دہشت گردی کے اثرات و خدشات
اللہ رب العزت نے نظام قدرت کی بہتری کے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا اور نبی محترم حضرت محمد ﷺ کو...
اللہ رب العزت نے نظام قدرت کی بہتری کے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا اور نبی محترم حضرت محمد ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا تا کہ احکام الٰہی کو قائم کیا جا سکے۔ چالیس برس تک نبی مہربان ﷺ امانت و دیانت اور صبر و تحمل کا پیکر بن کر اسلام کی بنیادیں تعمیر کرتے رہے۔ کفار نبوت کے انکاری تھے لیکن ان کی سیرت سے قطعی منکر نہ تھے۔ انکار کرنے کی بنیادی وجہ ان کا خاندانی وقار تھا وگرنہ ابو جہل بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم کی تلاوت سنتا تھا لیکن اپنی ہٹ دھرمی کے باعث ایمان افروز زندگی سے بہرہ ور نہ ہو سکا۔ نبی ﷺ نے اعلان نبوت سے وصال تک دین کی تبلیغ اور اس کی ترویج کے لیے صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ حکم الٰہی کے مطابق جنگیں بھی کیں مگر جنگیں بھی ایسی کہ دنیا میں ایسی انمٹ مثالیں قائم کیں ان کے اثرات ان جنگوں کے بعد مثبت نتائج کی صورت نمایاں ہوئے اور بے شمار قبائل دین اسلام کے سائے تلے آئے اور اپنی زندگیاں سنوار گئے۔
قانون اسلام نے معاشرے میں مساوات کا نظام نافذ کیا اور لوگوں کو عزت و احترام دیا اور ہر شخص محترم ہو گیا جب کہ عجمی کو عربی اور عربی کو عجمی پر فوقیت ختم کر دی البتہ بااخلاق فرد اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونا قرار پایا۔ اسی اعتبار سے معیشت، معاشرت اور سیاست کو خدا کی مرضی کے تابع کر دیا۔ خاندان سے لے کر حکومت و ریاست کے ہر شعبے کو عدل و انصاف کی اعلیٰ بنیادوں پر استوار کیا یعنی دین اسلام نے ایسا بے لاگ قانون دیا جس نے شاہ و گدا کا فرق مٹا دیا اور مظلوم کو پورا حق دیا کہ ظالم چاہے کسی بھی طرح سے بااثر کیوں نہ ہو سزا سے نہیں بچ سکتا۔ اس کے ضابطے میں کمزور سے کمزور انسان بھی خود کو محفوظ سمجھتا ہے اور طاقتور کو دست درازی کرتے ہوئے ہزار بار سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد نبوت پر مہر ثبت کر دی گئی اور تاقیامت نبوت کے دعویدار سزا کے مستحق ٹہرے لیکن بدقسمتی کہ وصال پیغبر ﷺ کے نہ صرف بعد نبوت کے دعویدار پیدا ہوئے بلکہ ملوکیت نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا اور پھر 61 ھجری میں کربلا کا واقعہ پیش آیا جو اقتدار سے اسلام کی جنگ کا سبب بنا اور اہل بیت نے کسمپرسی کے باوجود دین اسلام کی خون سے آبیاری کی۔ اس واقعے نے اسلام کو تاریخی کامیابی دی اور زمانہ کہہ اٹھا کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔
ملت جعفریہ محرم الحرام کے پہلے عشرہ کو حسین اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ایام عزاء قرار دیتی ہے۔ ان ایام عزاء میں مختلف چھوٹے بڑے علاقوں کے علاوہ مرکزی سطح پر مجالس عزاء برپا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں ماتمی جلوس عرصہ دراز سے کراچی شہر کی مشہور شاہراہوں سے گزرتے ہیں۔
محرم الحرام کا آغاز ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ آزمائش کا حامل ہوتا ہے حفاظتی اقدامات کی ضرورت بھی سال گزشتہ سے زیادہ محسوس کی جاتی ہے جب کہ چند برس قبل صورتحال اس سے کہیں مختلف تھی۔ عزاء دار اپنی مذہبی سرگرمیوں کو بلا خوف و خطر انجام دیتے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس قدر مشکلات درپیش نہ تھیں جس قدر اب ہیں۔ 2009ء میں عاشورہ کے جلوس پر حملہ نے نہ صرف عزاداروں میں خوف و ہراس کی فضاء قائم کی بلکہ عام شہری بھی عدم تحفظ کا شکار ہوئے۔ امام بارگاہوں اور عزاخانوں میں اس سے قبل معمولی نوعیت کے واقعات رونما ہوتے رہے لیکن اس واقعے نے صورتحال انتہائی کشیدہ کر ڈالی۔ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ نے بہتری کے لیے موثر اقدامات اور جامع حکمت عملی اپنائی لیکن واقعات بہر کیف ہوتے رہے اور امام حسین کے چالیسویں کے موقعے پر دہشت گردی کے واقعات دیکھے گئے۔ بعد ازاں انھوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عزاداری کو محدود کرنے کا عندیہ دیا جسے اہل جعفریہ نے یکسر مسترد کر دیا۔
مملکت خدا داد پاکستان کے قیام کا مقصد تھا کہ یہاں لوگ مذہبی آزادی پائیں اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کریں لیکن مذہبی دہشت گردی و انتہا پسندی نے مسلمانوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس کی واضح مثال پشاور میں گرجا گھر میں دھماکا ہے، جس میں نہ صرف کئی جانیں ضایع ہوئیں بلکہ عالمی سطح پر ملکی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔
محرم الحرام کے آغاز سے قبل سیکیورٹی خدشات کو ختم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ رواں سال بھی صورتحال کی خرابی کا اندیشہ تھا اور اس جانب کوشش بھی کی گئی ۔1434ء ھجری کے آخری دو ایام سنگین صورتحال سے دوچار رہے ۔29 ذوالحج کو ایف بی ایریا انچولی کے تھانے کی حدود میں تین افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا جن کا تعلق فقہ جعفریہ تھا اور اسی روز اعظم قبرستان کے قریب ذوالجناح کو سیر کرانے والے شخص پر فائرنگ کی گئی جس سے وہ ذوالجناح سمیت ہلاک ہوا معمول کے مطابق واقعے کے بعد جلائو گھیرائو اور ہنگامہ آرائی کی گئی۔ وحدت المسلمین کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری مولانا سید صادق رضا نقوی نے اسے حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کی نااہلی قرار دیتے ہوئے واقعے کی مذمت کی جب کہ اگلے روز کورنگی انڈسٹریل ایریا میں فائرنگ کے دو واقعات میں اہل سنت کے تین کارکن مارے گئے۔ کراچی پولیس چیف شاہد حیات نے یکم محرم کو ایک پریس بریفنگ میں واقعات کے پس پردہ عناصر کی نشاندہی کی لیکن دہشت گردی تھمی نہیں اور پہاڑ گنج کے علاوہ ناگن چورنگی میں دھماکے کیے گئے جو انتہائی نوعیت کے نہیں تھے مگر ان سے کراچی کی پر امن فضاء بہر حال سراسیمگی کا شکار ضرور ہوئی۔ دوسری جانب گوجرانوالہ میں نمازیوں پر فائرنگ نے ملک میں کسی بڑے واقعے کے رونما ہونے کا خدشہ بڑھا دیا۔
13 اور14 نومبر کو سی آئی ڈی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے لشکر جھنگوی اور طالبان کمانڈر سمیت کارکن ہلاک اور گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اور سکیورٹی ذرایع نے ان کارروائیوں کو دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی بیخ کنی قرار دیتے ہوئے بڑی کامیابی سے تعبیر کیا۔
اس صورتحال میں کراچی سمیت ملک بھر میں عمومی طور پر خوف کی فضا دیکھی گئی۔ کراچی میں نشتر پارک مجالس عزاء کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور شہر میں دن کی مجالس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ اس سال اس مرکزی مجلس میں دیگر برسوں کی نسبت حاضری کم رہی۔ علاوہ ازیں شہر کی دیگر امام بارگاہوں میں صورتحال اس سے مختلف نہ تھی جب کہ نویں اور دسویں محرم کے مرکزی جلوس میں بھی عزاداروں کی تعداد متاثر رہی۔ سکیورٹی کے انتظامات سخت رہے اور سات محرم سے ہی شہر کو قانون نافذ کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے عوام میں نفرت کے احساسات نے جنم لینا شروع کر دیا جو کسی طرح بھی اتحاد بین المسلمین کا آئینہ دار نہیں۔ اس کا اعادہ علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے نشتر پارک میں آٹھویں مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے شہر کی سکیورٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف عزاداروں کی آمد و رفت اور مجلس میں شرکت کے لیے دشواریاں ہیں بلکہ ملت جعفریہ کے متعلق لوگوں میں منفی جذبات ابھارنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہی صورتحال وفاقی دارالحکومت سے جڑے شہر راولپنڈی میں پیش آئی جب ایک مسجد سے جلوس کے شرکاء سے جلدی سے گزرنے کو کہا گیا۔ حکومت نے اشتعال انگیزی کی روک تھام کے بجائے سیکیورٹی کے نام پر مشکلات کے انبار لگا دیے اور ملک بھر میں انتہا پسند عناصر ایک بار پھر سرگرم ہو گئے جب کہ اسی روز میڈیا میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلسل شاباشی دی جاتی رہی۔
بات یہ ہے کہ جن خدشات کا اظہار تمام مذہبی جماعتیں کرتی رہیں ان پر کیوں نہ کان دھرے گئے۔ سانحہ راولپنڈی سے مجھے چند برس قبل آئی جی خیبر پختونخوا کی پریس کانفرنس یاد آئی۔ انھوں نے کہا تھا صوبہ مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور ہر بار دہشت گردی کے لیے طریقہ واردات بدل دیا جاتا ہے یعنی کبھی موٹر سائیکل، کبھی رکشہ، کبھی گدھا گاڑی اور کبھی کسی اور شے کو ذریعہ بنا کر اپنے اہداف حاصل کر لیتے ہیں لٰہذا دشمن کو بیوقوف اور نادان نہ سمجھا جائے وہ ہمیشہ ایک قدم آگے کی سوچتا ہے۔
پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں اس واقعے کی مذمت کر رہی ہیں اور حکومت سے موثر اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جب کہ عوامی رائے ہے کہ مذہبی حوالے سے ان کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں اور سرکاری سطح پر ان کی دل آزاری کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ ایسے اقدامات کہ جن کے باعث عوامی سطح پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہو وہ لائق تحسین نہیں بلکہ باعث تشویش ہیں۔ لٰہذا مستقبل میں ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس سے متعقلہ افراد کے علاوہ دیگر افراد کو زحمتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ اپنے معمولات زندگی بحسن و خوبی انجام دے سکیں وگرنہ اتحاد بین المسلمین ایک نام سے بڑھ کچھ نہیں۔