جراتِ سوال نہ کرنا…

خدا نے انسان کو ایک بے مثال نعمت عطا کی ہے جسے عقل، شعور ذہانت وغیرہ کے مختلف نام دیے جاتے ہیں

خدا نے انسان کو ایک بے مثال نعمت عطا کی ہے جسے عقل، شعور ذہانت وغیرہ کے مختلف نام دیے جاتے ہیں

خدا نے انسان کو ایک بڑی قیمتی چیز اور ایک بے مثال نعمت اور ایک نور عطا کیا ہے جسے عقل، شعور ذہانت وغیرہ کے مختلف نام دیے جاتے ہیں، بلکہ ایک حدیث قدسی کا مفہوم ہے ،ترجمہ حدیث"فرمایا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل پیدا فرمائی پھر اس سے کہا کہ سامنے آ،وہ سامنے آئی،پھر فرمایاپشت پھیر،اس نے رخ بدل لیا۔پھر فرمایا:اپنی عزت وجلال کی قسم !میں نے کوئی مخلوق اپنے نزدیک تجھ سے زیادہ شرف والی پیدا نہیں کی۔میں تجھ سے ہی لوں گا،تجھ سے ہی دوں گا،تیری وجہ سے ثواب دوں گا،اور تیری وجہ سے عذاب دوں گا۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ علم کا عقل سے وہی تعلق ہے جو درخت کو پھل سے،سورج کو روشنی سے اور آنکھ کو بینائی سے ہے۔

عقل و شعور میں ترقی کا پہلا قدم سوال کرنا اور پوچھنا ہے، اسی ترتیب سے تحقیق و جستجو کی راہیں کھلتی ہیں۔ پسماندہ معاشروں اور مغلوب قوموں میں جرات سوال کوہمیشہ ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے وہاں کسی بھی شعبے کے بڑوں کے،ذمے داران کے رویئے کچھ یوں ہوا کرتے ہیں جیسے کہ یو شٹ اپ! بیٹھ جاؤ، بہت بولتے ہو تم، ہر وقت سوال پر سوال، حد ہوگئی،چپ کرو بس، بہت ہوگئی۔ علماء،اساتذہ اور مختلف شعبوں میں کسی بڑے یا باس کی حیثیت رکھنے والے عالمِ طیش میں اسطرح سے کہتے ہوئے اکثر و بیشتر نظر آیاکرتے ہیں،آپ کو بھی شاید کبھی اس صورتحال سے سابقہ پڑا ہو کہ دوران طالب علمی اس طرح جراتِ سوال پر ڈانٹ کھائی ہو،کیا یہ ایک عام تعلیمی رویہ نہیں ہے۔

اِلا ماشااللہ، اور فی زمانہ اس میں دینی اور دنیاوی کہلائے جانے والی دونوں طرح کی درس گاہوں کی بالخصوص اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کی بالعموم، کوئی تخصیص نہیں ہے ،عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے اور دیکھا گیا ہے،اور ایسا ہی رویہ کم و بیش ہر سطح پرروبہ عمل نظر آتا ہے۔ درسی رٹی رٹائی باتوں،علوم نقلیہ و عقلیہ، اسباقِ درسیہ، یہ کورس وہ سلیبس ان سب میں بھی بس مخصوص حد تک ہی آپ سوالات کر سکتے ہیں، اور اس مخصوص دائرے سے باہر جانا تو گویا قیامت مچا دیتا ہے، بہت سے اساتذہ کے سامنے نصاب سے ہٹ کر سوال کرنا بہت برا مانا اور جانا جاتا ہے ،کیا ایسا نہیں ہے؟ اور کچھ زیادہ ہی نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کیا یہ ایک صحت مندانہ رویہ ہے، بالکل نہیں، بلکہ اگر اسے تباہ کن رویہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ "سوال کرنا آدھا علم ہے" جب ہم ایک بچے کو شروع ہی میں ذہنی غلامی کی تربیت دیں گے،جب ہم ایک طالب علم کو اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا بشاشت اور توجہ سے جواب دینے کے بجائے کسی بھی وجہ سے ڈانٹ کر اسے چپ کرانے پر زیادہ توجہ دیں گے، تو پھر کیا ہم اختراعی سوچ،ذہنی وسعت و بلندی، خوداعتمادی اورآگے بڑھنے کی اس کی صلاحیت پر پابندی و قدغن نہیں لگا رہے ہوتے؟ اس کا سلیف کانفڈنس کیا تباہ نہیں کررہے ہوتے؟ اسے ذہنی غلامی کا سبق نہیں پڑھا رہے ہوتے؟،جو بچہ بے چارہ بچپن ہی میں سوال کرنے سے یوں ڈرا دیا جائے گا وہ بڑا ہوکر آرگیومنٹس کرنے یا اپنا نقطہء نظر موثر طریقے سے بیان کرنے کے قابل ہی کہاں رہ پائے گا۔


جب آپ ایک بچے میں،ایک طالب علم میں ابتدا سے ہی یہ سوچ پیدا کریں گے کہ سوالات کرنا بڑی فضول سی بات ہے،ہم جو پڑھارہے،سکھا رہے،فرما رہے ہیں بس وہی درست ہے، بس اسی کو رٹ لو، کافی ہوگا، باقی سب غلط ہے تو ہم دراصل مستقبل کے ذہنی غلام تیار کرنے کا ڈول ڈال رہے ہوتے ہیں جو بے چارے آگے کی زندگی میں پھر بس اثبات میں سر ہلاتے ہی نظر آتے ہیں اور اس طرح کے افراد کے مجموعے سے پھرجوشاندار سی اقوام تیار ہوتی ہیں وہ پھر دیگر اقوامِ عالم کے سامنے غلامانہ انداز میں اپنی آزادانہ رائے رکھے بغیراثبات میں سر ہلاتی اکثر و بیشتر نظر آیا کرتی ہے۔

پھر مزید یہ کہ یہی رویہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں منعکس ہوتا نظر آتا ہے، بہت سے مذہبی حلقوں میں تو کسی اختراعی سوچ کا ذکر کرنا، کوئی نیا سوال اٹھانا، کسی طرح کا استفہامی رویہ تو خیراکثر و بیشتر گناہ سے ہی تعبیر کر دیا جاتا ہے کہ وہاں سب سے زیادہ پختہ اس سوچ کو کیا جاتا ہے کہ ہم چو ما دیگرے نیست، بس ہم ٹھیک ہیں ہمارے اکابرین،بڑے اور اساتذہ جو کہہ گئے،لکھ گئے بس وہی درست ہے اورباقی سب گمراہی ہے۔

اسے یاد کرو،رٹو اور سینہ بہ سینہ بڑے فخریہ انداز میں آگے بڑھاتے جاؤ، سوال مت کرنا ورنہ باغی قرار دے دیے جاؤ گے، سب جگہ ایسا نہیں ہے مگر جہاں ایسا نہیں ہے ان کی تعداد بہت زیادہ بھی نہیں ہے۔ مدارس کے در و دیوار کی خاک میرے سر پر،بلاشبہ وہ بقائیدین و اشاعت و تبلیغِ دین اور حصولِ علم کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ،مگر سوالات کی اجازت اور نصاب پر نظر ثانی تو ہونی چاہیے یا نہیں؟اب ذرا دنیاوی شعبوں کی بھی بات کریں تو ایک بات تو گویا کارپوریٹ ورلڈ کے اصولوں میں اول نمبر کی حیثیت رکھتی ہے کہ باس کی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی بھائی کیونکہ وہ کرسی پر ہے اور آپ دوسری طرف، سو وہ کتنی بھی بڑی بونگی ماریں آپ نے سوال نہیں اٹھانا،بلکہ ہاں میں ہاں ہی ملانا ہے ورنہ پھر خیر نہیں، کیا ایسا نہیں ہے،ہم میں سے عظیم اکثریت اب مختلف سماجی اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر بھیڑ چال، یس سر، یس سراور جیسے گیڈر کی سو سالہ زندگی سر جھکائے گزارنے کی عادی ہوگئی ہے۔ ہم دراصل اب جیسا چل رہا ہے بس چلنے دیں یار، مٹی پاؤ بس، والی ترتیب کے خوگر سیہوگئے ہیں۔

فی زمانہ اس طرح کے رویئے عادت اور رواج کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے،سوالات کرنے کی،رائے دینے کی اور پوچھنے کی مزیدآزادی دینی ہوگی، غلامی کی بدترین شکل یعنی ذہنی غلامی سے نکلنا ہوگا، جن اغیار کی ،اہل مغرب کی ہم ہر طرح سے بڑے فخر سے نقل کیا کرتے ہیں،ان کے طرز زندگی کو بڑے اشتیاق و اضطراب سے اپنا تے ہیں،جنکی تہذیب و ثقافت اور شعبوں اور اداروں کی بڑی داد و تحسین کرتے ہیں اور جنکی ترقی کی چمک ہماری آنکھوں کو اکثرخیرہ کر دیتی ہے انھوں نے بھی صدیوں پہلے خشت اول اور پہلے قدم کے طور پر سوال کرنے کی آزادی کا ڈول ڈالا تھا، صدیوں سے جاری علمی و فکری جمود کو توڑا تھا اور خود کو اختراعیت اور آزادی ء فکر سے جوڑا تھا، پھر اس شاہراہ ترقی پر چلے تھیجوانھیں موجودہ مادی چکاچوند اور بلندی پر لے گئی۔

سوالات اورآرگیومنٹس کرنے کی آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی بلکل نہیں بلکہ ہم اپنی مذہبی اور معاشرتی و تہذیبی اقدار کے حوالے سے کچھ ریڈ لائنز اور حدود طے کر کے کم از کم ابتدائی درجوں سے ہی اپنے بچوں میں،چھوٹوں میں ،طلباء و طالبات میں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نوآموز افراد میں،جو کہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں،آیندہ ملک کے مختلف شعبوں کی باگ دوڑ سنھالیں گے، سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کا اگرمثبت رویہ اپنا لیں گے تو بنیاد تو کم از کم درجے میں درست ہو ہی جائے گی۔ سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا،ہر سطح پر، ہر شعبہ ہائے زندگی میں اور ہر میدان میں نہ صرف بہتر رویہ ہے بلکہ عقل و شعور اور علم میں ترقی پانے کا بھی ذریعہ ہے۔
Load Next Story