نئے بلدیاتی نظام کے بعض نکات پر ڈیڈ لاک آرڈیننس جاری نہ ہوسکا

ایڈمنسٹریٹرز کیلیے صوبائی حکومت کو سیاسی یا بیوروکریٹس کی تعیناتی کا اختیار دیدیا جائیگا، دونوں جماعتوں کے مذاکرات


Staff Reporter September 05, 2012
ریونیو اور امن و امان کی ذمے داری کمشنر کے پاس رہے گی، ایڈمنسٹریٹرز کیلیے صوبائی حکومت کو سیاسی یا بیوروکریٹس کی تعیناتی کا اختیار دیدیا جائیگا،دن بھردونوں جماعتوں کے مذاکرات۔ فوٹو: فائل

پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ضلعی حکومتوں کی بحالی اورکمشنری نظام کو برقرار رکھنے پر متفق ہوگئے ہیں۔

تاہم اس نظام کے بعض جزوی پہلوؤں پر رات گئے تک اتفاق نہیں ہوسکا تھا توقع ہے کہ بدھ کی صبح تک دونوں فریقین کے درمیان تمام معاملات طے پاجائیں گے جس کے بعد نئے آرڈیننس کا اجراکردیا جائے گا، تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان منگل کو دن بھر مذاکرات کے دور ہوتے رہے اور نصف درجن سے زائد ہونے والے مذاکراتکے ادوار میں دونوں فریقین اصولی طور پر اس بات پر متفق ہوگئے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں ضلعی حکومتوں کو بحال کردیا جائے ۔

کمشنری نظام کو برقرار رکھا جائے اور ضلعی حکومتوں میں ایڈمنسٹریٹرز کی تعیناتی کیلیے صوبائی حکومت کو سیاسی یا بیورو کریٹس کی تعنیاتی صوابدیدی اختیار دیدیا جائے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ،سینیٹر فروغ نسیم، واسع جلیل، کنور نوید، سید سردار احمد جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پیر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ، وفاقی وزیر خورشید شاہ ، صوبائی وزرا آغا سراج درانی ، شرجیل میمن ،مظہر الحق اور ایاز سومرو سمیت دیگر نے شرکت کی ۔

کبھی گورنر ہاؤس اور کبھی وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونیوالے مذاکرات میں اس بات پر بھی اتفاق کرلیا گیا ہے کہ ضلعی حکومتوں کو وہ تمام اختیارات حاصل ہونگے جو کہ سابقہ ضلعی حکومت کو حاصل تھے تاہم امن وامان اور ریونیو سے متعلق امور کی ذمے داری کمشنر کی ہوگی ، ذرائع نے بتایا کہ فریقین میں اس بات پر رات گئے تک اختلاف پایا جاتا تھا کہ کراچی میں 18 ٹاؤنزبحال کیے جائیں یا پھر5 میونسپل کارپویشنزقائم کرکے ان کو ضلعی حکومت کے ماتحت کردیا جائے دونوں فریقین میں اس بات پر بھی اختلاف تھا کہ اگرضلعی حکومتوں اورکمشنری نظام کو ساتھ ساتھ بحال کیا جائے توکراچی میں پانچ ڈپٹی کمشنرزکی تعنیاتی کس طرح کی جائے گی۔

اس سلسلے میں شہرمیں انتظامی حد بندی اور بلدیاتی حد بندی علیحدہ علیحدہ کرنے کی تجاویز بھی زیر بحث رہیں اس حوالے سے رات گئے تک فریقین کسی متفق نہیں پارہے تھے ان دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا آخری دور رات ساڑھے بارہ بجے وزیراعلیٰ ہاؤس میں شروع ہوا جو رات گئے تک جاری تھا، دونوں فریقین کی کوشش ہے کہ مذاکرات کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب مسودے کوحتمی شکل دے کر اسی وقت آرڈیننس جاری کردیا جائے۔

دریں اثنا سینئر صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے آرڈیننس پر اتفاق رائے حاصل کرنے کیلیے دیگر اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے رابطے کیے، انھوں نے اے این پی سندھ کے صدرسینیٹر شاہی سید اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما امتیاز احمد شیخ کو فون کرکے ان کو آرڈیننس پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی تاہم دونوں رہنماؤں نے آرڈیننس پر سخت اعتراض کیا، اس سلسلے میں امتیاز احمد شیخ نے صحافیوںسے بات چیت کے دوران کہا کہ فنکشنل لیگ نے دونوں اتحادی جماعتوں کو قابل قبول فارمولا دیا ہے لیکن دونوں جماعتیں اس پر بات کرنے کیلیے تیار نہیں ہیں اور ہمیں کورکمیٹی کے مذاکرات پر اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ہے اس لیے ہیں موجودہ آرڈیننس پر سخت تحفظات ہیں۔

دریں اثنا عوامی نیشنل پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اے این پی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید مذاکرات میں شمولیت کے بجائے پہلے ہی اسلام آباد روانہ ہو چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ کمشنری نظام کے علاوہ کسی بھی نظام کو تسلیم نہیں کرینگے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پیرمظہر الحق نے اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماؤں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کو اعتماد میں لیے بغیرکسی بھی قسم کا آرڈیننس جاری نہیں کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اتحادی جماعتوں سے اختلافات ختم کرانے کیلیے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی قیادت میں قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے اتحای جماعتوں کا اجلاس طلب کر لیاگیا ہے جس میں اے این پی اور فنکشنل کو اعتماد میں لینے کے بعد آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔دریں اثنا رات گئے سی ایم ہاؤس میں وزیر اعلیٰ سندھ کی قیادت میں متحدہ پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس جاری رہا جس میں مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں