آدابِ معاہدہ  سیرتِ طیّبہ ﷺ کی روشنی میں

اﷲ ہمیں زندگی کے تمام معاہدات میں رسول اکرم ﷺ کے سکھائے ہوئے آداب کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے


a ﷲ کی ساری مخلوق اس کی دی ہوئی فطرت اور جبلّی عادتوں کے مطابق اپنا وقت بسر کرتی ہے

''اے ایمان والو! تم اپنے معاہدوں کو پورا کیا کرو۔'' اس ارشاد باری میں ہر طرح کے معاہدے شامل ہیں۔ اس سے مراد وہ معاہدہ بھی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان و اطاعت کے سلسلے میں کیا ہے اور وہ معاہدات بھی شامل ہیں جو دو فرد کریں۔ جیسے شادی بیاہ اور خرید و فروخت کے معاہدے اور ان میں وہ معاہدے بھی شامل ہیں جو دو قومیں کرتی ہیں۔ لہٰذا بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی بھی لازم ہوگی۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: خبردار! جس شخص نے ظلم کیا اس پر جس سے معاہدہ ہوچکا یا اس کے حق کو نقصان پہنچایا یا اس کو تکلیف دی اس کی طاقت سے زیادہ یا اس کی رضامندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی تو میں اس سے قیامت کے دن جھگڑوں گا۔'' (ابوداؤد)

زمانۂ اسلام سے پہلے بھی لوگ معاہدے کرتے تھے لیکن عموماً معاہدات کی پابندی محکومی کی علامت اور معاہدات کو توڑنا جرأت اور برتری کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن رسول اکرمؐ نے جو معاہدات فرمائے وہ تاریخ میں مثالی معاہدے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان معاہدات میں ایک صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے کی شرائط میں سے ہر شرط خوب توجّہ کی طالب ہے۔

ایک شرط یہ تھی کہ دس سال تک لڑائی نہیں ہوگی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قریش کا جو شخص بغیر سرپرست کی اجازت کے مدینہ جائے گا وہ واپس کیا جائے گا، اگرچہ وہ مسلمان ہو اور جو شخص مسلمانوں میں سے مکہ آئے گا اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ کہ اس سال محمدؐ اور ان کے ساتھی بغیر حج و عمرہ کیے مدینہ واپس جائیں اور آئندہ سال صرف تین دن مکہ میں رہ کر عمرہ کرکے واپس ہو جائیں۔ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار نہ ہو اور تلواریں بھی نیام میں ہوں۔ اور یہ بھی شرط تھی کہ قبائل عرب کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کرلیں۔

یہ شرائط بہ ظاہر تو ہر مسلمان کی کم زوری پر دلالت کرتی ہیں، بل کہ بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں کچھ بوجھ بھی محسوس ہوا، لیکن اس معاہدے کے بعد پیش آنے والے مفید نتائج نے ثابت کر دیا کہ یہ معاہدہ تاریخ اسلام کا ایک ایسا اہم واقعہ تھا جو مسلمانوں کی آئندہ کام یابیوں کا پیش خیمہ بنا۔ جب رسول اکرمؐ صلح حدیبیہ سے واپس ہوئے تو راستے میں سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں اس صلح کو فتح مبین کہا گیا۔

اس معاہدے سے بہ طور اسوۂ حسنہ یہ بات معلوم ہوئی کہ مسلمانوں کے سربراہ اگر کافروں سے صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا نفع سمجھیں تو صلح کرلینا جائز ہے اور اگر صلح کا معاہدہ کرنے میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ نہ ہو تو پھر صلح جائز نہیں۔ کیوں کہ یہ فریضہ جہاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدے سے ایک اصول یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں سے معاہدے کے وقت بلامعاوضہ اور معاوضہ دے کر اور معاوضہ لے کر تینوں طرح معاہدہ جائز ہے۔ معاہدات کے بارے میں اسوۂ حسنہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ معاہدات کو لکھوا لینا چاہیے۔

معاہدات کے بار ے میں اسوۂ حسنہ سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف کسی بات پر معاہدہ نہ کیا جائے۔ چناں چہ جب اہل نجران نے معاہدہ کے وقت خلاف اسلام شرائط پیش کیں تو رسول اﷲ ﷺ نے انہیں ماننے سے انکار فرمایا اور معاہدہ نجران میں یہ لکھوایا کہ یہ ان پر پابندی ہوگی کہ یہ سُود نہیں لیں گے اور جو سُود لے گا وہ معاہدے سے خارج ہو جائے گا۔ معاہدات کے بارے میں یہ ادب بھی اسوۂ حسنہ سے معلوم ہوا کہ عہد نامہ کی دو نقول ہونا چاہییں تاکہ ہر فریق کے پاس ایک نقل محفوظ رہے۔ جیسا کہ صلح نامہ حدیبیہ کی ایک نقل رسول اکرمؐ کے پاس اور دوسری سہیل بن عمرو کے پاس رہی۔ معاہدات کے لیے ایک بات یہ بھی رسول اﷲ ﷺ نے سکھائی کہ جب معاہدہ ہو جائے تو دونوں فریقوں کے ذمے دار افراد ان دستاویزات پر دست خط کریں۔

رسول اکرم ﷺ نے جتنے بھی معاہدے فرمائے ان میں یہ بات بہت نمایاں ہے کہ آپؐ نے معاہدات میں انسانی حقوق کا خُوب خیال رکھا۔ ہر علاقے کے شہریوں کو بنیادی اور مذہبی حقوق بھی دیے۔ چناں چہ معاہدات میں عقیدوں کی آزادی رکھی جاتی ہے۔ کسی شہری کو اپنا مذہب چھوڑنے اور اسلام لانے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ عبادت کی آزادی دی گئی اور ثابت کیا کہ اسلام کے زیر سایہ رہنے والے غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہتی ہیں۔ چناں چہ معاہدہ نجران میں یہ بات شامل تھی کہ اہل نجران کی جان و مال، مذہب، عبادت گاہیں اور ان کے راہب محفوظ رہیں گے۔

رسول اکرم ﷺ نے جن لوگوں سے معاہدہ فرمایا ان کے معاشی اور تجارتی حقوق کا بھی خیال رکھا۔ اور پھر معاہدات کی پابندی اور پاسداری کرنے کے بعد رسول اکرمؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے ان معاہدات کی پابندی اور پاس داری کا ایک اعلیٰ معیار امّت کے سامنے رکھ دیا۔ اس لیے کہ وہ ذات امین اور صادق ہے جس کے معاہدات بھی دین اسلام کی دعوت کا ذریعہ ہیں۔

اﷲ رب العزت ہمیں زندگی کے تمام معاہدات میں رسول اکرم ﷺ کے سکھائے ہوئے آداب کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |