تعارف چند کتابوں کا
پرانی بات ہوگئی، جب آلو گوشت کے سالن میں ڈلے ہرے دھنیے کی خوشبو کئی گھروں تک پھیل جاتی تھی...
پرانی بات ہوگئی، جب آلو گوشت کے سالن میں ڈلے ہرے دھنیے کی خوشبو کئی گھروں تک پھیل جاتی تھی، صرف آلو گوشت ہی کی بات کیوں کی جائے، ہرا دھنیا اپنی مہک کی بدولت قیمہ، شلجم گوشت، اروی گوشت کو بھی خوشبودار بناتا ہے۔ اچھی خوشبو اشتہا بڑھاتی ہے، یوپی اور دلی والے ہرے دھنیے کے بغیر شوربے والے سالنوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن میں نے کہا نا کہ خوشبو والی بات پرانی ہوگئی۔ اب ہرے دھنیے کی پتیوں میں سے وہ مسحور کن مہک نہیں آتی ، نہ ہی پتوں کا رنگ خوش رنگ ہوتا ہے۔ وجہ آپ جاننا چاہیںگے؟ تو سن لیجیے کہ ہرے دھنیے کی پیدائشی خوشبو اور رنگ کو گٹر کا پانی کھا گیا۔ لوکی، ترئی، گوبھی، پالک کی طرح ہرا دھنیا، سویا اور میتھی بھی گٹر کے گندے پانی سے کاشت کی جارہی ہیں۔ ملیر کا علاقہ اس حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ گٹر کے پانی کے ساتھ ساتھ کیڑے مار دوائوں کا اسپرے بھی بہت سی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ باذوق لوگوں نے اب ہرے دھنیے اور پودینے کا استعمال بالکل ترک کردیا ہے کہ خوشبو کی جگہ ناگوار بو سالن کو کھانے کے قابل نہیں رہنے رہتی۔
پھر بھی انسان ہونے کا دعویٰ؟ پوری قوم صرف پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانا، خواہ اس کے لیے دودھ میں پانی اور چاول کے آٹے کی آمیزش کرنی پڑے۔ سبزیوں کو گٹر کے پانی سے پروان چڑھایا جائے۔ ادرک کو وزن بڑھانے کے لیے کیمیکل میں بھگویا جائے۔ جانوروں کے گوشت میں پانی انجکشن کے ذریعے داخل کیا جائے۔ بکرے کے گوشت کے نام پر بھیڑ اور گائے کے نومولود بچوں کا گوشت فروخت کیا جائے۔ مٹھائیوں میں چینی کے بجائے سیکرین کی گولیوں کا استعمال اب عام بات ہے، اسی لیے بڑی سے بڑی دکان کی مٹھائی کھا کر دیکھ لیجیے منہ میں رکھتے ہی نہایت تیز تلخ شیرینی کا احساس ہوتا ہے جو ذائقے میں اچھی نہیں لگتی۔ شوگر کے مریضوں کو دی جانے والی گولیاں اب باقاعدہ مٹھائیوں میں، کیک، بسکٹ، نان خطائی اور دیگر بیکری آئٹم میں استعمال ہو رہی ہیں۔ کچھ بھی اصلی نہیں، سب کچھ جعلی، نقلی اور دو نمبر۔ بڑے بڑے مشہور برانڈ کے شربت اور جوس کو پی کر دیکھیے، چینی کا اصل ذائقہ کہیں نہیں ملے گا۔ اب تک تو صرف جعلی ادیب، شاعر اور لیڈر کا رونا روتے آئے تھے لیکن اب تو کوئی بھی شے اصلی نہیں۔ شاید خودکشی کرنے کے لیے زہر بھی اصلی دستیاب نہیں۔
خیر چھوڑیے! بہت سی کتابیں جمع ہوگئی ہیں۔ سوچ رہی ہوں کہ ان کا تعارف کروا دوں۔ موصولہ کتب اور رسائل میں سب سے پہلے گجرات سے ''تناظر'' کا شمارہ نمبر 2 ڈاک سے ملا۔ اس کے مدیر ایم خالد فیاض ہیں، جن کی انفرادی محنت پرچے میں صاف نظر آتی ہے۔ اس شمارے میں انھوں نے ادب کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ ''اکیسویں صدی میں درپیش اردو ادب کو چیلنج کیا ہیں''۔ دوسری کتاب تسنیم کوثر کا شعری مجموعہ ''سرگوشی'' ہے۔ تسنیم لاہور میں رہتی ہیں۔ معروف افسانہ و سفرنامہ نگار ہیں۔ نثر کے ساتھ ساتھ تسنیم نے شاعری میں بھی ایک مقام پیدا کیا ہے۔ اس سے پہلے ان کا ایک دلچسپ سفرنامہ بھی شایع ہوچکا ہے جو بھارت کے دورے سے متعلق ہے۔ تیسرا سہ ماہی کتابی سلسلہ ''اجراء'' ہے جو اپنے پہلے شمارے سے موجودہ پندرھویں شمارے تک نہایت پابندی سے شایع ہورہا ہے۔
اس کے مدیر احسن سلیم اور سرپرست شاہین نیازی ہیں۔ اس شمارے کا سرورق بھی خاصا جاذب نظر ہے۔ ایک اور کتابی سلسلہ ''پہچان'' الٰہ آباد (بھارت) سے موصول ہوا ہے۔ مجلس ادارت میں زیب النساء سعید اور نعیم اشفاق کے نام شامل ہیں۔ جس کے ساتھ چوہدری ابن النصیر کا ایک خط بھی منسلک ہے۔ یہ شمارہ مجھے ستمبر 2013 میں بھیجا گیا تھا، لیکن یہ چونکہ پرانے پتے پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے مجھے تاخیر سے 22 نومبر کو ملا۔ ''پہچان'' کا یہ آٹھواں شمارہ ہے۔ دسمبر میں نواں شمارہ آنے کی نوید دی گئی ہے۔ گنگا جمنا کے سنگم الٰہ آباد سے ایک اردو پرچے کا نکلنا اور مسلسل آٹھ شمارے شایع ہونا واقعی خوش آیند بات ہے۔ 320 صفحات پہ مشتمل پہچان میں پڑھنے کو بہت سی معیاری تحریریں، نظمیں، غزلیں سب موجود ہیں۔
''چیدہ چیدہ کہانیاں'' سہ ماہی ''روشنائی'' کے مدیر احمد زین الدین کے شخصی خاکوں پہ مشتمل تصنیف ہے۔ جن میں ان کے دوست احباب اور ادبی شخصیات شامل ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر دو خاکے بہت پسند آئے پہلا مشفق خواجہ کا اور دوسرا پروفیسر سحر انصاری کا۔ دونوں خاکے بہت بے ساختہ اور سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں۔ احمد زین الدین نے سحر انصاری کا وہ شعر بھی درج کیا ہے جو ان کی ادبی زندگی کا آئینہ دار ہے اور آج تک وہ اسی کھری سچائی کے ساتھ ادب میں موجود ہیں ۔ شعر آپ بھی سن لیجیے:
فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی باب رعایت سے میں نہیں آیا
خاکوں کی زبان اور انداز بیاں دونوں بہت فطری اور اثر انگیز ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ دل سے نکلی ہوئی بات اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ کالم لکھتے لکھتے کال بیل بجی تو کوریئر والا رفیع الزماں زبیری کی تصنیف کا پیکٹ لیے کھڑا تھا۔ کھولا تو نہایت خوبصورت آرٹ پیپر پہ نہایت سلیقے سے چھپی، تصاویر سے آراستہ کتاب ''اقبال زبیری۔ یادیں اور باتیں'' میرے سامنے تھی جو دراصل رفیع الزماں زبیری کے چھوٹے بھائی اقبال زبیری کی یادوں سے منور ہے۔ جو حضرات پاکستان کی صحافتی تاریخ کا گہرا ادراک اور شعور رکھتے ہیں ان کے لیے اقبال زبیری کا نام بلاشبہ اجنبی نہیں ہوگا۔ وہ اس ملک کے انتہائی باخبر اور باشعور صحافی تھے۔ رفیع الزماں زبیری ان کے صحافتی کیریئر کے بارے میں لکھتے ہیں:
''اقبال نے اپنا صحافتی کیریئر روزنامہ ''تعمیر'' راولپنڈی سے شروع کیا۔ وہ اس اخبار کے سب سے کم عمر سب ایڈیٹر تھے۔ راولپنڈی میں انھوں نے ایک نیا روزنامہ ''ناقوس'' کے نام سے شروع کیا''۔ آگے چل کر لکھتے ہیں:
''ایک وقت ایسا آیا کہ اقبال زبیری کا نام اخبار کی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ وہ بیک وقت چاروں صوبائی دارالحکومتوں سے شایع ہونے والے اخبار ''مشرق'' کے چیف ایڈیٹر اور پھر چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ انھوں نے اس سے پہلے ''کوہستان'' اور بعد میں ''نوائے وقت'' میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ملتان سے ''کوہستان'' کا اجرا اور فوری کامیابی کا سہرا بھی اقبال کے سر ہے''۔
اس کتاب میں شامل پہلا مضمون بھی رفیع الزماں زبیری کا ہے جو انھوں نے ''میرا بھائی'' کے عنوان سے سپرد قلم کیا ہے۔ یہ مضمون اپنے بھائی سے دلی محبت اور عقیدت کا آئینہ دار ہے۔ دوسرے مضامین میں اقبال زبیری کی صاحب زادی محترمہ نیلوفر زبیری، شگفتہ خالد، شائستہ ارشد، شہلا جلیل زبیری کے علاوہ پاکستان کے ممتاز صحافی مجید نظامی، رؤف ظفر اور نثار احمد زبیری کی یادیں بھی شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب، اقبال زبیری کی اہلیہ محترمہ ظفر بانو کے نام کیا گیا ہے۔
پھر بھی انسان ہونے کا دعویٰ؟ پوری قوم صرف پیسے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کمانا، خواہ اس کے لیے دودھ میں پانی اور چاول کے آٹے کی آمیزش کرنی پڑے۔ سبزیوں کو گٹر کے پانی سے پروان چڑھایا جائے۔ ادرک کو وزن بڑھانے کے لیے کیمیکل میں بھگویا جائے۔ جانوروں کے گوشت میں پانی انجکشن کے ذریعے داخل کیا جائے۔ بکرے کے گوشت کے نام پر بھیڑ اور گائے کے نومولود بچوں کا گوشت فروخت کیا جائے۔ مٹھائیوں میں چینی کے بجائے سیکرین کی گولیوں کا استعمال اب عام بات ہے، اسی لیے بڑی سے بڑی دکان کی مٹھائی کھا کر دیکھ لیجیے منہ میں رکھتے ہی نہایت تیز تلخ شیرینی کا احساس ہوتا ہے جو ذائقے میں اچھی نہیں لگتی۔ شوگر کے مریضوں کو دی جانے والی گولیاں اب باقاعدہ مٹھائیوں میں، کیک، بسکٹ، نان خطائی اور دیگر بیکری آئٹم میں استعمال ہو رہی ہیں۔ کچھ بھی اصلی نہیں، سب کچھ جعلی، نقلی اور دو نمبر۔ بڑے بڑے مشہور برانڈ کے شربت اور جوس کو پی کر دیکھیے، چینی کا اصل ذائقہ کہیں نہیں ملے گا۔ اب تک تو صرف جعلی ادیب، شاعر اور لیڈر کا رونا روتے آئے تھے لیکن اب تو کوئی بھی شے اصلی نہیں۔ شاید خودکشی کرنے کے لیے زہر بھی اصلی دستیاب نہیں۔
خیر چھوڑیے! بہت سی کتابیں جمع ہوگئی ہیں۔ سوچ رہی ہوں کہ ان کا تعارف کروا دوں۔ موصولہ کتب اور رسائل میں سب سے پہلے گجرات سے ''تناظر'' کا شمارہ نمبر 2 ڈاک سے ملا۔ اس کے مدیر ایم خالد فیاض ہیں، جن کی انفرادی محنت پرچے میں صاف نظر آتی ہے۔ اس شمارے میں انھوں نے ادب کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں کہ ''اکیسویں صدی میں درپیش اردو ادب کو چیلنج کیا ہیں''۔ دوسری کتاب تسنیم کوثر کا شعری مجموعہ ''سرگوشی'' ہے۔ تسنیم لاہور میں رہتی ہیں۔ معروف افسانہ و سفرنامہ نگار ہیں۔ نثر کے ساتھ ساتھ تسنیم نے شاعری میں بھی ایک مقام پیدا کیا ہے۔ اس سے پہلے ان کا ایک دلچسپ سفرنامہ بھی شایع ہوچکا ہے جو بھارت کے دورے سے متعلق ہے۔ تیسرا سہ ماہی کتابی سلسلہ ''اجراء'' ہے جو اپنے پہلے شمارے سے موجودہ پندرھویں شمارے تک نہایت پابندی سے شایع ہورہا ہے۔
اس کے مدیر احسن سلیم اور سرپرست شاہین نیازی ہیں۔ اس شمارے کا سرورق بھی خاصا جاذب نظر ہے۔ ایک اور کتابی سلسلہ ''پہچان'' الٰہ آباد (بھارت) سے موصول ہوا ہے۔ مجلس ادارت میں زیب النساء سعید اور نعیم اشفاق کے نام شامل ہیں۔ جس کے ساتھ چوہدری ابن النصیر کا ایک خط بھی منسلک ہے۔ یہ شمارہ مجھے ستمبر 2013 میں بھیجا گیا تھا، لیکن یہ چونکہ پرانے پتے پر بھیجا گیا تھا۔ اس لیے مجھے تاخیر سے 22 نومبر کو ملا۔ ''پہچان'' کا یہ آٹھواں شمارہ ہے۔ دسمبر میں نواں شمارہ آنے کی نوید دی گئی ہے۔ گنگا جمنا کے سنگم الٰہ آباد سے ایک اردو پرچے کا نکلنا اور مسلسل آٹھ شمارے شایع ہونا واقعی خوش آیند بات ہے۔ 320 صفحات پہ مشتمل پہچان میں پڑھنے کو بہت سی معیاری تحریریں، نظمیں، غزلیں سب موجود ہیں۔
''چیدہ چیدہ کہانیاں'' سہ ماہی ''روشنائی'' کے مدیر احمد زین الدین کے شخصی خاکوں پہ مشتمل تصنیف ہے۔ جن میں ان کے دوست احباب اور ادبی شخصیات شامل ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر دو خاکے بہت پسند آئے پہلا مشفق خواجہ کا اور دوسرا پروفیسر سحر انصاری کا۔ دونوں خاکے بہت بے ساختہ اور سادہ زبان میں لکھے گئے ہیں۔ احمد زین الدین نے سحر انصاری کا وہ شعر بھی درج کیا ہے جو ان کی ادبی زندگی کا آئینہ دار ہے اور آج تک وہ اسی کھری سچائی کے ساتھ ادب میں موجود ہیں ۔ شعر آپ بھی سن لیجیے:
فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی باب رعایت سے میں نہیں آیا
خاکوں کی زبان اور انداز بیاں دونوں بہت فطری اور اثر انگیز ہیں۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ دل سے نکلی ہوئی بات اپنا ایک اثر رکھتی ہے۔ کالم لکھتے لکھتے کال بیل بجی تو کوریئر والا رفیع الزماں زبیری کی تصنیف کا پیکٹ لیے کھڑا تھا۔ کھولا تو نہایت خوبصورت آرٹ پیپر پہ نہایت سلیقے سے چھپی، تصاویر سے آراستہ کتاب ''اقبال زبیری۔ یادیں اور باتیں'' میرے سامنے تھی جو دراصل رفیع الزماں زبیری کے چھوٹے بھائی اقبال زبیری کی یادوں سے منور ہے۔ جو حضرات پاکستان کی صحافتی تاریخ کا گہرا ادراک اور شعور رکھتے ہیں ان کے لیے اقبال زبیری کا نام بلاشبہ اجنبی نہیں ہوگا۔ وہ اس ملک کے انتہائی باخبر اور باشعور صحافی تھے۔ رفیع الزماں زبیری ان کے صحافتی کیریئر کے بارے میں لکھتے ہیں:
''اقبال نے اپنا صحافتی کیریئر روزنامہ ''تعمیر'' راولپنڈی سے شروع کیا۔ وہ اس اخبار کے سب سے کم عمر سب ایڈیٹر تھے۔ راولپنڈی میں انھوں نے ایک نیا روزنامہ ''ناقوس'' کے نام سے شروع کیا''۔ آگے چل کر لکھتے ہیں:
''ایک وقت ایسا آیا کہ اقبال زبیری کا نام اخبار کی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ وہ بیک وقت چاروں صوبائی دارالحکومتوں سے شایع ہونے والے اخبار ''مشرق'' کے چیف ایڈیٹر اور پھر چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ انھوں نے اس سے پہلے ''کوہستان'' اور بعد میں ''نوائے وقت'' میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ملتان سے ''کوہستان'' کا اجرا اور فوری کامیابی کا سہرا بھی اقبال کے سر ہے''۔
اس کتاب میں شامل پہلا مضمون بھی رفیع الزماں زبیری کا ہے جو انھوں نے ''میرا بھائی'' کے عنوان سے سپرد قلم کیا ہے۔ یہ مضمون اپنے بھائی سے دلی محبت اور عقیدت کا آئینہ دار ہے۔ دوسرے مضامین میں اقبال زبیری کی صاحب زادی محترمہ نیلوفر زبیری، شگفتہ خالد، شائستہ ارشد، شہلا جلیل زبیری کے علاوہ پاکستان کے ممتاز صحافی مجید نظامی، رؤف ظفر اور نثار احمد زبیری کی یادیں بھی شامل ہیں۔ کتاب کا انتساب، اقبال زبیری کی اہلیہ محترمہ ظفر بانو کے نام کیا گیا ہے۔