ترکی اور روس کا شام میں جنگ بندی پر اتفاق
ادلب میں فوجی کارروائیاں بند، M-4 میں محفوظ راہداری کے قیام اور مشترکہ فوجی گشت پر اتفاق
ترک صدر طیب اردوان اور روسی صدر پوتن کے درمیان 6 گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں شام کے علاقے ادلب میں سیز فائر پر اتفاق کرلیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر طیب اردوان نے شام کی کشیدہ صورت حال پر بات چیت کرنے کے لیے تیسری بار صدر پوتن سے روسی دارالحکومت ماسکو میں ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے مسلسل 6 گھنٹوں تک مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بالعموم اور ادلب سے متعلق بالخصوص تبادلہ خیال کیا اور سیز فائر سمیت کئی اہم نکات پر اتفاق کیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترک صدر نے شام کے علاقے ادلب میں جنگ بندی کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ ادلب میں قیام پذیر 4 ملین افراد دہشت گرد نہیں کہ جن پر بمباری کی کھلی اجازت دے دی جائے۔ معصوم شہریوں اور ان کی املاک پر حملوں کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر پڑھیں : شام کے شہرادلب میں روس کی بمباری سے 15 افراد جاں بحق
ترک صدر نے مزید کہا کہ جنگ زدہ علاقے سے ڈیڑھ ملین پناہ گزین اپنے گھر بار اور کاروبار کو چھوڑ کر ترکی کی سرحدوں کے قریب جمع ہوچکے ہیں، ترکی میں پہلے ہی پناہ گزین لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے گھروں کو جانے کیلیے بے تاب ہیں لیکن حالات اب بھی سازگار نہیں۔
صدر اردوان نے کہا کہ ایسی صورت حال میں مزید ڈیڑھ ملین پناہ گزینوں کے معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ شامی صدر بشار الاسد نے 2018 کے 'سوچی معاہدے' کی خلاف ورزی کی ہے اور ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ پڑھیں : ترکی نے شام کا ایک اور طیارہ مار گرایا
اس موقع پر میزبان صدر پوتن نے ترکی کے صدر کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس اہم اور حساس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جنگ بندی کے ذریعے شہریوں کی اذیت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تباہ حال املاک اور اپنے پیاروں کو کھو دینے والے غم سے نڈھال شہریوں کی امداد اور انہیں پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک دستاویز تیار کرلی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : شامی حکومت کے فضائی حملے میں 29 ترک فوجی جاں بحق
بعد ازاں ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس اہم ملاقات میں طے پانے والے نکات میڈیا کو پڑھ کر سنائے جس کے مطابق ادلب میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے ساتھ ہی تمام فوجی سرگرمیاں ختم کردی جائیں گی، اہم اور مرکزی شاہراہ M-4 کے شمال اور جنوب میں 6 کلومیٹر کی گہرائی میں ایک محفوظ راہداری قائم کی جائے گی جب کہ ترک اور روس فوجیں اس علاقے میں 15 مارچ سے مشترکہ فوجی گشت کا آغاز کریں گے۔
یہ پڑھیں : شام میں ترکی اور روس جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے، اقوام متحدہ
واضح رہے کہ ادلب میں داعش کے آخری ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے دوران اس علاقے میں کردوں کیخلاف آپریشن میں مصروف ترک فوجی بھی روسی فضائیہ کے حملوں کی زد میں آگئے تھے اور دو ماہ کے دوران 50 سے زائد ترک اہلکار روسی و شامی کے فوج حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں جس کے جواب میں ترکی نے بھی شامی فوج کے تین طیارے مار گرانے اور درجنوں شامی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر طیب اردوان نے شام کی کشیدہ صورت حال پر بات چیت کرنے کے لیے تیسری بار صدر پوتن سے روسی دارالحکومت ماسکو میں ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے مسلسل 6 گھنٹوں تک مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بالعموم اور ادلب سے متعلق بالخصوص تبادلہ خیال کیا اور سیز فائر سمیت کئی اہم نکات پر اتفاق کیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترک صدر نے شام کے علاقے ادلب میں جنگ بندی کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ ادلب میں قیام پذیر 4 ملین افراد دہشت گرد نہیں کہ جن پر بمباری کی کھلی اجازت دے دی جائے۔ معصوم شہریوں اور ان کی املاک پر حملوں کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر پڑھیں : شام کے شہرادلب میں روس کی بمباری سے 15 افراد جاں بحق
ترک صدر نے مزید کہا کہ جنگ زدہ علاقے سے ڈیڑھ ملین پناہ گزین اپنے گھر بار اور کاروبار کو چھوڑ کر ترکی کی سرحدوں کے قریب جمع ہوچکے ہیں، ترکی میں پہلے ہی پناہ گزین لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے گھروں کو جانے کیلیے بے تاب ہیں لیکن حالات اب بھی سازگار نہیں۔
صدر اردوان نے کہا کہ ایسی صورت حال میں مزید ڈیڑھ ملین پناہ گزینوں کے معاملے پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ شامی صدر بشار الاسد نے 2018 کے 'سوچی معاہدے' کی خلاف ورزی کی ہے اور ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ پڑھیں : ترکی نے شام کا ایک اور طیارہ مار گرایا
اس موقع پر میزبان صدر پوتن نے ترکی کے صدر کی آمد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس اہم اور حساس معاملے کو حل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جنگ بندی کے ذریعے شہریوں کی اذیت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تباہ حال املاک اور اپنے پیاروں کو کھو دینے والے غم سے نڈھال شہریوں کی امداد اور انہیں پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک دستاویز تیار کرلی ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں : شامی حکومت کے فضائی حملے میں 29 ترک فوجی جاں بحق
بعد ازاں ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس اہم ملاقات میں طے پانے والے نکات میڈیا کو پڑھ کر سنائے جس کے مطابق ادلب میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے ساتھ ہی تمام فوجی سرگرمیاں ختم کردی جائیں گی، اہم اور مرکزی شاہراہ M-4 کے شمال اور جنوب میں 6 کلومیٹر کی گہرائی میں ایک محفوظ راہداری قائم کی جائے گی جب کہ ترک اور روس فوجیں اس علاقے میں 15 مارچ سے مشترکہ فوجی گشت کا آغاز کریں گے۔
یہ پڑھیں : شام میں ترکی اور روس جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے، اقوام متحدہ
واضح رہے کہ ادلب میں داعش کے آخری ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے دوران اس علاقے میں کردوں کیخلاف آپریشن میں مصروف ترک فوجی بھی روسی فضائیہ کے حملوں کی زد میں آگئے تھے اور دو ماہ کے دوران 50 سے زائد ترک اہلکار روسی و شامی کے فوج حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں جس کے جواب میں ترکی نے بھی شامی فوج کے تین طیارے مار گرانے اور درجنوں شامی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔