فوج کے نئے سربراہ کو غیر معمولی چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا

آرمی چیف کا عہدہ پاکستان کے مضبوط ترین مناصب میں سے ایک ہے۔

اس عہدے پر کسی فرد کی تعیناتی سے پہلے پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہوتی ہے کہ کون بنے گا نیا آرمی چیف ہو گا؟ فوٹو: فائل

وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو ملک کی بری فوج کا نیا سربراہ اور جنرل راشد محمود کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا چیئرمین مقرر کرکے قریباً ایک ماہ سے جاری سسپنس کا خاتمہ کردیا۔

آرمی چیف کا عہدہ پاکستان کے مضبوط ترین مناصب میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہدے پر کسی فرد کی تعیناتی سے پہلے پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہوتی ہے کہ کون بنے گا نیا آرمی چیف؟

دونوں لیفٹیننٹ جنرلزکو فور سٹار جنرل بناتے ہوئے وزیر اعظم نے سینیارٹی نہیں میرٹ کومدنظر رکھا ہے۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ اس فیصلے میں موجودہ آرمی چیف کا مشورہ بھی شامل تھا۔ جنرل راحیل شریف سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔ وہ بری فوج کے 15ویں سربراہ ہوں گے اور کل بطور آرمی چیف کمان سنبھالیں گے۔

فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل راحیل شریف 1956ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے، 1976ء میں فرنٹیرکوررجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف بننے سے قبل انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اؤالوایشن کے عہدے پر فائز تھے۔ اس سے قبل وہ کور کمانڈر گوجرانوالہ اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے کمانڈنٹ کے عہدوں پر بھی کام کر چکے ہیں۔ جنرل راحیل1971ء کی پاک بھارت جنگ میں نشانِ حیدر پانے والے میجر شبیر شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کے والد بھی فوجی تھے۔وہ یکم اکتوبر 2017ء کو ریٹائرہوں گے۔

جنرل راحیل شریف بنیادی طور پر اپنے کام سے کام رکھنے والے آدمی ہیں۔ 35 سالہ کیریئر میں ان کا کوئی بیان خبروں کا حصہ نہیں بنا۔ انھیں سیاست سے کوئی غرض نہیں،فوج کے علاوہ باقی دنیا سے ان کے تعلقات تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ شاید یہی پہلو ان کے انتخاب کا سبب بنا۔ایک غیرملکی خبررساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے والد اور وزیراعظم میاں نوازشریف کے والد کے آپس میں اچھے تعلقات تھے، اسی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی جنرل(ر) عبدالقادربلوچ کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ وہ جنرل راحیل پر بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔

نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود اس سے قبل چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر فائز تھے اور کور کمانڈر لاہور رہ چکے ہیں۔وہ آئی ایس آئی میں انسداد دہشت گردی کے ایک خصوصی سیل میں بھی کام کرتے رہے ہیں،سابق صدرمحمدرفیق تارڑ کے ملٹری سیکرٹری کے طورپر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ وہ 9اپریل2017ء کو ریٹائر ہوں گے۔



جنرل کیانی نے جب کمان سنبھالی تھی ، تب اور اب کے حالات اور چیلنجز میں زیادہ فرق نہیں ہے،افغانستان میں امریکی جنگ اور پاکستان میں عسکریت پسندی جیسے چیلنجز۔ اب بھی موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نئی فوجی قیادت اس تناظر میں حکمت عملی میں تبدیلی چاہے گی یا پرانی پالیسی کے تسلسل کو ہی ترجیح دے گی؟ اب تک حکومتی بیانات سے ظاہرہوتا ہے کہ حکومت امن مذاکرات کی راہ پر چلنا چاہتی ہے تاہم کچھ حلقے اب بھی قبائلی علاقوں میں آپریشنزکے حامی ہیں۔ جنرل کیانی حکومتی کوششوں کے ساتھ تھے۔

جنرل راحیل شریف نے ملکی سرحدوں کے اندر درمیانے درجے کی لڑائیاں لڑنے کے لئے فوج کی تیاری کے عمل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اس لئے ماہرین کو یقین ہے کہ ان کے دور میں پاکستانی آرمی دنیا کی جدیدافواج کی صف میں زیادہ بہتر جگہ حاصل کرے گی۔ وہ ملک کے اندر اور باہر درپیش چیلنجز سے بخوبی نمٹے گی۔ یہ امید بھی ہے کہ وہ فوج کو ملکی سیاست سے مزید دور لے جاکر اس کے وقار میں اضافہ کریں گے۔

جنرل کیانی کا کیرئیر
جنرل اشفاق پرویز کیانی چھ سال تک بری فوج کے سربراہ رہے۔


اپریل 1952ء کو گوجرخان (ضلع جہلم) کے کیانی خاندان سے تعلق رکھنے والے جنرل کیانی نے1971ء میں پاکستان آرمی کی بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔اس سے قبل وہ ملٹری کالج جہلم میں پڑھتے رہے۔فوج میں خدمات کے دوران وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور امریکہ کے جنرل سٹاف کالج فورٹ لؤنورتھ میں بھی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انھیں انفینٹری بٹالین کی کمان سے لے کر کورکمانڈ کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ 2001-2ء میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت کشیدگی تھی اس وقت وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تعینات رہے۔



بعدازاںپاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہے۔8 اکتوبر 2007ء کو وائس چیف آف آرمی اسٹاف مقررہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے فوج سے ریٹائرہونے سے قبل جنرل کیانی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔

28 نومبر 2008ء کو صدر مشرف کے وردی اتارنے کے ساتھ ہی راولپنڈی میں ایک رنگا رنگ تقریب میں جنرل کیانی چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز ہو گئے، جہاں مشرف نے چیف کی چھڑی کیانی کو تھما دی۔ وہ پاکستان آرمی کے چودھویں سربراہ تھے۔ ایک سابق نان کمیشنڈ فوجی افسر کے بیٹے اشفاق پرویز کیانی کو فوج میں ایک پیشہ ور جنرل کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔

پاکستان کے سابقہ آرمی چیفس
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی دور میں فوجی سربراہ برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔

برطانیہ کے سر فرینک والٹر میسروی پاک فوج کے پہلے سربراہ تھے، وہ اگست 1947ء سے فروری 1948ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ پاکستان کے دوسرے فوجی سربراہ جنرل ڈگلس ڈؤی گریسی تھے، جنہوں نے فروری 1948ء سے اپریل1951ء تک پاک فوج کی قیادت کی۔تیسرے آرمی چیف فیلڈ مارشل محمد اؤب خان 17 جنوری 1951ء سے 26 اکتوبر 1958ء تک (تقریباً ساڑھے7 سال) اس عہدے پر تعینات رہے۔ پاک فوج کے چوتھے سربراہ جنرل محمد موسیٰ نے27 اکتوبر 1958ء سے 17 ستمبر 1966ء تک اس عہدے پر خدمات انجام دیں۔

جنرل محمد یحییٰ خان ملک کے پانچویں آرمی چیف تھے، جنہوں نے 18ستمبر 1966ء سے 20دسمبر 1971ء تک اپنے فرائض ادا کیے۔ چھٹے آرمی چیف جنرل گل حسن نے22 جنوری 1972ء کو اپنا عہدہ سنبھالا اور 2 مارچ 1972ء تک صرف ڈیڑھ مہینے تک پاک فوج کے سربراہ رہے۔ ساتویں آرمی چیف جنرل ٹکا خان 3مارچ 1972ء سے یکم مارچ 1976ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ملک کے آٹھویں فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق یکم مارچ 1976ء سے 17 اگست 1988ء تک ساڑھے بارہ سال کے طویل عرصے تک اس منصب پر فائز رہے۔

جنرل ضیا الحق نے1977ء میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا تھا۔ 17اگست کو فوجی طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق اور کئی اہم فوجی افسران کے جاں بحق ہو جانے کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ 17 اگست 1988ء سے لے کر 16 اگست 1991ء تک پاکستان کے نویں آرمی چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ دسویں فوجی سربراہ تھے، جنہوں نے 16 گست 1991ء سے 8جنوری 1993ء تک بطور آرمی چیف خدمات انجام دیں۔

گیارھویں فوجی سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ 12 جنوری 1993ء سے 12 جنوری 1996ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دور میں صدرغلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان شدید اختلافات کی وجہ سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران میں جنرل کاکڑ نے مداخلت کی اور دونوں کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ پاک فوج کے بارہویں سربراہ جنرل جہانگیر کرامت 12جنوری1996ء سے 7اکتوبر 1998ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جنرل جہانگیر کرامت نے سول حکومت سے اختلافات پر استعفیٰ دیا تھا۔

پاکستان کے تیرھویں فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف7 اکتوبر 1998ء سے 28نومبر2007ء (9سال) تک اس منصب پر فائز رہے، انہوں نے چیف ایگزیکٹؤ اور صدر کے عہدے بھی سنبھالے۔ 12 اکتوبر1999ء کو پرویز مشرف نے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ پرویز مشرف کے بعد جنرل کیانی نے فوج کی کمان سنبھالی تھی۔
Load Next Story