کراچی بدامنی کیس سہراب گوٹھ اسلحے کی آماجگاہ اور وہاں طالبان کا تسلط ہے چیف کلکٹر کسٹمز
سہراب گوٹھ، الآصف اسکوئر اور جنت گل ٹاؤن میں منشیات، اسلحے اور اسمگلنگ کے سامان کے بڑے بڑے گودام ہیں، یحییٰ خان
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کراچی پولیس نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف تسلی بخش کارروائی کی ہے تاہم ملزمان کو ان کے کئے کی سزائیں ملنے پر ہی عدالت کو اطمینان ہوگا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے کراچی آپریشن سے متعلق عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ پر چیف جسٹس نے تسلی کا اظہار کیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ گرفتار ملزموں کے خلاف کیا شہادتیں ہیں کیونکہ ثبوت کے بغیر کارکردگی بے اثر ہو جائے گی اور کوئی بھی عدالت انہیں سزا نہیں دے سکتی۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر اور سرکاری وکلا خوفزدہ ہیں اس لئے سندھ حکومت 200 نئے تفتیشی افسر بھرتی کررہی ہے، اس کے علاوہ مزید 5 خصوصی عدالتوں کے قیام کی درخواستیں بھی دے رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی اسلحہ ہے، سندھ حکومت نے غیرقانونی سرگرمیوں اور حکومت کو غلط معلومات فراہم کرنے پر 40سے زائد اسلحہ ڈیلروں کے لائسنس منسوخ کردیئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ سے اسلحہ مقدمات کے لئے 5خصوصی عدالتیں بنانے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پراسیکیوٹرخوف زدہ ہیں، نعمت رندھاوا قتل کیس صوبے سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں ہوا۔
سماعت کے دوران چیف کلیکٹر کسٹمز یحیٰی خان نے عدالت کو بتایا کہ اسلحہ، منشیات اور اسمگلنگ کا دیگر سامان پبلک بسوں کے ذریعے کراچی میں لایا جاتا ہے جس کے بعد اسے ویگنوں اور سوزوکیوں کے ذریعے شہر کے دیگر علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ تاہم سہراب گوٹھ، الآصف اسکوئر، جنت گل ٹاؤن اور مچھر کالونی مین منشیات، اسلحے اور اسمگلنگ کے سامان کے بڑے بڑے گودام موجود ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سہراب گوٹھ میں طالبان کا تسلط قائم ہے اور اس وجہ سے کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے یہ معلومات سندھ حکومت کو پہنچائی جس پر چیف کلکٹر یحیٰی خان نے بتایا کہ پولیس اور رینجرز محرم الحرام کے باعث مصروف تھے لیکن اب مشترکہ کارروائی کے لیے حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے کراچی آپریشن سے متعلق عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی رپورٹ پر چیف جسٹس نے تسلی کا اظہار کیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ گرفتار ملزموں کے خلاف کیا شہادتیں ہیں کیونکہ ثبوت کے بغیر کارکردگی بے اثر ہو جائے گی اور کوئی بھی عدالت انہیں سزا نہیں دے سکتی۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر اور سرکاری وکلا خوفزدہ ہیں اس لئے سندھ حکومت 200 نئے تفتیشی افسر بھرتی کررہی ہے، اس کے علاوہ مزید 5 خصوصی عدالتوں کے قیام کی درخواستیں بھی دے رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی اسلحہ ہے، سندھ حکومت نے غیرقانونی سرگرمیوں اور حکومت کو غلط معلومات فراہم کرنے پر 40سے زائد اسلحہ ڈیلروں کے لائسنس منسوخ کردیئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ سے اسلحہ مقدمات کے لئے 5خصوصی عدالتیں بنانے کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں پراسیکیوٹرخوف زدہ ہیں، نعمت رندھاوا قتل کیس صوبے سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں ہوا۔
سماعت کے دوران چیف کلیکٹر کسٹمز یحیٰی خان نے عدالت کو بتایا کہ اسلحہ، منشیات اور اسمگلنگ کا دیگر سامان پبلک بسوں کے ذریعے کراچی میں لایا جاتا ہے جس کے بعد اسے ویگنوں اور سوزوکیوں کے ذریعے شہر کے دیگر علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ تاہم سہراب گوٹھ، الآصف اسکوئر، جنت گل ٹاؤن اور مچھر کالونی مین منشیات، اسلحے اور اسمگلنگ کے سامان کے بڑے بڑے گودام موجود ہیں۔انہوں نے بتایا کہ سہراب گوٹھ میں طالبان کا تسلط قائم ہے اور اس وجہ سے کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے یہ معلومات سندھ حکومت کو پہنچائی جس پر چیف کلکٹر یحیٰی خان نے بتایا کہ پولیس اور رینجرز محرم الحرام کے باعث مصروف تھے لیکن اب مشترکہ کارروائی کے لیے حکمت عملی مرتب کی جا رہی ہے۔