یکسوئی کیسے حاصل ہو
جدید دنیا تیزی سے بدلتی جا رہی ہے۔ تبدیلی ناگزیر ہے۔ دنیا کی کئی قومیں گلوبلائزیشن کے جال میں بری طرح ...
جدید دنیا تیزی سے بدلتی جا رہی ہے۔ تبدیلی ناگزیر ہے۔ دنیا کی کئی قومیں گلوبلائزیشن کے جال میں بری طرح پھنس چکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی پچاس سے زاید زبانوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ یہی حال تہذیبی ورثے کا ہے۔ جب کوئی بھی تہذیب اپنی اصل سے بھٹک جاتی ہے اور دکھاوے کا جدید پیراہن اوڑھ لیتی ہے تو بناوٹ اور اپنے خالص پن سے دور جانے کا احساس اس قوم کو بے چین کیے رکھتا ہے۔
ہر قوم اپنے قدیم ورثے، اصولوں، ضابطوں، رہن سہن و اخلاقی قدروں سے پہچانی جاتی ہے، جن سے اس کی شناخت قائم و دائم رہتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ قومیں جنھوں نے قدیم سوچ اور ورثے کو سنبھال کے رکھا، آج وہ دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ ان کا نصاب بھی ان کی اپنی زبان میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہ قومیں اپنے لوک ادب سے جڑی ہوئی ہیں۔ انسان کو اپنی اصل کے قریب رہنا ہے۔ دور جانے کی صورت میں وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ قدیم صوفی و یوگی انسان کو اپنی جڑوں کے قریب رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ درخت کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں، مگر اس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ درخت جب اپنی جڑ پکڑ لیتا ہے، تو موسموں کی سختیاں اور طوفان تک اسے ہلا نہیں سکتے۔ لباس اور رہن سہن بدلا جا سکتا ہے، طرز زندگی بھی جدید سمتوں کی طرف رواں دواں رہے مگر ذہن و روح اپنی زمین کے محور کے ارد گرد گھومتا رہے۔ یہ سوچ ایشیا کے کئی ملکوں میں پائی جاتی ہے، جو احساس کمتری سے بالاتر ہیں۔
ذات کے سچ اور زمینی حقائق سے دوری کی وجہ آج انسان اپنی ذات میں گم صم و تنہا کھڑا ہے۔ ذہنی سکون مفقود ہے اور نیند کا دور تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ پھر انسان کے ذہن میں کیسے یکسوئی پیدا ہو سکتی ہے، انتشار نیند کا دشمن ہے اور اچھی نیند انسانی صحت کی بہتری کی ضامن ہے۔ حسد، رقابت، تعصب، نفرت، غصہ اور جلد بازی جیسے منفی رویے انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ جو بے خوابی کا سبب بنتے ہیں۔ نیند سے محروم لوگ موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو کئی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ اس بے خوابی کی وجہ سے برطانیہ میں ہر سال تقریباً 350 اموات روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بے خوابی سے یادداشت متاثر ہوتی ہے۔ جو طالب علموں کی نصابی سرگرمیوں پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کے نیورولوجسٹ رابرٹ اسٹک گولڈ نے شاگردوں پر تجربہ کیا اور انھیں ایک معلوماتی لیکچر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے شاگردوں کی یادداشت دیکھنے کے لیے دوسرے دن ان سے موضوع کے متعلق سوال کیے، جس کے نتیجے میں بے خوابی کا شکار طالب علم جواب دینے سے قاصر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیند کی کمی سے فیصلے کی قوت متاثر ہونے کے ساتھ ایسے لوگوں کو روزمرہ کے معاملات سمجھنے اور سلجھانے میں دقت پیش آتی ہے۔ جسم کا مدافعتی نظام الگ تباہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کی نیند کا دورانیہ سات گھنٹے سے کم ہے تو اس کی صحت کو کئی خطرے لاحق ہو جاتے ہیں۔
جدید زندگی کے تمام تر لوازمات یکسوئی کا طلسم توڑ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ لوگ ایک وقت میں بہت سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ناشتے کے دوران ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہاتھ میں اخبار ہوتا ہے۔ موبائل پر الگ بات ہو رہی ہوتی ہے۔ بعض لوگ تو چلتے پھرتے ناشتہ کرتے ہیں۔ کوئی بھی ایک کام سکون سے نہیں ہو رہا ہوتا۔ قدیم سیانے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ کھانا کھاتے ہوئے پر سکون ماحول ہونا چاہیے۔ جدید دور میں کھانا چبایا نہیں جاتا بلکہ نگلا جاتا ہے۔ کھانے کے دوران گفتگو سے بھی پرہیز کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ کھانے کے بعد چہل قدمی بھی لازمی ہے تا کہ کھانا ہضم ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ پیٹ کی متعدد بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ غصہ، پریشانی، اضطراب و خوف کا اثر معدے پر پڑتا ہے۔ معدے کو Seat of Wisdom (دانشمندی کی مسند) کہا جاتا ہے۔ غذا کا صحیح انتخاب کرنے سے ذہنی و جسمانی کارکردگی فعال رہتی ہے۔ فاسٹ فوڈ، جنک فوڈ اور گوشت کا زیادہ استعمال ذہنی انتشار کی وجہ بنتا ہے۔ روحانیت کی طرف مائل لوگ غذا میں احتیاط برتتے ہیں۔ وقت پر کھانا، صحیح طریقے سے غذا کا استعمال کرنا اور پانی یا کولڈ ڈرنکس وقفے کے بعد لینا وغیرہ یہ ایسے اصول ہیں جو کبھی پرانے وقتوں میں مروج تھے۔
موجودہ دور میں تمام تر الیکٹرانک ذرایع یکسوئی حاصل ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن چکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ موبائل ہے۔ موبائل کے استعمال سے پہلے زندگی منظم تھی۔ موبائل رابطے کی سہولت کی خاطر ایجاد ہوا تھا، مگر جو آج تفریح کا سب سے اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ ٹی وی، کمپیوٹرز، موبائلز پر مصروف رہنے کی وجہ سے، ٹائم گزرنے کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ ان چیزوں کے سحر میں مبتلا ہو کر رات کو دیر سے سوتے ہیں اور دن بھر آفس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ خواتین کے بھی کئی کام فون پر لمبی بات کرتے رہنے سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے۔ خاتون خانہ کو جلدی جلدی کام نمٹانے کے لیے ملازم درکار ہوتے ہیں جو الگ گھروں کے پرسکون ماحول کا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیتے ہیں۔ زندگی کی جدت اور سہولتیں انسانی ذہن کو غیر موثر اور صحت کو زوال پذیر کر دیتے ہیں۔ اکثر لوگوں کا طرز تکلم اور لمبی گفتگو بھی یکسوئی میں سب سے بڑا رخنہ ڈال دیتی ہے۔ طنزیہ گفتگو و منفی فقرے لوگوں کو سکون اور اچھی نیند سے محروم کر دیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر آشوب دور میں آخر یکسوئی کیسے حاصل کی جائے؟ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شور و غل میں انسان کی ذات میں سکون و یکسوئی غیر موجود ہو جاتے ہیں۔ یکسوئی اگر حاصل ہو تو انسان کے لیے زندگی کے ہنگامے اور تضادات غیر معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اس کی ذات انتشار میں مبتلا ہونے سے بچی رہتی ہے۔ وہ تمام تر مسائل و مصائب کا حل آسانی سے ڈھونڈ لیتا ہے۔ اور زندگی کا بہتر معیار قائم رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ یکسوئی کے لیے مختلف مشقیں کی جاتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انسان کو دن بھر میں کوئی ایسی جگہ میسر ہونی چاہیے جہاں وہ سکون کے کچھ لمحے بغیر کسی مداخلت کے گزار سکے۔ وہ فطری ماحول ہو یا گھر کا کوئی کونا، جو سوچوں کو مرکز عطا کر سکے۔ یہ ممکن نہ ہو تو پھر سانس لینے کے عمل کو محسوس کرنا، یا کوئی بھی چیز جیسے پھول یا میوہ یا سبزی جس کی ساخت، رنگ اور افادیت کو ذہن میں لانا ممکن ہو، یکسوئی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق دہرائے جانے والے مقدس نام، دعائیں یا الفاظ تھکن اور ذہنی دباؤ کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ کسی نہ کسی تخلیقی کام کو مستقل کرتے رہنے سے بھی ارتکاز کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے کسی کالم میں کرونو کنیسس Chronokineses کے بارے میں لکھا تھا، جس کے تحت وقت کو دسترس میں لایا جا سکتا ہے۔ وقت اس وقت انسان کے تابع ہو سکتا ہے، جب ذہن میں یکسوئی کی کیفیت ہمہ وقت موجود رہے۔ وقت اگر ذہن کے ساتھ سفر کرتا ہے، تو اس میں ٹھہراؤ ملے گا ورنہ وہ ایک اڑتے پرندے کا روپ دھار لیتا ہے۔ وقت تیزی سے گزرنے کی وجہ تفریحی اشیا کی موجودگی ہے ورنہ بیماری کے بستر پر وقت کاٹے نہیں کٹتا۔ لہٰذا وقت کا تیزی سے گزرنا یا سست رفتار ہو جانا ایک ذہنی کیفیت ہے، جس سے ہٹ کر وقت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وقت انسان کی دسترس میں ہے کہ وہ اس خزانے کو جیسے چاہے خرچ کرے۔ مثال کے طور پر میری دوست کہتی ہے کہ جب وہ آفس جانے کے لیے ایک طویل راستے کو عبور کرتی ہے تو وہ اس وقت کا بہترین استعمال کرتی ہے۔ وہ ان لمحوں میں پورے دن کا خاکہ ذہن میں ترتیب دیتی ہے۔ جس میں کھانے کی فہرست بھی شامل ہوتی ہے۔ اکثر فون پر بات کر لیتی ہے۔ وہ اپنے ذہن کو ڈائری کی طرح استعمال کرتی ہے جب کہ کچھ لوگ رش میں پھنس کر تلملاتے اور غصہ کرتے رہ جاتے ہیں۔ میری اس دوست نے Photo Reading کی ٹیکنیک بھی سیکھ لی ہے جس کے مطابق 25000 الفاظ ایک منٹ میں پڑھے جا سکتے ہیں۔ یعنی ایک صفحہ پڑھنے میں اسے دو سیکنڈ لگتے ہیں۔
ارتکاز پیدا کرنے کے لیے ایک مشق بھی سکھائی جاتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ رات کو سونے سے پہلے پورے دن کے واقعات کو ترتیب سے ذہن میں لے کر آئیے۔ شروع میں اس مشق کے کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ مگر جب زیادہ مشق کی جاتی ہے تو پورا دن چند لمحوں میں سمٹ آتا ہے۔ اس مشق سے یکسوئی اور برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسان میں ذاتی تجزیے کی صلاحیت بھی بیدار ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل پر نظر رکھ سکتا ہے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے، کہاں غلط ہے اور دوسرے لوگوں کا اس کے ساتھ رویہ کیا ہے؟ اس کی ذات اور معیار زندگی نشیب و فراز کے کن لمحوں کے درمیان میں سے گزرتے ہیں؟