کامریڈ محمد میاں اور کامریڈلال خان کو سرخ سلام
ہر چند کہ انقلابی رہنما ہم سے جدا تو ہو گئے لیکن ان کی جگہ سیکڑوں نوجوان انقلابی نظریات کے حامل پیدا ہو رہے ہیں
کامریڈ محمد میاں دور حاضر کے بزرگ کمیونسٹ رہنما تھے جو کہ پچیس فروری شام 7 بجے پی ای سی ایچ ایس اپنی رہائش گاہ میں ہم سے جسما نی طور پر رخصت ہو گئے۔ میاں صاحب تو تھے دلی کے مگر پاکستان بننے کے بعد کراچی میں سیاسی سر گرمی میں برسرے پیکار رہے۔
وہ لندن میں جب پڑھنے گئے تو برطانیہ کے کامریڈوں کی صحبت میں کمیونسٹ نظریات سے آشنا ہوئے اور پھر ساری زندگی محنت کش طبقے کے ہی ہو گئے۔ وہ لیبیا میں انگریزی اخبار روزنامہ ٹریبیون کے ایڈیٹر رہے بعدازاں دمشق یونیورسٹی، شام میں نفسیات کے شعبے میں پڑھاتے رہے۔ پھر وہ پاکستان ا گئے اور ایس ایم لا کالج کراچی میں انگریزی کے درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ ساتھ ساتھ ایک ہفت روزہ، روزنامہ شام کے انگریزی اخبار اسٹار اور ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھتے رہے۔ جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لاء کے دور میں روزنامہ صداقت کراچی اردو اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر کے طور پر صحافت کا کام انجام دیتے رہے۔
اسی دور میں صداقت پر حکومت نے پابندی لگا دی۔ اس سے قبل انیس سو تہتر میں چار سدہ کسان تحریک میں مسلح جدوجہد میں شریک رہے اور خانوں سے زمینیں چھینی۔ کامریڈ محمد میاں انقل بی گیت لکھتے اور گرجدار آواز سے ترنم میں جلسے جلوس میں پڑھ کر طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے خون گرماتے تھے۔
انھوں نے شیکسپئیرکی 'گاڈیس آف ویلتھ' (دولت کی دیوی) نام کی نظم انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ مزدوروں کا عالمی ترانہ جسے پیرس کے اژینو پو تو نے لکھا تھا اسے اردو میں تر جمہ کیا۔ شروع شروع میں وہ مزدور کسان پارٹی سے وابستہ تھے اور آخری وقت میں یعنی انیس سو ترانوے تک کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کمیٹی کے رکن رہے۔ آخری دنوں میں جب وہ بستر مرگ پہ تھے تو راقم اور اقبال علوی ان کے گھر عیادت کرنے گئے تھے اور یونین نیوز رسالے میں ان کی نظم چھپنے کاتذ کرہ بھی کیا۔ جس پر وہ خوش ہوئے اور دو شعر پڑھے بھی۔ نظم کچھ یوں تھی۔کروڑوں کا مسلک جو ہو انقلاب، نہ ٹھریں گے میداں میں عزت ماآب، کہو انقلاب، انقلاب، انقلاب۔
محمد میاں نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں کامریڈ محمد میاں کراچی یونیورسٹی میں طلبہ کو انقلابی گیتوں سے انقلاب کی مشعل راہ دیکھاتے تھے۔ ان کو جہاں بھی کراچی کی مزدور بستی میں اسٹیڈی سرکل کے لیے لے جانا ہوتا وہاں چلے جاتے تھے، کبھی بھی انکار نہیں کرتے تھے۔ خواہ وہ مچھر کالونی ہو، اورنگی ٹاؤن ہو، لیاقت آباد ہو، بلدیہ ٹاؤن ہو، ماڑی پور ہو، لانڈھی کورنگی ہو، ملیر ہو یا کوئی اور مزدور بستی ہو۔ ان کی جرات، بے با کی، اور انقلابی بلاغت ان کے ذہن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کئی سا لوں تک ''محنت کش جمہوری محاذ'' کی کراچی کمیٹی کے رکن تھے اور ماہانہ 'جمہور' رسالے کے ایڈیٹر تھے۔
وہ کارکنان کو کمیونسٹ نظریات، جدلیات، معاشیات اور سیاسیات سے آ گہی دیتے تھے۔ ملک بھر کا خصوصا کراچی کا محنت کش طبقہ ان کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ وہ چند روز قبل کمیونسٹ رہنما کامریڈ لال خان اکیس فروری بروز جمعہ شام پانچ بجے لاہور میں جسمانی طور پر ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ طالب علمی کے دور میں پیپلز اسٹو ڈینٹس فیڈریشن میں سرگرم رہے اور ساتھ ساتھ کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان سے بھی منسلک رہے۔
جب وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں زیر تعلیم تھے تو اکثر مخالف طلبا سے مڈھ بھیڑ ہو جاتی تھی۔ اس لیے وہ چیتا کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ شاید اسی لیے انھوں نے اپنے بیٹے کا نام بھی شیر خان رکھا تھا۔ ملتان میں میڈیکل کالج میں سیاسی سر گرمیوںکی وجہ سے گرفتار ہو کر ملتان جیل میں مقید تھے۔ انھوں نے معافی کے عوض رہائی سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں جب ٹیپو نے ہوائی جہاز اغوا کیا اور پچاس افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تو ان میں لال خان بھی ہالینڈ چلے گئے اور وہیں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں وہ کمیونسٹوں سے وابستہ ہوئے اور سیاسی سر گرمی شروع کر دی۔ ڈاکٹر لال خان نے تقریبا چالیس کتابیں اور کتابچے تحریر کیے۔ جن میں چین پر لکھی گئی کتاب ''چین کدھر'' اور ''پاکستان کی اصلی کہانی' زیادہ مقبول ہوئیں اور یہ دونوں کتابیں متعدد زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئیں۔ وہ ''ایشین مارکسسٹ ریویو'' انگریزی کے ایڈیٹر تھے اور طبقاتی جدوجہد رسا لے کے بانی تھے جو کہ گزشتہ انتالیس سال سے شایع ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر لال خان روزنامہ دنیا میں کالم لکھا کرتے تھے جو بہت مقبول ہوا۔ ان کا اصلی نام ڈاکٹر تنویر گوندل تھا، رو پوشی میں لال خان رکھ لیا۔ لال خان ساری زندگی کمیونسٹ نظریات اور کمیونسٹ انقلاب کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میں بر سرپیکار رہے۔ پاکستان کے محنت کش، طلبہ، خواتین اور کسان ہمیشہ ان کی انقلابی جدوجہد اور نظریات کو یاد رکھیں گے۔
ہر چند کہ انقلابی رہنما ہم سے جدا تو ہو گئے لیکن ان کی جگہ سیکڑوں نوجوان انقلابی نظریات کے حامل پیدا ہو رہے ہیں اور جدو جہد میں برسرپیکار ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں تک انقلابی جدوجہد ذرا سست رہی لیکن اب پھر سے تیز ہو رہی ہے۔ حال ہی میں میکسیکو، ار جینٹینا اور نیپال سمیت متعدد ممالک میں بائیاں بازو فتحیاب ہوا ہے۔ اور حالیہ دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکوں نے عالمی سرمایہ داری کو للکارا ہے۔ لبنان میں تیرہ لاکھ افراد کا مظاہرہ، چلی میں دس لاکھ کا مظاہرہ، کو لمبیا میں پانچ لاکھ کا مظاہرہ پھر برازیل، اوراگوئے، عراق، سو ڈان، مالی اور الجزائرمیں مہنگائی بے روزگاری اور کارپشن کے خلاف عوام کا امنڈتا ہوا سیلاب نے پھر ایک بار عالمی انقلاب کی جانب پیشقدمی کی ہے۔ بھارت نے تو کمال ہی کر دیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں پچیس کروڑ افراد کی عظیم الشان ہڑتال نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے۔
وہ لندن میں جب پڑھنے گئے تو برطانیہ کے کامریڈوں کی صحبت میں کمیونسٹ نظریات سے آشنا ہوئے اور پھر ساری زندگی محنت کش طبقے کے ہی ہو گئے۔ وہ لیبیا میں انگریزی اخبار روزنامہ ٹریبیون کے ایڈیٹر رہے بعدازاں دمشق یونیورسٹی، شام میں نفسیات کے شعبے میں پڑھاتے رہے۔ پھر وہ پاکستان ا گئے اور ایس ایم لا کالج کراچی میں انگریزی کے درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ ساتھ ساتھ ایک ہفت روزہ، روزنامہ شام کے انگریزی اخبار اسٹار اور ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھتے رہے۔ جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لاء کے دور میں روزنامہ صداقت کراچی اردو اخبار کے ڈپٹی ایڈیٹر کے طور پر صحافت کا کام انجام دیتے رہے۔
اسی دور میں صداقت پر حکومت نے پابندی لگا دی۔ اس سے قبل انیس سو تہتر میں چار سدہ کسان تحریک میں مسلح جدوجہد میں شریک رہے اور خانوں سے زمینیں چھینی۔ کامریڈ محمد میاں انقل بی گیت لکھتے اور گرجدار آواز سے ترنم میں جلسے جلوس میں پڑھ کر طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے خون گرماتے تھے۔
انھوں نے شیکسپئیرکی 'گاڈیس آف ویلتھ' (دولت کی دیوی) نام کی نظم انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ مزدوروں کا عالمی ترانہ جسے پیرس کے اژینو پو تو نے لکھا تھا اسے اردو میں تر جمہ کیا۔ شروع شروع میں وہ مزدور کسان پارٹی سے وابستہ تھے اور آخری وقت میں یعنی انیس سو ترانوے تک کمیونسٹ پارٹی کراچی سٹی کمیٹی کے رکن رہے۔ آخری دنوں میں جب وہ بستر مرگ پہ تھے تو راقم اور اقبال علوی ان کے گھر عیادت کرنے گئے تھے اور یونین نیوز رسالے میں ان کی نظم چھپنے کاتذ کرہ بھی کیا۔ جس پر وہ خوش ہوئے اور دو شعر پڑھے بھی۔ نظم کچھ یوں تھی۔کروڑوں کا مسلک جو ہو انقلاب، نہ ٹھریں گے میداں میں عزت ماآب، کہو انقلاب، انقلاب، انقلاب۔
محمد میاں نے انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں کامریڈ محمد میاں کراچی یونیورسٹی میں طلبہ کو انقلابی گیتوں سے انقلاب کی مشعل راہ دیکھاتے تھے۔ ان کو جہاں بھی کراچی کی مزدور بستی میں اسٹیڈی سرکل کے لیے لے جانا ہوتا وہاں چلے جاتے تھے، کبھی بھی انکار نہیں کرتے تھے۔ خواہ وہ مچھر کالونی ہو، اورنگی ٹاؤن ہو، لیاقت آباد ہو، بلدیہ ٹاؤن ہو، ماڑی پور ہو، لانڈھی کورنگی ہو، ملیر ہو یا کوئی اور مزدور بستی ہو۔ ان کی جرات، بے با کی، اور انقلابی بلاغت ان کے ذہن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کئی سا لوں تک ''محنت کش جمہوری محاذ'' کی کراچی کمیٹی کے رکن تھے اور ماہانہ 'جمہور' رسالے کے ایڈیٹر تھے۔
وہ کارکنان کو کمیونسٹ نظریات، جدلیات، معاشیات اور سیاسیات سے آ گہی دیتے تھے۔ ملک بھر کا خصوصا کراچی کا محنت کش طبقہ ان کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا ہے۔ وہ چند روز قبل کمیونسٹ رہنما کامریڈ لال خان اکیس فروری بروز جمعہ شام پانچ بجے لاہور میں جسمانی طور پر ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ طالب علمی کے دور میں پیپلز اسٹو ڈینٹس فیڈریشن میں سرگرم رہے اور ساتھ ساتھ کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان سے بھی منسلک رہے۔
جب وہ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں زیر تعلیم تھے تو اکثر مخالف طلبا سے مڈھ بھیڑ ہو جاتی تھی۔ اس لیے وہ چیتا کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ شاید اسی لیے انھوں نے اپنے بیٹے کا نام بھی شیر خان رکھا تھا۔ ملتان میں میڈیکل کالج میں سیاسی سر گرمیوںکی وجہ سے گرفتار ہو کر ملتان جیل میں مقید تھے۔ انھوں نے معافی کے عوض رہائی سے انکار کر دیا۔
بعد ازاں جب ٹیپو نے ہوائی جہاز اغوا کیا اور پچاس افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تو ان میں لال خان بھی ہالینڈ چلے گئے اور وہیں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں وہ کمیونسٹوں سے وابستہ ہوئے اور سیاسی سر گرمی شروع کر دی۔ ڈاکٹر لال خان نے تقریبا چالیس کتابیں اور کتابچے تحریر کیے۔ جن میں چین پر لکھی گئی کتاب ''چین کدھر'' اور ''پاکستان کی اصلی کہانی' زیادہ مقبول ہوئیں اور یہ دونوں کتابیں متعدد زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئیں۔ وہ ''ایشین مارکسسٹ ریویو'' انگریزی کے ایڈیٹر تھے اور طبقاتی جدوجہد رسا لے کے بانی تھے جو کہ گزشتہ انتالیس سال سے شایع ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر لال خان روزنامہ دنیا میں کالم لکھا کرتے تھے جو بہت مقبول ہوا۔ ان کا اصلی نام ڈاکٹر تنویر گوندل تھا، رو پوشی میں لال خان رکھ لیا۔ لال خان ساری زندگی کمیونسٹ نظریات اور کمیونسٹ انقلاب کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میں بر سرپیکار رہے۔ پاکستان کے محنت کش، طلبہ، خواتین اور کسان ہمیشہ ان کی انقلابی جدوجہد اور نظریات کو یاد رکھیں گے۔
ہر چند کہ انقلابی رہنما ہم سے جدا تو ہو گئے لیکن ان کی جگہ سیکڑوں نوجوان انقلابی نظریات کے حامل پیدا ہو رہے ہیں اور جدو جہد میں برسرپیکار ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں تک انقلابی جدوجہد ذرا سست رہی لیکن اب پھر سے تیز ہو رہی ہے۔ حال ہی میں میکسیکو، ار جینٹینا اور نیپال سمیت متعدد ممالک میں بائیاں بازو فتحیاب ہوا ہے۔ اور حالیہ دنیا بھر میں ابھرنے والی تحریکوں نے عالمی سرمایہ داری کو للکارا ہے۔ لبنان میں تیرہ لاکھ افراد کا مظاہرہ، چلی میں دس لاکھ کا مظاہرہ، کو لمبیا میں پانچ لاکھ کا مظاہرہ پھر برازیل، اوراگوئے، عراق، سو ڈان، مالی اور الجزائرمیں مہنگائی بے روزگاری اور کارپشن کے خلاف عوام کا امنڈتا ہوا سیلاب نے پھر ایک بار عالمی انقلاب کی جانب پیشقدمی کی ہے۔ بھارت نے تو کمال ہی کر دیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں پچیس کروڑ افراد کی عظیم الشان ہڑتال نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے۔