پیار کی بولی
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ہے کہ ’’جس طرح شبنم کے قطرے مرجھائے ہوئے پھول کو تازگی بخشتے ہیں...
SUKKUR:
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ہے کہ ''جس طرح شبنم کے قطرے مرجھائے ہوئے پھول کو تازگی بخشتے ہیں اسی طرح اچھے الفاظ مایوس دلوں کو روشنی بخشتے ہیں'' اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو اپنی تندوتیز باتوں کے تیر سے دل میں چھید کر دیتے ہیں اور یہ زخم اتنے گہرے اور زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ گھر ہو، دفتر ہو یا پھر سیاست کے میدان میں ہی دیکھ لیں ہر کوئی تیر کمان لیے کھڑا ہے اسی طرح سے ہمارے معزز مذہبی رہنما بھی۔ ہمارے ایک ساتھی ایک ٹی وی چینل میں کام کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہوتے ہیں ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں ہنسی مذاق کرتے ہیں جیسے ہی کیمرے کی روشنیاں پڑتی ہیں اور اشارہ ملتا ہے وہ تصویریں ہی بدل جاتی ہیں کچھ ایسا ہی حال ہمارے گھروں میں بھی دیکھا گیا ہے یعنی بہوئیں یا ساس جیسے ہی بیٹے یا شوہر حضرات نے گھر میں قدم رکھا یا تو اپنی بیماریاں لے کر ایک کونے میں پڑ جاتی ہیں یا کام کاج میں ایسے جڑ جاتی ہیں کہ جیسے فرصت کا ایک پل بھی دستیاب نہیں ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی اچھے الفاظ کی اور پہنچ گئی ایوانوں سے باورچی خانوں تک۔ اچھے الفاظ واقعی مایوس دلوں کو روشنی بخشتے ہیں اسی لیے پروردگار نے ہمیں دعا مانگنے کی خوبصورت نعمت سے نوازا ہے ہم تکلیف سے تڑپ رہے ہوتے ہیں اور اپنے مالک سے سکون مانگتے ہیں یہ ایک قدرتی خوبصورت سی ایکویشن ہے جس سے بے قرار دلوں کو قرار مل جاتا ہے، لیکن بہت سے ایسے بھی لوگ ہیں اس جہان میں جنھیں اپنے خیالات و احساسات کی ترجمانی کے لیے وہ اعضاء ہی نہیں کہ جس سے ان کو قرار آ جائے پھر بھی پروردگار نے ان کے لیے ایک نظام رکھا ہے ذرا ان ذہنی طور پر مفلوج لوگوں کی جانب دیکھیے آپ انھیں دیکھ کر خودبخود رب العزت کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
کچھ عرصہ قبل ذہنی طور پر بیمار بچوں کے ایک مرکز جانے کا اتفاق ہوا تھا اور پھر دل سے اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور اظہار کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں عطا کیا پھر بھی ہم بندے کتنے ناشکرے ہیں اپنے ان خواص کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور غرور سے اکڑتے ہیں حالانکہ یہ تو اولین نعمت میں شمار کی جاتی ہیں کہ رب العزت نے ہمیں دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، بولنے کے لیے زبان اور چلنے پھرنے کے لیے پیروں جیسی نعمت سے نوازا۔ سمجھنا، سوچنا اور پھر اپنی عقل سے عمل کرنا فیصلے کرنا دوسروں کو اپنی عقلمندی کے جواہر سے فیض یاب کرنا یہ سب نعمتیں ہی تو ہیں جسے ایک جسم کے پیکیج کے ساتھ ہمیں بخشا ہے شکل و صورت سے نوازا اور اتنا کچھ کہ بیان کرتے کرتے شاید صفحات بھر جائیں لیکن دوسری جانب ان لوگوں کی طرف دیکھیے ان کو بھی رب العزت نے اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ان کے پاس وہ زمین وہ عقل و شعور کے مناسب خانے ہی نہیں کہ جس کے ذریعے وہ ایک عام صحت مند انسان کی طرح اپنی روز مرہ کی زندگی گزار سکے۔
عید کے بعد ہم پرانے دوست مل کر بیٹھتے ہیں اور اسی طرح دوستی کے پرانے رشتے آج بھی مضبوط ہیں۔ سینئر جونیئرز سب ساتھی بزم طلبا کے پلیٹ فارم کے ہیں اس بار مل بیٹھنے کی اس تقریب سے پہلے ایسے ہی ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اکثر کسی نہ کسی وجہ سے یہ موقع رہ جاتا تھا لیکن اس بار سوچا کہ اب کی بار ضرور شرکت کی جائے شہر کے اچھے پوش علاقے میں قائم یہ مرکز اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ایسے ذہنی طور پر مغرور بچوں اور بڑوں کو سمیٹے بیٹھا ہے ہمارا استقبال جن خاتون نے کیا وہ خود بھی اسی مرکز کی ایک مریضہ تھیں جو اب قدرے صحت مند تھیں خیر سے اتنی سمجھدار تھیں کہ انھیں ایک عام گھریلو خاتون کے مقابلے میں خاصا شعور تھا کہ کس سے کیا بات کس انداز میں کرنی چاہیے۔
یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا بہرحال اچھی خاصی انگریزی میں گفتگو کرتی وہ خاتون بار بار یہ ظاہر کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ بالکل نارمل ہے اور اگر اس ادارے کی ایک مددگار نہ بتاتی کہ یہ خاتون خود بھی یہاں کی مریض ہے اور یہیں رہتی ہے لیکن دوسرے مریضوں کے مقابلے میں خاصی سمجھدار ہے تو شاید یہ بات ہمیں محسوس ہی نہ ہوتی۔ وہ خاتون ہمیں پورے مرکز کا دورہ کرواتی رہی اور معلومات فراہم کرتی رہی۔ ذہنی طور پر معذور بچے اپنے اپنے بستروں پر پڑے حسرت و یاس سے دیواریں گھور رہے تھے ایک بچی نجانے کیوں مستقل روئے جا رہی تھی غالباً اس کی عمر دس آٹھ برس کی تھی ایک ہی انداز سے وہ مستقل بار بار اپنے آہنی بستر کی سلاخوں سے سر ٹکرا رہی تھی۔ ہمارے ایک ساتھی جو ویسے تو اچھے خاصے بڑے دل کے ہیں ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ان بچوں کی حالت دیکھ کر گو ادارے نے کسی قسم کی کمی نہ چھوڑی تھی پر رب العزت نے جن محرومیوں سے ان بچوں کو نوازا تھا اس پر کسی بھی انسان کی آنکھیں بھیگ جانا ایک فطری عمل ہے۔
ان ہی بچوں کے ساتھ ایک کھچڑی بالوں والی خاتون بھی تھیں جنھیں نجانے کن وجوہات کی بنا پر اس وارڈ میں رکھا گیا تھا ان سے سلام علیک ہوئی تو انھوں نے جلد محبت سے ہمارا ہاتھ تھام لیا ان کی آنکھوں سے محبت کے سوتے یوں پھوٹ رہے تھے جیسے کوئی بچھڑا عزیز ہو اور پھر تھوڑی ہی دیر میں انھیں کچھ احساس ہوا شاید اپنی کسی کم مائیگی کا اور انھوں نے شستہ انگریزی میں گفتگو شروع کر دی ۔ اس بات کا ادراک تو پہلے ہی تھا کہ ہمارے ملک میں انگریزی زبان اسٹیٹس سمبل بن چکی ہے لیکن ذہنی طور پر معذور افراد کا یہ رویہ ایک نیا ہی تجربہ تھا۔ دوست احباب اپنے ساتھ ان بچوں کے لیے چاکلیٹس، کھلونے وغیرہ لے کر آئے تھے ہم نے ان میں وہ تقسیم کیں۔ ایک بات جو شدت سے محسوس کی کہ وہ اس ادارے کی چھت کے نیچے شب و روز گزار رہے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے دل سے اپنے گھر والوں کی محبت کی یادیں مندمل نہیں ہوئیں وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز سے اپنے گھر والوں کا بھرم رکھ رہے تھے کہ ان کے گھر والے ان سے کتنا پیار کرتے ہیں، انھیں کتنا چاہتے ہیں۔
انسان کا مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ محبت کا بھوکا ہوتا ہے محبت، چاہت کے دو بول اگر انھیں مل جائیں تو وہ اپنی محبت نچھاور کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اب بہت تبدیلی آ چکی ہے ہم فالتو سامان فوراً پھینک دینے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے معذوروں کو اس تیز رفتار زمانے میں فالتو سامان کی سی حیثیت تو رکھتے ہیں جہاں اب اپنے گھر کے بزرگوں کو بھی اولڈ ہوم بھیج کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں اور پھر ہم آپ جیسے غیر متعلقہ لوگ جن کا ان لوگوں سے کوئی رشتہ کوئی ناطہ نہیں ہوتا بس ان کے دکھ پر آنسو بہا لیتے ہیں اور تحفے تحائف بانٹ کر اپنا دل ہلکا کر لیتے ہیں کہ ہم نے ثواب کا کام کر لیا۔ بہرحال ہمارے اچھے محبت بھرے الفاظ کی ضرورت صرف ذہنی معذور افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے بزرگ، بچے، نوکر اور ساتھ کام کرنے والے اور ماتحت افراد بھی انسانوں کی اس فہرست میں شامل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم پیار محبت کے ایسے سوتے بہا دیں کہ جس سے زندگی کے کاموں میں بگاڑ شروع ہو جائے۔ لیکن تیوری کے بل ذرا کم کر کے تو دیکھیے کہ ایک خوبصورت مسکراتی نعمتوں سے بھرپور دنیا آپ کی منتظر ہے جو آپ کو اپنے بل کے پیچھے نظر ہی نہیں آئی تھی اور اگر یہ زندگی کی گاڑی یوں ہی گزر گئی تو بقول شاعر:
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا ہے کہ ''جس طرح شبنم کے قطرے مرجھائے ہوئے پھول کو تازگی بخشتے ہیں اسی طرح اچھے الفاظ مایوس دلوں کو روشنی بخشتے ہیں'' اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو اپنی تندوتیز باتوں کے تیر سے دل میں چھید کر دیتے ہیں اور یہ زخم اتنے گہرے اور زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ گھر ہو، دفتر ہو یا پھر سیاست کے میدان میں ہی دیکھ لیں ہر کوئی تیر کمان لیے کھڑا ہے اسی طرح سے ہمارے معزز مذہبی رہنما بھی۔ ہمارے ایک ساتھی ایک ٹی وی چینل میں کام کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہوتے ہیں ایک ساتھ کھاتے پیتے ہیں ہنسی مذاق کرتے ہیں جیسے ہی کیمرے کی روشنیاں پڑتی ہیں اور اشارہ ملتا ہے وہ تصویریں ہی بدل جاتی ہیں کچھ ایسا ہی حال ہمارے گھروں میں بھی دیکھا گیا ہے یعنی بہوئیں یا ساس جیسے ہی بیٹے یا شوہر حضرات نے گھر میں قدم رکھا یا تو اپنی بیماریاں لے کر ایک کونے میں پڑ جاتی ہیں یا کام کاج میں ایسے جڑ جاتی ہیں کہ جیسے فرصت کا ایک پل بھی دستیاب نہیں ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی اچھے الفاظ کی اور پہنچ گئی ایوانوں سے باورچی خانوں تک۔ اچھے الفاظ واقعی مایوس دلوں کو روشنی بخشتے ہیں اسی لیے پروردگار نے ہمیں دعا مانگنے کی خوبصورت نعمت سے نوازا ہے ہم تکلیف سے تڑپ رہے ہوتے ہیں اور اپنے مالک سے سکون مانگتے ہیں یہ ایک قدرتی خوبصورت سی ایکویشن ہے جس سے بے قرار دلوں کو قرار مل جاتا ہے، لیکن بہت سے ایسے بھی لوگ ہیں اس جہان میں جنھیں اپنے خیالات و احساسات کی ترجمانی کے لیے وہ اعضاء ہی نہیں کہ جس سے ان کو قرار آ جائے پھر بھی پروردگار نے ان کے لیے ایک نظام رکھا ہے ذرا ان ذہنی طور پر مفلوج لوگوں کی جانب دیکھیے آپ انھیں دیکھ کر خودبخود رب العزت کا شکر ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
کچھ عرصہ قبل ذہنی طور پر بیمار بچوں کے ایک مرکز جانے کا اتفاق ہوا تھا اور پھر دل سے اپنے پروردگار کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں سوچنے سمجھنے اور اظہار کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں عطا کیا پھر بھی ہم بندے کتنے ناشکرے ہیں اپنے ان خواص کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور غرور سے اکڑتے ہیں حالانکہ یہ تو اولین نعمت میں شمار کی جاتی ہیں کہ رب العزت نے ہمیں دیکھنے کے لیے آنکھیں، سننے کے لیے کان، بولنے کے لیے زبان اور چلنے پھرنے کے لیے پیروں جیسی نعمت سے نوازا۔ سمجھنا، سوچنا اور پھر اپنی عقل سے عمل کرنا فیصلے کرنا دوسروں کو اپنی عقلمندی کے جواہر سے فیض یاب کرنا یہ سب نعمتیں ہی تو ہیں جسے ایک جسم کے پیکیج کے ساتھ ہمیں بخشا ہے شکل و صورت سے نوازا اور اتنا کچھ کہ بیان کرتے کرتے شاید صفحات بھر جائیں لیکن دوسری جانب ان لوگوں کی طرف دیکھیے ان کو بھی رب العزت نے اپنی بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ان کے پاس وہ زمین وہ عقل و شعور کے مناسب خانے ہی نہیں کہ جس کے ذریعے وہ ایک عام صحت مند انسان کی طرح اپنی روز مرہ کی زندگی گزار سکے۔
عید کے بعد ہم پرانے دوست مل کر بیٹھتے ہیں اور اسی طرح دوستی کے پرانے رشتے آج بھی مضبوط ہیں۔ سینئر جونیئرز سب ساتھی بزم طلبا کے پلیٹ فارم کے ہیں اس بار مل بیٹھنے کی اس تقریب سے پہلے ایسے ہی ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اکثر کسی نہ کسی وجہ سے یہ موقع رہ جاتا تھا لیکن اس بار سوچا کہ اب کی بار ضرور شرکت کی جائے شہر کے اچھے پوش علاقے میں قائم یہ مرکز اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ایسے ذہنی طور پر مغرور بچوں اور بڑوں کو سمیٹے بیٹھا ہے ہمارا استقبال جن خاتون نے کیا وہ خود بھی اسی مرکز کی ایک مریضہ تھیں جو اب قدرے صحت مند تھیں خیر سے اتنی سمجھدار تھیں کہ انھیں ایک عام گھریلو خاتون کے مقابلے میں خاصا شعور تھا کہ کس سے کیا بات کس انداز میں کرنی چاہیے۔
یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا بہرحال اچھی خاصی انگریزی میں گفتگو کرتی وہ خاتون بار بار یہ ظاہر کرنا چاہ رہی تھی کہ وہ بالکل نارمل ہے اور اگر اس ادارے کی ایک مددگار نہ بتاتی کہ یہ خاتون خود بھی یہاں کی مریض ہے اور یہیں رہتی ہے لیکن دوسرے مریضوں کے مقابلے میں خاصی سمجھدار ہے تو شاید یہ بات ہمیں محسوس ہی نہ ہوتی۔ وہ خاتون ہمیں پورے مرکز کا دورہ کرواتی رہی اور معلومات فراہم کرتی رہی۔ ذہنی طور پر معذور بچے اپنے اپنے بستروں پر پڑے حسرت و یاس سے دیواریں گھور رہے تھے ایک بچی نجانے کیوں مستقل روئے جا رہی تھی غالباً اس کی عمر دس آٹھ برس کی تھی ایک ہی انداز سے وہ مستقل بار بار اپنے آہنی بستر کی سلاخوں سے سر ٹکرا رہی تھی۔ ہمارے ایک ساتھی جو ویسے تو اچھے خاصے بڑے دل کے ہیں ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ان بچوں کی حالت دیکھ کر گو ادارے نے کسی قسم کی کمی نہ چھوڑی تھی پر رب العزت نے جن محرومیوں سے ان بچوں کو نوازا تھا اس پر کسی بھی انسان کی آنکھیں بھیگ جانا ایک فطری عمل ہے۔
ان ہی بچوں کے ساتھ ایک کھچڑی بالوں والی خاتون بھی تھیں جنھیں نجانے کن وجوہات کی بنا پر اس وارڈ میں رکھا گیا تھا ان سے سلام علیک ہوئی تو انھوں نے جلد محبت سے ہمارا ہاتھ تھام لیا ان کی آنکھوں سے محبت کے سوتے یوں پھوٹ رہے تھے جیسے کوئی بچھڑا عزیز ہو اور پھر تھوڑی ہی دیر میں انھیں کچھ احساس ہوا شاید اپنی کسی کم مائیگی کا اور انھوں نے شستہ انگریزی میں گفتگو شروع کر دی ۔ اس بات کا ادراک تو پہلے ہی تھا کہ ہمارے ملک میں انگریزی زبان اسٹیٹس سمبل بن چکی ہے لیکن ذہنی طور پر معذور افراد کا یہ رویہ ایک نیا ہی تجربہ تھا۔ دوست احباب اپنے ساتھ ان بچوں کے لیے چاکلیٹس، کھلونے وغیرہ لے کر آئے تھے ہم نے ان میں وہ تقسیم کیں۔ ایک بات جو شدت سے محسوس کی کہ وہ اس ادارے کی چھت کے نیچے شب و روز گزار رہے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے دل سے اپنے گھر والوں کی محبت کی یادیں مندمل نہیں ہوئیں وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز سے اپنے گھر والوں کا بھرم رکھ رہے تھے کہ ان کے گھر والے ان سے کتنا پیار کرتے ہیں، انھیں کتنا چاہتے ہیں۔
انسان کا مذہب چاہے کوئی بھی ہو وہ محبت کا بھوکا ہوتا ہے محبت، چاہت کے دو بول اگر انھیں مل جائیں تو وہ اپنی محبت نچھاور کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اب بہت تبدیلی آ چکی ہے ہم فالتو سامان فوراً پھینک دینے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے معذوروں کو اس تیز رفتار زمانے میں فالتو سامان کی سی حیثیت تو رکھتے ہیں جہاں اب اپنے گھر کے بزرگوں کو بھی اولڈ ہوم بھیج کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں اور پھر ہم آپ جیسے غیر متعلقہ لوگ جن کا ان لوگوں سے کوئی رشتہ کوئی ناطہ نہیں ہوتا بس ان کے دکھ پر آنسو بہا لیتے ہیں اور تحفے تحائف بانٹ کر اپنا دل ہلکا کر لیتے ہیں کہ ہم نے ثواب کا کام کر لیا۔ بہرحال ہمارے اچھے محبت بھرے الفاظ کی ضرورت صرف ذہنی معذور افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے بزرگ، بچے، نوکر اور ساتھ کام کرنے والے اور ماتحت افراد بھی انسانوں کی اس فہرست میں شامل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم پیار محبت کے ایسے سوتے بہا دیں کہ جس سے زندگی کے کاموں میں بگاڑ شروع ہو جائے۔ لیکن تیوری کے بل ذرا کم کر کے تو دیکھیے کہ ایک خوبصورت مسکراتی نعمتوں سے بھرپور دنیا آپ کی منتظر ہے جو آپ کو اپنے بل کے پیچھے نظر ہی نہیں آئی تھی اور اگر یہ زندگی کی گاڑی یوں ہی گزر گئی تو بقول شاعر:
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارہ