پی ٹی وی کے 49 برس

26 نومبر 2013ء کو پی ٹی وی کی عمر پورے 49 برس ہو گئی ہے یعنی اگلا برس اس کا گولڈن جوبلی سال ہو گا ...

Amjadislam@gmail.com

26 نومبر 2013ء کو پی ٹی وی کی عمر پورے 49 برس ہو گئی ہے یعنی اگلا برس اس کا گولڈن جوبلی سال ہو گا۔ آج مڑ کے دیکھیں۔ 65ء کی جنگ شروع ہوئی تو ان دنوں پی ٹی وی کی نشریات صرف لاہور سے ہوتی تھیں اور وہ بھی ایک ایسی چھوٹی سی عمارت سے کہ جو ریڈیو پاکستان لاہور کے نو تعمیر شدہ اسٹیشن کے عقب میں کچھ اس طرح واقع تھی کہ ہر چند کہیں کہ ہے' نہیں ہے۔

پی ٹی وی ابھی بلیک اینڈ وائٹ تھا اور اس کے پروگرام بھی Live یعنی براہ راست نشر ہوا کرتے تھے۔

انچاسویں سالگرہ کے حوالے سے اس 26 نومبر کو پی ٹی وی کے تمام اسٹیشنز سے خصوصی Liveنشریات کا اہتمام کیا گیا جس کا آغاز لاہور اسٹیشن کے اسٹوڈیو ون سے صبح 9 بجے ہوا میزبان نور الحسن اور فریحہ پرویز تھے اور مہمانوں میں محمد قوی خان' راشد محمود عاصم بخاری' شبنم مجید' مسعود اختر' عثمان پیرزادہ' شوکت علی' رفیق احمد وڑائچ' ترنم ناز اور مجھے شامل کیاگیا تھا۔ فریحہ پرویز' نور الحسن اور شبنم مجید سے قطع نظر باقی کے تمام مہمان پی ٹی وی سے اپنے اپنے تعلق کی چالیس سے زیادہ سالگرہیں منا چکے تھے بلکہ محمد قوی خان ( اور غالباً رفیق وڑائچ بھی) تو پہلے دن کی نشریات میں بھی شامل تھے، ان کیمرہ اور آف دی ریکارڈ دونوں طرح کی گفتگو میں مرکزی موضوع ایک ہی تھا کہ کس طرح پاکستان ٹیلی ویژن نے بغیر کسی تجربے' فنی مہارت اور وسائل کے اولین 20 برسوں میں اپنی حیرت انگیز ترقی سے ساری دنیا کو محو حیرت کر دیا تھا اور اب گزشتہ تقریباً 20 برس سے سب کچھ ہونے کے باوجود اس کا گراف مسلسل نیچے ہی نیچے گرتا چلا جا رہا ہے اور عالم یہ ہے کہ اشتہارات کے علاوہ پاکستان کے ہر بجلی کے میٹر کی حامل عمارت سے 35 روپے ماہانہ ٹیلی ویژن فیس وصول کرنے کے باوجود فن کاروں کو کئی کئی ماہ تک چیک نہیں ملتے جب کہ گزشتہ چار ماہ سے محکمہ بغیر کسی مستقل ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی کے کام کر رہا ہے ۔


ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ اس زوال کا ایک سبب تو وہی ہے جو سرکار کے کنٹرول میں چلنے والی تمام کارپوریشنوں کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے یعنی ضرورت سے بہت زیادہ افراد کی سیاسی بنیادوں پر بھرتی اور اہلیت کے بجائے سفارش کا معیار۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اچھے اور کامیاب پرائیویٹ ٹی وی چینلز میں جو کام ایک سو افراد کرتے ہیں پی ٹی وی نے اس کے لیے تقریباً چھ سو لوگ ملازم رکھے ہوئے ہیں اور اس کے باوجود پرائیویٹ چینلز کی کارکردگی ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1976ء تک ہونے والی بھرتیوں میں 90 فیصد لوگ میرٹ پر منتخب کیے گئے تھے جب کہ اس کے بعد سے اب تک زیادہ سے زیادہ 10 فیصد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے میرٹ پر پورے اتر سکتے ہیں، سو ہوا یوں کہ1995ء تک میرٹ پر بھرتی ہونے والوں کی بڑی تعداد ریٹائرمنٹ کے نزدیک پہنچ گئی اور ان کی جگہ لینے کے لیے ایسے لوگ بلحاظ عرصہ ٔ ملازمت اعلیٰ انتظامی عہدوں اور سینئر پروڈیوسرز کی پوزیشنوں تک پہنچ گئے جن میں سے بہت کم اس کے صحیح معنوں میں اہل تھے جو دوسری خرابی اس دوران میں ظہور پذیر ہوئی اس کا تعلق ٹی وی حکام کی کوتاہ نظری اور غلط پلاننگ سے ہے کہ انھوں ایک اتفاق (exception) کو اصول یعنی Rule تصور کر لیا اور اس بات پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہے کہ جس طرح ٹی وی کے ابتدائی دس برسوں میں اہل اور باصلاحیت لوگوں کا ایک گروپ خود بخود بن گیا تھا (حالانکہ اس کی بھی بہت سی وجوہات تھیں جن کے باعث پروڈکشن' ڈائریکشن' میوزک' نیوز' ڈرامے اور دیگر شعبوں سے متعلق تخلیقی صلاحیت کے حامل لوگ ٹی وی کے میڈیم میں اظہار کے بہتر مواقع دیکھ کر اس کی طرف دوڑے چلے آئے تھے۔

مثال کے طور پر اولین پروڈیوسرز اسلم اظہر' آغا ناصر' فضل کمال' کنور آفتاب احمد' ذکا درانی' رفیق وڑائچ' مصلح الدین' ظفر صمدانی' محمد نثار حسین' یاور حیات' غفران امتیازی' محسن علی' ظہیر بھٹی' شہزاد خلیل' اختر وقار عظیم' نثار حسین' ظہیر خاں' قاسم جلالی اور ان کے کچھ اور ساتھی سب کے سب اپنے اپنے شعبوں ریڈیو' فلم' صحافت اور تھیٹر کے جمود سے تنگ آئے ہوئے لوگ تھے کم و بیش یہی معاملہ اداکاروں' لکھاریوں اور میوزک سے متعلق لوگوں کا تھا) آگے بھی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ یہ قیاس فنکاروں اور مصنفین کی حد تک تو بوجوہ اگلی دو دہائیاں نکال گیا مگر پروڈکشن سائز پر دوسری دہائی کے آغاز ہی سے سفارش پر بھرتی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 1990ء کے بعد سے اب تک جو چندگزارے لائق نام سامنے آئے ہیں ان سے قطع نظر باقی سب کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ ستر کی دہائی میں جن لوگوں کو منتخب کیا گیا ان میں سے مندرجہ ذیل لوگوں نے اپنے اوپر کیے جانے والے اعتماد کا حق اچھے اور بعض صورتوں میں بہت اچھے انداز میں ادا کیا اس گروپ میں شعیب منصور' نصرت ٹھاکر' سائرہ کاظمی' ایوب خاور' حیدر امام رضوی' کاظم پاشا' طارق معراج' راشد ڈار' خواجہ نجم الحسن' فرخ بشیر' طارق جمیل' جہانزیب سہیل اور کچھ اور لوگوں کے نام اعتماد سے شامل کیے جا سکتے ہیں۔70 اور 80 کی دو دہائیاں ایسی ہیں جن میں پی ٹی وی نے ہر شعبے میں شاندار ترقی کی' اگرچہ اس زمانے میں بھی اس کا خبر نامہ بہت حد تک سرکاری گزٹ کا تاثر دیتا تھا اور سیاسی تجزیوں پر مشتمل پروگرام بھی بمشکل آدھا سچ ہی بیان کر پاتے تھے لیکن ڈرامے' میوزک' لائٹ کامیڈی اور شوز کے میدان میں یہ صحیح معنوں میں معاشرے کا عکاس اور ترجمان بھی تھا اور ایک سطح پر راہبر اور قطب نما بھی۔ نوے کی دہائی میں یہ گراف اگر بلند نہیں ہوا تو مجموعی طور پر نیچے بھی نہیں آیا لیکن غور سے دیکھا جائے تو اندر کی سطح پر شکست و ریخت کے آثار کسی حد تک واضح ہونا شروع ہو گئے تھے۔
Load Next Story