فتح مبین حصہ اول
آج کی اس فتح مبین میں اللہ تعالیٰ کی ان برگزیدہ ہستیوں کے ذکر کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ کی مدد و نصرت آگئی، حق فتح یاب اورباطل شکست سے دوچار کھڑا ہے۔یہ فتح مبین نہیں تو اور کیا ہے؟ بیشک اللہ اپنے وعدے کا پکا اورسچا ہے۔ وہ ہمیشہ باطل کے مقابلے میں حق کو کھڑا کردیا کرتا ہے اور اسے جبل استقامت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ جب اللہ ساتھ ہو تو پھر عددی برتری کوئی معنی رکھتی ہے اور نہ ہی ساز و سامان۔
آج کی اس عظیم کامیابی پر امیر المجاہدین ملا محمد عمرؒ اور استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا حمداللہ جان ڈاگئی ؒ بہت یاد آرہے ہیں، یقیناً دونوں استاد شاگرد جنت کی وسعتوں سے تمام تر مناظر دیکھ رہے ہیں۔ان کا دل کس قدر خوش ہوگا کہ آج ان کی سوچ اور فکر جیت گئی اور ان کے دشمن ہار گئے۔
اپنے وطن کی آزادی کے لیے بے سرو سامانی کے عالم میں اٹھارہ سال تک لڑنے والوں نے کس طرح ایک اور سپر طاقت کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ امارت اسلامی افغانستان اور امریکا کے مابین19سالہ جنگ کے بعد حال ہی میں قطر میں ہونے والے معاہدے نے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔
ورنہ جب یہ باتیں ہورہی تھی اور افغان طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگایا تو بعض لوگوں نے طالبان امیرالمومنین ملا محمد عمر ؒ کے امریکا سے جنگ جاری رکھنے اور جارح و قابض افواج کو شکست دینے کے عزم کو دیوانے کی بڑھک قرار دیا تھا اورپاکستان ہی کے ایک مرحوم سیاستدان کا یہ بیان تو اخبارات کی شہ سرخیوں میں چھپا تھا کہ جس میں نعوذباللہ اس نے کہا کہ اللہ اکبر کا دور گزر چکا ہے اور اب سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن طالبان افغانستان نے اپنے جذبہ ایمانی اورعزم سے دنیا کی واحد سپرپاور کو ناکوں چنے چبوائے۔ پاکستانی عوام کے دل ہمیشہ امارت اسلامی کے ساتھ دھڑکتے رہے۔
اگرچہ پاکستان کے فوجی آمر جنرل مشرف نے امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور اُس کے سامنے تمام طاقتیں ہیچ ہیں۔ معاہدے کے فوراً بعد طالبان رہنما نے اپنے بیان میں اُن تمام ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوںنے اس امن معاہدے میں کسی بھی طرح کا ساتھ دیا اور پاکستان کا ذکر خاص طور پر کیا۔
طالبان افغانستان فطری طور پر پاکستان کے حلیف ہیں اور پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ امریکی یلغار اور امارت اسلامی افغانستان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان ہندوستانی سازشوں کا گڑھ بن چکا تھا اور پاکستان کے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کرنے کے لیے ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کا مرکز بھی۔ طالبان امریکا مخاصمت کے خاتمے کے بعد جو سب سے زیادہ تکلیف میں ہوں گے وہ بھارت ہوگا۔ کیونکہ اگر طالبان اقتدار میں آگئے تو پاکستان کے خلاف اربوں ڈالر کی بھارتی انوسٹمنٹ داؤ پر لگ جائے گی۔ اس لیے بھارت کسی صورت بھی اس معاہدے کی کامیابی کو ہضم نہیں کرے گا۔طالبان افغانستان اور ان کے رہنماؤں کی جذباتی وابستگی پاکستان سے ہے۔
ان کے تمام رہنما اور بڑے بڑے لیڈر پاکستان کی مذہبی شخصیات اور مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ جیسے ادارے ، شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہید' شیخ الحدیث مولانا سید شیر علی شاہ' مولانا حسن جان شہید 'شیخ الحدیث مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی اور دیگر لاتعداد شیوخ عظام کو طالبان امارت کے دور میں اہم ترین مقام حاصل تھا اور طالبان افغانستان اپنے فیصلوں میں ان کی رائے مقدم رکھتے تھے۔ ان علماء کرام میں سے بعض کو ملامحمد عمر کے کہنے پر افغانستان بلایا گیا تھا۔
ان علماء کرام میں شیخ عرب و عجم حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے شاگرد رشید شیخ الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی ؒ' مولانا نجم الدین اور کئی دیگر قابل ذکر ہیں جنہوں نے طالبان کے آخری سال میں افغانستان میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا حمد اللہ جان جنہوں نے اپنے گاؤں سے باہر تدریس کے سلسلے میں کبھی قدم نہیں رکھا تھا۔ ملامحمد عمر کی خواہش اور اُس وقت کے وزیرتعلیم امیر خان متقی کے اصرار پر افغانستان چلے گئے اور وہاں دیوبند ثانی جوکہ جامعہ فاروقیہ کابل کے نام سے موسوم تھا میں دورہ حدیث پڑھایا۔ جس میں ملک کے طول و عرض کے ہزاروں علماء اور طلباء فیض یاب ہوتے رہے۔ اسی طرح تفسیر قرآن ریڈیو افغانستان کے ذمے داران ان علماء سے رہنمائی لیتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان علماء کرام اور اساتذہ کرام سے روحانی اور دلی وابستگی کے سبب امارت اسلامی افغانستان کی کامیابیاں جہاں افغانستان کے عوام کے لیے سکھ اور چین کا سبب ہوں گی وہاں پر پاکستان کو بھی ایک ہمسایہ ملک کی سازشوں سے نجات ملے گی کیونکہ طالبان افغانستان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور پاکستان سے محبت اُن کی سرشت میں شامل ہے اس لیے اس صلح سے اگر ایک طرف افغان عوام کو امن و سکون کا وہ دور دوبارہ حاصل ہوگا تو دوسری طرف پاکستان کے لیے بھی یہ صلح انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
ان علماء میں سے ملامحمد عمر نے اپنے خاص نمائندے کے طور پر شیخ الحدیث مولانا حمداللہ جان، مولانا سید شیرعلی شاہ اور شہید مولانا حسن جان کو حج کے موقعے پر سعودی عرب بھیجا تھا تاکہ یہ علماء کرام دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان شخصیات اور دیگر لوگوں کو طالبان امارت کی حقیقت سے آگاہ کریں اور ان کے خلاف پراپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکے۔ان اکابر علمائے ملت نے کماحقہ یہ فریضہ انجام دیا۔
آج کی اس فتح مبین میں اللہ تعالیٰ کی ان برگزیدہ ہستیوں کے ذکر کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، جن کی کاوشوں اور دعاؤں کے نتیجے میں اللہ نے اتنی عظیم فتح سے نوازا۔ یہ فتح ملامحمد عمر ؒکی بھی ہے، افغان طالبان کی بھی اور اس خطے میں بسنے والے ہر فرد کی فتح ہے کیونکہ خطے کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہے، وہاںامن ہوگا تو خطے میں بھی امن ہوگا، ہم نے افغانستان کی بدامنی کے اثرات پاکستان کی گلی کوچوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔
آج دوحہ امن معاہدے نے افغانستان کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کھول کر سامنے رکھ دی، اٹھارہ سال میں ایک نسل پیدا ہونے کے بعد جوان ہوگئی ، وہ نہیں جانتی کہ افغانستان کا مسئلہ کیا ہے، آج کا یہ کالم انھی نوجوانوں کے لیے ہے، جس میںچاردہائیوں کی طویل اور کٹھن تاریخ کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے افغانستان اور پاکستان دنیا کے اہم ترین ملک ہیں،عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو ملک انھیں کنٹرول کرے گا وہی پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ اسی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں سے افغانستان بدامنی کا شکار چلا آرہا ہے۔
انگریزوں کے زمانے میں اسے بفر اسٹیٹ بنایا گیا پھر کمیونزم اور کیپٹل ازم کی جنگ کا زمانہ آیا اور اس میں بھی میدان جنگ افغانستان کو بنایا گیا گو کہ کیمونزم اب ختم ہوچکا ہے اور کیپٹل ازم بھی ہچکیاں لے رہا ہے لیکن ابھی تک روس ، چین اور امریکا کی سرد جنگ جاری ہے اس کا میدان جنگ بھی افغانستان بنا ہوا ہے۔ جب تک روس نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا اس وقت تک پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہاں کبھی تخریب کاری نہیں ہوئی، کبھی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا اُس کے بعد ہمارے ہاں بھی تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہونے لگے۔
اس زمانے میں افغانستان میں ببرک کارمل کی حکومت تھی جو روس ہی کا پروردہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب روس کا افغانستان میں مکمل اثرو رسوخ تھا تو اسے افغانستان میں اپنی فوجیں اتارنے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ دراصل روس کی خواہش تھی کہ وہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرسکے، اسی خواہش کی تکمیل اسے افغانستان میں کھینچ کر لائی اور اس کا اگلا ہدف پاکستان تھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس بات کو جانتے ہیں کہ 1973 میں بلوچستان میں جو بغاوت ہوئی تھی ،وہ روس کے اس بڑے منصوبے کا حصہ تھی۔بلوچستان میں بغاوت سے پہلے ماسکو میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں بلوچستان کے چند بڑے سردار بھی شریک تھے،اسی میٹنگ میں بلوچستان میںعلمِ بغاوت بلند کرنے کا طے ہوا تھا۔ان میں سے ایک سردار نے اس منصوبے کا راز فاش کردیا ، پھر اس وقت کی حکومت نے بعد میں انھیں صوبے کے اہم عہدے پر تعینات بھی کیا تھا۔
(جاری ہے)
آج کی اس عظیم کامیابی پر امیر المجاہدین ملا محمد عمرؒ اور استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا حمداللہ جان ڈاگئی ؒ بہت یاد آرہے ہیں، یقیناً دونوں استاد شاگرد جنت کی وسعتوں سے تمام تر مناظر دیکھ رہے ہیں۔ان کا دل کس قدر خوش ہوگا کہ آج ان کی سوچ اور فکر جیت گئی اور ان کے دشمن ہار گئے۔
اپنے وطن کی آزادی کے لیے بے سرو سامانی کے عالم میں اٹھارہ سال تک لڑنے والوں نے کس طرح ایک اور سپر طاقت کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا۔ امارت اسلامی افغانستان اور امریکا کے مابین19سالہ جنگ کے بعد حال ہی میں قطر میں ہونے والے معاہدے نے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ایک نئی جلا بخشی ہے۔
ورنہ جب یہ باتیں ہورہی تھی اور افغان طالبان نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کا نعرہ لگایا تو بعض لوگوں نے طالبان امیرالمومنین ملا محمد عمر ؒ کے امریکا سے جنگ جاری رکھنے اور جارح و قابض افواج کو شکست دینے کے عزم کو دیوانے کی بڑھک قرار دیا تھا اورپاکستان ہی کے ایک مرحوم سیاستدان کا یہ بیان تو اخبارات کی شہ سرخیوں میں چھپا تھا کہ جس میں نعوذباللہ اس نے کہا کہ اللہ اکبر کا دور گزر چکا ہے اور اب سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے لیکن طالبان افغانستان نے اپنے جذبہ ایمانی اورعزم سے دنیا کی واحد سپرپاور کو ناکوں چنے چبوائے۔ پاکستانی عوام کے دل ہمیشہ امارت اسلامی کے ساتھ دھڑکتے رہے۔
اگرچہ پاکستان کے فوجی آمر جنرل مشرف نے امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور آج یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور اُس کے سامنے تمام طاقتیں ہیچ ہیں۔ معاہدے کے فوراً بعد طالبان رہنما نے اپنے بیان میں اُن تمام ممالک کا شکریہ ادا کیا جنہوںنے اس امن معاہدے میں کسی بھی طرح کا ساتھ دیا اور پاکستان کا ذکر خاص طور پر کیا۔
طالبان افغانستان فطری طور پر پاکستان کے حلیف ہیں اور پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ امریکی یلغار اور امارت اسلامی افغانستان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان ہندوستانی سازشوں کا گڑھ بن چکا تھا اور پاکستان کے لیے طرح طرح کی مشکلات پیدا کرنے کے لیے ہندوستان کی ریشہ دوانیوں کا مرکز بھی۔ طالبان امریکا مخاصمت کے خاتمے کے بعد جو سب سے زیادہ تکلیف میں ہوں گے وہ بھارت ہوگا۔ کیونکہ اگر طالبان اقتدار میں آگئے تو پاکستان کے خلاف اربوں ڈالر کی بھارتی انوسٹمنٹ داؤ پر لگ جائے گی۔ اس لیے بھارت کسی صورت بھی اس معاہدے کی کامیابی کو ہضم نہیں کرے گا۔طالبان افغانستان اور ان کے رہنماؤں کی جذباتی وابستگی پاکستان سے ہے۔
ان کے تمام رہنما اور بڑے بڑے لیڈر پاکستان کی مذہبی شخصیات اور مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ جیسے ادارے ، شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہید' شیخ الحدیث مولانا سید شیر علی شاہ' مولانا حسن جان شہید 'شیخ الحدیث مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی اور دیگر لاتعداد شیوخ عظام کو طالبان امارت کے دور میں اہم ترین مقام حاصل تھا اور طالبان افغانستان اپنے فیصلوں میں ان کی رائے مقدم رکھتے تھے۔ ان علماء کرام میں سے بعض کو ملامحمد عمر کے کہنے پر افغانستان بلایا گیا تھا۔
ان علماء کرام میں شیخ عرب و عجم حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ کے شاگرد رشید شیخ الحدیث حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئی ؒ' مولانا نجم الدین اور کئی دیگر قابل ذکر ہیں جنہوں نے طالبان کے آخری سال میں افغانستان میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے۔ مولانا حمد اللہ جان جنہوں نے اپنے گاؤں سے باہر تدریس کے سلسلے میں کبھی قدم نہیں رکھا تھا۔ ملامحمد عمر کی خواہش اور اُس وقت کے وزیرتعلیم امیر خان متقی کے اصرار پر افغانستان چلے گئے اور وہاں دیوبند ثانی جوکہ جامعہ فاروقیہ کابل کے نام سے موسوم تھا میں دورہ حدیث پڑھایا۔ جس میں ملک کے طول و عرض کے ہزاروں علماء اور طلباء فیض یاب ہوتے رہے۔ اسی طرح تفسیر قرآن ریڈیو افغانستان کے ذمے داران ان علماء سے رہنمائی لیتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان علماء کرام اور اساتذہ کرام سے روحانی اور دلی وابستگی کے سبب امارت اسلامی افغانستان کی کامیابیاں جہاں افغانستان کے عوام کے لیے سکھ اور چین کا سبب ہوں گی وہاں پر پاکستان کو بھی ایک ہمسایہ ملک کی سازشوں سے نجات ملے گی کیونکہ طالبان افغانستان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور پاکستان سے محبت اُن کی سرشت میں شامل ہے اس لیے اس صلح سے اگر ایک طرف افغان عوام کو امن و سکون کا وہ دور دوبارہ حاصل ہوگا تو دوسری طرف پاکستان کے لیے بھی یہ صلح انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
ان علماء میں سے ملامحمد عمر نے اپنے خاص نمائندے کے طور پر شیخ الحدیث مولانا حمداللہ جان، مولانا سید شیرعلی شاہ اور شہید مولانا حسن جان کو حج کے موقعے پر سعودی عرب بھیجا تھا تاکہ یہ علماء کرام دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلمان شخصیات اور دیگر لوگوں کو طالبان امارت کی حقیقت سے آگاہ کریں اور ان کے خلاف پراپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکے۔ان اکابر علمائے ملت نے کماحقہ یہ فریضہ انجام دیا۔
آج کی اس فتح مبین میں اللہ تعالیٰ کی ان برگزیدہ ہستیوں کے ذکر کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، جن کی کاوشوں اور دعاؤں کے نتیجے میں اللہ نے اتنی عظیم فتح سے نوازا۔ یہ فتح ملامحمد عمر ؒکی بھی ہے، افغان طالبان کی بھی اور اس خطے میں بسنے والے ہر فرد کی فتح ہے کیونکہ خطے کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہے، وہاںامن ہوگا تو خطے میں بھی امن ہوگا، ہم نے افغانستان کی بدامنی کے اثرات پاکستان کی گلی کوچوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔
آج دوحہ امن معاہدے نے افغانستان کی گزشتہ چار دہائیوں کی تاریخ کھول کر سامنے رکھ دی، اٹھارہ سال میں ایک نسل پیدا ہونے کے بعد جوان ہوگئی ، وہ نہیں جانتی کہ افغانستان کا مسئلہ کیا ہے، آج کا یہ کالم انھی نوجوانوں کے لیے ہے، جس میںچاردہائیوں کی طویل اور کٹھن تاریخ کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے افغانستان اور پاکستان دنیا کے اہم ترین ملک ہیں،عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جو ملک انھیں کنٹرول کرے گا وہی پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔ اسی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں سے افغانستان بدامنی کا شکار چلا آرہا ہے۔
انگریزوں کے زمانے میں اسے بفر اسٹیٹ بنایا گیا پھر کمیونزم اور کیپٹل ازم کی جنگ کا زمانہ آیا اور اس میں بھی میدان جنگ افغانستان کو بنایا گیا گو کہ کیمونزم اب ختم ہوچکا ہے اور کیپٹل ازم بھی ہچکیاں لے رہا ہے لیکن ابھی تک روس ، چین اور امریکا کی سرد جنگ جاری ہے اس کا میدان جنگ بھی افغانستان بنا ہوا ہے۔ جب تک روس نے افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا اس وقت تک پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، یہاں کبھی تخریب کاری نہیں ہوئی، کبھی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا اُس کے بعد ہمارے ہاں بھی تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات ہونے لگے۔
اس زمانے میں افغانستان میں ببرک کارمل کی حکومت تھی جو روس ہی کا پروردہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب روس کا افغانستان میں مکمل اثرو رسوخ تھا تو اسے افغانستان میں اپنی فوجیں اتارنے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ دراصل روس کی خواہش تھی کہ وہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرسکے، اسی خواہش کی تکمیل اسے افغانستان میں کھینچ کر لائی اور اس کا اگلا ہدف پاکستان تھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس بات کو جانتے ہیں کہ 1973 میں بلوچستان میں جو بغاوت ہوئی تھی ،وہ روس کے اس بڑے منصوبے کا حصہ تھی۔بلوچستان میں بغاوت سے پہلے ماسکو میں ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں بلوچستان کے چند بڑے سردار بھی شریک تھے،اسی میٹنگ میں بلوچستان میںعلمِ بغاوت بلند کرنے کا طے ہوا تھا۔ان میں سے ایک سردار نے اس منصوبے کا راز فاش کردیا ، پھر اس وقت کی حکومت نے بعد میں انھیں صوبے کے اہم عہدے پر تعینات بھی کیا تھا۔
(جاری ہے)