ماضی کو دفن کر دیں

ہمارا تلخ ماضی ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے وہ اسے جب تک کہیں دفن ...


Aftab Ahmed Khanzada November 27, 2013

KARACHI: ہمارا تلخ ماضی ایک جنازہ ہے جو سماج اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی یہ لاش گلی سٹری سہی لیکن ہے تو ہماری ہی۔ کیا ہم اس کے عزیز واقارب نہیں، کیا یہ ہمارا حصہ نہیں، کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے اپنے مفاد کی خاطر اسے اب تک دفنایا نہیں اور یہ لاش لیے لیے گھوم رہے ہیں یا تو ایک بار اس کا چہرہ دیکھ لیں یا اسے دفنا دیں ہمیں کوئی ایک فیصلہ تو کرنا ہی پڑے گا۔

گو ئٹے نے کہا ہے کہ تاریخ بھی فطرت کی طرح ہے یہ بھی ہر وقت بناتی اور بگاڑتی رہتی ہے تاریخ ہر عہد کے ذہن کی عکاسی و نمایندگی کرتی ہے تاریخ ایک سلسلہ ہے تاریخ کا ہر دور ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے ماضی حال سے پیوست ہے ہم نے ہمیشہ تاریخ کے سچ کو چھپانے کی کوشش کی ہے دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ سچائی میں طاقت ہے اس کے باوجود کہ اسے کچلا جائے روندا جائے چھپایا جائے یا مٹایا جائے مگر آخر کار سچائی جھوٹ کا قتل کر دیتی ہے۔ گیلیلو رجعت پسندوں، قدامت پرستوں، بنیاد پرستوں کے آگے شکست کھا گیا اور سچائی کو نہ منوا سکا لیکن اس کے باوجود جہاں گیلیلو کو شکست ہوئی، وہاں تاریخ کی جیت ہوئی اور بعد میں سچائی کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ بیسوی صدی میں چرچ نے تسلیم کیا کہ وہ غلط تھا اور گیلیلو سچا تھا اور اپنی غلطی پر معافی مانگی سقراط، ابوذرغفاری ، امام ابو حنیفہ، برونو، جان ہوس، تھامس مور، سرمد، طاہرہ قرۃ العین، کارل مارکس، بھگت سنگھ، جولیس فو چیک، گیبربل پری، آلندے ان سب کو دنیا کی کوئی طاقت کوئی آزمائش جھوٹ کے ساتھ سمجھوتے کرنے یا سچ سے منہ موڑ لینے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ ان سب نے کبھی بھی اقتدار کے خود ساختہ بتوں کی پوجا نہیں کی بلکہ ان کی ساری زندگی جھوٹے خدائوں سے نبرد آزمائی ہی میں گزری۔

ٹالٹسائی کہتا ہے عظیم شخصتیں بذات خود کچھ نہیں بلکہ یہ واقعات ہیں جو ان کا روپ اختیار کر لیتے ہیں ہم کیا کریں ہماری قسمت خراب رہی کہ ہمیں ہمیشہ وحشت ناک واقعات سے ہی پالا پڑا اور وہ بھی تواتر کے ساتھ ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم اگر اپنی تاریخ کو سننے بیٹھ جائیں تو وہ سوتیلی ماں کی طرح اس طرح بولے گی کہ پھر رکے گی نہیں۔ ہم اپنے بدترین دشمن خود بنے رہے فرانسیسی دانشور بر نارڈ ہنری لیوی نے ہمارے لیے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مجرم ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کے سب سے بڑے مجرم ہیں جس قدر اس وقت ہمیں سنجیدگی کی ضرورت ہے ہم اتنی ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حکومت نے پچھلے دنوں جنرل (ر) پرویز مشرف پر دفعہ 6 کے تحت سنگین غداری کے الزام میں مقد مہ چلانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے۔

پرویز مشرف پہلے آرمی چیف ہونگے جن کے خلاف مقدمہ چلے گا ان سے پہلے جنرل یحییٰ خان حمود الرحمن کمیشن میں پیش ہوئے تھے مگر اس کمیشن کا مقصد 1971ء کی جنگ میں شکست کے اسباب اور ملک کے مشرقی بازو کی علیحد گی کے حوالے سے تحقیقات کرنا تھا۔ ظاہر ہے جب پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلے گا تو نئی پیچیدگیاں جنم لیں گی ایسے وقت میں جب ہمیں زیادہ اتفاق، اتحاد زیادہ سمجھ بوجھ اور احتیاط کی ضرورت ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مقدمے سے اتفاق پیدا ہو گا یا نئے انتشار کا ایک اور جنم ہو گا۔ اس وقت پوری دنیا اپنے اچھے مستقبل اور حال کی خاطر اپنے تلخ ماضی کی لاش کو دفن کر رہی ہے۔ مختلف ممالک اپنے بدترین ماضی کو بھلا کر ایک ہو رہے ہیں نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے اور ہم ماضی کے مردے اکھاڑنے میں مصروف ہیں ۔

انسانی معاشرے برابر تبدیل ہوتے رہے ہیں اور ایک درجے سے دوسرے درجے کی جانب بڑھتے رہتے ہیں تبدیلی کے اس تاریخی عمل میں کچھ معاشرے ترقی کرتے چلے جاتے ہیں کچھ سست روی کے ساتھ اس عمل سے گزرتے ہیں اور کچھ بالکل جامد ہوکر ختم ہو جاتے ہیں معاشرے میں تبدیلی اچانک پیدا نہیں ہوتی بلکہ تبدیلی کے جراثیم آہستہ آہستہ اور خاموشی سے اندر ہی اندر نشوونما پاتے ہیں اگر ہم تبدیلی کے اس عمل سے الگ تھلگ رہے تو بالکل جامد ہو کر ختم ہو جائیں گے۔ مہذب معاشروں میں غٖلطی تسلیم کر لینا اور معافی مانگ لینا سزا سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے اگر ہم نے مردوں کو قبروں سے نکالا تو پورے سماج میں اتنی بدبو پھیل جائے گی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جائے گا۔

زخموں کو کریدتے رہنے سے زخم ہمیشہ ہرا رہتاہے کبھی نہیں بھرتا زندگی ٹھہرنے کا نام نہیں بلکہ آگے بڑھتے رہنے کا نام ہے۔ وقت کو نہ رو کا جا سکتا ہے اور نہ ہی قید کیا جا سکتا ہے خدا نے ہمیں آنکھیں آگے دیکھنے کے لیے دی ہیں نہ کہ پیچھے دیکھنے کے لیے پیچھے دیکھنے والا ہمیشہ ٹھوکر کھاتا ہے۔ حکایت رومی ہے جب طوفان نوح کاظہور ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے نافرمان بیٹے کنعان سے فرمایا کہ آ کشتی میں بیٹھ جا تا کہ غرق نہ ہو جائے کنعان نے کہا مجھے تیرنا آتاہے کشتی کی حاجت نہیں ہے۔ حضرت نوحؑ نے فرمایا کہ یہ ہولنا ک طوفان ہے تیری تیراکی کام نہ آئے گی۔ کنعان نے کہا میں پہاڑ پر چڑھ جائوں گا۔ حضرت نوحؑ نے فرمایا پہاڑ بھی غرق ہو جائے گا۔ کنعان نے کہا میں نے اس سے پہلے تیری نصیحت کب سنی تھی جو اب تیری بات مانوں گا۔

حضرت نوحؑ نے فرمایا کہ اے بیٹے آج کا دن اکڑنے کا نہیں اس نازک گھڑی میں بارگاہ الہی میں ناز دکھانا خطا ہے کنعان نے کہا تم ایسی باتیں سالہا سال سے کر رہے ہو اب پھر ان کی تکرار کاہے کو کر رہے ہو۔ حضرت نوح نے فرمایا اے بیٹے ایک بار تو باپ کا کہنا مان لے غرض حضرت نو ح اس کو باربار نصیحت کرتے رہے باپ بیٹے میں یہ سوال و جواب ہو رہے تھے کہ ایک تند و تیز موج آئی اور کنعان کو بہا کر لے گئی۔ حضرت نوح نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی الہی تو نے مجھ سے بارہا وعد ہ کیا کہ تیر ے اہل و عیال طو فان سے بچے رہیں گے تیرے وعدے سے میں مطمئن تھا لیکن اب طوفانی موجیں میری کملی کو بہا کر لے گئی ہیں بارگاہ الہی سے ارشاد ہو ا کہ وہ میرے گم کردہ راہ تیرے اہل خویش میں سے نہ تھا تو نے خود سفید اور نیلے میں تمیز نہ کی جب تیرے دانتوں کو کیڑ ا لگ جائے تو وہ دانت کب رہتے ہیں ان کو اکھڑوانے ہی میں تیری بھلا ئی ہے کہ تیرا باقی جسم ان کرم خورد ہ دانتوں کی وجہ سے تکلیف میں نہ مبتلا ہو جائے ۔

آئیں! ہم اپنے بہتر مستقبل اور حال کے لیے اپنے تلخ ماضی کو اب دفن کر دیں اور تمام فریقین جن سے غلطیاں ہوئی ہیں وہ سب اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کر کے ایک بار پورا سچ بول دیں اور پھر کبھی ماضی کی طرف مڑ کرنہ دیکھیں اور سب مل کر اتفا ق کے ساتھ متحد ہو کر ملک اور قوم کو درپیش عذابوں سے چھٹکارا دلانے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں کیونکہ اتفاق اور اتحاد ہی میں برکت ہے۔ ترقی، خوشحالی، استحکام صرف اسی کے ذریعے آ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں