونستان ،گریٹر بلوچستان، سندھو دیش کی تحریکیں چلا رہے تھے۔ یہ لوگ پاکستان کے وفاق کوکمزورکر کے ایک کنفیڈریشن بنانا چاہتے تھے، مگر اہل پنجاب جو پاکستان کی آبادی کا باسٹھ فیصد ہیں انھوں نے بھٹوکی حمایت کر کے بقیہ پاکستان کو بچا لیا۔ جس زمانے میں جنرل یحیٰی خان حکمران تھے اور انھوں نے1970ء میں پہلی مرتبہ عام انتخابات وہ بھی شفاف کروائے تو لوگوں نے اپنے اپنے ووٹ لسانی اور فرقہ واریت کی بنیاد پر دیے بلوچوں نے عطااللہ مینگل کو اور پختونوں نے ولی خان کی پارٹی کو ووٹ دیے۔
مذہبی جماعتوں میں بھی فرقے کی تفریق رہی۔ جماعت اسلامی کو وہابی مکتبہ فکرکے لوگوں نے ،جمعیت علمائے پاکستان( نورانی) کو اہلسنت نے اور مولانا مفتی محمود کو دیوبندی مکتبہ کے لوگوں نے ووٹ دیے۔ پیپلزپارٹی کو پنجاب اور سندھ سے سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ قومی اسمبلی میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی حکمت عملی نے اپوزیشن کو چاروں خانہ چت کیا ہوا تھا اورجب ذوالفقار علی بھٹو کو کچھ جنرلوں نے کہا کہ مغربی پاکستان میں آپ کی اکثریت ہے۔ اس لیے ہم آپ کو حکومت بنانے کا موقع دیتے ہیں۔ تب بھی ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن سے ملنے ڈھاکہ دھان منڈی گئے تاکہ کسی صورت میں مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہو۔
شیخ مجیب الرحمن کی عوامی پارٹی نے مشرقی پاکستان میں لسانیت کی بنیاد پر اور اپنے چھ نکات جو پاکستان کو کنفیڈریشن بنانا چاہتے تھے اس میں انھیں بھر پورکامیابی ملی، لیکن آج کل جو یہ کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش بنوانے میں ذوالفقار علی بھٹوکا ہاتھ تھا، حقائق کے منافی ہے۔ بھٹو دراصل وفاق پرست تھے،انھوں نے ہندوستان سے نوے ہزار جنگی قیدی آزاد کروائے اور پاکستان کا مقبوضہ علاقہ واپس لیا، شملہ معاہدہ کیا اور اپنے پہلے دور میں ہی پاکستان کو پہلا اسلامی جوہری ملک بنا دیا۔ بھٹو کی شہرت اسلامی ممالک میں بڑھ گئی اور وہ ایشیائی مسلم رہنما کے طور ابھرنے لگے۔ اس بات کو اس وقت کی امریکی حکومت اور صدر جمی کارٹر ، وزیر خارجہ ہنری کسنجر جو یہودی تھے کو بالکل پسند نہ آئی انھوں نے بھٹو سے انتقام لینے کے لیے 1977ء کے عام انتخابات کے نتائج کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف تحریک کی پشت پناہی کی۔
یہاں تک کہ بھٹو کے سامنے 32 نکات اس وقت کی حزب اختلاف نے رکھے، پہلا نقطہ ذوالفقار علی بھٹو کے استعفیٰ کا تھا، جو دوران مذاکرات واپس لے لیا گیا باقی31 نقاط پرکامیاب معاہدہ ہوگیا۔ جو امریکا کو پسند نہ آیا انھوں نے ایک سازش کے تحتجنرل ضیاء الحق کو مارشل لاء لگانے پر مجبورکردیا۔ اس طرح پانچ جولائی 1977ء کو پاکستان کا سیاسی جمہوری چراغ گل ہوگیا اور پھر اسی امریکی سازش کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ لمحہ تھا جب ترقی کا پہیہ جام ہو گیا اورآمر ضیاء الحق نے بھٹو دشمنی میں پاکستان کی مقبول ترین جماعت کو بزور قوت ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور صاحبزادی بینظیر بھٹو نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر حال میں اپنی پارٹی کو بچا لیا۔
بینظیر بھٹوکا سیاست میں آنے کا ارادہ نہ تھا، وہ تو شعبہ وزارت خارجہ پر توجہ دے رہی تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو پر جو ظلم وستم ہوئے اور پارٹی کے وفاداروں کو کوڑے مارے گئے اس نے بینظیرکو مجبورکیاکہ وہ سیاسی کردار نبھائیں جو انھوں نے بڑے تحمل صبر اور اچھی حکمت عملی سے نبھایا یہاں تک کے جب وہ شہید ہوگئیں تو اس وقت پی پی پی سندھ اور پنجاب کی مقبول ترین جماعت تھی، اگر بینظیرکے بعد ان کی ہمشیرہ صنم بھٹو، پارٹی کی قیادت سنبھال لیتی تو پنجاب کے ووٹرز میں اضافہ ہوتا ، جو نہ ہو سکا اور دوسری سیاسی غلطی آصف علی زرداری نے کی کہ بجائے پنجاب میں بیٹھ کر پی پی پی کی تنظیم کو مضبوط کرتے انھوں نے پارٹی کی قیادت کے ساتھ ملک کی قیادت بھی اپنے ہاتھ میں لے لی اور صدر مملکت بن گئے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے پنجاب نکل گیا اور اتنی بڑی جماعت ایک صوبے تک وہ بھی اندرون سندھ تک محدود ہوگئی، حالانکہ آصف علی زرداری اچھے سیاستدان ہیں۔
انھوں نے اپنی صدارت میں 1973ء کے آئین کو مکمل بحال کیا اور بہت سی آئینی اصلاحات کیں۔ اب اس جماعت کی قیادت بلاول بھٹوکے ہاتھ میں ہے۔ وہ نوجوان ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کی کم عمری میں بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کا ذہن منتشر ہے۔ وہ ابھی تک سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے میں کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں ، حالانکہ اس کا آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے سندھ کے شہری علاقوں کی ترقی پر توجہ دیتے، جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس شہرکراچی میں ترقیاتی کام کروائے ۔
سڑکیں بنوائیں ،گھر گھر پانی اورگیس پہنچائی۔ اسٹیل مل لگوائی ، عباسی شہید اسپتال بنایا۔ ان کے زمانے میں نہ بجلی ، نہ گیس ، نہ پانی کی کمی کی شکایت تھی نہ امن عامہ کی اس لیے اگر بلاول بھٹو اس شہرکی حالت کو سنوارنے اور ترقی دینے میں ترجیحا کام کرتے اور کم سے کم شہر قائدکو مثالی شہر بناتے، دوسرے صوبوں کے لوگ بھی پیپلزپارٹی کی حمایت کرتے۔ شہرکی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، گٹر ابل رہے ہیں اور پورا شہر کچرا کنڈی بن گیا ہے۔ شہرکراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت ایم کیو ایم منتشر ہوچکی ہے، اس کا سیاسی خلاء موجود ہے۔