میں عورت مارچ کا حامی ہوں

عورت مارچ میں مظالم کا شکار عورتوں کے نام کے نعرے نہیں، ان کی عملی سطح پر مدد نظر آنی چاہیے


شاہد کاظمی March 06, 2020
اسلام نے بطور مذہب مجھے عورتوں کا احترام کرنا سکھایا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اسلام نے بطور مذہب مجھے عورتوں کا احترام کرنا سکھایا ہے۔ پیدا کرنے والی ماں ہو، دل کا سکون بیٹی ہو، غموں کی ساتھی بہن ہو، یا زندگی کی ساتھی بیوی، اسلام نے تمام رشتوں کے نہ صرف حقوق بتا دیے ہیں بلکہ ان رشتوں کو بھی سمجھا دیا ہے کہ وہ بطور مرد میری بات کیسے مانیں۔ کس طرح میرے سکون کا خیال رکھیں اور خاندان کے سربراہ کے طور پر کیسے میری خواہشات کا احترام کریں، جائز خواہشات، جائز ضد، جائز حکم۔ لہٰذا مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی، پریشانی یا جھجک نہیں کہ میں عورت مارچ کا حامی ہوں اور مکمل ان کا ساتھ بھی دوں گا۔

لیکن ایک لمحہ رکیے۔ اگر میں عورتوں کے مارچ کا حامی ہوں اور ان کی سپورٹ کا وعدہ بھی کررہا ہوں، اور ہر فورم پر ان کی آواز بننے کی ذمے داری بھی نبھانے کو تیار ہوں تو عورت مارچ کے کرتا دھرتا منتظمین یقینی طور پر میری سپورٹ کےلیے کچھ میری باتیں بھی مانیں گے۔ میں اس مارچ کی حمایت غیر مشروط طور پر کررہا ہوں۔ مجھے اس حمایت کے بدلے نہ تو کوئی شہرت چاہیے، نہ ہی مجھے کسی بھی بڑے فورم پر سراہے جانے سے غرض ہے اور نہ ہی میں اس بات کا طلبگار ہوں کہ میری خدمات کے صلے میں کسی بینر پر میرا نام چھاپا جائے۔ کیوں کہ میں عورت مارچ کا باقاعدہ حصہ ہوں اور اب اس مارچ کا ہر فورم پر دفاع بھی کروں گا۔ لہٰذا منتظمین سے گزارش ہے کہ میری کچھ گزارشات کو بھی ہمارے اس عورت مارچ کا حصہ بنا لیجیے۔ یہ یقینی طور پر عورت مارچ کےلیے بہتر ہوگا۔

پہلی گزارش: اس عورت مارچ کا حصہ بھٹے پر کام کرنے والی وہ عورت بھی ہونی چاہیے جو ساری زندگی بھٹہ مالک کے حبس بے جا میں رہتی ہے۔ قرض کی زنجیر اتنی مضبوطی سے اس کے گرد جکڑی جاتی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اس بھٹہ مالک کی قید میں رہتی ہے۔ اسے اتنا کھانا پانی میسر آتا ہے کہ صرف سانس کی ڈور چلتی رہے۔ اور صبح تڑکے کام پر جانے کے بعد رات گئے اسے نرم بستر کے بجائے گھاس پھوس سے بنے بستر پر سونا پڑتا ہے۔ سونا نہ کہیے بلکہ اسے قید میں رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ وہ حالات سے تنگ آکر بھاگ نہ جائے۔ لہٰذا اس عورت مارچ کا کوئی ایک نعرہ، کوئی ایک تقریر، کوئی ایک صف اس کے نام ہونی چاہیے۔ یقین مانیے میں عورت مارچ کا حامی ہوں۔ اپنے سپورٹر کی صرف اتنی سی گزارش مان لیجیے کہ کسی اینٹوں کے بھٹے پر قید بامشقت کا شکار ایسی خواتین کو آزاد کروائیے۔ ان کا قرض اپنے پلے سے ادا کیجیے۔ اور پھر ان کو اپنے عورت مارچ کی پہلی صف میں کھڑا کر دیجیے۔ کیا منظر ہوگا پھر، واہ۔

دوسری گزارش: پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں غریب بیٹیاں تیزاب گردی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ میڈیا کے سامنے تو اتنے ہی کیسز آتے ہیں جنہیں آپ سمندر کی تہہ تک جاتے برفانی تودے کا اوپری سرا کہہ سکتے ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر کچھ حادثے سامنے آپاتے ہیں اور اکثر ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ آپ سے بطور سپورٹر عورت مارچ دوسری گزارش یہ ہے کہ پورے ملک کا سروے کیجیے اور صرف امداد یا اپنی این جی او کا نام چمکانے کے بجائے ایسے اصل جرأت کے نشانوں کو تلاش کیجیے جو تیزاب گردی کے باوجود ہمت نہیں ہار رہیں۔ آپ ان کی ہمت بنیے۔ صرف اپنی تنظیم یا ادارے کا نام بڑھانے کے بجائے ان کا ایسے ساتھ دیجیے کہ ان کا مناسب علاج کروائیے۔ اور ان کے عدالتوں میں التوا کا شکار کیسز لڑیے۔ ان کو فتحیاب کیجیے۔ اور ان کو فتح دلوانے کے بعد آپ ان کے نام کے بینر بنوائیے اور پھر ان کو عورت مارچ کے ہراول دستے میں شامل کرلیجیے۔ یہ میرے جیسے عورت مارچ کے سپورٹر پر آپ کا احسان ہوگا۔

تیسری گزارش: پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشرتی ناسور ہماری بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ وہاں ہزاروں بیٹیاں شادی کی عمر گزر جانے کے بعد بالوں میں چاندی سمیٹے گھر کی دہلیز پر منتظر بیٹھی ہیں۔ جہیز کا انتظام نہ کرسکنا ان کے والدین کا جرم بن گیا ہے۔ معاشرے میں اکا دکا ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں جہیز سے نہیں انسان سے مطلب ہے لیکن اکثریت جہیز کی طلبگار ہے اور مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے والے باپ کےلیے جہیز کا بندوبست کرنا ممکن نہیں۔ نتیجتاً بیٹی کی شادی کی عمر گزری جارہی ہے۔ وہ باپ کو تو مسکرا کر سہارا دے سکتی ہے، لیکن تنہائی میں اس کے آنسو کیوںکہ کوئی دیکھ نہیں سکتا لہٰذا وہ جی بھر کر آنسو بہاتی ہے۔ آپ سے چھوٹی سی درخواست ہے کہ عورت مارچ کے منتطمین میں سے چند لوگ منتخب کرکے ایک کمیٹی بنائیے، جس کا کام ہی یہ ہو کہ وہ پورے ملک سے ایسی بیٹیوں کا ڈیٹا جمع کرکے پھر پورے ملک میں ایک مہم چلائیے کہ برسرروزگار لڑکوں سے ان کی شادیاں کروائیے۔ مردانگی کے اصل استعارے ایسے مرد جو جہیز (ضروریات زندگی اور جہیز میں فرق کرنا سیکھیے) جیسی لعنت پر واقعی لعنت بھیجتے ہوئے ان لڑکیوں کو اپنائیں۔ اور اس رشتے کے جوڑنے میں یہ عورت مارچ کے منتظمین اپنا کردار ادا کریں۔ یہ یقینی طور پر عزت کی بالادستی کی جانب ایک قدم ہوگا۔ اس کے ساتھ جہیز کے خلاف مہم شروع کیجیے اور کچھ نہ سہی تو عورت مارچ کے رنگ برنگے بینرز میں سے کچھ بینرز پر جہیز کے خلاف نعرے لکھوا دیجیے۔

چوتھی گزارش: پاکستان میں لاکھوں ایسی خواتین موجود ہیں جو نامساعد حالات اور خاندانی حالات کے ستانے کے بعد ورکنگ ویمن بن جاتی ہیں۔ انہیں دفاتر میں ملازمت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ عورت مارچ کی کئی ساتھی تو شوق میں ملازمت کرتی ہیں کہ انہیں عورتوں کی بالادستی کو نافذ کرنا ہے۔ لیکن ایسی لاکھوں خواتین جو با امر مجبوری اپنے خاندان کا سہارا بننے کےلیے گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں۔ اس چھوٹی سی گزارش پر غور کیجیے کہ ہمارے اس عورت مارچ کے کچھ نعرے، کچھ بینر، ایسی عورتوں کے حوالے سے بھی موجود ہوں، جو ہراسمنٹ کا نہ صرف شکار ہوتی ہیں بلکہ وہ یہ کسی کو بتا بھی اس لیے نہیں سکتیں کہ ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ہمیں تھوڑی سی محنت تو کرنا ہوگی، لیکن مجھے عورت مارچ کے منتظمین پر پورا بھروسہ ہے کہ ہمیں ایسے دفاتر کا رخ کرنا ہوگا، ایسی فیکٹریوں کا رخ کرنا ہوگا، ایسے کارخانوں میں جانا ہوگا جہاں مجبور عورتوں سے بیگار کیمپ جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی اجرت بھی وقت پر نہیں دی جاتی۔ مجھے یقین ہے کہ عورت مارچ کی انتظامیہ میرے اس مطالبے یا گزارش پر غور کرے گی کہ ایسی خواتین کو ان کا حق دلانے کےلیے جہدو جہد کی جائے اور ایسی فیکٹریوں، کارخانوں، دفاتر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جو عورتوں کو ان کی باقاعدہ اجرت دینے سے پہلوتہی کررہے ہیں۔

پانچویں گزارش: میری عورت مارچ کی انتظامیہ سے ایک اور گزارش ہے کہ ایک پریس کانفرنس کی ضرورت ہے، ایک پریس ریلیز کی ضرورت ہے اور ایک احتجاج کی ضرورت ہے، عورتوں کو وراثت میں ان کا جائز حصہ دلوانے کےلیے۔ مذہب و قانون کے بتا دینے اور تشریح کردینے کے باوجود وطن عزیز میں لاکھوں خواتین ہیں جو وراثت سے محرومی کے بعد بیوگی کا روگ اپنائے ہوئے ہیں۔ وراثت سے باہر کردینے کی وجہ سے معاملات زندگی ان کےلیے مشکل ہورہے ہیں۔ بیوگی چھوڑیے، یہاں زندہ ہوتے ہوئے بھی باپ بھائی وراثت میں عورت کا حصہ اپنے نام کروا لیتے ہیں۔ میری عورت مارچ کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ میں تو آپ کے ساتھ ہوں لیکن میرے جیسے بہت سے لوگ بھی آپ کے ایسی عورتوں کےلیے احتجاج کے بعد آپ کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔ وراثت سے محروم خواتین کےلیے احتجاج کیجیے، میڈیا میں جائیے، اور ان خواتین کے حقوق ان کو دلانے کےلیے عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا بندوبست کیجیے۔ یقین کیجیے آپ کے اس فیصلے سے صرف خواتین نہیں بلکہ مرد حضرات کی اکثریت بھی عورت مارچ میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی۔

یہ کچھ گزارشات اگر پوری ہوپائیں تو کچھ اور گزارشات کی باری آئے۔ راقم الحروف کا تو مسئلہ ہی نہیں، میں تو عورت مارچ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں ایک مرد ہوں، لیکن عورت مارچ کا حامی ہوں۔ لیکن مندرجہ بالا چند گزارشات پر اگر غور فرمالیں تو یقین جانیے کہ کئی اور لوگ بھی جو فیصلہ نہیں کر پا رہے، وہ آپ کے ساتھ آکھڑے ہوں گے۔ عورت مارچ کیوں نہ ہو بھلا۔ عورتوں کے حقوق کے خلاف کون فاترالعقل انسان جاسکتا ہے۔ ہمارا تو ماننا ہی یہی ہے کہ عورت اس کائنات کی حسین ترین مخلوق ہے۔ یہ ماں کے روپ میں بچے کو خشک جگہ سلاتی ہے اور خود گیلی جگہ سو جاتی ہے۔ یہ بہن کے روپ میں بھائی کی پریشانی بنا بتائے ہی جان جاتی ہے۔ یہ بیٹی کے روپ میں باپ کے گھر آنے پر کہے بنا ہی پانی کا گلاس پیش کرتی ہے۔ یہ بیوی کے روپ میں شوہر کی ہر پریشانی میں اس کے ساتھ آکھڑی ہوتی ہے اور مرد ہر پریشانی کا مقابلہ ایسی شریک حیات کے ہوتے ہوئے کرجاتا ہے۔ ہم بھلا عورت کے حق کے مخالف کیوں کر ہوں گے۔

فیصلہ لیکن یہاں کرنا ہوگا کہ عورت مارچ کیا واقعی عورتوں کے حقوق کےلیے ہے؟ اگر واقعی حقوق کےلیے ہے تو بھٹے پر کام کرنے والی عورت، تیزاب گردی کا شکار عورت، ریپ سہنے والی عورت، غیرت کے نام پر قتل ہونے والی عورت، خاندانی جھگڑوں کا ایندھن بننے والی عورت، معاشرے میں بیوہ ہوجانے پر دھتکاری جانے والی عورت، جہیز نہ ہونے پر شادی نہ ہونے والی عورت، دفاتر، کارخانوں، فیکٹریوں میں مشکلات کا شکار عورت، وراثت سے محروم عورت، اس عورت مارچ میں نظر آنی چاہیے۔ اس عورت مارچ میں ایسے مظالم کا شکار عورتوں کے نام کے نعرے نہیں ان کی عملی سطح پر مدد نظر آنی چاہیے۔

اگر صرف بے ڈھنگے اجسام، ننگی سوچ، فحش گوئی، بدتمیزی، صنف مخالف کی تذلیل، مخصوص لابی کے مقاصد ہی عورت مارچ کی شان ہوں گے، تو معاف کیجیے گا کہ میں جو مرد عورت مارچ کا حامی ہوں وہ اس غیر اخلاقی دیوالیہ پن کا حامی نہیں ہوسکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |